Friday, March 22, 2013

احتیاط الظہر


احتیاط الظہر
سوال ۲؂:۔ از مولوی سیف الرحمن ۔ ضلع جہلم ۔ مغربی پاکستان ۔
آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان و ہندوستان میں حضرات احناف اپنے فقہاء کے مسلک کے مطابق شہروں اور چھوٹے بڑے قصبات میں نماز جمعہ کی رسم تو ادا کرتے چلے آرہے ہیں اور ساتھ ہی نمز کے بعد احتیاط الظہر بھی ادا کرنی ضروری سمجھتے ہیں ۔ اس خیال پر کہ امام کی عدم موجودگی جمعہ کی ضروری شرط ’’مسلمان امام کا ہونا ‘‘ ضروری ہے چونکہ مفقود ہے اس لئے احتیاطً نمازِ ظہر ادا کرلینی چاہئے ۔ کیا پاکستان میں جو حکومت مسلمانوں نے قائم کی ہے اس میں بھی احتیاط الظہر کی ادائیگی ضروری ہے ؟ جبکہ مسلمانوں کی حکومت میں اسلامی قونین کا اجرا نہیں ۔نیز یہ بھی واضح فرمائیں کہ وجود امام کی شرط کا قول حضرت امام اعظم ؒ کا ہے یا بعد کے فقہا ء کا اضافہہے ۔ اس مسئلہ پر جو بھی فقہی اور تاریخی مواد آپ کے مطالعہ میں آئے مدلل تحریر فرمائیں ۔ بعض جگہ تو نماز جمعہ کے بعد احتیاط الظہر باقاعدہ اقامت کے بعد با جماعت ادا کی جاتی ہے ۔ اس کا کیا حکم ہے ؟ ہر جگہ احتیاط الظہر کے تارک کو وہابی کے لقب سے ملقب کیا جاتاہے ۔کیا فی الحقیقت یہ ایسا ہی مسئلہ ہے جو کہ سنی اور وہابی کی علامت ہے ؟

الجواب:۔
یہ کہنا قطعاً خلافِ واقعہ ہے کہ حضرات احناف ادائے گیِ جمعہ کے بعد احتیاط الظہر بھی ادا کرنی ضروری سمجھتے ہیں ۔ آپ کو غلط فہمی شایس اس لئے ہوئی کہ جن لوگوں کو آپ نے احتیاط الظہر کا پابند دیکھا وہ خود کو حنفی کہتے ہیں اس لئے آپ نے قیاس کیا کہ واقعی تمام احناف کے نزدیک احتیاط الظہر ضروری ہے ، لیکن خوب سمجھ لیجئے کہ احتیاط الظہر نہ فقہ حنفی میں کوئی حقیقت رکھتی ہے نہ فقہ شافعی میں ۔ بلکہ یہ ایک بدعت ہے جسے لوگوں نے خواہ مخواہ گھڑ لیا ہے اور حقیقت کے ساتھ اس کو جوڑ لگا کر امام اعظم ؒ کی فقہکو بدنام کرتے ہیں ۔ آپ جے جو بتایا کہ احتیاط الظہرکے تارک کو وہابی کا لقب دیا جاتا ہے تو اس سے بھی ثابت ہوا کہ یہ انھی کا ریگروں کی حرکت ہے جو قبوری شریعت کی تمام بدعتوں میں گلے گلے اترے ہوئے ہیں مگر خود کو اہل سنت اور حنفی کہتے کہتے ان کے منہ خشک ہوئے جاتے ہیں ۔ یہ وہی لوگ ہیں کہ اصحاب علم و قعل کی گرفت سے بچنے کے لئے انہوں نے ’’وہابی ‘‘ کی پھبتی گھڑلی ہے ۔ ان کی مثال اس معاملہ میں روسیوں جیسی ہے کہ جہاں وہ کسی کے خلاف ہوئے اسے رجعت پسند اور بوژوا اور سامراج کا یجنٹ قرار دیا۔خوب سمجھ لیجئے جو شخص مسائل پر سنجیدہ علمی و عقلی گفتگو کر نے کے بجائے اپنے سے اختلاف رکھنے والوں کو ’’وہابی ‘‘ کہہ کر جان بچا بھاگتا ہے اس کے دل و دماغ کو قبوری شریعت کا مالی خولیا ہوچکا ہے اور علمی متانت کی اس سے کوئی توقع نہیں کی جاسکتی ۔
آپ پاکستان کی بات کرتے ہیں جہاں بفضلہ تعالیٰ مسلمانوں کی حکومت ہے ۔ ہم تو ہندوستان کے بارے میں کہتے ہیں کہ آج بھی جب کہ یہاں ہندو اکثریت مقتدر ہے اور گذشتہ کل بھی جب یہاں انگریز کا راج تھا احتیاط الظہر کی کوئی حقیقت نہیں تھی نہ آج ہے ۔ 
جن حنفی علما نے اولاً اسے ایجاد کیا ان کی نیت پر ہمیں کوئی شبہ نہیں ، لیکن یہ بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ ان کی یہ ایجاد غیر ضروری احتیاط پر مبنی تھی ۔ اور حنفی زاویۂ فکر جس شے کا نام ہے اس کے دائرے میں اس کے لئے کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی ۔
آخر یہ وہابیت کی زڑلگانے والے ہمیں علمی سطح پر سمجھائیں تو کہ احتیاط الظہر کیا چیز ہے ۔ کیوں ایک ایسی نماز ایجا کی گئی ہے جس کے لئے حدیث آچار صحابہ ،اقوالائمہ اور فرموداتِ مجتہدین میں کوئی حکم ، کوئی ترغیب کوئی نظی نہیں ملتی ۔
اگر یہ کہتے ہیں کہ مذہب حنفیہ میں امام یا اس کا نائب شروطِ جمعہ میں سے ہے اور یہ امام یا نائب ان کے نزدیک مسلمان ہونا بھی ضروری ہے تو پھر کسلئے یہ ہندوستان میں نمازِ جمعہ ادا کرتے رہے ہیں ۔ دیانت کی بات تو یہ تھی کہ جمعہ کا قصہ ہی ختم کرتے اور بقیہ چھ دنوں کی طرح جمعہ کے دن بھی ظہر ہی کی جماعتیں ہواکرتیں ۔یہ کیا بات ہوئی کہ حنفی ہونے کے باوجود وہ جمعہ بھی قائم کرتے رہے اور عبادت سے روحِ یقین نکالنے کے لئے احتیاط الظہر کا بھی قضیہ کھڑا کیا۔
کھلی بات ہے کہ انہوں نے قیام جمعہ میں حنفی مسلک کو چھوڑا اور ان ائمہ کا مسلک اختیار کیا جو امام کو شروطِ جمعہ میں داخل نہیں کرتے ۔اگر یہ وطیرہ ان کے نزدیک درست تھا تو پھر شک میں نہیں پڑنا چاہئے تھا کہ جمعہ ہوا یا نہیں ۔ غالباً وہ شک میں اسلئے پڑے کہ جن دوسرے ائمہ کا مسلک انہوں نے اختیار کیا تھا ان کے نزدیک شہر میں متعدد جگہ جمعہ درست نہیں ہے ۔ جس نے پہلے جمعہ ادا کرلیا اس کا ادا ہوا باقیوں کا ادا نہ ہوا۔اور ان پر ظہر کی نماز باقی رہی ۔اب شہروں میں یہ ٹھیک ٹھیک پتہ چلانا تو دشوار ہے کہ کس کا جمعہ پہلے ہوا ‘ لہذا انہوں نے احتیاط الظہر کی راہ نکالی کہ اگر جمعہ نہ ہوا ہو تو ظہر ہی ادا ہوجا ئے ۔ یہ بظاہر مستحسن فعل تھا ، لیکن اس میں وہی قباحت موجود تھی جو ظاہر ہوکر رہی یعنی احتیاط الظہر ایک نمازِ مستقل بن گئی اور ہر ہفتے ایک دن ایسا آنے لگا کہ جس میں پانچ کی بجائے چھ فرض نمازیں پڑھی جانیلگیں ۔ یہ دین میں اضافہ نہیں تو اضافہ کس چیز کا نام ہے۔
اب سن لیجئے کہ جن علمأ کے ذریعہ یہ معلوم ہوا کہ امام یا اس کے نائب کا وجود جمعہ کے لئے شرط ہے ۔ انھیں علمأ سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ امام یا اس کا نائب نہ ہوتو مسلمان اپنا امامِ جمعہ مقرر کر کے نماز پڑھ لیں ۔ اب بتایئے ، کیا شک رہا جمعہ کی ادائیگی میں ۔ کیا ہند و پاک سبھی سجہ مسلمان اپنا ایک امامِ جمعہ مقرر کر کے جمعہ ادا نہیں کرتے ؟ اگر خواہ مخواہ یہ کہا جاے کہ مذکورہ علمأ کا ہم یہ دوسرا قول نہیں مانتے تو پھر ان کا یہ پہلا ہی قول کیوں مان لیاجائے کہ جمعہ کے لئے ’’امام‘‘ (خلیفہ) شرط ہے ۔ یہ قول بھی رد کردیجئے ۔ جمعہ پھر بھی غیر مشکوک طور پر ادا ہوا ۔
صاف سی بات ہے کہ اگر مدعیانِ حنفیت کے نزدیک ’’امام‘‘ کا وجود واقعی شرطِ جمعہ ہے اور یہ امام م�ؤمن بھی ہونا چاہئے ۔ تو پھر ہندوستان جیسے جگہوں میں انگریز یا اہل ہنود کے غلبۂ و اقتدار کی صورت میں جمعہ پڑھنا ہی نہ چاہئے ، کیوں کہ جب شرط موجود نہیں تو یہ دور کعتیں محض نفل ہوں گی ۔ہر ساتویں روز نفلوں کو جماعت کثیرہ کے ساتھ ادا کرنا کس امام نے بتایا ہے ؟ کیوں نہ ظہر ہی کی جماعت کی جائے اور جمعہ کو خلیف�ۂ مؤمن کے ظہور تک تہہ کر کے رکھ دیا جائے۔
ہم سے پوچھتے تو کتب حنفیہ میں جس خلیفہ و امام کو شرط جمعہ قرار دیا جاتا ہے اس کا مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے ۔ مسلک حنفی کی ترجمانی کرنے ولای جامع الرموز میں ہے :۔ ’’لفظ خلیفہ وامام کے اطلاق سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام شرط نہیں ہے ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ خلیفہ و امام کی شرط اس صورت میں ہے جب کہ اس سے اجازت لینا ممکن ہو رورنہ سلطان شرط نہیں ہے حتیٰ کہ اگر سب کسی شخص کے بارے میں متفق ہوجائیں اوراس کے پیچھے نماز پڑھ لیں تو نماز ہوجائے گی ۔جیسا کہ جلالی میں ہے ‘‘
رؔ دالمحتار میں مبسوط سے نقل کیاگیا ہے ۔’’اگر والی کافر ہوں تو بھی مسلمانوں کو نماز جمعہ جائز ہے ۔‘‘
اگر مسلمان خلیفہو امام ہی جوازِ جمعہ کی شر ط ہوتو اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہوگا کہ فرضیت جمعہ جغرافی اعتبار سے انتہائی محدود ہوجائے حالاں کہ جمعہ کی فرجیت دوسری ہی فرض نمازوں کی طرح نصوصِ صریح سے ثابت ہے اور کسی آیت یا حدیث سے واضھ نہیں ہوتا کہ اس کا انعقاد بس مسلمان ہی کی ممالک میں ہونا چاہئے ۔
یہ گفتگو تو ہندوستان جیسے ملک کے تعلق سے تھی ۔ لیکن پاکستان میں بھی جو لوگ ادائے گیِ جمعہ میں متردد ہیں اور احتیاط الظہر با جماعت تک کی نوبت پہنچائے ہوئے ہیں انھیں انہ صرف یہ کہ فہم مسائل سے عاری سمجھنا چاہئے بلکہ وہ اس لائق ہیں کہ وہاں کی مسلمان حکومت اس سے باز پرس کرے ۔ پاکستان میں اول تو احکام کفر رائج نہیں ہیں ۔۱؂ (۱؂)ابھی ۔۔۔۔۔کمیشن کی جس پورٹ کو پاکستان میں آئینی شکل دی گئی ہے اسے ہم شریعت میں در انداز ی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)مسلمانوں کو اپنے دینی امور میں خاصی آزادی ہے اور حکومت اسلام کی برتری اور حقانیت کی کھلم کھلا قائل ہے وہاں کے والی و حکام بلاریب مسلمان ہیں ۔ ان کی موجودگی میں ادائیگیِ جمعہ شمہ برابر بھی مشکوک نہیں جو احتیاط الظہر کی نچ لگائی جائے ‘‘ لیکن اگر کچھ نادان یہ گمان کرے ہیں کہ وہاں بعض خلافِ اسلام قوانین موجو دہیں اور نئے انداز کا جمہوری نظام رائج ہے اس لئے وہاں کے والی و حکام کا وجود ادائے گی جمعہ کے لئے کافی نہیں تو اسے صاف صاف بتانا چاہئے کہ جن احناف نے والی و امام کو شروطِ جمعہ میں داخل کیا ہے انہوں نے یہ قید کہاں لگائی ہے کہ یہ والی و امام اسی وقت شرطں جمعہ کو پورا کرسکتے ہین جب کہ انہوں نے خلافتا8 راشدہ کا نظام قائم اور خالص قرآنی دستور نانذ کیا ہو۔
کیا مسخرہ پن ہے ۔ مملکت مسلمان ۔ عمال و خھام مسلمان ، مگر بے یقینی اور تذبذب کے مارے لوگ احتیاط الظہر کی بدعت پہ جمے ہوئے ہیں وہاں کے حکام کو ان متشککین سے پوچھنا چاہئے کہ کیا تم ہمیں کافر سمجھتے ہو مسلمان نہیں مانتے ؟ اگر مسلمان مانتے ہو تو پھر کیوں جمعہ کی ادائے گی میں متردد ہو اور کس بنیاد پر احتیاط الظہر کا قضیہ کھڑا کرتے ہو۔
خوب سمجھ لیجئے اعمال کی روح یقین و طمانیت ہے ۔ شک بیچ میں آگیا تو خشوع و خضوع غارت ہوا ۔ اگر مقصود کج بحثی نہیں بلکہ اللہ کی عبادت ہے تو ایک بار پوری طرھ سوچ سمجھ لیجئے کہ جہاں آپ ہیں وہاں نمازِ جمدہ ہوسکتی ہے یا نہیں ۔ اگر فیصلہ یہ ہو کہ نہین ہوسکتی تو جمعہ کا دکھا وا ختم کردیجئے اور محض ظہر پڑھا کیجئے ۔ اور اگر فیصلہ اس کے خلاف ہوتا پھر پورے وثوق و ایمان کے ساتھ جمعہ ادا کیجئے۔ احتیاط الظہر کا شوشہ مت چھوڑیئے ۔ان لوگوں کو نمازِ جمعہ کے لئے کیا رغبت اور شوق اور ذوق ہوسکتا ہے جنھیں سر ے سے اسی میں تردد ہوکہ یہ فریضہ ادا بھی ہوتا ہے یا نہیں ۔
ہمارے علم کی حد تک جمعہ کے لئے امام یا نائب کی شرط امام اعظم ؒ سے منقول نہیں بعد کے علمائے احناف نے ظاہر فرمائی ہے ۔ لیکن س کی بنیادی وجہ اختلاف و نزاع کا دروازہ بند کرنا تھا ۔ اب جب کہ ہم مسلماں بلا لڑے جھگڑے کسی ایک مسلمان کو امامِ جمعہ بنا کر نماز پڑھ لیتے ہیں تووہ وجہ ہی ختم ہوئیجس کیلئے شرط کا اضافہ کیا گیا تھا۔
’’وہابی الی بات سے ظاہر ہی ہوگیا کہ تذکرہ ان کا ریگروں کا ہے جو اپنی ہر بدعت و گمرا ہی کا جواز و ہابیت کی چلتی ہوئی پھبتی کے ذریعہنکالتے ہیں ۔ یہ لوگ حنفیتو برائے نام ہیں دراصلاپنے تو ہمات کے غلام ہیں ۔ ورنہ اسی احتیاط الظہر کے مسئلہ پر وہ احناف کی متد اول کتابیں اٹھا کر دیکھ لیتے تو حقیقت واضح ہوجاتی ۔ ان کتابوں میں ہے کہ نماز احتیاطی ہر گز درست نہیں کسی طرح جائز نہیں ۔ بحرالرائقؔ میں اس سے روکا گیا ہے ۔ تاتار خانیہ میں کہاگیا ہے کہ احتیاطی نماز تو نہ عقلا درست ہے نہ نقلاً نہ کشفاًنہ الہاماً ۔اور یہ بھی بعض علمائے احناف نے کہا ہے کہ ادائے گی جمعہ میں تردد (جس کے نتیجے میں احتیاط الظہر کا قصہہ کھڑا ہوں وسوس�ۂ شیطانی ہے ۔ بحرؔ الرائق میں کہا گیا ہے کہ ’’نماز جمعہ کے بعد احتیاط الظہر کا فتویٰ دینا ہر گز درست نہیں ہے کیوں کہ اس سے عوام کے دل میں جمعہ کے لئے بے رغبتی پید اہوگی اور انھیں خیال ہگا کہ جمعہ فرج نہیں ہے اور ظہر کافی ہے ۔توجسے جمعہ کی فرضیت میں شک ہو اس کے کفر مین کیا شک ہے ۔‘‘
اسی نوع کی تنبیہات فتح القدیر اور عرفانی شرح سلطانی میں بھی ملتی ہیں ۔ اسکندریہ اور فضولِ عمادی میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ چاہے تمام شرائط معدوم ہوں تب بھیجمعہ کی فرضیت ساقط نہیں ہوتی ۔
جب یہ حال فرضیت جمعہ کا ہو تو ان شک پسندوں کے بارے میں جو اچھے خاصے اجتماع کے ساتھ امام کے پیچھے نماز جمعہ ادا کر کے بھی ادائے گی جمعہ میں مشکوک ہیں اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہیکہ انھیں ریب و بے یقینی کی بیماری ہوگئی ہے ۔
جن علمائیاحناف نے احتیاط الطہر کو ایک مستحسن فعل سمجھا جماعت سے پڑھنا تو ان کا بھی مسلک نہیں ۔ وہ فرادی فرادیٰ پڑھنے کا اذن دیتے ہیں ، لیکن بدعت پسند دماغ نچلا بیٹھنے والا کہاں اس نے ایک قدم بڑھ کر جماعت بھی شروع کردی اور اب جو اس نا رو ا حرکت پر ٹوکے وہ ’’وہابی ‘‘!۔۔۔۔۔۔۔۔۔نعوذباللہ من شرور انفسنا۔ 

No comments:

Post a Comment