Showing posts with label حضور ؐ کا نکاح :۔. Show all posts
Showing posts with label حضور ؐ کا نکاح :۔. Show all posts

Friday, March 22, 2013

حضور ؐ کا نکاح :۔


حضور ؐ کا نکاح :۔
سوال ۹؂ 
حضور نبی ﷺ کا نکاح کس نے پڑھا تھا۔ ابوطالبؓ نے پڑھا تو کیا ابو طالبؓ ایمان لائے تھے ؟ اگر نہیں تو کیا حضورؐ نے نکاح کی تجدید فرمائی تھی یا اس کی ضرورت نہ تھی ؟ نیز یہ بھی ارشاد فرماویں کہ حضور ؐ کے نکاح میں خطبہ وغیرہ کیا پڑھا گیا تھا؟
الجواب:۔بے شک سر کارِ دو عالم ﷺ کا پہلا نکاح حضرت خدیجہؓ بنت خویلد سے رؤ سائے مضر اور نبی ہاشم کی موجود گی میں ابو طالبؓ ہی کے زیر نگرانی ہوا تھا اور بڑانفیس و بلیغ خطبہ انہوں نے ارشاد کیا تھا جس کا ترجمہ یہ ہے:۔
’’تمام تعریف اس خدا ہی کے لئے ہے جس نے ہمیں ابراہیمؑ کی اولاد اور اسماعیل ؑ کی ذریات میں پیدا کیا۔ ہمیں معدو مضر کے بے میل او طاہر جوہر سے نکالا ۔ اپنے گھر کا رکھوالا اور اپنے حرم کا پیشوابنایا ایسا عمدہ گھر ہمیں عنایت فرمایا کہ لوگ ادھر اُدھرسے اس کی زیارت کرنے آتے ہیں ۔ ایسا حرم عطا کیا کہ جو بھی وہاں آجائے مامون ہوجائے اور ہمیں عامۃ الناس کی سرداری دی ۔ اما بعدیہ میرا برادر زندہ محمد ﷺبن عبد اللہ ہے یہ ایک جوان ہے کہ قریش کے کسی بھی شخص اے اس کا مقابلہ کیجئے یہ فائق رہے گا۔ ہں روپیہ پیسہ اسکے پاس کم ہے مگر روپیہ پیسہ تو ڈھلتی چاؤں اور متبدل ہونے والی شئے ہے ۔۔۔ محمد وہ شخص ہے جس کے بارے میں تم سب اچھی طرح جانتیہو کہ اس کی مجھ سے کیا رشتہ داری ہے وہ خدیجہؓ بنت خویلد سے رشت�ۂ ازدواج چاہتا ہے اور میرے مال میں سے بیس اونٹ بطور مہر مقرر کرتا ہے اور قسم ہے خدا کی اس کا مستقبل عظیم ۔۔۔۔لیل ہے۔‘‘ 
اس کے بعد ورقہ بن نوفل نے بھی جو ایک بڑے عالم ہونے کے علاوہ حضرت خدیجہ کے چچا زاد بھائی تھے ایک خطبہ دیا ۔ جس کا ترجمہ یہ ہے:۔
’’تمام تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جس نے ہمیں ایسا ہی بنایا جیسا اے ابو طالب آپ نے واضح کیا ۔ اور ہمیں وہ تمام امتیازات عطا کئے جنھیں آپ نے گنوایا پس ہم لوگ تمام عرب کے سربراہ اور سردار ہیں اور آپ لوگ جملہ فضائل کے حامل ہیں ۔ کوئیگروہ آپ کے فضائلکامنکر نہیں اور کوئی شخص آپکے فخر و شرف کو تسلیم کئے بغیر نہیں رہسکتا ۔ بے شک ہم لوگوں نے مکمل رضاو رغبت کے ساتھ آپ میں ملنا اور شام ہونا پسند کیا ۔ پس اے قریش! گواہ رہنا کہ خدیجہ ؓ بنت خویلد کو میں نے محمد ﷺ بن عبداللہ کے نکاح میں دے دیا چار سو مثقال کے عوض۔‘‘
یہ دونوں خطبے آپ کے سامنے ہیں ۔ کیا یہ منہ سے نہیں بور رہے کہ ہم کس کار گہ فکر میں ڈھلکے نکلے ہیں ۔ یہ بحث تو ایک طرف رکھئے کہ کسی مسلمان جوڑے کے ایجاب و قبول کی وکالت اگرکوئی غیر مسلم کردے تو نکاح ہوتا ہے یا نہیں ۔ یہاں اس کا محل ہی نہیں ۔ اس وقت تک نہ حضور ؐ رسول تھے نہ نزولِ دین کا آغاز ہوا تھا ۔ ابو طالبؓ اورورقہ بن نوفل کیبارے میں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ یہ مسلم ہیں یا غیر مسلم ۔ مومن ہیں یا کافر ۔ انہوں نے خطبوں میں جو کچھ کہا وہ بعد میں نازلہونے والے دین کے معیار سے بھی فر و شرک کی چھوت سے پاک اور واہی عقائد کی نجاست سے غیر ملوچ ہے ۔ ان میں وہی بہترین اسلامی ذہن بول رہا ہے جس سے زیادہ کا تصور قبل ازنزولِ قرآن نہین ہوسکتا تھا پھر کس لئے رسولِ خدا کے اس پہلے نکاح کی صحت و عدم صحت کو ابو طالب کیایمان لانے نہ لانے کی بحث پر موقوف رکھا جائے ۔ جیسا کہ کچھ دن ہوئے تفھیم البخاری کے ذیل میں ہم عرض کر چکے ہیں ۔ ابو طالب آئینی اعتبار سے مسلمان نہیں مانے جاتے ، لیکن اپنے جملہ اوصاف حمیدہ کی روشنی میں وہ ہمارے دلی ادب و احترام کے مستحق ہیں اور ان کی ہستی بڑی محبوب معلوم ہوتی ہے ۔ جب یہ یادآتا ہے ۔ کہ رسولِ خداؐ کی پشت پناہی کے سلسلہ میں ان کا کردار کیا رہا ہے ہمارے خیال میں ابو طالب کا کیا ہوا نکاح بالکل ماکل و ناقد تھا ۔ وہ بعد میں اسلام نہیں لائیتب بھی اس کی تجدید ضروری نہیں تھی ۔ ثبوت اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ حضور ؐ نے تجدیدنہیں فرمائی ۔
ایک اور نظیرپیش نظر رکھئے ۔ ام المؤمنین حضرت حبیبہؓ سے حضور ؐ نے غائبانہ نکاح کیا ہے اور نکاح کرنے والا تھا شاہ نجاشی ؔ ۔ خطبہ بھی اسی نے پڑھا تھا۔ نجاشی کے لئے کچھ بھی کہاجائے ‘ لیکن یہ نہیں کہاجاسکتا کہ وہ اسلام لے آیاتھا۔ اس پہلو سے اس کی اور ابو طالب کی پوزیشن میں کوئی فرق نہیں ۔سیرت نگاروں کا سوادِاعظم اس پر متفق ہے کہ یہ نکاح حبشہ ہی میں ہوا ہے۔ لیکن بعض محدثین مثلاً زہریؔ اورقتادہؔ وغیرہ کی اس روایت کو اگر لائقِ لحاظ مان لیا جائے کہ حضور ؐ کا عقدحضرت ام حبیبہؓ سے حضرت عثما نؓ نے مدینے میں کیا تو اسے تجدید نکاں پر مخمول کرسکتے ہیں ۔ لیکن یہ ’’تجدید‘‘ اس لئے نہیں سمجھی جائیگی کہ پہلا نکاح کرنے والا’’نجاشی‘‘ مسلمان نہیں تھا ، بلکہ اس لئے سمجھی جائے گی کہ نکاح غائبانہ ہوا تھا اور حضور ؐ نے قوم کی توثیق وآگاہی کی خاطر اسے دو بارہ اپنی موجود گی میں منعقد کرانا موزوں خیال کیا۔ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوت ہے کہ غائبانہ نکاح کو موقعہ آنے پر تجدید کی شکل دے دینا احسن ہے ۔لیکن یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نجاشی یا ابو طالب کے کئے ہوئے کاح ان کے اسلام قبول نہ کرنے کے باعث محتاج تجدید رہے ۔