Showing posts with label سائل دہلوی. Show all posts
Showing posts with label سائل دہلوی. Show all posts

Thursday, March 21, 2013

سائل دہلوی



سائل دہلوی

(۱۸۶۸۔ ۱۹۴۵)
ابوالمعظم نواب سراج الدین خاں سائل دہلوی کا شمار دہلوی تہذیب کی نمائندہ شخصیات میں کیا جاتا تھا۔ ۲۰شوال المکرم ۱۲۸۰ھ مطابق ۱۸۶۸ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ غالب ؔ نے ان کا نام سراج الدین تجویز کیا تھا۔ والد کا نام مرزا شہاب الدین ثاقب تھا۔ جو نواب نیر رخشاں کے صاحبزادے تھے۔ ۵سال کی عمر میں والد کا انتقال ہو گیا۔ بہت ہی کم عمری میں آپ نے شاعری شروع کی۔ 
رہا یہ سوال کہ سائل ؔ تخلص کیسے رکھا گیا؟تو آئیے !ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ محفل جمی۔ جس میں نواب احمد سعید خان یعنی سائل دہلوی کے چچا بھی موجود تھے۔ مسئلہ یہ زیر بحث آیا کہ سرا ج الدین احمد خاں کا تخلص کیا رکھا جائے ؟اسی فکر میں سب غلطاں و پیچاں تھے کہ ایک شریف صورت انسان وارد ہوئے۔ چہرے مہرے سے اچھے آدمی لگتے تھے۔ پوچھا گیا کہ بھائی آپ کو ن ہیں ؟کہا:حضور سائل ہوں ‘‘۔ چنانچہ اسی وقت سے نواب صاحب کو سائلؔ دہلوی کہا جانے لگا۔ 
داغ دہلوی (وفات:۱۹۰۵ء )کی شاگردی اور دامادی کا شرف آپ کو حاصل ہے۔ داغؔ سائل کو بے حد عزیز رکھتے تھے۔ بہت محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے۔ داغؔ کی توجہ کی بدولت بہت جلد وہ خود استادی کے مرتبے پر فائز ہو گئے۔ زبان دہلی کی دھلی دھلائی ہوئی تھی۔ ان کا کلام تصوف اور تغزل کا حسین سرچشمہ ہے۔ تصوف اور تغزل سے اپنی شاعری کو چار چاند لگاتے تھے ،  ڈاکٹر سید اعجاز حسین نے لکھا ہے :
’’سائل ؔ کی غزلوں میں شوخی اور لطافت ساتھ ساتھ ہیں۔ کلام میں شگفتگی اور انبساط کا مخزن ہے۔ مگر ابتذال اور عامیانہ پن سے کوسوں دور۔ معشوقوں سے چھیڑ  چھاڑ  بھی ہے۔ لیکن حفظ مراتب کے ساتھ۔ جہاں اشعار مزیدار گفتگو کا مرقع پیش کرتے ہیں۔ وہاں دلکشی کی حد نہیں رہتی۔ پر گوئی کا یہ عالم تھا کہ سخت سے سخت زمین میں بھی بہت سے اشعار کہ دینا معمولی بات تھی۔ استاذی کا یہ حال تھا کہ اس مضمون کو چاہتے نہایت خوبصورتی سے عاشقانہ رنگ دیتے ،  شعر کی مضبوطی اور الفاظ کے در و بست کا خاص خیال رکھتے تھے ‘‘
(مختصر تاریخ ادب اردو،  از:ڈاکٹر سید اعجاز حسین ،  ڈی ،  لٹ۔ صفحہ:۱۶۰۔ مطبوعہ:۱۹۳۴ء )
طبیعت کے بہت نرم تھے۔ اپنے دشمنوں اور دوستوں کے یکساں سلوک کرتے تھے۔ سید وجیہ الدین بے خودؔ انہیں سر عام سخت سست کہتے تھے۔ برا بھلا کہتے تھے مگر جواباً انہوں نے بے خو دکو برا بھلا نہیں کہا۔ خار دہلوی لکھتے ہیں :
’’نواب صاحب قبلہ شاعر سے زیادہ ایک انسان تھے۔ وہ دہلی کی تہذیب و تمدن کا آخری نمونہ تھے۔ شعر و ادب کے علاوہ بہت سی خوبیاں ان میں تھیں۔ بے مثال خطاط اور خوش نویس تھے۔ کشیدہ کاری میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ .....غرضیکہ ان میں وہ سب کمالات تھے جو اس دور کے رؤسا کا طرَّۂ امتیاز تھے ‘‘
   (دلی والے ،  مرتبہ:محمد صلاح الدین ،  مضمون :خار دہلوی ،  صفحہ:۱۸۷،  مطبوعہ:۱۹۸۶ء )
۱۹۴۵ء میں سائل کا انتقال ہوا۔ 
***