Showing posts with label 2جامعہ دارالسلام کا ایک دن. Show all posts
Showing posts with label 2جامعہ دارالسلام کا ایک دن. Show all posts

Wednesday, April 24, 2013

2جامعہ دارالسلام کا ایک دن

بہرکیف! اس خوبصورت عمارت کا نام کاکا عمر لائبریری ہے، دائیں بائیں سوکھے ہوئے درخت ہیں، بجلی کا ایک ٹوٹا ہوا کھمبا ہے جو یقیناًکبھی واقعی بے حد خوبصورت ودیدہ زیب رہا ہوگا، اب میں نے لائبریری میں داخل ہونے کے لیے اپنی چپل نکال کر دائیں طرف رکھ دی، لائبریری میں کل چار بڑے کمرے ہیں جوکتابوں سے بھرے ہوئے ہیں، قرآن وحدیث، علوم قرآن اور علوم حدیث کی کتابوں کا ذخیرہ سب سے بڑاہے، اب ان کتابوں کو دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اس دور میں جب وسائل نہ ہونے کے برابر تھے ، کاکا ابراہیم نے کتابوں کے جمع کرنے کے سلسلے میں کیسی محنت، مشقت، جد وجہد کی ہوگی۔ ان کتابوں کو دیکھ کر قائل ہونا پڑتا ہے کہ یقیناًکاکا ابراہیم علم اور اہل علم سے محبت کرنے والے تھے، میں علوم اسلامیہ سے متعلق کتابوں کو بہت کم ہاتھ لگاتا تھا، الا یہ کہ میری کوئی تقریر ہوتی ، تیاری کے لیے مجھے کوئی موضوع دیا جاتا یا مجھے مقالہ لکھنا ہوتا تو میں علوم قرآن، علوم حدیث کے شعبے میں نظر آتا، ورنہ میں بہت کم اس شعبے میں داخل ہوتا تھا۔
ادب کے شعبے میں کاوش بدری مرحوم سے حاصل کی ہوئی کتابوں کی تعداد بکثرت تھی، سچ یہ ہے کہ ان کی کتابوں سے سب سے زیادہ میں نے استفادہ کی اہے، میں نے اس لائبریری میں جوشؔ کی ’’یادوں کی بارات‘‘ پڑھی ہے، بہت ڈوب کر پڑھی ہے، اس کتاب کو ختم کرنے کے لیے مجھے غالباً تین دن کا عرصہ لگا تھا، آپا حمیدہ اختر حسین رائے پوری کی ’’ہمسفر‘‘ بھی یہی پڑھنے کا اتفاق ہوا، آپا کے اسلوب، انداز بیان کے سحر میں کئی دن کھویا رہا، رفعت سروش کی ’’اور بستی نہیں دل ہے‘‘ پڑھنے کی سعادت بھی مجھے عمر لائبریری میں حاصل ہوئی، ایس۔ فضلیت کا ناول ’’محلوں کے اندھیرے‘‘ کا مطالعہ بھی میں نے اسی ہال میں کیا ہے، ایسا خوبصورت ناول میں نے آج تک نہیں پڑھا، زبان کے تخلیقی استعمال کے ساتھ ساتھ اسلوب کی ندرت اپنی طرف بری طرح کھینچ رہی تھی، پھر میں کیسے اس کے سحر میں گرفتار نہ ہوتا، ادا جعفری جو پاکستان کی سب سے معمر اور محترم شاعرہ ہیں، ان کی خودنوشت ’’جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ کئی دن کے مسلسل مطالعے کے بعد ختم کی، اس سے اتنا متأثر ہوا کہ ایک مضمون اس کے حوالے سے لکھا اور کئی رسائل کو بھیجا غالباً پرواز ادب میں شائع ہوا۔
اور ایسی بہت سی کتابیں میں نے عمر لائبریری سے پڑھی ہیں، مطالعے کا یہ موقعہ فراہم کرنا یقیناًعمر لائبریری کا مجھ احسان ہے جسے میں تاحیات بھلا نہیں سکتا، مصحف کے قدیم شماروں کے مطالعے سے آنکھوں کی روشنی میں اضافہ ہوا، عامر عثمانی کے تجلی کے دیدار سے دل کو سرور ملا۔
سال کے شروع میں لائبریری خوب بھری بھری رہتی، طلباء خوب خوب مطالعہ کرتے، مگر جیسے جیسے وقت گذرتا جاتا کتب خانے میں بچوں کی تعداد میں کمی آتی رہتی، یہاں تک کہ سال کے آخر میں ایک یا دو طالب محو مطالعہ رہتے۔
اب لائبریری سے واپس ہوتے ہیں، غالباً 7:50کا عمل ہے، میں بستر میں دبک جاتا ہوں، بیس منٹ گہری نیند لے کر اٹھتا ہوں، ہمارے ساتھی ناشتے سے فارغ ہو چکے ہیں، سب کلاس جانے کی تیاری میں مصروف ہیں، بعض صابون لے کر حمام کی طرف جارہے ہیں، کوئی حمام سے واپس آ رہا ہے، کوئی تولیے سے اپنا چہرہ پونچھ رہا ہے، کوئی الماری سے اپنی کتابیں نکال رہا ہے، آٹھ بج کر دس منٹ پر ابھی کلاس کی گھنٹی بجی، میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا، منھ پر پانی کے چھینٹے مارے اور کتابیں لے کر تیزی سے کلاس کی طرف چلنے لگا، سانس پھولنے لگی، پسینہ آنے لگا، مگر ان سب کی پرواہ کیے بغیر ہم کلاس کی طرف جا رہے ہیں، کیونکہ دیر ہونے کی صورت میں جامعہ کے نائب ناظم مولانا اطہر حسین عمری مدنی کی قہرآلود نگاہوں کا نشانہ بننا پڑے گا، جو ہمیں مطلق پسند نہیں۔
یہ آٹھویں جماعت ہے، دوسرے لفظوں میں آپ اسے فضیلت سال آخر بھی کہہ سکتے ہیں، کلیہ اور ثانویہ کی سب سے بڑی جماعت، آٹھویں جماعت کے طلباء بہت ہی وقار اور سکون کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں، استاد آیا چاہتے ہیں، پہلی گھنٹی صحیح بخاری کی ہے، جسے پڑھانے کے لیے دکتور عبداللہ جولم عمری مدنی تشریف لائے، جو تقریبا ۲۴ سال سے حدیث پڑھا رہے ہیں، احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ آپ کے دماغ میں محفوظ ہے، اللہ تعانیٰ نے آپ کو بے مثال حافظہ عطا کیا ہے، ہر ہر مسئلے کے لیے احادیث کے متون کا حوالہ اگر کسی سے سننا چاہتے ہیں تو وہ دکتور عبداللہ جولم عمری مدنی ہیں، جو آج کل جامعہ دارالسلام کے ناظم ہیں۔
ہماری جماعت کے طلباء کے نام بھی سن لیجیے، یہ رانی بنور کے شکیب عالم ہیں، یہ ناصرالدین محمد ہیں جو شاہ آباد سے تعلق رکھتے ہیں، یہ بالے ہنور کے عارف الحق ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی آوازدی ہے،اپنے کاروبار کے سلسلے میں آج کل بہت مصروف رہتے ہیں ،حتی کہ دوستوں کے فون بھی ریسیو نہیں کرتے، یہ عرفان اللہ ہیں جو وقت کے پابند ہیں، اللہ کرے یہ عادت ان میں تاعمر باقی رہے۔یہ تلگو زبان کے ماہراورداعی حمادہیں ،یہ سید امین ہیں جن کا قد اور خط ممتاز ہے، یہ سیدعرفات حسین ہیں جو ہماری جماعت کے سب سے کم عمر ساتھی ہیں جو (Pepsi) کے نام سے جانے جاتے ہیں اس کے پس منظر ایک واقعہ ہے جو میں بیان نہیں کروں گا۔ یہ تمام وجے واڑہ سے تعلق رکھتے ہیں، یہ قراء کی سرزمین پرنام بٹ سے تعلق رکھنے والے بہترین قاری اورابن قاری ابوبکر امین الرحمن ہیں جو اپنی آواز کی حفاظت بڑے جتن سے کرتے ہیں، یہ جوبالکل انگریز معلوم ہو رہے ہیں نا! یہ جاوید اختر اعظمی ہیں، جو شاعر بھی ہیں، ادیب بھی ، ناقد بھی، شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف رسالوں کے لیے مسلسل لکھتے رہتے ہیں، عاجزی انکساری کا مجسمہ ہیں، یہ جو ان کے دائیں طرف بیٹھے ہوئے ہیں وہ افضال احمد اعظمی ہیں، یہ بھی نور میں کافی شائع ہوتے رہتے ہیں، یہ دبلے پتلے منحنی سے جو صاحب نظر آ رہے ہیں وہ شاہنواز اختر ہیں، اللہ نے اچھی آواز سے نوازا ہے ، پڑھنے میں بھی اچھے ہیں، مقالات بھی دلچسپی سے لکھتے ہیں، یہ جو گھبرائے گھبرائے سے نظر آرہے ہیں، وہ کرنول کے یوسف ہیں ، صوت الاسلام اور صراط مستقیم میں ان کے مضامین شائع ہو چکے ہیں، یہ پستہ قد انسان ریاض پاشا ہیں جو بڑی محنت سے تقریر کرتے ہیں ، کرنول سے تعلق رکھتے ہیں، یہ کیرلا کے عبد الرحیم ہیں جواپنی خوبصورت آواز کا جادو ہر جلسے میں جگاتے رہتے ہیں، نظموں کو نئے نئے طرز اور لحن میں پڑھنا ان کی خصوصیت ہے۔ یہ گیسودراز صاحب کسی مزار کے مجاور نہیں بلکہ ہمارے ہی ایک ساتھی مظہر ہیں ، ان کا تعلق پونا سے ہے،۔یہ بنگال کے رہنے والے مظہرالاسلام اور عبد السلام ہیں۔ یہ آسام کے بلال الدین ہیں جو امتحانوں میں بڑی محنت کرتے ہیں۔ یہ شرمیلی طبیعت کے مالک مصدق حسین آمبوری ہیں۔ یہ جمیل ہیں جو آمبور ہی سے متعلق ہیں، ہمیشہ مسکراتے رہتے ہیں۔ یہ لمبے سے جو صاحب نظر آرہے ہیں وہ ادونی کے آر۔محمد یعقوب ہیں۔ یہ اڑیسہ کے جریر ہیں۔یہ بھیونڈی کے ارشاد ہیں۔یہ صحتمند اونچے لمبے قد والے صاحب آدونی کے ارشاد ہیں،بڑے مخلص شخص ہیں ،ہر شخص سے بہت جلد گھل مل جانا ان کی فطرت ہے۔ یہ حیدرآباد کے احمد بن محمد ہیں۔ یہ پستہ قد حضرت جی۔عبدالرحمن ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے حسن تحریر وحسن صوت سے نوازا ہے، ہمارے بہنوئی محمد موسیٰ جامعی کے شہر یمگنور سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ گڈی واڑہ کے فاروق ہیں جو تلگو تحریر کا اچھا ذوق رکھتے ہیں۔ یہ راجمندری کے شاکر ہیں۔(چند مہینوں قبل آپ کا انتقال اسکین کینسر کی وجہ سے ہوا،ہم نے سوچا بھی نہ تھا کہ یہ شخص ہم سے اتنی جلد جدا ہوجائے گا،ہماری جماعت میں دو شاکر تھے ،ایک مدن پلی کے اور دوسرے راجمندی کے ،مدن پلی کے شاکر کا انتقال جماعت چہارم میں ٹی .بی کے عارضے کے سبب ہوا ،اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ دونوں کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے !آمین!۔یہ سیونی کے احسان خان ہیں جومطالعے کا ذوق رکھتے ہیں ۔ یہ رائیدرگ کے شعیب ہیں، چند سال قبل ان کی آواز بہت اچھی تھی ، عامر عثمانی کی غزلیں بڑی خوبصورت آواز میں پڑھتے تھے۔ یہ سیونی کے شاہد ہیں۔ یہ جو لنگی شرٹ پہنے ہوئے اپنی دنیا میں مست رہنے والے صاحب ہیں یہ ظہیر دانشؔ ہیں، جو کڈپہ کے رہنے والے ہیں۔ یہ پستہ قد جناب صدیق الاسلام ہیں ، جو بنگال کے ہیں۔ یہ گورے چٹے صاحب ہریانہ کے عبیداللہ ہیں،ذرا سے شرارتی ہیں۔ یہ نریم پیٹ کے احمد اللہ ہیں جوہنس مکھ طبیعت کے مالک ہیں اور تقریر بھی اچھی کرلیتے ہیں۔ یہ حیدرآباد کے عبد القیوم ہیں جو بھولے بھالے ہیں،آج کل کمپیوٹر ،انٹرنیٹ اور اس کے متعلقات میں مہارت حاصل کرچکے ہیں۔یہ بھی حیدرآباد ہی کے عبد الرافع ہیں اچھی آواز قدرت نے آپ کو عطا کی ہے ۔یہ ونی پنٹا (ضلع کڈپہ کا ایک قریہ)کے سعادت اللہ ہیں ،ان کے والد عمری ہیں دونوں قرآن کریم کو بہت اچھی آواز میں پڑھنے میں زبردست درک رکھتے ہیں ،خلوص ومودت کے رشتوں کو نبھانا کوئی ان سے سیکھے۔