طہ حسین، بد نصیب ذہین


طہ حسین، بد نصیب ذہین

       
        طٰہ حسین ایک اندھا اور نا بینا ادیب تھا۔ ساتھ ہی ساتھ بڑی ذہانت کا مالک تھا۔ میں  نے  اس کی ’’الأیام ‘‘ پڑھی ہے۔ جس میں  اپنے  حوالے  سے  وہ ایک واقعہ بڑے  درد بھرے  انداز میں  بیان کرتا ہے۔ اس کے  کئی بھائی تھے،(واضح ہو کہ وہ پیدائشی اندھا تھا) مگر سب کے  سب کٹھور اور سخت دل قسم کے  انسان تھے۔ ستانے  اور تنگ کرنے  کا کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے  جانے  نہ دیتے  تھے۔ طٰہ حسین ان سے  سخت دلبرداشتہ تھا۔ حتیٰ کہ وہ شدید قسم کی احساس کمتری کا شکار ہو گیا۔ ایسی احساس کمتری جس میں انسان قنوطی بن جاتا ہے۔
        ایک دن کا ذکر ہے  کہ دوپہر کا وقت تھا۔ گھر میں  سب نیند کی وادیوں  کی سیر میں  مصروف تھے۔ وہ چپکے  سے  اٹھا، آنکھوں  سے  دیکھ نہیں  سکتا تھا۔ انداز سے  ڈھونڈھتے  ہوئے  باورچی خانے  کی طرف گیا۔ جہاں  گوشت کاٹنے  کا بڑا سا تیز دھار ستّور رکھا ہوا تھا۔ اسے  اٹھایا، اس کی دھار آزمائی، بڑی مشکل سے  اٹھا کر اپنی گردن پر ڈال لیا۔ وار اچٹ گیا، آدھی گردن کٹ گئی۔ وہ شدتِ تکلیف سے  چیخنے  لگا۔ آواز سن کر گھر کے  سبھی افراد جمع ہو گئے۔ اسے  ہاسپٹل میں  بھرتی کر دیا گیا۔ ایک لمبے  عرصے  تک وہ زیرِ علاج رہا۔ جس کے  بعد وہ گھر لوٹا تو بھائیوں  نے  ستانا کم کر دیا۔
        اس کے  بعد طٰہ حسین مسلسل سوچتا رہا کہ کسی طرح اپنے  بھائیوں  کو نیچا دکھائے۔ خوب سوچنے  اور غور و فکر کرنے  کے  بعد اس نے  تعلیمی میدان میں  محنت کرنی شروع کی۔ پڑھتا رہا، پڑھتا رہا، ڈبل Ph. D کی اور مصر کا وزیرِ تعلیم بن گیا۔ اس نے  مستشرقین سے  تعلیم حاصل کی تھی، اور ان کے  افکار و خیالات سے  حد درجہ متاثر تھا۔ یہی وجہ ہے  کہ اس نے  اسلام میں  بے  شمار شکوک و شبہات پیدا کیے۔ اس نے  اسلامی تہذیبی مسلمات کو جھٹلایا۔ اس کی صحیح تربیت نہ ہونے  کی وجہ سے  وہ کندۂ نا تراش بن کر رہ گیا۔
        علامہ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ بھی اندھے  تھے۔ مگر انہوں  نے  ساری زندگی اسلام کی سربلندی کے  لیے  صرف کر دی۔ علامہ بن باز ؒاور طٰہ حسین دونوں  دو انتہاؤں  پر تھے۔ علامہ بن بازؒ دین کی خدمت اور حفاظت کے  لیے  بہت آگے  بڑھ گئے۔ دین کے  حوالے  سے  انہوں  نے  جو کارنامے  انجام دیے  ہیں، یقیناً طویل عرصے  تک یاد رکھے  جائیں  گے۔ دوسری طرف طٰہ حسین دین اسلام کی مخالفت مین حد سے  آگے  بڑھ گیا۔ کعبۃ اللہ کے  وجود کو جھٹلایا، قرآنی ادب پر انگلیاں اٹھائیں۔  طٰہ حسین کے  ساتھ عربی زبان کے  ادیبوں  کی ایک بڑی ٹیم تھی، جو دین اسلام کی مخالفت میں  پیش پیش تھی۔ جیسے  نجیب محفوظ، احمد امین وغیرہ۔ دراصل یہ یہودیوں  کی پروردہ جماعت تھی۔ یہ بھی مسلمہ قاعدہ ہے  کہ دین اسلام کو اپنوں  سے  جتنا نقصان پہونچا، اتنا نقصان غیروں  سے  نہیں  پہونچا۔ اس کلیے  کی توثیق کے  لیے  آپ نبی  ﷺ کے  زمانے  سے  لے  کر آج تک کے  واقعات پر سرسری نظر ڈالتے  چلے  جائیے۔ قریب کی مثالیں  میر جعفر اور میر صادق کی ہیں، جن کو آپ نے  بھلایا نہ ہو گا۔
        ایک طرف طٰہ حسین ’’حدیث الأربعاء‘‘ میں  اسلام کے  خلاف زہر اگلتا تھا، تو دوسری طرف مصطفیٰ صادق رافعی نے  ’’تحت رأیۃ القرآن‘‘ کے  نام سے  ایک سلسلۂ مضامین شروع کیا تھا، جس میں  وہ طٰہ حسین کے  عقیدے  کی، اس کے  افکار کی، اور اس کے  ادب کی خوب خبر لیا کرتے  تھے۔ مصطفیٰ نے  طٰہ حسین کے  تمام شکوک و شبہات کی دھجیاں  بکھیر کر رکھ دیں۔ مصر کے  بڑے  بڑے  علماء طٰہ حسین کا جواب نہ دے  سکے، مگر معمولی پڑھے  لکھے  انسان مصطفیٰ نے  طٰہ حسین کا دندان شکن جواب دیا۔
        مصطفیٰ بہرے  تھے، طٰہ اندھا تھا۔ مصطفیٰ ایک معمولی بینک کے  کلرک تھے، طٰہ وزیرِ تعلیم تھا۔ مصطفیٰ انتہائی کم تعلیم یافتہ نوجوان تھے، طٰہ حسین بہت تعلیم یافتہ بوڑھا تھا۔ طٰہ تقریباً ۹۰ سال تک زندہ رہا، اور مصطفی صرف ۳۸ سال تک زندہ رہے۔
        بہر کیف طٰہ حسین نے  نابینا ہونے  کے  باوجود  متعدد کتابیں  لکھیں۔ عربی ادب کی تاریخ لکھی۔ دعاء الکروان کے  نام سے  ایک ناول لکھا۔ جو کیرلا میں  پڑھایا جاتا ہے۔ المعذبون فی الأرض کے  عنوان سے  افسانوی مجموعہ لکھا۔ اور بڑے  درد بھرے  افسانے  لکھے۔ سیرۃ النبی ﷺ پر ھوامش علی السیرۃ کے  نام سے  ایک کتاب لکھی۔ جس کے  مطالعے  کے  دوران قاری کی آنکھیں  متعدد مرتبہ بھر آتی ہیں۔ یہاں  یہ سوال پیدا ہوتا ہے  کہ اس نے  ایسا کیوں  کیا؟ اس کا ذہن کیوں  اسلام مخالف بن گیا؟ ہم غور کرتے  ہیں  تو معلوم ہوتا ہے  کہ طٰہ حسین جب ابتدائی تعلیم حاصل کر رہا تھاتو اسے  ایسے  استاذ سے  پالا پڑا تھا جو روایتی طریقے  سے  بچوں  کو پڑھاتے  تھے۔ اپنے  طلبہ میں  ذرا بھی کمزوری دیکھتے  تو بید سے  خوب مارتے۔ اور یہ سلوک صرف طٰہ حسین کے  ساتھ روا رکھا جاتا تھا۔ کیونکہ وہ نابینا تھا، کمزور تھا۔ اقتصادی لحاظ سے  بھی کمزور تھا اور جسمانی لحاظ سے  بھی۔ اس لیے  وہ طٰہ کو ہر طرح کی ایذا  پہونچاتے۔ آج کل اکثر دینی مدارس میں  اسی طرح کا ماحول پایا جاتا ہے، اور جب تک ہندوستانی مدارس سے  اس طرح کا ماحول ختم نہیں  ہو جاتا تب تک ہرگز ہرگز ہندوستان کے  مدارس ترقی نہیں  کر سکتے۔
        طٰہ حسین کے  بگڑنے  کا دوسرا سبب اس کے  بھائیوں  کا ستانا ہے۔ اگر طٰہ کے  بھائی اس کے  ساتھ اسلامی تعلیمات کے  مطابق عمل کرتے  تو آج طٰہ کی شخصیت کچھ اور ہوتی۔ تیسرا سبب یہ ہے  کہ طٰہ نے  مستشرقین سے  تعلیم حاصل کی تھی۔ اور ظاہر سی بات ہے  کہ مستشرقین کسی بھی شعبے  میں  عربوں  کی برتری تسلیم نہیں  کرتے۔ عجمیوں  کو ہر شعبے  میں  برتر ثابت کرنا ان کا شیوہ ہے۔ ظاہر ہے  ایسی صورت میں  طٰہ پر ان کا اثر شعوری یا غیر شعوری طور پر ہونا تھا، سو ہوا۔ طٰہ حسین کو سامنے  رکھ کر ہم یہ فیصلہ کر سکتے  ہیں  کہ اگر کسی کی صلاحیتوں  کو صحیح رخ نہیں  دیا گیا، صحیح راستہ نہیں  دکھایا گیا تو ان کا رخ خود بخود غلط راستے  کی طرف مڑ جاتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے  کہ غلط تربیت سے  اچھے  اچھے  ذہن تباہ و برباد ہو جاتے  ہیں۔ اگر ان سے  تعمیری کام نہ ہو سکا، تو تخریب کی طرف مڑ جاتے  ہیں، حتیٰ کہ دنیا کو تباہ و برباد کر کے  رکھ دیتے  ہیں۔
٭٭٭



No comments:

Post a Comment