Thursday, December 14, 2023

‏ماں اپنے بچے سے زیادہ پیار کرتی ہے یا خالق اپنے بندوں سے ۔؟

 ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چند قیدی لائے گئے۔ ان قیدیوں میں ایک خاتون بھی تھی۔ اس کے اور اس کے دودھ پیتے بچے کے درمیان علیحدگی کر دی گئی تھی۔ اس کی نگاہیں اپنے لخت جگر کو چاروں طرف ڈھونڈ رہی تھیں ۔

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
( (اِذَا وَجَدَتْ صَبِیًّا السَّبْیِ أَخَذَتْہُ فَأَلْصَقَتْہُ بِبَطْنِھَا وَأَرْضَعَتْہُ۔))
’’قیدیوں میں سے جب کسی بچے پر اس خاتون کی نگاہ پڑتی تو وہ فوراً اسے لے کر اپنے پیٹ سے لگا لیتی اور اسے دودھ پلانے لگتی۔‘‘
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کے لیے اس خاتون کی یہ شدید بے چینی دیکھی تو فرمایا:
( (أَ تَرَوْنَ ہَذِہِ المَرْأَۃَ طَارِحَۃً وَلَدَھَا فِی النَّارِ۔))
’’تمہارا کیا خیال ہے، کیا یہ خاتون اپنے بچے کو آگ میں پھینک سکتی ہے۔‘؟؟‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: نہیں نہیں ، اللہ کی قسم! یہ خاتون اپنے بچے کو کبھی اور کسی صورت بھی آگ میں نہیں پھینک سکتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
( (لَلّٰہُ أَرْحَمُ بِعِبَادِہِ مِنْ ہَذِہِ بِوَلَدِھَا۔))[1]
’’یہ خاتون اپنے بچہ پر جس قدر مہربان ہے، اللہ اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ مہربان ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی رحمت و مہربانی کا حال یہ ہے کہ اس نے رحمت کے سو (۱۰۰) حصے پیدا کیے، جن میں سے ننانوے (۹۹) اپنے پاس ہی محفوظ کر لیے ہیں اور صرف ایک حصہ زمین پر اتارا ہے۔ اسی ایک حصے کی وجہ سے اللہ کی تمام مخلوق ایک دوسرے پر رحم کیا کرتی ہے، یہاں تک کہ ایک جانور بھی اپنا کھر اپنے بچے سے ہٹا لیتا ہے کہ کہیں اسے تکلیف نہ پہنچے...!!!
[1] مسلم، کتاب التوبۃ: ۲۷۵۴۔ بخاری، کتاب الأدب: ۵۹۹۹۔
[2] بخاری، کتاب الأدب: ۶۰۰۰۔ مسلم، کتاب التوبۃ: ۲۷۵۲...
اللہ پاک ہم سبکے دلوں کو دنیاں داری سے پھیر کر عشق حقیقی سے بھردے۔
آمین

‏قرآن مجید۔۔۔۔ کا مکھی کے بارے میں حیرت انگیز چینلج ۔

 " لوگو!

ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو!
اللہ تعالیٰ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے گو سارے کے سارے ہی جمع ہو جائیں، بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے" (الحج)
مکھی بنانا تو خیر بہت دور کی بات ہے لیکن چیلنج کا دوسرا حصہ کافی دلچسپ ہے کہ اگر وہ کوئی چیز لے کر بھاگ جائے تو وہ بھی واپس نہیں لے سکتے ۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ واقعی ناممکن ہے ؟ بھلا کیسے ؟
شائد آپ کے علم میں نہ ہو کہ ۔۔۔۔
مکھی غالباً دنیا کا واحد جانور ہے جو خوارک اپنے منہ میں ڈالنے سے پہلے ہی ہٖضم کرنا شروع کر دیتا ہے ۔
مکھی خوراک اپنی ٹانگوں میں اٹھاتے ہی اس پر اپنے منہ سے ایک کیمائی محلول ڈالتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ الٹی کرتی ہے جو فوراً اس چیز پر پھیل کر اس کے اجزاء کو توڑ مروڑ کر تحلیل کر لیتی ہے اور اسکو ایک قابل ہضم محلول میں تبدیل کر دیتی ہے ۔۔۔
۔ یاد رہے کہ مکھی صرف کھانے پینے کی چیزیں لے کر بھاگتی ہے ۔
اس انتہائی پیچیدہ کیمیائی عمل کے بعد مکھی کے لیے آسان ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی خوراک کو چوس لے ۔۔۔۔
۔ تب وہ اپنے منہ سے ایک ٹیوب نکالتی ہے جسکا منہ ویکیوم کلینر کی طرح چوڑا ہوتا ہے ۔ اس ٹیوب سے وہ اس چیز کو چوس لیتی ہے ۔
مکھی اپنی لے کر بھاگی ہوئی چیز کو چند ہی لمحوں میں کسی اور چیز میں تبدیل کر دیتی ہے ۔ جسکو دنیا کی جدید ترین لیبارٹریز اور سارے سائنس دان مل کر بھی اپنی اصل حالت میں واپس نہیں لا سکتے ۔
" بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے"۔۔۔۔۔
یہ قیامت تک لے لیے اللہ کا چیلنج ہے اللہ کا انکار کرنے والوں اور تمام جھوٹے خداؤوں کے لیے..!!

90 کے بچوں کے دکھ عجیب

 آج تقریباً ہر وہ شخص جس نے اپنا بچپن یا بچپن کا کچھ حصہ ۹۰ میں گزارا ، عجیب سی جذباتی تنہائ یا اداسی کا شکار ہے ، ہم وہ ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ وقت کی رفتار کو جھیلا ہے ، ٹیکنالوجی ، جذبات اور اشیاء اس قدر تیزی سے بدلی کہ ہم کئ چیزوں کی انتہا ‏اور زوال کے گواہ ہیں

جیسے دادی ، نانی کے ہاتھ کی چوری سے پیزا تک کا سفر ، وہ چوریاں کب ماضی کا حصہ بنی ، سوچو تو ہوک اٹھتی ہے
کب چولہے کے گرد بیٹھ کر ، کوئلوں پر پیالی رکھ سالن کو گرم رکھنے کی کوشش کرتے ، توے سے روٹی اترنے کا انتظار آڑدر سرو ہونے کے انتظار سے جگہ بدل گیا
رات‏ کو کپاس کے ٹینڈوں سے کپاس نکالتے پورے گاؤں کے بچوں کا ٹی وی کے گرد ڈیرہ ، یا مغرب کے بعد گھر آنے کی بجاۓ لوئ لپیٹے بزرگوں کی برگد یا گاؤں کی کسی اکلوتی دکان کی بیٹھک فون کی گھنٹی یا ٹوئٹر کی دنیا میں ضم ہوئ اور تو اور فون خود گول گول نمبر گھما کر ڈائل کرنے سے وائرلیس ٹچ سکرین ‏ہوا ، کمپیوٹر پر فون کی تار لگا نیٹ کونیکٹ ہونے کی خوشی کب کھوئ وہ تو الگ کہانی ہے
مگر کب چاول کھیر بننے پر ہمسایوں کے گھر پلیٹ میں ڈال دینے جانے کی خوشی
عید پر مل کر مہندی لگانے ، بنٹے کھیلتے ہوۓ ہارنے پر اپنے بنٹے اٹھا دوڑ لگانا ، شام ہونے پر گلی میں باہر کھیلتے بچوں کا شور اور ماؤں کے کمر پر لگتے تھپڑ نو بےبی میں بدلے
سب دیکھا تو ہے وقت کے ساتھ چلا تو ہے مگر دل وہیں کہیں عمرو کی کہانی یا عمران سیریز میں اٹکا ہے ، ذہن سے سوچنے والوں کا دل آج بھی ہیر میں اٹکتا ہے
سیدھی بات کرنے میں عافیت سمجھنے والے آج بھی شعروں کی زبان کی چاشنی نہیں بھول پا رہے.
ہم ایک دور سے دوسرے میں اتے اتے بچپن اور خوشی ۹۰ میں ہی چھوڑ اۓ ہیں وقت کے ساتھ چلنے کی دوڑ میں اپنا دل وہی کہیں گرا کر اب بڑے خالی سے لفظوں ، ذمہ داریوں اور فلسفوں میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں ہم بیچارے ۹۰ کے بچے دو دنیاوں کے بیچ کسی برزخ میں اٹکے ہیں-
۱۰۰فیصد درست۔ بہت سی باتیں اس تحریر میں موجود بھی نہیں۔
پی ٹی وی کا فیملی چینل ہونا، شادی بیاہ میں ہاتھوں میں موبائل کی جگہ ایک دوسرے کے کندھوں پے ہاتھ رکھ کے باتیں کرنا، قہقہے لگانا ، ڈھولک پی گا نے گا نا ، ڈانس کے بجائے لوڈ ھی ڈالنا،
ٹیپ میں کیسٹ ڈالنا، فیتے کا پھنس جانا ، لوڈو، ches ، کیرم بورڈ کھیلنا۔۔۔۔ سب کھو گیا،

سکردو کے ایک جج صاحب واقعہ

 سکردو کے ایک جج صاحب واقعہ سناتے ہوئے بتاتے ہیں کہ میری عدالت میں ایک نوجوان وکیل تھا اس نے پی ایچ ڈی فزکس کر رکھی تھی اور وکالت کے پیشے سے منسلک تھا انتہائی زیرک تھا بات انتہائی مدلل کرتا تھا اس کی خوبی یہ تھی کہ وہ ہمیشہ مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوتا تھا میری وہاں پوسٹنگ کے دوران میں نے اسے کبھی کوئی کیس ہارتے ہوئے نہیں دیکھا میں اس کی سچائی کا اتنا گرویدہ تھا کہ بعض دفعہ اس کی بات پر بغیر کسی دلیل کے میں فیصلہ سنا دیتا تھا اور میرا فیصلہ ٹھیک ہوتا تھا وہاں تعنیات ہر جج ہی ان کا گرویدہ تھا پوری عدالت میں سب ہی اس کا احترام کرتے تھے بعض مواقعوں پر ججز صاحبان اس سے کیس ڈسکس کر کے فیصلہ کرتے تھے میں اتنا اس کے تعلیم یافتہ ہونے کے باوجو اس فیلڈ میں آنے اور پھر جج بن جانے کی اہلیت ہونے کے باوجود وکیل رہنے کی وجہ جاننا چاہتا تھا بہت کوشش کے بعد اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں نے یہ سوال اس سے پوچھ ہی لیا...اس نے بتایا کہ میرے نانا انتہائی غریب تھے ان کی اولاد میں بس دو ہی بیٹیاں تھیں انہوں نے بھٹے پر محنت مزدوری کر کے اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلوائی ان کی پرورش کی اور پھر ان کی شادیاں کیں میری والدہ کی قسمت اچھی تھی وہ گورنمنٹ سکول میں ٹیچر لگ گئیں جب کہ میری خالہ کو سرکاری ملازمت نہ مل سکی میرے نانا نے بھٹہ سے قرض لے کر اپنی بیٹیوں کی شادی کی میری والدہ نے گھریلو اخراجات سے بچت کر کے میرے نانا کی قرض اتارنے میں مدد کی مگر پھر میرے والد صاحب نے ان کو منع کر دیا تو میرے نانا خود ہی قرض کے عوض مزدوری کرنے لگے جب کہ دوسری طرف میری خالہ کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی تو انہوں نے میری خالہ کو تنگ کرنا شروع کر دیا کئی بار مار پیٹ کر کے میری خالہ کو گھر سے نکالا گیا پھر گاؤں والوں کی مداخلت سے ان کو راضی کر کے بھیجا گیا اور تیسرے مہینے پھر وہ سسرال والوں کے ہاتھوں مار کھا کر والد کی دہلیز پر آ بیٹھیں یہاں تک کہ أخری بار جب ان کے سسرال والے ان کو لے کر گئیے تو ان کے شوہر نے دوسری شادی کر لی اور میرے خالہ کو اس شرط پر ساتھ رکھنے کی ہامی بھر لی کہ گھر کے سارے اخراجات میرے نانا اٹھائیں گے میرے نانا بیٹی کا گھر بسانے کی خاطر مزید مقروض ہوتے گئیے اور پھر سردیوں کی ایک دھند میں لپٹی ہوئی صبح کو جب وہ سائیکل پر جا رہے تھے تو گنے سے بھرے ٹرالے کے نیچے أ گئیے اور اس دنیا سے کوچ کر گئیے جب میرے نانا فوت ہوئے تو تب بھی مقروض تھے....میری والدہ نے میرے والد سے چوری اپنا زیور بیچ کر میرے نانا کے قرض ادا کئیے ان کی تجہیزو تکقین کا انتظام کیا اس معاملے میں میرے دادھیال والوں نے میری والدہ سے کوئی تعاون نہ کیا یہاں تک کہ میرے والد نے بھی نہیں

نانا کی وفات کے بعد میری خالہ کے سسرال والوں نے میری خالہ کو مجبور کرنا شروع کر دیا کہ وہ میری والدہ سے گھر کے اخراجات کا مطالبہ کرے میری خالہ نے انکار کر دیا تو ان کو طلاق ہو گئی مگر نہ تو ان کو ان کا سامان واپس کیا گیا اور نہ ہی زیور بلکہ ان کا حق مہر بھی نہ دیا گیا
میری واالدہ اور خالہ کے پاس آخری سہارا قانون کا تھا اور قانون طاقتور کی باندی ھے میری والدہ اور خالہ نے ہائی کورٹ تک کیس لڑا مگر اپنا حق نہ لے سکیں اور پھر خالہ ہائی کورٹ میں کیس سنوائی کی پیشی کے بعد واپس آئیں اور خود سوزی کر لی ان کے کی تجہیزو تکفین بھی میری والدہ کے ذمہ تھی.میری والدہ نے یہ کام بھی بخوبی کیا مگر بہن کی موت کے بعد ان کا چہرہ بجھ گیا یہاں تک کہ میری کامیابی پر میری والدہ خوش نہ ہوتیں تو یہاں تک کہ جب میں نے پی ایچ ڈی کی تو میرے دور پار کے سارے رشتہ دار خوش ہوئے مگر میری ماں کے چہرے پر پہلے جیسی خوشی نہیں تھی.میں نے اس رات مصلے پر بیٹھی دعا مانگتی اپنی ماں کو اپنے سینے سے لگا لیا اور پوچھا کہ آپ کی اداسی کی وجہ کیا ہے ؟
میری والدہ نے مصلے کو تہہ کیا اور کہا کہ میں چاہتی ہوں تم وکیل بنو
زندگی میں پہلی بار میری والدہ نے کسی خواہش کا اظہار کیا تھا میں نے وجہ پوچھی تو میری والدہ نے الٹا سوال داغ دیا تھا کہ أپ کو پتہ ہے آپ کی خالہ نے خودکشی کیوں کی تھی میں نے کہا نہیں تو میری والدہ نے جواب دیا کہ تمہاری خالہ کے پاس وکیل کی فیس کے پیسے نہیں تھے تو وکیل نے جسم کا تقاضا کیا تھا
میری خالہ نے اس دن گھر آ کر خود کشی کر لی تھی اس دن میرے دل میں خواہش آئی تھی کہ میں اپنے بیٹے کو وکیل بناؤں گی ایسا وکیل جو پیسوں کے عوض جسم کا مطالبہ نہیں کرے گا ایسا وکیل جو مظلوم کو انصاف چھین کر لے دے گا مگر میں کبھی تمہارے والد اور تمہارے ڈر سے اس خواہش کا اظہار نہیں کر سکی میری والدہ نے بات مکمل کر کے رونے لگی تو میں نے ان کے قدم چومے اور وعدہ کیا کہ میں ایسا ہی وکیل بنوں گا اور پھر وکالت میں داخلہ لے لیا میرے اس فیصلے سے تمام فیملی میمبر اور دوست احباب حیران تھے مگر میری والدہ بہت خوش تھیں میں جب تک جاگ کر پڑھتا رہتا تھا میری والدہ میرے ساتھ جاگ کر أیت الکرسی پڑھ کر مجھ پر پھونکتی رہتی تھی میں نے وکالت میں بھی گولڈ میڈل لیا اور اپنی ماں کا خواب پورا کر دیا مگر افسوس کہ میری والدہ اس خواب کی تعبیر نہ دیکھ سکیں۔۔۔۔
میں وکیل بننے کے بعد ہمیشہ سچ کے لئیے لڑا میں نے کبھی کسی ظالم کو سپورٹ نہیں کیا میں ہر کامیابی پر اپنی والدہ کی قبر پر جاتا ہوں مگر ایک عرصہ تک میری والدہ مجھے خواب میں نہیں ملیں چند ماہ پہلے میں نے ایک یتیم لڑکی کا کیس لڑا نہ صرف اس کا سامان اور حق مہر لے کر دیا بلکہ اس کے بچوں کا ماہانہ خرچ بھی لے کر دیا اس دن جب والدہ صاحبہ کی قبر پر گیا تو رات کو میری والدہ خواب میں مجھے ملیں اسی مصلے سے اٹھ کر مجھے سینے سے لگایا اور مجھ پر کچھ پڑھ کر پھونکا اس دن مجھے لگا کہ میں نے زندگی کا مقصد حاصل کر لیا ہے۔۔۔۔!!
اہلیت ہوتے ہوئے بھی جج نہ بننے کی وجہ یہ ہے کہ بطور جج مجھ پر پریشر آ سکتا ہے مگر بطور وکیل کوئی مجھے مجبور نہیں کر سکتا میں حلال طریقہ رزق سے اتنا کما لیتا ہوں کہ گزارا ہو جاتا ہے بس میں اتنے میں ہی خوش و مطمئن ہوں
جج صاحب بتاتے ہیں کہ پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ عزت عہدے میں نہیں اعمال میں ہوتی ہے.