Sunday, June 30, 2013

علامہ اقبال اور عشق رسول(اردو اشعار کی روشنی میں)

علامہ اقبال اور عشق رسول

(اردو اشعار کی روشنی میں)

نتھو رام نامی شخص نے انگریزی زبان میں تاریخ اسلام نامی کتاب لکھی اور اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نازیبا تبصرہ کیا۔
مسلمانوں نے اس شاتم رسول کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی، مگر نتیجہ صفر رہا۔ 
ہزارہ کے ایک نوجوان عبد القیوم کو اس گستاخانہ حرکت کی خبر ملی، اس کی ایمانی غیرت وحمیت کے سمندر میں وہ جوش آیا کہ اس نے عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران ہی دھاردار چاقو سے اس گستاخ رسول پر حملہ کردیا اور موقع پر ہی اس کا قصہ تمام کردیا۔ 
عبد القیوم کو سزائے موت ہو گئی، مسلمانوں کے ایک وفد نے ان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرانے کے لیے علامہ اقبال سے در خواست کی اگر وہ اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کریں تو وائسرائے سے مل کران کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کراسکتے ہیں۔ 
علامہ نے وفد کی باتیں سن کر یہ دریافت کیا کہ کیا عبد القیوم کمزور پڑ گیا ہے؟۔
وفد کے ارکان نے کہا کہ عبد القیوم کمزور کیوں پڑتا، اس نے تو عدالت میں ہر بار اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے اور وہ علی الاعلان یہ کہتا ہے کہ میں نے شہادت اپنی زندگی کی قیمت پر خریدی ہے۔ 
یہ سن کر علامہ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور کہنے لگے:
"جب وہ ( عبد القیوم) کہہ رہا ہے کہ میں نے شہادت خریدی ہے تو میں اس کے اجر وثواب کی راہ میں کیسے حائل ہو سکتا ہوں ؟ کیا تم یہ چاہتے ہوکہ میں ایسے مسلمان کے لیے وائسرائے کی خوشامد کروں جو زندہ رہا تو غازی ہے اور مر گیا تو شہید ہے۔"

اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے۔ 
راج پال نامی شخص نے لاہور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اطہر میں بد زبانی کی۔ 
انگریزوں کی عدالت نے اس کو بھی قرار واقعی سزا کا مستحق نہیں گردانا۔ 
آخر غازی علم الدین کی غیرت ایمانی نے جوش مارا اور اس گستاخ رسول کو جہنم رسید کردیا۔ 
انھیں بھی عدالت نے سزائے موت دی۔ 
محبت رسول کی راہ میں پروانہ وار اپنی قیمتی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے ان شہیدوں کی قربانی نے علامہ کو بہت متأثر کیا اور ”لاہور اور کراچی “ کے عنوان سے تین اشعار پر مشتمل قطعہ کہہ کر ان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا:

نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور
موت کیا شے ہے، فقط عالم معنی کا سفر
ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر
آہ! اے مرد مسلماں تجھے کیا یاد نہیں
حرف 'لا تدع مع اللہ الھاً آخر'
[ضرب کلیم]

Saturday, June 15, 2013

مونچھ والے تیرا جواب نہیں ۔۔۔ عظیم الدین عظیم


عظیم الدین عظیم
اصلی نام:میر عظیم الدین علی خاں 
قلمی نام: عظیم الدین عظیم 
ولدیت:میر صوفی علی خان مرحوم 
ولادت:13ستمبر میسور (کرناٹک)
تعلیم :ایم ۔ای ۔سی (ارضیات) سنٹرل کالج بنگلور (1959ء ؁) ڈپلوما ریموٹ سنسنگ (1970ء ؁) 
ملازمت:کرناٹک کے محکمۂ معدنیات و ارضیات میں ادیشنل ڈائر کٹر کے عہدے سے سبکدوشی 1992ء میں ۔
مشاغل :اردو کے کاز کے لئے جدوجہد ، اردو زبان و ادب کی خدمت ، مختلف ادیبوں کے تخلیقاتکا مطالعہ ،تاریخ میں دلچسپی ،اھے ادب کا ترجمہ کرنا ، خاکہ نگاری ، پھول پودے اگانا ، مسکراتی کلیوں اور پھولوں کو دیکھ کر خوش ہونا ۔ خلوص کی جستجو، قوی یکجہتی کو بڑھاوا دینا ۔ 
تصانیف:کرناٹک کے اردو ادیبوں شاعروں اور صحافیوں کی ڈائرکٹری حصہ اول 1998
0 کرناٹک کے اردو ادیبوں شاعروں اور صحافیوں کی ڈائرکٹری حصہ دوم1999ء ؁
0ہمارے مسائل (پروفیسریم بشیر حسین کے مضامین )مرتب
0ڈاکٹر طیب انصاری شخص اور عکس
0خدا جھوٹ نہ بلوائے ،شخصی خاکے ،طنزئے ، انشایئے ، مزاحیہ
0چودہ زبانیں چودہ کہانیاں (ترجمہ)1997
0ڈان اور دیگر پانچ کہانیاں (زیر ترتیب)
ڈوگری ،کونکنی ن سنی پور ی، میتھلی، نیپالی اور پہاڑی کہانیوں کا مجموعہ
اد بی خدمات: پانچویں سہے کے اواکر سے کسی نہ کسی طرح زبان کی خدمت۔جنرل سکریٹری مجلس ادب ،بنگلور
انعامات:توصیفی اعزاز بائے فروغ اردو انجمن ترقی فنکار انِ اردو 
0مغربی بنگال اردو اکیڈمی ایوارڈ
0مجلس ادب بنگلور گولڈن جوبلی ایوارڈ
0نگینۂ ادب ایوارڈ برائے اردو خدمات
****
مونچھ والے تیرا جواب نہیں ۔۔۔
عظیم الدین عظیم

یہ ویرپن بھی عجیب آدمی ہے ۔ مینڈک اور بھالو کی ساری خصلتیں اس میں موجود ہیں ۔ جاڑے کا موسمHibernation میں گزارتا ہے ۔جب جاگتا ہے تو بھیڑ یئے کی طرح کسی گاؤں کے فارم ہاؤس سے کسی معروف شخصیت کو بھیر بکری جیسے اٹھالاتا ہے۔ پھر کیا ہے ٹیپ ریکارڈ ر سامنے رکھ کر اپنی راگ الاپتاہے ۔ (اسے گانا نہیں آتا) کبھی جے للتا اماں کو تو کبھی کرشنا اوارو کو اپنا کیسٹ بھیج کر اپنی مدھر آواز سے ان کا دل جیتنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ساتھ یہ دھمکی بھی دیتا ہے کہ پچھلیبار کی طرح اگر وعہ وفا نہ کیا تو وہ بھی بے وفا ہوجائے گا۔ اس کے کیسٹ استاد بڑے غلام علی خاں ، پنڈت بھیم سین جوشی ، استاد امجد علی خاں ۔ پنڈت روی شنکر، گنگوبائی ہانگل ، بیگم اختر ،نورجہاں ، ایم ایس سبو لکشمی ی لتا منگیشکر کے گانو ں اور موسیقی والے نہیں ہوتے ۔ ویرپن کے کیسٹوں میں صرف مطالبات ہوتے ہیں اور وہ تحت اللفظ ہوتے ہیں ۔ جنگل سے کیسٹ حاصل کرنے کے بعد کا حال ذرا سنئے۔کیسٹ کی زبان تمل ہے ۔ نہ ادبی تمل اور نہ صحافتی تمل بلکہ جنگلی تمل ۔کرناٹکسرکار کو ایک تمل مترجم کی ضرورت پڑتی ہے جو تینوں زبانوں تمل کنڑا اور انگریزی پر عبور رکھتا ہو۔ کنڑا اورانگریزی ترجمے پر ایک ماہرین کی کمیتی بٹھائی جاتی ہے ۔ پندرہ بیس برس سے ایسی کمیٹی کام کررہی ہے ۔ اور وہ بھی ایس ٹی ایف جیسی ہے جو کسی کا اغوا یا کسی پر حملہ ہونے پر کام شروع کرتی ہے ۔ اس کے بعد خاموش یعنی مرض ہائی برنیشن میں مبتلا ۔صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو تینوں ۔ویرپن، ایس ٹی ایف اور کیسٹ اڈوائزری کمیٹی اس مرض کے شکار ہیں ۔لیکن ویرپن کی بات ہی کچھ اور ہے ۔ وہ وقت بے وقت جاگ جاتا ہے ۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایس ٹی ایف گہری نیند میں ہے ۔ بغیر وقت ضائع کئے وہ اپنی ٹولی کے ساتھ شکار پر نکل جاتاہے ۔اس کے پاس راج کماروں اور ناگپاؤں کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ جس کے مطالق سال میں ایک دو بار شکار کھیلتا ہے ۔ پلان کے مطابق اپنا جال پھینکتا ہے جو کبھی خالی نہیں جاتا ۔ پھنسے ہوئے کولے کر اپنے غار میں پہنچ جاتا ہے ۔دوسرے دن اخباروں اور میڈیا کے ذریعہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے ۔اس آگ کی تپش سوئی ہوئی ایس ٹی ایف کو بھی محسوس ہوتی ہے۔ اور وہ ہڑ بڑا کر اٹھتی ہے جیسے کوئی خوفناک خواب دیکھا ہو۔ ہولا جو لی کا منظر ۔ ادھر ادھر باؤلوں کی طرح دوڑنے لگتیہیں ۔ لیدروں کی میٹنگیں شروع ہوتی ہیں ۔ وزیر اعلیٰ اور وزیردالہ دہلی پہنچ جاتے ہیں۔ مرکزی وزیر داخلہ اور شاعر اعظم سے ملاقات کرتے ہیں ۔ دونوں یقین دلاتیہین کہ مرکز سے جو بھی تعاون چاہئے ملے گا۔ نتیجہ خوشی خوشی ہمارے لیڈر بنگلور لوٹ جاتے ہیں۔

واہ رے انصاف از:لئیق اختر فیض آبادی


واہ رے انصاف از:لئیق اختر فیض آبادی
’’انصاف کو اگر تم اس کی اصل صورت مین رکھنا چاہتے ہو تو اتر پردیش میں دیکھ لو۔ ۔۔۔ یہ کہہ کے مرزا چیکن جیسے ہی چپ ہوئے میں نے پوچھا ۔۔۔ قبلہ آج کل ہمارے ملک میں بڑے بڑے لیتا آئس کریم بن چکے ہیں اور حکومتیں سردخانے میں ٹھٹھر رہی ہیں کیوں کہ ان دنوں عدالتیں اور سی بی آئی بہت سرگرم ہیں ۔اگر آپ نے انصاف پر کوئی نکتہ چینی کی تو آپ کی ساری حق بیانی اور صاف گوئی کو بلا ضمانت وارنٹ جاری کردیا جائے کیوں کہ طویل عرصہ کے بعد انصاف کھل کے سامنے آیا ہے ۔دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کیا جارہا ہے ۔ سفید پوشان سیاست کے بدن کے سیاہ دھبے سامنے آرہے ہیں ۔چھپے ناسوراب چھپائے نہیں چھپ رہے ہیں لہٰذا اگر آپ کو زحمت نہ ہوتو فرس زبان کو لگام لگالیں۔
مرزا نے زور دار قہقہہ لگا کر فرمایا۔ اجی گھبراؤ نہیں انصاف اور قانون کی نوک پلک سے اگر ہم واقف نہ ہوتے تو ہرگز سر مغزنی نہ کرتے ۔سنو اور غور سے سنو ۔ ہمارے لکھنؤ میں دو وقف بورڈہیں ایک کانام نامی بحکم سرکار سنی سنٹرل وقف بورڈ اتر پردیش ہے اور

یونیورسٹی مہربان تو۔۔۔ محمد امجد علی فیضؔ


محمد امجد علی فیضؔ 
اصلی نام :امجد علی 
تخلص:فیضؔ 
ولدیت:محمد یوسف علی
ولادت:۳۱ اکتوبر ۱۹۶۵ء ؁ 
تعلیم :بی ۔ اے (سیول)
مشاغل:مطالعہ ، طنز یہ ومزاحیہ مضامین نگاری ، اور کلاسیکی موسیقی سے دلچسپی
مزاح نگاری کی ابتداء:1987سے
تصانیف:اولین تصنیف زیر اشاعت ہے۔
***

یونیورسٹی مہربان تو۔۔۔
محمد امجد علی فیضؔ 


گریجویشن کا آخری سال گذرے ہوئے ایام پر نظر ڈالتے ہیں تو ہماری آنکھوں کے آگے کارناموں کی قوس قزح سی تن جاتی ہے اور دوسرے ہی لمحے اس کے سارے رنگ آسمان کی وسعتوں میں کہیں تحلیل ہوجاتے ہیں ذہین کے پردے پر چند دھندلے دھندلے سے منظر ابھر تے ہیں، ڈوب جاتے ہیں ۔ ہم نے ان برسوں میں پایا کچھ نہیں کھویا بہت ہمیں اچھی طرح یاد ہے سل اول تو اس تذبذب میں گذر گیا کہ کیا پڑھیں ۔ کیسے پڑھیں شام کا وقت یہ سوچ کر ٹال جاتے کہ رات جم کر پڑھیں گے ۔مگر رات شکم سیر ہوتے ہی ارادہ ملتوی ،شکم سیر ی اور پڑھائی ریلوے پٹری پر کب چلے بیل گاڑی ، لمبی تان کر سوجاتے اس ارادت سے کہ علی الصبح جاگ جائیں گے تو ساری کسر پوری کرلیں گے مگر وہ سبح کبھی نہیں آئی البتہ کئی بار یہ خیال ضرور آیا ہم گریجویٹ نہیں ہوتے یا پڑھے لکھے ہونے سے رہ جاتے تو کیا ہوتا ۔
ع ڈبویا ہے مجھ کو پڑھنے نے نہ پڑھتا میں تو کیا ہوتا 

درس قرآن از:حافظ حفیظ الرحمن اعظمی عمری


درس قرآن 
از:حافظ حفیظ الرحمن اعظمی عمری
(اساتذہ جامعہ کے تربیتی اجتماع میں ۱۴/مارش کو بعد نماز فجر مولانا حافظ حفیظ الرحمن اعظمی مدنی نے درس قرآن دیا تھا ۔ جو موجودہ حالات کے پس منظر میں بڑا ہی فکر انگیز اور سبق آموز تھا ۔ آج کے مظلوم مسلمانوں کی بعض غلط فہمیوں کا ذکر کرتے ہوئے دین و ایمان کے حقیقی تقاضوں کو واضح کیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ راستہ سخت صبر آزما بھی ہے اور ایک طرح کی قربان گاہ بھی ،سچ تو یہ ہے کہ ؂
یہ شہادت گہہ الفت میں میں قدم رکھنا ہے 
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
لیکن ایک مومن صادق کا انجام بہر حال بے حد روشن اور تابناک ہوتا ہے ۔ح۔۱)
’’یا ایھاالذین اٰمنو اذکروانعمۃ اللہ علیکم اذجا ء تکم جنود فارسلنا علیھم ریحاوجنودا لم تروھا ط و کان اللہ بما تعملون بصیراً اذجاء وکم من فوقکم ومن اسفل منکمواذ زاغت الابصار و بلغت القلوب الحناجروتظنون باللہ الظنوناط ھنالک ابتلی المومنون وزلزلو ازلزالا شدیداً۔(الاحذاب۹تا۱۱)‘‘
ترجمہ:اے ایمان والواللہ کا انعام اپنے اوپر یاد کرو جب تم پر بہت سے لشکر چڑھ آئے پھر ہم نے ان پر ایک آندھی بھیجی اور ایسی فوج بھیجی جو تم کو دکھائی نہ دیتی تھی اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھتے تھے ،جبکہ وہ لوگ تم پر آچڑھے تھے اوپر کی طرف سے بھی اور نیچے کی طرف سے بھی جب کہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے اور تم لوگ اللہ کے ساتھ طرح طرح سے گمان کررہے تھے اس موقع پر مسلمانوں کا امتحان لیا گیا اور سخت زلزلہ میں ڈالے گئے ۔
یہ سورۂ احزاب کی کچھ آیتیں ہیں اور یہ اہل علم اور علمائے دین کی مجلس ہے اور اس اجلاس کا مقصد چونکہ تذکیر ہے تو میں بجائے اس کے کہ آیت کے علمی نکات بیان کروں اس میں تذکیر کا جو پہلو ہے صرف اسے نمایاں کرنے کی کوشش کروں گا ۔ انشاء اللہ تعالیٰ
آج ہر پڑھے لکھے مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی وہ تمام باتیں یاد ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دینے کے سلسلہ میں بطور وعدہ کئے ہیں اور ہر مسلمان شاکی ہیکہ اللہ نے محض وعدے کئے ہیں کہ مسلمان کو وہ دوں گا لیکن ملتا کچھ بھی نہیں ہے ۔ مسلمان کو یہ شکوہ تو ہے ، لیکن وہ اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ اللہ نے یہ سب چیزیں کب دینے کا وعدہ کیا ہے اور اس کے لئے کونسا وقت مقرر کیا ہے اور یہ سب وعدے حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کو کیا کیا قربانیاں دینی ہیں ۔ اس بات کو وہ بھول جاتے ہیں ۔
سورۂ احزاب کی یہ جوآیتیں پڑھی گئیں وہ ایسی ہی قربانیوں کے واقعات کو یاد دلاتی ہیں غزوات تو بہت ہیں ۔سیرت کی کتابوں میں ہم پڑھتے ہیں اور حدیث میں بھی ہم پڑھتے ہیں ۔ خود قرآن شریف کے اندر ہم دیکھتے ہیں ۔ غزوۂ بدر،غزوۂ احد، غزوۂ احزاب، غزوۂ حنین ، صلح حدیبیہ ، فتح مکہ ، ان سب کے واقعات تفصیل کے ساتھ بھی اور کہیں اشارہ کے اندر موجود ہیں لیکن یہ جو آیتیں پڑھی گئی ہیں سورہ احزاب کی ، ان میں غزوہ احزاب کی بڑی تفصیل ہے اور ان کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح کھینچا ہے اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ بار باردہرایا جائے گا ، کیوں کہ احزاب مختلف گروہ ،روئے زمین پر جتنی بھی قومیں تھیں اور جتنے بھی مذاہب تھے یہ سب اسلام کے خلاف صف آرا ہوگئے تو آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایسی ہی مناظر ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں ’’الکفرملۃ واحدۃ ‘‘ کے تحت جبکہ اسلام کے خلاف کوئی بھی باتہوتی ہے ، ساری دنیا متحد ہوجاتی ہے ،کوئی سازش کے اندر شریک رہتا ہے ۔ کوئی مقابلہ کے اندر شریک رہتا ہے ، کوئی منصوبہ بندی کے اندر شریک رہتا ہے غرض ہر ایک کا تعاون اس کے اندر شامل ہوتا ہے ۔ ایسا ہی ایک واقعہ غزو�ۂ احزاب کا ہے ۔ قرآن کے الفاظ سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے ۔پوری زمین تنگ ہوگئی تھی مسلمانوں کے لئے ، آسمان دشمن ،زمین دشمن ،زمین پر رہنے والا ہر شخص دشمن اور سب کی ایک خواہش اور ایک ہی کوشش کہ کس طرح ان مسلمانوں کو نیست ونابود کردیا جائے اس لئے وہ سب پورے منصوبہ کے ساتھ گھیر رہے تھے ۔ مسلمانوں کو ’’اذجاء واکم من فوقکم ومن اسفل منکم واذزاغت الابصار و بلغت القلوب الحناجر و تظنون باللہ الظنونا‘‘ یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ اس نے انتہائی مختصر الفاظ میں اس وقت کی جو صورت حال تھی اس کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر طرف سے دشمن ہی دشمن ،آگے سے ، پیچھے سے ،اوپر سے ، نیچے سے اور جب دشمنوں پر تمہاری نظر پڑی ،تمہاری نگاہیں ٹھہری رہ گئیں ۔ ’’اذراغت الابصار وبلغت القلوب الحناجر‘‘ اور کلیجے منہ کو آگئے ’’وتظنون باللہ الظنونا‘‘ کمزور ایمان والوں کا عقیدہ ڈگمگانے لگا اور اللہ سے بد گمان ہونے والے بد گمان ہوگئے اور تھا بھی ایسا ہی موقعہ ’’ھنالک ابتلیالمومنون‘‘ ایسی آزمائش کہ ہلا کر رکھ دئے گئے ’’زلزلو اذلاذالا شدیدا‘‘ اور کتنے ہی کمزور عقیدے کے لوگوں کی زبان سے یہ نکل آیا ’’ماوعدنا اللہ ورسولہ الاغرورا‘‘ نعوذباللہ اللہ نے ہمیں دھوکہ دیا ۔ رسولؐ نے ہمیں دھوکہ دیا اور بری طرح لاکے ہمیں پھنسا دیا ۔ اس قسم کے الفاظ ان کی زبانوں سے نکل گئے ،آپ اندازہ لگایئے کیسا منظر ہوگا ۔دشمن ہر طرف سے اور اتنی تعداد میں کہ مقابلہ نا ممکن ہوگیا ۔ نبی کریم ؐ نے اللہ کے حکم کے مطابق ’’وشاورھم فی الامر‘‘ وامرھم شوری بینھم‘‘ صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا تو آپ ؐ کے جانثار صحابہ میں حضرت سلمان فارسیؓ جن کی عمر بھی زیادہ تھی ،تجربہ بھی زیادہ تھا ۔ مشاہدہ بھی طویل تھا ۔ انہوں نے آپ کو یہ مشورہ دیا ’’جب دشمن کی تعداد اتنی زیادہ ہے اور وہ ہر طرف سے آرہا ہے تو بچاؤ کا ایک ہی راستہ ہے کہ مدینہ کے اطراف خندق کھودی جائے اور دشمن کو روک دیا جائے ۔ خندق کے اس پار سلمان فارسیؓ ایک تجربہ کار صحابی تھے ، بہت دور سے آئے تھے ۔بہت سے مذاہب کا انہوں نے مطالعہ کیا ، اور اس کے بعد انہیں چین اور سکون ملا تو اسلام کے سائے میں آپ اپنے کو پردیسی نہ محسوس کریں ۔ اس لئے نبی کریمؐ نے فرمایا ہم میں سے ، ہمارے خاندان اور ہمارے گھر والوں میں سے ہیں ۔ اب خندق کھودنے کا کام شروع ہوا ۔ مدینے کے اطراف دو پہاڑوں کے بیچ میں ، خندق کھود نے کا کام جاری ہے۔ دن رات کام ہورہا ہے ، لوگ اپنی روز مرہ کی مزدوری اور محنت کو چھوڑ چکے ہیں ۔ حالاں کہ انہیں غلہ ان کی مزدوری اور محنت سے ملا کرتا تھا ۔ اب سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے دن رات وہ مصروف ہیں ۔ جب وہ کام پہ نہیں جائیں گے تو انہیں کھانا بھی نہیں مل سکے گا ۔ بھوکے ہیں ،پیاسے ہیں ، تکلیف اور پریشانی کے اندر مبتلا ہیں لیکن وہ اس کام میں مصروف ہیں ، بھوک کی شدت کا حال سیرت کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے ،روایت اور تفسیروں کے اندر بھی موجود ہے اور جب بھوک ناقابل برداشت ہوگئی تو کچھ لوگ نبی کریم ؐ کے پاس پہنچے اور اپنے پیٹ دکھائے کہا کہ بھوک کی شدت کی وجہ سے اٹھا بیٹھا نہیں جاتا ، جھکنا مشکل ہوگیا ہے ۔دیکھئے ہم اپنے پیٹ پر پتھر باندھ رکھے ہیں ، سب کو دیکھا نبی کریم ؐ نے ،اس کے بعد آپ ؐ نے جواب زبانی دینے کے بجائے اپنے شکم مبارک سے چادر ہٹائی۔ صحابہؓ نے دیکھا کہ آپ کے شکم مبار پر دو پتھر بندھے ہوئے ہیں ۔ اب کسی کو کچھ کہنے سننے کی مجال نہیں تھی ، سب واپس ہوگئے ۔ نبی کریم ؐ انہیں اس دنیا سے دے بھی کیا سکتے تھے ۔ آپ ؐ نے ان کی حالت زار کو دیکھ کر فرمایا ’’اللھم لاعیش الاٰخرۃ۔فاغفرالانصار والمھاجرہ۔ یہ لوگ ہیں جنہوں نے سب کچھ قربان کر کے دین کو اختیار کیا ۔ اس دنیا میں انہیں کیا آرام ملے گا بس ان لوگوں کو تو آخرت ہی میں آرام مل سکتا ہے وہیں چین و سکون سے رہ سکتے ہیں ۔فاغفرالانصاروالمھاجرہ۔اے پروردگار ان تمام مہاجرین اور ان تمام انصار کو معاف فرما اور انہیں جنت نصیب فرماتا کہ کم سے کم وہاں عیش و آرام سے رہیں اس دنیا سے یہ لوگ کچھ لینے کے لئے نہیں آئے ہیں بلکہ دینے کے لئے آئے ہیں ان کی ساری زندگی قربانی سے عبارت ہے ۔ ان لوگوں نے نہ صرف اپنا پرانا دین چھوڑا بلکہ اپنا وطن بھی چھوڑا ،گھر بار بھی چھوڑا ،اپنے کاروبار بھی چھوڑے کتنے لوگ تھے جو اپنے اہل و عیال کو بھی چھوڑ دئے ۔
یہ صحیح ہے کہ ابتدائی دور میں مشرف بہ اسلام ہونیوالے لوگوں میں سے ایک بڑی تعداد غریبوں کی تھی ، مسکینوں کی تھی لیکن سبھی ایسے نہیں تھے ۔ کچھ ایسے بھی تھے جو اپنے طور پر بڑے خوشحال تھے جن کے پاس دنیا کی بہت سی نعمتیں تھیں ، لذتیں تھیں ، عیش و ؤرام کا ہر سامان موجود تھا ۔ حضرت صہیب رومیؓ کا واقعہ تو آپ سنتے ہی ہیں ، ایک بڑے تاجر تھے ۔ لیکن ہجرت کے وقت جب جانے لگے تو ان کا مال تجارت اور ان کی جمع پونجی سب کفار نے چھین لی اور اپنا فرمان سنا دیا کہ تم کو جانا ہوتو تنہا جاؤ ۔ ان چیزوں کو لے کر تم نہیں جاسکتے ۔ پر سب کچھ انہوں نے چھوڑ دیا ۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک شخصیت حضرت مصعب بن عمیرؓ کی تھی یہ بھی بڑے خوشحال ،خوش لباس ،خوش پوشاک تھے ہمیشہ عطر کی خوشبو میں بسے رہتے تھے ۔روایتوں میں آتا ہے کہ جس گلی سے گزرتے گھر کی عورتیں جان لیتیں کہ مصعب بن عمیرؓ جارہے ہیں ، اسلام کو سینے سے لگایا تو گھر والوں نے ان کو ہر نعمت سے محروم کردیا دولت سے ، نعمت سے ، ہر چیز سے محروم کردیا ۔ اب ساری پرانیشان و شوکت رخصت ہوچکی ہے لیکن علم کے اندر ان کا اپنا ایک مقام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب مدینہ میں اسلام پھیلنے لگا تو ان کو اسلام سکھانے کے لئے نبی کریم ؐ نے مدینہ بھیجا ،شکل و شباہت میں بھی یہ نبی کریم ؐ سے قریب تر تھے ۔ جنگ احد کے موقع پر مسلمانوں کا جھنڈا انھیں کے ہاتھوں میں تھا ، اور یہ شہید ہوئے تو مشہور ایسا ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و لم شہید ہوگئے ۔ تدفین کا جب موقع آیا تو ان کے کفن کے لئے بھی کچھ نہیں تھا ۔ ایسی شخصیت جو مکہ کے اندر خوشحال اور خوش پوشاک کی حیثیت سے مشہور تھی ۔ ان کی تدفین کا وقت آتا ہے تو ان کے دفنا نے کے لئے خاص کفن نہیں بلکہ ان کے جسم پرجو ایک پرانی چادر یا کمبل رہتی تھی وہی ہے اب کفن کے لئے۷ ، وہی مختصر پرانی چادر ہے جو ان کے سراپا سے چھوٹی پڑتی ہے ۔ سر کی طرف کھینچتے ہیں تو پیر نظر آتا ہے اور پیر کی طرف کھینچتے ہیں تو سر نظر آتا ہے ۔ صحابہ کرامؓ نے نبی کریم ؐ کی طرف دیکھا تو آپ ؐ نے فرمایا چادر سے سر کو ڈھانک دو اور پیر پر گھانس ڈالدو ۔ ؂
اسی کی راہ میں سب کچھ لٹا دیا ہم نے 
یہاں تو وہ بھی نہیں جو کفن کے کام آئے 
معلوم ہوا کہ سبھی لوگ مسکین اور غریب نہیں تھے ۔ بڑے خوشحال لوگ بھی تھے ۔حق جب ان پر واضح ہوا تو ان کے پاس جو کچھ تھا سب قربان کردیا اور قربانی کر کے اسلام کے آغوش میں آئے ۔ تو نبی کریمؐ فرماتے ہیں ۔ ’اللھم لاعیش الاعیش الاخرۃ‘‘کہ یہ لوگ آخرت کے آام ہی کے لئے آئے ہیں ۔ اے اللہ تو انہیں معاف فرما، ان کی لغزشوں کو معاف فرما اور آخرت کا جو انعام ہے کم سے کم وہ انعام تو انہیں عطا فرما ، چونکہ اس دنیا کے اندر نبی کریم ؐ انہیں سرف ایک عقیدہ دینے کے لئے آئے تھے ۔ایسا عقیدہ جو انہیں سر بلند کرسکتا تھا کیوں کہ انسان اس عقیدے کے بغیر بہت ذلیل تھے ۔ اللہ نے انسان کو احسن تقویم میں بنا کر سب سے اوپر رکھا ہے یہ سر غیر اللہ کے سامنے نہیں جھکنا چاہئے ۔ یہ جھکے گا تو صرف اسی خالق کے آگے جھکے گا ۔ یہی اسلام کی تعلیم ہے لیکن جب انسان اس تعلیم کو نہیں جانتا تھا ، نہیں سمجھتا تھا تو اس ’’سر‘‘ کی قدر و قیمت سے واقف نہیں تھا تو یہ سروہ ہر کنکر کے آگے جھکا تا تھا ، ہر پتھر کے آگے وہ اپنے سر کو جھکاتا تھا اور جتنی بھی چیزیں انہیں نفع پہونچا سکتی تھیں یا نقصان پہنچا سکتی ان تمام چیزوں کے آگے وہ اپنے سر کو جھکا تا تھا ، اس سر کی کوئی حقیقت نہیں تھی ’’لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم oثم رددنہ اسفل سافلین‘‘ اللہ تعالیٰ نے تو اس کے سراپا کو ایسا بنا یا کہ انسان کا سر کبھی نہ جھکے ۔ آپ دیکھئے دنیا کی اور مخلوق میں اور انسان کے اندر یہی فرق ہے ۔ دنیا کی اور مخلوق جب کھانا دیکھتی ہے ،روٹی دیکھتی ہے ،گھاس ،پانی دیکھتی ہے تو اس کا سر خود بخود جھک جاتا ہے ۔ ان تمام چیزوں کو اٹھانے اور کھانے کے لئے ۔ لیکن انسان کی طرف کھانا پانی سب اٹھ کے آتے ہیں ۔ اس کا سر کھانے کے لئے نہیں جھکے گا ، اس کا سر روٹی کے لئے نہیں جھکے گا ،’’لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم‘‘ لیکن یہی انسان مادہ پرستی کے آگے جھک جائے گا روحانیت سے عاری ہوکر مادیت میں لگ جائے گا ، تو اب اسی روٹی کی خاطر حلال حرام میں کسی چیز کی تمیز اس کے اندر نہیں رہے گی ۔ یہ جتنے بھی ناجائز طریقے ہیں دولت کے حصول کے ،رشوت ،چوری ، دھوکہ ، فریب ان تمام چیزوں کو اختیار کرے گا ۔ ’’ثم رددنہ اسفل سافلین‘‘صحابہ کی آزمائشیں آپ ؐ کی آنکھوں کے سامنے ہوتی تھیں اور آپ کو خیالا بھی شاید دل میں گزر تا ہوگا کہ یہ لوگ آرام ، راحت اور چین کے ساتھ رہتے تھے لیکن جب میں نے ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی اور انہوں نے اسے قبول کیا ۔ یہ ساری مصیبتیں اس کے بعد ہی ان پر ٹوٹ پڑیں ۔ آپ ؐ کی آنکھوں کے سامنے یہ سارے مناظر گزرتے تھے ۔ کمزور عورتیں تھیں ان کے مالک اور ان کے آقا بہت ہی شرمناک ایذائیں دیا کرتے تھے ۔ برچھیاں چبھویا کرتے تھے ۔ حضرت بلالؓ کے ساتھ جو ہوتا تھا ،حضرت سمیہؓ اور حضرت یاسرؓ، کے ساتھ جو ہوا یہ سب نبی کریم ؐ دیکھتے اور آپ سوائے اس کے کہ یہ فرماتے ’’صبوایا آل یا سوموعدکم الجنۃ‘‘ کہ میں نے جو عقیدہ تمہیں دیا ہے ۔ جس عقیدہ کو تم نے قبول کیا ہے اس عقیدہ کے ذریعہ تم کو آخرت میں جنت ملے گی ۔دنیا والے اس عقیدہ کی قدر و قیمت سے واقف نہیں ہیں ۔ حالاں کہ یہ انسان کو اس کا صحیح مقام عطا کرتا ہے ، اور اسے سر بلند کرتا ہے ، لیکن پھر بھی دنیا کے لوگ جس چیز کو نہیں جانتے ،وہ اس کے دشمن ہوتے ہیں ، اسے ستاتے اور پریشان کرتے ہیں ، تم صبر کے ساتھ ، ثابت قدمی کے ساتھ رہو ، ’’موعد کم الجنۃ‘‘ اللہ تعالیٰ تمہیں جنت میں بہت اونچا اور بہت بڑا مقام عطا فرمائے گا ۔
غرض یہ صحابہ کرامؓ جنہوں نے اسلام کو گلے لگا لیا ، اس قرآن کی تعلیم کو قبول کیا اور اس قرآن کے مطابق اپنی زندگیوں کو شروع کیا ۔ ۱۵سال تک ان کی زندگیوں میں کیا گزری مت پوچھئے ۔پندرہ سال کی صبر آزما زندگی کے بعد سورۃ الحج میں انہیں اجازت دی گئی ’’اذن للذین یقاتلو ن بانھم ظلمواوان اللہ علٰی نصرھم لقدیر الذین اخرجوامن دیا ھم بغیر حق الاان یقولو اربنا اللہ ‘‘ کہا گیا کہ ۱۵ سال تک جو حق کی خاطر ظلم سہتے رہے اور ظلم سہتے سہتے کتنے لوگوں نے اپنی جانیں دے دیں لیکن پھر بھی ان کے پائے چبات میں لغزش نہیں ہوئی ۔اب ایسے تمام لوگوں کو اللہ کی طرف سے اجازت ہے کہ ظالموں سے اپنے ظلم کا بدلہ لے سکتے ہیں ۔’’ان اللہ علیٰ نصیر ھم لقدیر‘‘ اللہ تعالیٰ ان کی مدد پر پوری طرح قدرت رکھتا ہے ۔ یہ قدرت تو اللہ کو پہلے ہی دن سے تھی لیکن اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ مسلمان کوشش کے ذریعہ ،ہوش کے ذریعہ منصوبہ بندی کے ذریعہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں ۔ ان کا ایمان اندھا ایمان نہیں ہونا چاہئے ۔ بلکہ ان کا ایمان ٹھوس بنیادوں پر ہونا چاہئے تاکہ اسے کوئی چیز گمراہ نہ کرسکے ، کوئی چیز اسے ہلا نہ سکے پھر فرمایا یہ جو ظلم ان پر روارکھے گئے تو ان کا جرم کیا تھا ۔ انہوں نے کوئی قتل نہیں کیا ، انہوں نے ڈاکے نہیں ڈالے ، انہوں نے زمین میں فساد نہیں پھیلایا اگر ان کا جرم تھا تو صرف ایک ہی جرم تھا ۔ وہ یہ کہ یہ لوت اپنے رب کو پہچان گئے ۔’’الذین اخرجوامن دیار ھم الاان یقو لو اربنا اللہ‘‘ انہوں نے یہ کہا ہمارا پیدا کرنے والا اللہ ہے ۔ ان کے صرف یہ کہنے پر ساری قوم دشمن ہوگئی تھی اور انہیں اس قدر پریشان کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔ ہر جنگ اپنی نوعیت کے اندر عجیب و غریب تھی ۔’’جنگ بدر‘‘ اس جنگ کو تورشتوں کی جنگ کہا جاتا ہے ۔ کیوں کہ دونوں طرف تو ایک ہی خاندان کے افراد تھے ۔ ایک طرف باپ ہوتا تو دوسری طرف بیٹا ہوتا ۔ ایک طرف ماموں ہوتا تو دوسری طرف بھانجا ہوتا ، ایک طرف چچا ہوتا تو دوسری طرف بھتیجے ہوتے ، اییسی تھی وہ جنگ لیکن انہوں نے اسلام کی خاطر اس کو قبول کیا اور رشتوں کو قربان کرنے کے لئے تیار ہوگئے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’لاتجرقوما یو منونباللہ و الیوم الاخریوادون من حاداللہ ورسولہ ولو کانو ا اٰباء ھم اوابنا ءھم اواخوانھم او عشیر تھم ‘‘ کہ وہ یہ لوگ ہیں کہ اللہ کے رسول کی خاطر دنیا کے کسی رشتے کو خاطر میں لانے والے نہیں ہیں ۔ چاہے وہ رشتہکیسا ہی عزیز اور کیسا ہی قریب کا کیوں نہ ہو ۔ اس جنگ کو قرآن نے’’ یوم الفرقان‘‘کہا۔
دوسری جنگ ’’جنگ احد ‘‘ ہے اس جنگ میں بنی کریم ؐ کے حکم کے ذرا سی خلاف ورزی سے جیتی ہوئی بازی ہار میں بدل جاتی ہے ۔ اس میں خود بہت بڑا سبق ہے کہ نبی ؐ کے احکام چاہے وہ سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں ہم ان کی گہرائی میں گئے بغیر عمل کریں گے کیوں کہ جنگ احد میں آپ نے تیر اندازوں کو ایک پہاڑ پر جمے رہنے کا حکم فرمایا اور بتادیا کہ فتح ہوکہ شکست آپ لوگ یہیں رہیں گے ’’جبل الرفاۃ ‘‘ سے انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ فتح مکمل ہوچکی ہے کفار کی فوج دوڑ رہی ہے تو وہ اپنے مقام سے اتر آئے پھر کیا تھا ،جیتی ہوئی بازی شکست میں بدل گئی کفار واپس لوٹ کر آئے اس کے بعد پانسہ الٹ گیا ۔ کیا کیا تکلیفیں اور اذیتیں مسلمانوں کو برداشت کرنی پڑیں ، نبی کریم ؐ کے دندان مبارک شہید ہوگئے ۔اور آپ ؐ جو خود پہنے ہوئے تھے اس کے حلقے آپ کی کنپٹیوں میں داخل ہوگئے ۔ آپ ایک گہرے گڈھے گر پڑے ،خون تھا کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا یہ ساری مصیبتیں نبی کریم ؐ کی ذراسی نا فرمانی کی وجہ سے پیش آئیں ۔ ان کی سمجھ میں بات آگئی کہ ہمارا کام ختم ہوگیا ۔ ہمیں جو حکم دیا گیا تھا وہ پورا ہوگیا ، حالانکہ وہ حکم پورا نہیں ہوا تھا ، ذرا سی نافرمانی کی وجہ سے پوری امت کو اور پوری قوم کو کیسی شکست ہوتی ہے اور کیسی ذات ہوتی ہے ، اس کے اندر یہ نکتہ موجود ہے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی کس قدر خلاف و رزیاں ہم سے ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہم اپنے آپ کو نہیں دیکھتے ہیں ، اپنے اعمال کو ہم نہیں دیکھتے ہیں م اپنے عقائد کو ہم نہیں دیکھتے ہیں ، اپنی تاریخ کو ہم نہیں دیکھتے ہیں ، اور اللہ تعالیٰ نے ماضی میں جن قوموں کو نوازا اور بام عروج تک پہنچایا وہ سب کتنی قربانیوں کے بعد ہوا ، یہ سب ہم نہیں دیکھتے ہیں ، ہم اپنی کسی چیز کا جائزہ نہیں لیتے ہیں بلکہ ہر مسلمان آج یہی کہتا ہے کہ اللہ ہمارا ہے ، ہم اللہ کے ہیں ، لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ ہم سے صرف وعدہ کرتا ہے اور دیتا کیوں نہیں ؟ مسلمانو صرف یہی سوال کرتا ہے گویا ہر مسلمان کو آج اللہ تعالیٰ سے یہ شکوہ ہے اور یہ شکایت ہے کہ ہم اللہ کے ماننے والے ہیں اس کے باوجود ہم کیوں رسوا ہیں ؟
’’أحسب الناس ان یترکواان یقولوااٰمنا وھم لایفتنون ولقد فتنا الذین من قبلھم‘‘ یہ سب چیزیں ہم پڑھتے ہیں اور پڑھا تے ہیں اور جانتے بھی ہیں ۔دیکھئے صحابہؓ پورے پندرہ سال تک ظلم سہتے رہے اس راہ میں کتنے لوگ تھے جو اپنی عزیز جانیں گنوابیٹھے ، کیا کیا ان پر گزرا ، ۱۵ سال کوئی معمولی مدت نہیں ہوتی ، اس کے بعد انہیں اجازت دی گئی ۔ اب تاریخ اوراق الٹتی ہے اور ایک نئی تاریخ رقم ہوتی ہے ۔مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے وہ سب کچھ دیا جس کی انہوں نے توقع بھی نہیں کی تھی اب وہ دنیا میں لینے والے نہیں رہے ۔ صرف عقیدہ ہی نہیں صرف ایمان ہی نہیں ،ساری چیزیں ،اخلاق ، تمدن ، تہذیب اور سارے لوگوں کو زندگی کی بھیک دینے والے بھی بن گئے ، جولوگ ان کی زندگیوں کے مالک بن کر انہیں تاتے تھے ، انہیں استعمال کرتے تھے ، جیسے چاہتے تھے ،جہاں چاہتے تھے ،نکال دیتے تھے ، جس چیز سے چاہتے تھے محروم کردیتے تھے ، آخرانہوں نے کیا کچھ نہیں کیا ۔ ان کی مرضی سے ان کو کعبۃ اللہ میں عبادت نہیں کرنے دیتے تھے ، جو سب کے لئے عام تھا ۔ نہ ان کو اعتکاف کی اجازت دی جاتی تھی ، نہ اذان کی آواز بلند کرنے کی اجازت دی جاتی تھی ،اور نہ نماز پڑھنے کی اجازت دی جاتی تھی ۔ لیکن ۲۱ سال کے اندر کا یا ایسی پلٹتی ہے ، تاریخ ایسی بدلتی ہے کہ فتح مکہ کے موقعہ پر وہ سب لوگ کہتے ہیں آج ہمارے ساتھ کچھ بھی سلوک کیا جائے ، ریزہ ریزہ کردیا جائے ، ہماری بوٹی بوٹی نوچ کر پھینک دی جائے ، ہمارا خون بہادیا جائے ۔سب کا حق آپ کو پہنچتا ہے کیوں کہ ہم نے آپ لوگوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’اذھبو اانتم الطلقاء لاتثریب علیکم الیوم یغفراللہ لکم وھو ارحم الراحمینo‘‘
ہماری پوری تاریخ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ سب سے پہلے ہمیں قربانیوں کے لئے تیار ہونا ہوگا ۔اور جب ہم اللہ کی راہ میں قربانیاں دیں گے اور یہی اللہ کا قانون بھی ہے ۔’’ان تنصر واللہ ینصر کم ویثبت اقدامکم‘‘آپ ہر ایک کی زندگی میں یہی دیکھیں گے ۔ حضرت ابراہیم ؑ کی پوری زندگی قربانی سے عبارت ہے ۔ حکم ہورہا ہے ماں باپ کو چھوڑ دیجئے ۔ ،گھر چھوڑدیجئے ،بیوی کو چھوڑ دیجئے ۔بچے کو چھوڑ دیجئے ، بچے کو ذبح کردیجئے اور ہر امتحان میں کامیاب ، ’’واذابتلیٰابراہیمربہ بکلمات فاتمھن‘‘اس کے بعد اعلان ہوتا ہے ’’قال انی جاعلک للناس اماما‘‘اب آپ اس مقام اور اس مرتبہ کو پہنچ گئے ۔ خوددنیا کا بھی یہی دستور ہے کہ آدمی پڑھتا ہے ، امتحان دیتا ہے ،امتحان لکھتا ہے اس کے بعد پڑھانے والا بنتا ہے ت اب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ سے یہی فرمایا یہ کرو یہ کرو اس کے بعد جب ان کو امام بنادیا گیا اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ حضرت ابراہیم ؑ سے اللہ تعالیٰ کچھ نہیں مانگتا بلکہ اب حضرت ابراہیم ؑ مانگتے ہیں اللہ تعالیٰ سے ، مجھے یہ دے ، مجھے وہ دے ، مجھے یہ بنا ، پہلی ہی بار جب آپ سے کہا گیا’’ انی جاعلک للناس اماما‘‘آپ نے فرمایا ’’قال ومن ذریتی‘‘میرے خاندان والوں کو میرے بعد کعبۃ اللہ کا متولی بنا ، پھر دوسری فرمائش ملاحظہ فرمایئے کہ مکہ مکرمہ میں آپ اللہ کا گھر بنا کر کہتے ہیں کہ دنیا کے سارے لوگوں کے دلوں کو اس سے جوڑ دے کہ وہ یہاں کھینچ کر آئیں اور آتے رہیں ۔ کیسی عجیب وغریب دعا ہے اور کیسی حیرت انگیز درخواست ہے لیکن اللہ تعالیٰ اسے بھی قبول کرتا ہے اور آج آپ ان تمام حقیقتوں کو بچشم خود دیکھ سکتے ہیں ،یہی طریقہ ہے اللہ کی مدد حاصل کرنے کا ۔اور اللہ کے جو وعدے ہیں وہ وسچے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا یہی قانون ہے اور اللہ کا قانون دنیا کے کسی دور میں ،دنیا کے کسی ملک میں نہ بدلاہے ، بہ بدلے گا ، آج ہمیں اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہے کہ سب سے پہلے ہم نیک بنیں گے ، پاکیزہ بنیں گے ، اپنے عقائد کی اصلاح کریں گے ، اپنے اعمال اور اپنے اخلاق کو درست کریں گے ،اور اللہ کے جو بھی احکام ہیں ان احکام کے مطابق ہم اللہ کی راہ میں جان کی ، وقت کی ، مال کی ، فکر کی اور محنت کی قربانی دیتے جائیں گے۔ نتیجہ سے بے پرواہ ہوکر دیتے جائیں گے ،لیکن چونکہ وہ خیر الرازقین ہے ،ارحم الرحمین ہے اور سب سے بڑا انعام دینے والا ہے تو وہ اس دنیا کے اندر بھی دے گا ۔ جبکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو اتنا دیا اتنا دیا کہ اکثر صحابہ کرام جو ایک ایک لقمہ کے لئے محتاج تھے ، ان کی سوانح حیات کتابوں کے اندر موجود ہے جن میں بتایا جاتا ہے کہ کس صحابہ کے پاس کتنی زمین تھی ، کتنا سونا تھا ، کتنی لونڈیاں تھیں ، کتنے نوکر چاکر تھے ، اس موضوع کی مستند کتابیں لائبریریوں میں موجود ہیں ۔ اللہ دنیا میں بھی اس کے ماننے والوں کو بھر پور دیتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ پہلے ہمیں اس قربانی کی راہ پر چلنا ہوگا جس پر چل کر ہمارے اسلاف نے وہ تمام چیزیں حاصل کیں ۔
میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں سچا اور پکا مسلمان بنائے اور ہمیں بھی اسلاف کی راہ پر گامزن فرمائے۔آمین۔۔۔
***** 

نورہدایت از: حافظ حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنی


نورہدایت
از: حافظ حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنی
’’وعبا د الرحمن الذین یمشون علی الارض ھو ناً و اذا خاطبھم الجاھلون قالو اسلما۔والذین یبیتون لربھم سجداً وقیا ماً۔ والذین یقولونربنااصرف عناعذاب جہنم ان عذابھاکان غراما۔ انھاسائتمستقراً ومقاما۔والذین اذاانفقوالم یسرفواولم یقترواوکان بین ذالک قواما ۔والذین لایدعون مع اللہ الٰھاً اٰخرولا یقتلون النفس التی حرم اللہالا بالحق ولایزنون ومن یفعل ذالک یلق اثاما۵‘‘
ترجمہ: اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں اور جن ان سے جہالت والے لوگ بات کرتے ہیں تو وہ رفع شرکی بات کہتے ہیں اور جو راتوں کو اپنے رب کے آگے سجدے اور قیام میں لگے رہتے ہیں اور جو دعائیں مانگتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم سے جہنم کے عذاب کو دور رکھئے کیوں کہ اس کا عذاب پوری تباہی ہے بے شک وہ جہنم برا ٹھکانا اور برا مقام ہے اور وہ جب خرچ کرنے لگتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ کرنا ان کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے اور جو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور معبود کی پرستش نہیں کرتے اور جس شخص کو اللہ نے حرام فرمایا ہے اس کو قتل کرتے ہاں مگر حق پر اور زنا نہیں کرتے اور جو کوئی یہ کام کرے گا وہ گناہ میں جاپڑے گا ۔ 
سورۂ نور سے متصل سورہ فرقان ہے ۔ نور کے معنی روشنی کا تھا تو فرقان کے معنی ایسی کسوٹی کا ہے جس کے ذریعہ کھرے اور کھوٹے کی تمیز ، اسلام اور کفر کی تفریق ،حق و باطل کی معرفت سچ اور جھوٹ کی پرکھ ،اصلی اور نقلی کی پہچان ہر صاحب بصیرت کے لئے بڑی آسان ہوجاتی ہے ۔جنگ بدر کو انہی سب مناسبتوں کی وجہ سے ’’یوم الفرقان‘‘ کا نام دیا گیا کیوں کہ وہ بڑا فیصلہ کن معرکہ تھا جس میں کھرے کھوٹے کا بڑا سخت امتحان تھا ۔ سورۂ فرقان چھ رکوعات کی ایک مختصر سورت ہے توحید ورسالت کے بنیادی مضامین کے ساتھ اثبات قیامت کا عقلی اور نقلی دلائل کے ساتھ ایسے واضح الفاظ میں بیان ہے کہ آدمی ذرا ساکان دھرے تو قیامت کا قائل ہوئے بنا رہ نہیں سکتا ۔
سورت کے آخری رکوع میں قیامت کے دن حساب و کتاب میں کامیاب ہونے والوں کے کچھ اوصاف و کمالات کا تذکرہ ہے اور ان اوصاف و کمالات کے متصف لوگوں کو’’ عبادالرحمن‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیا گیا ہے چنانچہ انہی آیتوں سے درس قرآن کی ابتداء ہے ۔
اللہ تعالیٰ انسانوں کو کن اوصاف سے متصف دیکھنا پسند کرتا ہے ان کو نمبر وار ملا حظہ فرمایئے ۔
(۱)زمین پر عاجزی اور انکساری کے ساتھ زندگی بسر کریں ۔(۲)کبروتعلی کے جرائم کو ختم کرنے کے لئے اپنے آپ کو نام کام اور عقیدہ ہرایک میں اللہ کا بندہ اور غلام ثابت کریں ۔ (۳)نادانوں سے دوستی اور دشمنی کرنے کے بجائے دعاسلام تک ہی تعلقا ت رکھیں اور برائی کے خاتمے کے تدابیر سوچتے رہیں۔(۴) راتوں کا ایک حصہ نیند کی قربانی دے کر اور ریا ونمود سے بچا کر اللہ کے آگے ذکر و اذکار اور مناجات میں مصروف رہیں ۔ (۵)جہنم کی ہولناکی کا تصور کرتے ہوئے اس کے عذاب سے بچنے کی دعا کرتے رہیں ۔ (۶)عذاب الہٰی کا مکمل یقین اور اس کی سنگینی کا بھر پور تصور ان کے ذہنوں پر چھایا رہے ۔(۷)خرچ و اخراجات کے سلسلے میں بخل کی رذالت اور اسراف کی حماقت سے اپنے دامن کو بچا کر اعتدال اور توازن کی روش پر قائم رہیں ۔(۸)ہر قسم کے شرک سے اپنے معتقدات کی حفاظت کرتے ہوں (۹)ناحق قتل و خون ریزی کا کوئی ایک قطرہ خون بھی ان کے اپنے دامن کو داغدار نہ کرتا ہو۔(۱۰) زنا اور اس کے لوازمات و مبادیات اور محرکات سے اپنی پاک دامنی کو آلودہ نہ کرتے ہیں ۔
یہ جملہ دس باتیں ہیں جو فضائل ورذائل پر مشتمل ہیں ۔فضائل سے متعلق باتوں پر عمل اور ذائل سے متعلق عادات سے اجتناب ہی انسانوں کو عبادالرحمن کے لقب اور خطاب مشرف اور ممتاز کرتا ہے اور انہی اوصاف سے متصف اشخاص اللہ کے نزدیک اونچے مقام و مرتبے کے مستحق ثواب تو ہیں ہی لیکن خو د دنیا والوں کے پاس بھی ہر ملک میں اور ہر دور میں ایسی ہستیاں بلا شبہ قابل رشک اور لائق احترام تسلیم ہوں گی ۔ قرآن کی تعلیمات تو کسی ایک خاص طبقے کے افراد کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ عالمی پیغام ساری دنیائے انسانیت کی ہدایت ورہنمائی اور اس کی نیک نامی و کامیابی کے لئے ہے۔۔۔
*****

گھر جلدى آيا كيجئے



گھر جلدى آيا كيجئے

مرد جب تك شادى نہيں كرتا آزاد ہے _ چاہے گھر ديرسے آئے يا جلدى _ ليكن جب شادى كرلے تو اس كو اپنا پروگرام ضرورتبديل كرنا چاہئے اور جلدى گھر آنا چاہئے _

شوہر كو يہ بات مد نظر ركھنا چاہئے كہ اس كى بيوى صبح و شام تك گھر ميں زحمت اٹھاتى رہتى ہے _ گھر كے كام انجام دے كر ، كھانا پكاكر، كپڑے دھوكر، اور گھر كو صاف ستھرا كركے اب اپنے شوہر كى منتظر ہے كہ اس كا شوہر آئے تو دونوں ساتھ بيٹھ كرباتيں كريں _ او رانس و محبت كى لذت سے محفوظ ہوں _ بچے بھى باپ كے منتظر رہتے ہيں _ يہ چيز انسانيت اورانصاف سے

بعيد ہے كہ مرد رات كو سيرو تفريح كے لئے يا كسى دوست كے يہاں وقت گزارنے يا گپ لڑانے كے لئے چلا جائے اور بيچارى بيوى اور بچے اس كے انتظار ميں بيٹھے رہيں ؟

كيا شوہر كا فرض بس اتنا ہى ہے كہ بيوى كو غذا اور لباس فراہم كردے ؟ بيوى شريك زندگى ہوتى ہے نہ كہ بغير تنخواہ واجرت كے خادمہ _ وہ شوہر كے گھر اس لئے نہيں آتى ہے كہ شب و روز محنت مشقت كرے اور بدلے ميں ايك ٹكڑا روئي كھالے _ بلكہ يہ اميد لے كر آئي ہے كہ دونوں دائمى طور پر ايك دوسرے كے مونس و غمگسار اور ساتھى و ہمدرد بن كر زندگى گزار يں گے بعض مرد انسانيت اور جذبات و احساسات سے بالكل عارى ہوتے ہيں اور بالكل انصاف سے كام نہيں ليتے اپنى پاكدامن اور باعصمت بيوى اورمعصوم بچوں كو گھر ميں چھوڑديتے ہيں اور خود آدھى آدھى رات تك گھر سے باہر عياشى اورسير و تفريح ميں گزارديتے ہيں _

وہ روپيہ پيسہ جيے گھر ميں خرچ ہونا چاہئے _ گھر سے باہر تلف كرديتے ہيں _ در اصل ان پيچاروں نے ابھى تك حقيقى محبت و انس كى لذت كو درك نہيں كيا ہے كہ فضول اور بيہودہ عيش و عشرت كو تفريح سمجھتے ہيں _ انھيں ذرا بھى خيال نہيں آتا كہ اس طرز عمل سے وہ اپنى حيثيت و آبرو كو خاك ميں ملائے دے رہے ہيں اور لوگوں كے درميان ايك ہوس باز و آوارہ مشہور ہوجاتے ہيں

اپنى بھى مٹى پليد كرتے ہيں اور بيچارے بيوى بچوں كى بھى _ آخر كار تنگ آكر ان كى بيوياں عليحدگى اور طلاق كا مطالبہ كرديتى ہيں اور شادى شدہ زندگى كے تانے بانے بكھر جاتے ہيں _

عبرت كے لئے ذيل كے واقعات پر توجہ فرمايئے

ايك شخص جس نے اپنى كو طلاق دے دى تھى عدالت ميں كہا: شادى كے ابتدائي ايام ميں جوانى كے نشے ميں ہر شب اپنى بيوى كو گھر ميں تنہا چھوڑكر اپنے خراب دوستوں كے ساتھ سيروتفريح اور عيش و عشرت كى خاطر گھر سے باہر چلا جاتا اور صبح كے قريب واپس آتا _ ميرى بيوى نے ميرى ان حركتوں سے عاجز آكر مجھ سے طلاق لے لى _ ہمارے دس بچے تھے _ يہ طے ہو اكہ

مہينے ميں دو مرتبيہ ان كو ديكھوں گا _ كافى دن تك يہ سلسلہ چلتا رہا _ ليكن اب ايك مدت سے وہ مجھ سے مخفى ہوگئے ہيں اور ميں اپنے بچوں كو ديكھنے كے لئے بہت بے چين ہوں _ 

ايك عورت كہتى ہے _ تنہائي سے ميں بے حد عاجز آچكى ہوں _ ميرے شوہر كو ميرى اورميرى جان ليوا تنہائي كا ذرا بھى احساس نہيں ہوتا _ ہر روز آدھى رات تك گھر سے باہر سير وتفريح ميں وقت گزارتا ہے _ 

جناب محترم آپ بيوى بچوں والے ہيں اب آپ كو ہرگز يہ حق نہيں ہے كہ پہلے كى طرح آزادنہ گھومتے پھريں _ اپنے مستقبل اور اپنے خاندان كى فكر كيجئے _ اب آوراہ گردى اورعياشى سے دستبردار ہوجايئے اپنے نامناسب دوستوں سے دامن چھڑا ليجئے _ كام سے فارغ ہوكر سيدھے گھر آيا كيجئے اور اپنے بيوى بچوں كے ساتھ بيٹھٹے _ اور زندگى كا حقيقى لطف اٹھايئے فرض كيجئے آپ اچھے دوستوں كے درميان اٹھتے بيٹھے ہوں اور ان كى محفل ميں وقت گزارتے ہوں ليكن نصف شب تك گھر سے باہر رہنا كسى طرح مناسب نہيں _ آپ كے لئے يہ چيز ہرگز فائدہ بخش نہيں ہوگى بلكہ آپ كى زندگى كو متلاطم كردے گى

بنی اسرائیل کے گناہ گار نوجوان کی توبہ

بنی اسرائیل کے گناہ گار نوجوان کی توبہ

بنی اسرائیل میں ایک نوجوان تھا، بڑا نافرمان تھا شہر والوں نے اس کا بائیکاٹ کر دیا اس کو شہر سے نکال دیا۔ وہ ویرانے میں چلا گیا، وہاں کوئی آنے جانے والا نہیں تھا۔ حالات کی تنگی اس پر آُپڑھی۔ کھانے پینے کو کچھ نہ تھا اچانک بیمار ہو گیا۔ لیکن اس کی اکڑ نہ ٹوٹی۔۔وقت کے ساتھ ساتھ جب اُسے موت کے اثرات نظر آنے لگے تو اپنی اللہ سے مخاطب ہوکر بولا! اے میرے رب ساری عمر تیری نافرمانی میں کٹ گئی آج تک کوئی اچھا کام نہیں کیا۔ اے میرے رب اگر مجھے یہ بتا ہوتا کہ تیرے عذاب دینے سے تیری سلطنت میں اضافہ ہو جائے گی اور مجھے معاف کرنے سے تیری طاقت اور سلطنت میں کمی ہو جائے گی تو میں تجھ سے کبھی نہ مانگتا۔۔میں جانتا ہوں کے تیرے عذاب دینے یا نہ دینے سے تیرے ملک میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں ہوتی۔

۔۔اے میرے رب میرا آج کوئی سنگی ساتھی نہیں رہا، میرا آج تیرے سوا کوئی سہارا نہیں رہا۔سب ناتے رشتے ٹوٹ گئے۔ آج میرے جسم نے بھی میرا ساتھ چھوڑ دیا۔ تُو مجھے اکیلا نہ چھوڑ۔۔ تو مجھے معاف فرما دے۔۔اے میرے رب مجھے معاف فرما دے۔۔اتنے میں اُس شخص کی جان نکل گئی۔
موسی علیہ سلام پر وحی نازل ہوہی۔ـ کہ اے موسی! میرا ایک دوست فلاں جنگل میں مر گیا ہے اس کےغسل کا انتظام کرو۔اس کا جنازہ پڑو۔اور ہاں سب کو اعلان کردو اج جو شخص اس کا جنازہ پڑےکا اس کی بخشش کر دی جائے گی۔چناچہ موسی علیہ سلام نے اعلان کروایا، لوگ بھاگے ہوئے آئے تاکہ بخشش ہوجائے اور اس نیک شخص کا دیدار نصیب ہو۔۔۔ لوگوں نے دیکھا کہ یہ وہی شخص ہے جسے لوگوں نے شہر سے نکال دیا تھا۔وہ موسی سے کہنے لگے اے موسی یہ تو بہت گناہ گار شخص تھا اج تک اس نے اللہ کے اگے سر نہیں جکایا تھا اور نہ ہی کوئی اچھا کام کیا تھا۔۔ موسی علیہ سلام نے اللہ سے مخاطب ہو کر کہا۔ اے اللہ یہ تو گناہ گار شخص تھا ہماری نظر میں آخر اس میں ایسی کون سی بات تھی کے یہ تیرا دوست بن گیا!!

اللہ تعالی نے فرمایا ۔اے موسی میں نے اسی دیکھا کہ یہ زلیل ہو کر،فقیر ہو کر تنہاہی میں مر رہا ہے اج اس کا کوئی دوست احباب نہیں تھا۔کوئی اس کی پکار سُننے ولا نہیں تھا نہ ہی اس کی پگار کا جواب دینے والا۔۔ لیکن جب اس نے مجھے پکارا تو میری رحمت اور محبت کو جوش آیا۔ اج میں اس کی پکار نہ سُنتا اور اسے معاف نہ کرتا تو اور کون اس کو جواب دیتا؟ میری غیرت کو جوش آٰیا کے سب اسے چھوڑ چکے لیکن میں اپنے بندے کو کیسے چھوڑ سکتا تھا۔۔۔ مجھے میری عزت کی قسم! اگر اج وہ پوری انسانیت کی بخشش کی دعا مانگتا تو میں سب کو معاف فرما دیت
ا۔
(اللہ پاک آج بھی ہماری ایک توبہ کا منتظر ہے۔۔سب دل سے کہیں یا اللہ ہمیں معاف فرما دے۔ یا اللہ ہمیں معاف فرما دے۔۔۔۔۔۔ خدا کی قسم اللہ پاک آپ کی توبہ کا جواب بھی دیتا ہے اور کہتا ہے فرشتو اج آسمانوں میں چراغاں کردواور جشن مناوٗ۔۔۔ اج میرے بندے نے مجٗھ سے صلہ کرلی۔۔۔سبحان اللہ)

ایک سبق آموز کہانی ۔ ۔ ۔ کاش ہمارے حکمران اس سے کچھ سبق سیکھیں!!!



ایک سبق آموز کہانی ۔ ۔ ۔ کاش ہمارے حکمران اس سے کچھ سبق سیکھیں!!!
- - - - - - - - - - - - - - -
ترکستان کا بادشاہ لمبی عمر کا خواہاں تھا‘ وہ مرنا نہیں چاہتا تھا‘ اس کے طبیبوں نے بتایا‘ ہندوستان کی سرزمین پر چند ایسی جڑی بوٹیاں پیدا ہوتی ہیں جن میں آب حیات کی تاثیر ہے‘ آپ اگر وہ جڑی بوٹیاں منگوا لیں تو ہم آپ کو ایک ایسی دواء بنا دیں گے جس کے کھانے کے بعد آپ جب تک چاہیں گے زندہ رہیں گے‘ ترکستان کے بادشاہ نے دس لوگوں کا ایک وفد تیار کیا اور یہ وفد ہندوستان کے راجہ کے پاس بھجوا دیا‘ اس وفد میں ترکستان کے طبیب بھی شامل تھے اور بادشاہ کے انتہائی قریبی مشیر بھی‘ وفد نے ہندوستان کے راجہ کو ترک بادشاہ کا پیغام پہنچا دیا‘ راجہ نے پیغام پڑھا‘ قہقہہ لگایا‘ سپاہی بلوائے اور وفد کو گرفتار کروا دیا‘ راجہ گرفتاری کے بعد انھیں سلطنت کے ایک بلند وبالا پہاڑ کے قریب لے گیا‘ اس نے پہاڑ کے نیچے خیمہ لگوایا‘ ان دس لوگوں کو اس خیمے میں بند کروایا اور اس کے بعد حکم جاری کیا‘ جب تک یہ پہاڑ نہیں گرتا‘ تم لوگ اس جگہ سے کہیں نہیں جا سکتے‘ تم میں سے جس شخص نے یہاں سے نکلنے کی کوشش کی اس کی گردن مار دی جائے گی۔
راجہ نے اپنا فوجی دستہ وہاں چھوڑا اور واپس شہر آگیا‘ ترکستانی وفد کو اپنی موت صاف نظر آنے لگی‘ وہ پہاڑ کو اپنی مصیبت سمجھنے لگے‘ مشکل کی اس گھڑی میں اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا کوئی حامی ‘ کوئی ناصر نہیں تھا‘ وہ زمین پر سجدہ ریز ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑانے لگے‘ وہ صرف کھانا کھانے‘ واش روم جانے یا پھر وضو کرنے کے لیے سجدے سے اٹھتے تھے اور پھر اللہ سے مدد مانگنے کے لیے سجدے میں گر جاتے تھے‘ اللہ تعالیٰ کو ان پر رحم آ گیا چنانچہ ایک دن زلزلہ آیا‘ زمین دائیں سے بائیں ہوئی‘ پہاڑ جڑوں سے ہلا اور چٹانیں اور پتھر زمین پر گرنے لگے‘ ان دس لوگوں اور سپاہیوں نے بھاگ کر جان بچائی‘ راجہ کے سپاہی دس لوگوں کو لے کر دربار میں حاضر ہو گئے‘ انھوں نے راجہ کو سارا ماجرا سنا دیا‘ راجہ نے بات سن کر قہقہہ لگایا اور اس کے بعد ان دس ایلچیوں سے کہا‘ آپ لوگ اپنے بادشاہ کے پاس جاؤ‘ اسے یہ واقعہ سناؤ اور اس کے بعد اسے میرا پیغام دو‘ اسے کہو ’’ دس لوگوں کی بددعا جس طرح پہاڑ کو ریزہ کر سکتی ہے بالکل اسی طرح دس بیس لاکھ عوام کی بددعائیں بادشاہ کی زندگی اور اقتدار دونوں کو ریت بنا سکتی ہیں‘ تم اگر لمبی زندگی اور طویل اقتدار چاہتے ہو تو لوگوں کی بددعاؤں سے بچو‘ تمہیں کسی دواء‘ کسی بوٹی کی ضرورت نہیں رہے گی‘‘

حکیم صاحب








حکیم صاحب
میرے ایک دوست نے ایک حکیم صاحب کے بارے ایک سچا قصہ سنایا . حکیم صاحب کے ایک
 مریض تھے جو سالہا سال سے حکیم صاحب علاج کروا رہے تھے لیکن افاقہ نہیں ہورہا تھا دوائی سے کچھ دن کیلئے آرام آ جاتا مگر جیسے ھی دوائی ختم ہوتی پھر بیمار پڑ جاتے . اس دوران حکیم صاحب کا بیٹا جوان ہوگیا اور پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن گیا . ایک بار حکیم صاحب کسی کام سے دوسرے شہر گئے ہوئے تھے ان کے بعد ان کا دائمی مریض دوائی لینے آ گیا . حکیم صاحب کا ڈاکٹر بیٹا بھی ان دنوں گھر آیا ھوا تھا . اس نے مریض کا اچھی طرح معائنہ کیا اور انجیکشن وغیرہ لگا کر اور کچھ دوائیاں بازار سے لینے کیلئے لکھ کر دیں . مریض نے ہفتہ دس دن دوائی لی اور بالکل تندرست ہوگیا. ادھر حکیم صاحب اس کے آنے کا انتظار کرتے رہے لیکن جب کئی ماہ تک ان کا مریض نہ آیا تو ان کو لگا کہ ان کا مریض اللہ کو پیارا ہوگیا ہے . ایک دن ایسے ھی ان کا مریض پھرتے پھراتے ان کے دوا خانے آ پہنچا . اس کو زندہ دیکھ کر ان کو مسرت ہوئی . حال احوال پوچھنے کے دوران مریض نے ان کو اپنی صحتیاب ہونے کی خوشخبری سنائی اور ان کے بیٹے کی بہت تعریف کی . حکیم صاحب کو دل ھی دل میں بیٹے پر بہت غصہ آیا لیکن اوپر سے انہوں نے بھی خوشی کا اظہار کیا. کچھ دنوں بعد ان کا ڈاکٹر بیٹا چھٹی پر گھر آیا تو حکیم صاحب نے اپنے بیٹے کو خوب ڈانٹ پلائی اور بولے کمبخت اسی مریض کی بدولت تجھے پڑھایا لکھایا ڈاکٹر بنایا ابھی تیری بہن کی شادی بھی کرنی تھی تو نے پہلے ھی میرے بزنس کا اہم بندہ ضائع کر دیا . بات سوچنے کی ہے کہ جس معاشرے میں مریض کا علاج بزنس سمجھا جائے . جہاں سڑک اس خیال سے ناکارہ بنائی جائے کہ سال چھ ماہ بعد ٹوٹ پھوٹ کے بعد پھر نئے سرے سے بنائی جائے تاکہ گلشن کا کاروبار جاری و ساری رہے . جہاں ھر چیز ایک نمبر دو نمبر تین نمبر کے حساب سے تیار کی جائے اور بتا کر بیچی جائے اس دس نمبری معاشرے میں بسنے والے بیس نمبری انسانوں کس کو رحم آئے گا ؟ جب میں تم سے صرف اس صورت میں بچ سکتا ہوں کہ اپنی کھلی رکھوں . جہاں مسجد میں سے نماز پڑھ کر اپنے جوتے غائب نہ ہونے پر دل کی گہرائیوں سے رب کا شکر ادا کیا جاتا ھو اس پاپوش نگر میں انسان سے زیادہ جوتا مہنگا ہوجائے تو تعجب کیسا ؟

•• ... قبر کے چار گھنٹے … ایک سبق آموز واقعہ ••

•• ... قبر کے چار گھنٹے … ایک سبق آموز واقعہ ••

یہ1967ء کا واقعہ ہے میرا ایک بہت اچھا دوست میاں نذیرچشتی ہے‘ بہت ہی امانت دار مستری تھا۔ ایک مرتبہ ہم نے شرط لگائی کہ قبر میں چار گھنٹے گزارنے ہیں۔ رات 12 بجے سے صبح 4 بجے تک۔ میاں نذیرچشتی مان گیا اور ایک قبر کھودی گئی اس میں 13 انچ کے سوراخ والے پائپ لگائے ہوا کیلئے۔۔۔۔ پھر میاں نذیرچشتی صاحب رات بارہ بجے اس میں لیٹ گئے اور ہم نے اوپر سے قبر بندکردی۔۔۔۔صبح چار بجے تک ہم نے بڑی بے چینی سے انتظار کیا اور صبح چار بجے ہم نے جب قبر کھودی تو دیکھا کہ میاں نذیرچشتی بے ہوش تھا اور اس کا رنگ جو کہ پہلے سرخ گولڈن سیب کی طرح تھا اب بالکل کالا سیاہ ہوچکا ہے۔
ہم نے جلدی سے اس کو نکالا اور ایک سائیڈ پر لے جاکر اس کے منہ میں پانی وغیرہ ڈالا کچھ دیر بعد اس کو ہوش آگیا‘ وہ بالکل بوکھلایا ہوا تھا‘ پھر ہم اس کو اس کے گھر چھوڑ آئے اس کے گھر والوں نے اس کو پہچاننے سے انکار کردیا دوست وغیرہ کے بتانے پر گھر والے اسے پہچان گئے۔ تین چار دن گزرنے کے بعد جب اس کی حالت سنبھلی تو ہم نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ قبر میں تمہارے ساتھ کیا ہوا۔ میاں نذیر کہنے لگا:۔جب آپ لوگوں نے قبر بند کی تو میں اپنے ساتھ سگریٹ لے کر گیا تھا میں نے سگریٹ نکالا اور جیسے ہی جلانے لگا کہ اچانک ایک طرف سے بہت تیز آگ میری طرف آئی تو دوسری طرف سے ایک روٹی آئی اور اس روٹی نے اس آگ کو ایک طرف دھکیل دیا‘ ابھی یہ واقعہ ختم بھی نہ ہوا تھا کہ ایک اور طرف سے آگ آئی اور اسی روٹی نے اس آگ کو بھی دھکیل کر ختم کردیا اس کے بعد میں بیہوش ہوگیا اور جب ہوش آیا تو آپ لوگوں کے پاس تھا۔پھر اس نے بتایا کہ ایک مرتبہ میں نے کسی مسافر کو کھانا کھلایا تھا اسی روٹی نے مجھے اس آگ سے بچالیا۔ اس کے بعد میاں نذیر اپنی آمدن کا سترفیصد سے بھی زائد اللہ کی راہ میں خرچ کردیتا اور لوگوں کو کھانا کھلاتا !