Showing posts with label 3جامعہ دارالسلام کا ایک دن. Show all posts
Showing posts with label 3جامعہ دارالسلام کا ایک دن. Show all posts

Wednesday, April 24, 2013

3جامعہ دارالسلام کا ایک دن

 3جامعہ دارالسلام کا ایک دن
ہماری جماعت کی خصوصیت بلکہ امتیاز یہ ہے کہ اس کی نصف کے قریب تعداد حافظ ہے،یہ ہماری اور ہمارے ساتھیوں کی کہکشاں ہے، جس میں کوئی لکھنے میں ماہر ہے تو کوئی بولنے میں، کوئی اچھی طرح قرآن پڑھتا ہے تو کوئی کھیلنے میں مہارت رکھتا ہے، کوئی قلم کا دھنی ہے تو کوئی زبان وبیان کا۔ گویا ایں خانہ ہمہ آفتاب است والی صورت حال ہے، ان میں سے کوئی آج کسی مدرسے کا استاذ ہے تو کوئی کسی مسجد کا امام ، کوئی قطر میں امامت کی خدمت انجام دے رہا ہے تو کوئی کسی درسگاہ سے منسلک ہے۔ 

آگے بڑھتے ہیں، دکتور عبداللہ جولم عمری مدنی بخاری پڑھانے کے لیے آگئے ہیں، ماشاء اللہ کیا علمی نکات بیان کر رہے ہیں، مسائل بتا رہے ہیں، حدیث کی تشریح کر رہے ہیں، طلباء کے اشکالات کا جواب دے رہے ہیں، تشریح کی ضرورت نہیں سمجھی تو آگے عبارت پڑھنے کا حکم دے رہے ہیں، ہمارے ساتھی شعیب بڑی روانی اور تیزی سے پڑھ رہے ہیں، شاید آج ان کی باری ہے۔
جولم صاحب کے پڑھانے کا انداز بڑا دلچسپ ہے، اگرچہ آپ نیپال کے ہیں، مگر اردو عربی بڑی روانی سے بولتے ہیں، بہت آسان زبان استعمال کرتے ہیں، ہر مسئلہ کے مالہ وماعلیہ سے واقف کراتے ہیں، کسی بھی مسئلے کی دلیل کے طور پر قرآن وحدیث سے بے شمار دلائل پیش کرتے ہیں، ہر مسئلے میں وہ اپنی واضح رائے رکھتے ہیں جو ان کے صاف گو اور حق گو ہونے کی دلیل ہے۔
بچوں پر نماز کے سلسلے میں بہت سختی برتتے ہیں، بہت سادہ انسان ہیں، زیادہ تکلف کو پسند نہیں کرتے، مسائل میں سائل کو قائل کرنے کی خاص صلاحیت اللہ نے آپ کو ودیعت کی ہے، طلباء کے چھوٹے سے چھوٹے مسائل سے لے کر بڑے سے بڑے مسائل تک حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
لیجیے! دیکھتے ہی دیکھتے پہلی گھنٹی ختم ہو گئی، دکتور صاحب چلے گئے، ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ پڑھانے کے لیے مولا نا ڈاکٹر سعید احمد عمری تشریف لائیں گے، جو قرآن کریم سے خاص شغف رکھتے ہیں، اس حوالے سے انہوں نے Ph.Dکی ہے، جب قرآنیات پر بولنا شروع کرتے ہیں تو بولتے چلے جاتے ہیں، جی چاہتا ہے کہ وہ یونہی بلا توقف بولتے رہیں، مولانا کو سننے کا موقع کا کئی بار حاصل ہوا پھر بھی تشنگی باقی ہے، ہمیشہ یہی آرزو لے کر مولانا کی مجلس سے اٹھتے ہیں کہ کاش مولانا کچھ دیر اور بولتے۔
مولانا جب سے تنویر کے نگراں کے مقرر ہوئے ، تنویر نے بہت ترقی کی، دارالسلام کے کئی خصوصی شمارے آپ کی نگرانی میں شائع ہوئے، خود میں نے مولانا کو کئی بار تنویر کے بارے میں بے حد فکرمند دیکھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی طبیعت بے حد حساس ہے، جو ذمہ داری بھی آپ کو سونپی جاتی ہے اسے احسن طریقے سے نبھانے کی مکمل کوشش کرتے ہیں، یہ آپ کا وصف خصوصی ہے۔
’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ پڑھانے کا انداز نرالا ہے، شاہ صاحب کی یہ کتاب ویسے بہت مشکل ہے مگر مولانا اسے بیحد آسان کر دیتے ہیں، ہم لوگ عموماً مولانا سعید احمد پالنپوری کی پانچ جلدوں میں لکھی ہوئی حجۃ اللہ البالغۃ کی شرح ’’رحمۃ اللہ الواسعۃ‘‘ سے استفادہ کرتے ہیں، مگر چند مباحث کی شرح متن سے زیادہ مشکل ہے اس کے لیے مولانا (سعید عمری صاحب) کے نوٹس کا سہارا لینا ناگزیر ہوتا ہے، دراصل وہ بہت سی ایسی باتیں اپنے مطالعہ کی بنیاد پر بتلاتے ہیں جن کا کسی کتاب یا شرح میں ملنا بہت مشکل ہے۔
میں اس بات کی بڑی کوشش کرتا تھا کہ مولانا کی کہی ہوئی ایک بات بھی قید تحریر میں آنے سے نہ رہ جائے، اکثر میں کامیاب بھی ہوتا تھا،مگر افسوس مجھ سے حجۃ اللہ البالغہ کی وہ کاپی کھو گئی ہے جو میں نے دوران درس تیار کی تھی، اگر آج وہ موجود ہوتی تو اہل علم کے لیے ایک قیمتی سرمایے سے کم ثابت نہ ہوتی۔ناچیز کو اس بات کا بھی بے حد افسوس ہے کہ مولانا سے جتنا استفادہ مجھے کرنا چاہیے تھا وہ میں نے نہیں کیا۔ حالانکہ آپ نے ہماری رہنمائی کی حتی المقدور کوشش کی، ہمیں صحیح مشورے دیے، ہمارے ساتھ اپنے بچوں کی طرح سلوک کیا، اللہ تعالیٰ اس کا اجر آپ کو قیامت کے دن ضروردے گا۔
ہفتے میں تین دن حجۃاللہ کے لئے اوربقیہ تین دن عقیدۂ طحاویہ کے لئے مختص تھے۔عقیدۂ طحاویہ کی گھنٹی ہے، مدرس ہیں مولانا اطہر حسین عمری مدنی، اس سے قبل ہم نے آپ سے سراجی اور مفصل پڑھی ہے، بڑے محنتی، طلباء کے حق میں بے حد شفیق ہیں، آپ اپنے درس میں اس بات کی بھرپور کوشش کرتے ہیں کہ طالب علم کو بات پوری طرح سمجھ میں آجائے، آپ ہی جامعہ دارالسلام کے نائب ناظم ہیں، جب تک طالب علم کے بارے ان کو یقین نہ ہو جاتا کہ یہ چھٹی کا مستحق ہے ہرگز ہرگز چھٹی عطا نہ کرتے، یہ اصل میں طلباء کے ساتھ شفقت کی انتہاء ہے کہ طالب علم کا ایک درس بھی ناغہ ہونے پائے، طالب علم خواہ کتنا ہی ذہین نہ ہو وہ استاد کے برابر نہیں ہو سکتا، اس لیے ہر طالب علم کا ہر کلاس میں حاضری دینا ، براہ راست استاد سے درس لینا ضروری ہے۔
آپ تکیہ کلام کے طور پر ’’اس طرح سے‘‘ استعمال کرتے تھے، دوران درس بکثرت اس طرح سے اس طرح سے کہتے تھے، چند شریر قسم کے طلباء باقاعدہ شمار کرتے تھے کہ مولانا نے آج کے درس میں ’’اس طرح سے‘‘ اتنی مرتبہ فرمایا ہے، اگر کوئی طالب بے تکا سوال کرتا تو اسے ایسا جواب دیتے کہ طالب علم بھونچکا رہ جاتا۔(کچھ ہی مہینوں قبل آپ کا انتقال ہوا، اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے،صالح اولاد کو ثواب جاریہ کا ذریعہ بنائے۔آمین!)
یہ تیسری گھنٹی ہے، جو بیضاوی کے لیے مختص ہے، شیخ التفسیر مولانا عبد الکبیر صاحب تشریف لانے والے ہیں، آپ نے راہ اعتدال میں مسلسل جن کے دروس قرآن سے استفادہ کیا ہے وہ حضرت کے ہی افادات سے مرتب کیے گئے ہیں، فوزی تخلص فرماتے ہیں، جامعہ کے سب سے قدیم استاذ ہیں، بڑے ہی نرم مزاج، انہیں دیکھ کر اسلاف کی یاد آجاتی ہے، اگر آپ نے قدیم بزرگوں کو دیکھنے کا شرف حاصل نہ کیا ہو کہ ان کے عادات واطوار کیسے ہوتے تھے؟ انداز گفتگو کیا تھا؟ اپنے برابر والوں سے ، اپنے بڑوں سے اور اپنے چھوٹوں سے وہ کیسا سلوک روا رکھتے تھے؟ تو گھبرانے کی ضرورت نہیں! شیخ التفسیر حافظ عبدالکبیر صاحب کی زیارت کر لیں ، ان شاء اللہ آپ کی دیرینہ آرزو پوری ہوا جائے گی۔
مولانا جب تفسیر بیضاوی پڑھاتے ہیں تو پیرانہ سالی اور ضعف کے باوجود آواز بلند سے بلند تر ہوتی چلی جاتی ہے، سالوں سے بیضاوی پڑھا رہے ہیں مگر آج بھی پڑھانے سے قبل مطالعے کو ضروری خیال کرتے ہیں، تفسیر بیضاوی کے ساتھ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی الفوز الکبیر بھی شامل درس ہے اور یہ کتاب بھی ہمیں مولانا ہی سے پڑھنے کا شرف حاصل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو قابل رشک صحت سے نوازا ہے، کڑاکے کی سردی ہو یا سخت دھوپ، گلے میں رومال ڈالے مولانا اپنے وقت پر پڑھانے کے لیے آپ کو تیار ملیں گے، ایسے وقت کی پابندی کرنے والے متقی اور پرہیزگار اساتذہ آپ کو شاذ ونادر ہی ملیں گے!