Showing posts with label مولانا مودودی اور جماعت اسلامی وغیرہ. Show all posts
Showing posts with label مولانا مودودی اور جماعت اسلامی وغیرہ. Show all posts

Friday, March 22, 2013

مولانا مودودی اور جماعت اسلامی وغیرہ


مولانا مودودی اور جماعت اسلامی وغیرہ
سوال ۵؂۔ازَ مولانا گلام رسول ساکن میرے شاہ (پاکستان)
(۱) مولانا مودودی کی ذات کے بارے میں آپ کاکیا خیال ہے۔ وہ علم و عمل کا پیکر ہے یا محض تحریری ید طولیٰ رکھنے کی وجہ سے لوگوں کو اندھی عقیدت میں مبتلا کررکھا ہے ؟ (۲)تحریک اسلامی کیبارے میںآپ کی کیا رائے کہ سیاسی یا مذہبی حیثیت سے علماء کرام کی جانب سے اس تحریک میں جو خامیاں اور غلطیاں واضح کی جارہی ہیں وہ کس حد تک صحیح ہیں ؟
(۳)کیا آپ دار العلوم دیو بند کے خلاف جو مضامین لکھتے رہتے ہیں یا’’ مسجد سے میخانے تک ‘‘کے زیر عنوان جو مضامین شائع ہوتے ہیں وہ اس بات کی تو غمازی نہیں کرتے کہ آپ نے یہ سارا مسئلہ خاندانی چپقلشوں کی وجہ سے تو نہیں چھیڑ رکھا ۔ ہمارے اکثر حلقہ میں یہ بھی خیال کیا جاتا ہے ۔
الجواب:۔(۱)مولانا مودودی کی نجی زندگی سے ہمیں تفصیلی واقفیت نہیں ہے لیکن اتنی واقفیت ضرور ہے کہ ان کے اقوال و اعمال میں نفاق و تخالف نہینہے ۔ کسی سخت سے سخت دشمن نے بھی آج تک یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ مولانا موصوف کی بے عملی اور منافقت کو ثابت کرسکتا ہے ۔مولانا کسی کنج عزلت میں نہیں رہتے ان کے شب و روز کا مطالعہکرنے والے بے شمارافراد ہیں ۔ اگر ان میں سے کوئی مولانا پر اعمالِ شرعیہ میں غفلت وتساہل کا الزام نہیں رکھتا تو آخر اس کا کیا جواز ہے کہ ہم بیٹھے بٹھائے ایک سوال کھڑا کریں اور عیاش قسم کے ذہنوں کو چنیں چناں کا موقع دیں ۔
اندھی عقیدت جہلاء میں تو چل جاتی ہے لیکن اس جماعت کا امیر جس میں پڑھے لکھے لوگ ہی شریک ہیں ، زیادہ دنوں تک اپنے ساتھیوں کو مصنوعی زہد و تقویٰ کے جال میں نہیں پھانسے رکھ سکتا ۔
(۲)کسی فرد یا جماعت کی خامیوں کی نشاندہی اگر متانت علم و انصاف کے تقاضوں کو ملحوط رکھتے ہوئے کی جائے جب تو اس پر غور کر کے یہ فیصلہ دیا جاسکتا ہے کہ کونسی خامی کس درجے میں واقعۃً موجود ہے اور کونسی خامی خود نشاندہی کرنے والوں کے غلط اندازِ نظر کی زائیدہ ہے۔
لیکن جہاں حال یہ ہو کہ مخالفتوں نے بازار ی شکل ختیار کر رکھی ہو، علماء اپنے مقام کو فراموش کر کے معاندینکی سطح پر اتر آئے ہوں ، لغو و لاطائل اعتراضات و اتہامات کی گرم بازاری ہو اور چہل مرکب نے طافان بد تمیزی اٹھارکھا ہو وہاں کون یہ فیصلہ بھی دے دے تو سننے اور دیانت کے ساتھ غور کرنے والے ایسے معترضین کے انبوہ میں کہاں سے آئیں گے جن کا پیشہ ہی یہ ہو کر رہ گیا ہو کہ جماعت اسلامی کو ہر قیمت پر ذلیل و رسوا کیا جائے۔
ہماریپاس سو(۱۰۰) سے زائد اخبارات و رسائل آتے ہیں اور کتابوں کا مطالعہ بھی بقدر فرصت جاری رہتا ہی ہے ہم اپنے خدا کو حاضر و ناظر جان کر اور حساب آخرت کا پورا احساس رکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ کوئی ایک بھی اعتراض ایسا آج تک ہماری نظر سے نہیں گذرا جس کی رو سے جماعتِ اسلامی کی مخالفت کارِ خیر قرار دی جاسکے ۔زیادہ تر اعتراض تو ایسے اذہان کی تراوش ہیں جنھیں نفس امارہ اور ابلیس کی سازش نے کج فکری ، کینہ پروری اور جہل مرکب کا گنجینہ بنا کر رکھدیا ہے۔ کچھ اعتراض ایسے ہیں جو معترضین کی قلتِ فہم پر مبنی ہیں ۔ کچھ ایسے ہیں جو بنیاداً ہی نہیں تفصیلاً بھی درست ہیں ، لیکن ان کی بنیاد پر جماعت اسلامی کو ضال و مضل قرار دینا ، اس کی مخالفت کرنا اور اسیبنج و بن سے اکھیر پینکنے کے جذبے کینمائز فرمانا بجائے خود گمراہی اور کوتاہ اندیشی ہے ۔ اصلاح کا طریقہ یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ عمارت کا اگر ایک ستون کج یا ایک دیوار کمزور ہے تو پوری عمارت ہی کو اکھاڑ کر پھینک دیا جائے۔ آدمی کی ایک انگلی میں زخم ہوتو اس کا مرہم ڈھوند نے کیبجائے خود بچارے آدمی ہی کوذبح کردینے کا مشورہ دیاجائے۔
آپ صاحب علم ہیں اگر آپ کے سامنے واقعۃً کچھ ایسی خامیاں جماعت اسلامی کی آئی ہوں جنھیں امر واقعہ کے طور پر تسلیم کیا جاسکے تو براہ کرم کھل کر انھین منکشف فرمائیں ہم ان کاخیر مقد م کر یں گے اوراپنے ناقص علم و فہم کے مطابق اظہار خیال سے بھی نہیں چوکیں گے۔
(۳)ہرشخص آزاد ہے جو چاہے سوچے اور جیسا چاہے فیصلہ دے ۔ دل ایسی چیز تو ہے نہیں جو کسی کے آگے چیز کر رکھ دی جائے ۔ ہم تو صرف اتنا ہی عض کرسکتے ہیں کہ خاندانی چپقلشوں سے کسی بھی قسم کی دلچسپی ہمارے مزاج و طبیعت سے اتنی بعید ہے کہ شاید آسمان بھی زمین سے اتنا بعید نہ ہو۔ یہ بات کبھی کبھاریہ سؤطن رکھنے والے کرم فرما ہی یاد دلادیتے ہیں کہہمارے اور کسی اور کے خاندان میں کبھیکوئی کشمکش اور چپقلش بھی رہی ہے ۔ ورنہ علام الغیوب جانتا ہے کہ یہاں تو ذہن کے کسی بعید ترین گوشے میں بھی اس مرحوم چپقلش کا کوئی زندہ تصور پایا ہی نہیں جاتا ۔ نفسیات اگر کوئی چیز ہے تو اسی ایک بات سے ہمارے ذہن و مزاج کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کچھ روز ہوئے پاکستان کے ایک پروفیسر صاحب نے ’تجلیات عثمانی‘‘ کے نام سے ہمارے حقیقی چچا مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ پر ایک ضخیم کتاب شائع کی تھی ۔ اس کتاب میں جس شد و مد اور جوش و خروش کے ساتھ علامہ عثمانیؒ کے اوصافِ حمیدہ کا ذکر و بیان ہوا ہے اس کا بدیہی تقا ضا تھا کہ اگر خاندانی عصبیت کا معمولی سا جذبہ بھی ہمارے اندر ہوتا تو اس کتاب کو ’’مکتبہ تجلی ‘‘ کے ذریعے خوب خوب اشاعت دیتے لیکن تجلی کا فائل اتھاکر دیکھ لیجئے کہیں اتفاق سے ہی اس کا معمولی سا اشتہار نظر آجائے گا۔ 
دوسری بات یہ بھی سن لیجئے کہ اگر خاندانی چپقلش سے ہمیں دلچسپی ہوتی تو سب سے پہلے ہم اس ’’سوانح قاسمی ‘‘ پر مفصل تنقید کرتے جو تاریخ حقائق کے لحاط سے بد ویانتی کا شاہکار ہے جس میں خاندانِ عثمانی کو خصوصاً نظر انداز کرنے اور واقعات کو مسخ کرکے تمام امتیازات کسی اور خاندان کو عطا کرنے کا وہ فن استعمال کیا گیا ہے کہ صداقتیں منہ دیکھتی رہگئیں ہیں لیکن قارئین تجلی گواہ ہیں کہ اس بکھیڑے میں بھی ہم نہیں پڑے۔
تیسری بات یہبھی ملحوظ رکھنے کے قابل ہے کہ ہمارے والدِ محترم مولانا مطلوب الرحمن رحمۃاللہ علیہ ایک معروف مرشد تھے ۔ ان کے ہزاروں مرید وہندو پاک میں پائے جاتے ہین ۔ہمرے ذہن و مزاج کا معمولی سابھی جوڑ خاندانی عصبیت کے اتھ ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ تجلی کے صفحات والد مرحوم کے اذکارِ مسلسل سے خالی رہتے ۔ خصوصاً جب کہ دیو بند کے ایک خاندان نے یہ اسوہ بھی سامنے رکھ دیا ہے کہ سعادت مند بیٹا باپ کی زندگی ہی میں باپ کو سقراطِ زماں اور طبیب دوراں بنادے سکتا ہے تو ہمارے لئے کیا دشوار تھا کہ تجلیجیسے مقبول (بفضلہ تعالیٰ و با حسانہٖ ) پر چے کو باپ اور چچا اور دادے (فضل الرحمن جو بانئ دار العلوم کی حیثیت رکھتے تھے) کی تصویر کشی اور شہرت دہی کے لئے استعمال کریں ۔ مگر ہم سے کچھنہ ہوا۔ ہم پر تو فی الحقیقت خاندانی عصبیت کا سوءِ ظن پر عکس نہند نام زنگی کا فور کا مصداق ہے ۔ سچا اعتراض اگر کوئی ہوسکتا ہے تو یہ ہوسکتا ہے ۔۔۔کہ ہم خادانی عصبیت کے معاملہ میں ناخلفاور مغفل رہے ہیں۔
الحاسل علمائے دیو بند پر نقد و تعریض کو خاندانی چپقلش سے جوڑنا اتنا ہی مطابق واقعہ ہے جتنا مولانا مودودی کو خارجی کہنایا ان کی طر ف اسلامی تعزیر ات کو ظالمانہ قرار دینے کا انتساب کرنا یا حضرت عثمانؓ کے بارے میں یہ کہنا کہ انہوں نے سارا خزانہ اپنے عزیز و اقربا کو بانٹ دیا ۔ ونعوذ باللہ من شرورانفسنا۔