چند اہم کتابیں


چند اہم کتابیں


چکنے  پات (۲۰۰۵ء): التفات امجدی
       
التفات امجدیؔ  کی رباعیات پر یہ مجموعہ مشتمل ہے۔ انہوں  نے  اپنی رباعیات میں  داخلی و خارجی احساسات کو موضوع سخن بنایا ہے۔ رباعی کا فن بڑی ریاضت کا تقاضا کرتا ہے۔ مجھے  خوشی ہے  کہ موصوف ایک حد تک اس میں  کامیابی حاصل کر چکے  ہیں۔ مذہبی رجحانات کا انہوں  نے  بڑے  اچھے  اور خوبصورت انداز میں  اظہار کیا ہے۔ مگر اور فن میں  پختگی کی ضرورت ہے۔ بھاری بھرکم الفاظ سے  ان کا گریز مجھے  پسند آتا ہے۔ حمدیہ و نعتیہ رباعیات کہہ کر انہوں  نے  اپنے  اللہ اور رسولؐ سے  عشق کا زندہ ثبوت فراہم کر دیا ہے۔ اس کتاب کا مقدمہ معروف شاعر ناوک حمزہ پوری (جو جو اپنی مختلف النوع سرگرمیوں  کے  حوالے  سے  اکثر و بیشتر ادب میں  موضوع گفتگو بنتے  ہیں ) نے  لکھا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے  ہیں : ’’ التفات کی بیشتر رباعیوں  میں  رباعی کی وہ ساری خوبیاں  موجود ہیں  جو اکثر ناقدان فن کے  بقول رباعی کے  حسن کو دوبالا کرتی ہیں۔ ‘‘ اور خود التفات امجدیؔ  نے  اپنے  فن کے  تعلق سے  خوش فہمی میں  مبتلا ہوئے  بغیر لکھا ہے  کہ ’’ اب یہ رباعیاں  آپ کی خدمت میں  حاضر ہیں، ان کے  حسن و قبح اور معیار و اقدار کا فیصلہ آپ کے  بالیدہ فہم و شعور پر منحصر ہے۔ مجھے  صرف یہ عرض کرنا ہے  کہ یہ رباعیاں  آپ کے  سنجیدہ مطالعہ کی متقاضی ہیں۔ ‘‘
        التفات کی دو رباعیات اور ان کے  تیور دیکھیں۔   ؂
میں  زیست کا ہر مسئلہ سلجھاتا ہوں
آلام کے  طوفان سے  ٹکراتا ہوں
پڑ جاتے  ہیں  جب چھالے  غمِ دوراں  کے
میں  حوصلوں  کے  تلووں  کو سہلاتا ہوں
٭٭٭
خاموش تکلم کی کہانی سن لو
روداد یہ غنچوں  کی زبانی سن لو
گرداب کی بانہوں  میں  سمٹ کر اک دن
کیا کہتی ہے  دریا کی روانی سن لو

نسبت بے  ستون (۲۰۰۲ء): ضر رؔ  وصفی

                ضر ر وصفی صاحبِ اسلوب شاعر ہیں، غزل اور نظم کے  منظر نامے  پران کا نام خاصا روشن ہے۔ غزل انہوں  نے  بہت خوبصورتی اور خو ب سیر تی کے  ساتھ کہی ہے۔ نظمیں  زبان و بیان کی چاشنی سے  لبریز ہیں۔ ظاہر سی بات ہے  قاری ایسی چیزوں  کو پسند کرتا ہے۔ رواں  دواں  اسلوب سے  بھرپور ان کی نظمیں  مزہ دے  جاتی ہیں۔ یہ بات لائقِ تحسین و قابلِ ستائش ہے  کہ انہوں  نے  ناقدین کی آراء سے  اپنا قد بڑھانے  کی کوشش نہیں  کی ہے۔ ہاں  ! کتاب کی ابتدا میں  سیّدہ امۃ الکلثوم (انیس) کا مختصر سا تعارفی مضمون شامل ہے۔ ویسے  بھی آج کل کے  ناقدین حق گوئی سے  دست بردار ہو چکے  ہیں۔ اس لیے  ان کی آراء کا آج وہ وزن باقی نہیں  رہا، جو کبھی تھا۔ بہر حال ضر رؔ نے  غزل میں  غزل کے  خاص مضامین کے  ساتھ ساتھ دوسرے  مضامین بھی شامل کیے  ہیں۔ نئے  اردفہ و قوافی سے  اپنی شاعری کو مزین کیا ہے  اور بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے  ہیں۔ ضرر وصفی ہماری غزلیہ شاعری کے  ایک اہم شاعر کی حیثیت سے  ضرور یاد رکھے  جائیں  گے۔  ان کا ایک شعر بطور نمونہ پیش کر رہا ہوں ؂
ثبوت تنکوں  کو دینا پڑا جسارت کا
لیا تھا برق نے  کل امتحان تھورا سا
***

خوش بیانیاں   (۲۰۰۳): نور الحسنین         

        نور الحسنین بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں۔ اور اسی حوالے  سے  ادب میں  ان کا نام بازگشت کرتا ہوا سنائی دیتا ہے۔ لیکن ان کی مذکورہ کتاب خاکوں  کا مجموعہ ہے۔ اپنی خاکہ نگاری کے  بارے  میں  موصوف کا اعتراف حقیقت پر مبنی ہے۔ وہ کہتے  ہیں :  ’’مجھے  اس بات کا بھی اعتراف ہے  کہ ان خاکوں  میں  کسی بھی شخصیت کی بھر پور اور حقیقی عکاسی میں  نہیں  کر سکا۔ البتہ میں  نے  ان کے  مزاج اور ان کے  رویوں  کو ضرور چھونے  کی کوشش کی ہے۔ ساتھ ہی کچھ باتیں  ایسی ضرور ہیں  جن کا تعلق بہر حال حقیقت سے  ہے۔ ‘‘ نوارالحسنین کے  خاکوں  کا بنیادی وصف ان کی شگفتہ مزاجی ہے۔ جس کی بنا پر قاری کی طبیعت بوریت کی طرف مائل نہیں  ہوتی۔ انہوں  نے  بڑی سادہ زبان استعمال کی ہے۔ ان خاکوں  کے  مطالعہ کے  دوران بار بار مجھے  اس بات کا احساس ہوا ہے۔ جس طرح شاعری میں  جتنا زیادہ جھوٹ ہو گا وہ اتنی ہی اعلیٰ شاعری ہو گی بالکل اسی طرح جس خاکے  میں  حقیقت سے  قرب جتنا ہو گا، اتنا ہی زیادہ  وہ کامیاب اور اچھا خاکہ مانا جائے  گا۔ ان کی شگفتہ نگاری کی کچھ مثالیں  پیش کرنا چاہوں  گا۔ ملاحظہ فرمائیں۔
        ’’ میں  نے  پھر سوال کیا۔ لیکن اب تو زمانہ بدل رہا ہے  ‘‘
        وہ بولے۔ ’’میں  بھی تو سوٹ بدلتا رہتا ہوں۔ ‘‘
        ’’ رشید صاحب ایک مخلص انسان ہیں۔ اور اس لیے  وہ مفلس نہیں  ہیں  ورنہ سنا ہے  کہ مفلسی بہت ساری خوبیوں  کو ایسے  ہی کھا جاتی ہے  جیسے  دواؤں  کا بل مریض کو۔ ‘‘
***

دوہے  کوکن کے  (۲۰۰۵ء): ساحرؔ شیوی

        یہ ساحرؔ  شیوی کے  دوہوں  کا مجموعہ ہے۔ آدھی کتاب ساحرؔ  پر لکھے  گئے  تقریباً ۱۹ مضامین پر مشتمل ہے۔ ساحرؔ  مختلف اصناف پر غیر معمولی درک رکھتے  ہیں۔ ان کی شخصیت پر دو تین کتب بھی شائع ہو چکی ہیں۔ انہوں  نے  صحتمند انسانی اقدار کو اپنی دوہا نگاری کا موضوع بنایا ہے۔ دوہوں  میں  بڑے  کامیاب تجربے  کیے  ہیں۔ اس کتاب کا انتساب اکٹر فراز حامدی کے  نام ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا نام دوہے  کے  حوالے  سے  محتاجِ تعارف نہیں  ہے۔ انہوں  نے  اخلاقی مضامین پر زیادہ زور دیا ہے۔ صحت مند معاشرے  کے  لیے  یہ چیز لازم ہے۔ رفیق شاہین ان کی دوہا نگاری پر اظہار خیال کرتے  ہوئے  کہتے  ہیں :
        ’’ ساحرؔ شیوی بھی اپنی شاعری ساتھ لے  کر برائیوں  سے  لوہا لینے  کے  لیے  میدان میں  آ ڈٹے  ہیں۔ انہوں  نے  اپنے  دوہوں  کی کٹار سے  دبیز تاریکی کے  جگر میں  شگاف دے  کر اجالوں  کو اس طرف آنے  کا موقع دیا ہے۔ ‘‘ ؂
دشمن بھی سب دوست ہیں  دل کو یہ سمجھاؤ
زہر کو امرت جان کر بہتر ہے  پی جاؤ
ناداں  ان کو کاٹ مت لاکھ نہیں  پھل دار
کم از کم یہ چھاؤں  تو دیتے  ہیں  اشجار
ہاں  جیون کے  انت میں  ہوتا ہے  یہ حال
جاتے  ہیں  ہمراہ بس انساں  کے  اعمال
***

آہنکار (ناول، ۲۰۰۵ء): نورالحسنین

        نور بھائی نے  اس ناول میں  ایک معمولی سے  کسان کی کہانی بیان کی ہے، جس کا نام سمپت راؤ ہے۔ کہانی یوں  ہے  کہ سمپت راؤ کی بیوی کا انتقال ہو جاتا ہے، غربت کے  باعث، جس کے  بعد وہ اپنے  بیٹے  کو ڈاکٹر بنانے  کی ٹھان لیتا ہے۔ بیٹا ڈاکٹر بن کر خوب کمانے  لگتا ہے۔ سمپت راؤ مال سے  کھیلنے  لگتا ہے۔ ساتھ ہی اس کا رویہ عام مالداروں  کی طرح ہو جاتا ہے۔ پھر ایک وقت وہ آتا ہے  کہ وہ اپنے  باپ کو بھو ل جاتا ہے  اس کے  بعد کہانی کئی موڑ اختیار کرنے  کے  بعد فطری انجام کی طرف آگے  بڑھتی ہے۔
        اتنی سی کہانی کو پوری فنکاری، مہارت کے  ساتھ نور بھائی نے  تقریباً ۱۹۵ صفحات پر پھیلایا ہے۔ یہ ناول بھی گاؤں  کے  تناظر میں  لکھا گیا ہے۔ (میں  نے  ’’بھی‘‘ اس لیے  لکھا ہے  کہ گاؤں  کے  تناظر میں  لکھے  گئے  بہت سے  ناول آج کل منظر عام پر آ رہے  ہیں۔ ) کتاب کے  پیش لفظ میں  بشر نواز نے  مذکورہ ناول کی خوبیوں  پر بڑی اچھی روشنی ڈالی ہے :’’ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے  کہ ’’آہنکار‘‘ ایک ایسا ناول ہے  جو ہماری آج کی زندگی سے  جڑا ہوا ہے۔ جس میں  زرعی اور مشینی عہد کا ٹکراؤ بھی ہے، انسانی رشتوں  کی الجھنیں  بھی ہیں  اور ان کی قوت کا احساس بھی۔ اس ناول کی سب سے  بڑی خوبی یہ ہے  کہ مکانی اعتبار سے  یہ گاؤں  آج کے  ہندوستان میں  واقع ہے۔ جیتا جاگتا ہے۔ سانس لیتا ہے، اور اپنے  ہونے  کا احساس لاتا ہے۔ ‘‘
        کتاب چھوٹے  سائز میں  بڑی خوبصورت شائع ہوئی ہے۔ اس کامیاب ناول کے  لکھنے  پر نور الحسنین کو میں  بڑی پر جوش مبارکباد دیتا ہوں۔
***

سفر لہجے  کا   : شائق مظفر پوری                                    

        معتبر شاعر شائق مظفر پوری کا یہ دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’غم کا سورج‘‘ ۱۹۸۴ء میں  منظر عام پر آیا تھا۔ جس پر وہاب اشرفی نے  بڑے  اچھے  تاثرات کا اظہار کیا تھا۔ صاف ستھرے  لہجے  سے  گندھی ان کی شاعری پر کسی گروپ یا اِزم کی چھاپ نظر نہیں  آتی۔ وہ سادے  سیدھے  انداز میں   دلوں  میں  اترنے  والی، راسخ ہو جانے  والی بات کرتے  ہیں۔ ان کی شاعری یقیناً متوجہ کرنے  والی اور اپنے  وجود کا احساس دلانے  والی شاعری ہے۔ انہوں  نے  اپنا دامن بسیار نویسی سے  بچایا ہے۔ وہ مترنم زمینوں  میں  بڑی خوبصورت غزلیں  کہتے  ہیں۔ مجھے  اس امر پر حد درجہ خوشی محسوس ہوتی ہے  کہ انہوں  نے  دھڑادھڑ شعری مجموعوں  کے  انبار نہیں  لگائے۔ ۱۹ سال کے  طویل عرصے  کے  بعد دوسرا شعری مجموعہ؟ یقیناً یہ بہت اچھی بات ہے۔ اہم بات یہ نہیں  ہے  کہ کس نے  کتنا کہا بلکہ اہم اور قابل توجہ بات یہ ہے  کہ کس نے  کیا کہا ہے ؟، شائقؔ  صاحب کے  یہ اشعار مجھے  پسند آئے             ؂
مرے  نصیب کے دامن  میں بھر دے  انگارے
بنا سکا تو بنا لوں گا میں  گلاب کبھی
زندگی کچھ بھی نہیں  خواب مسلسل کے  سوا
ہم تو اس کو بھی غنیمت ہی مگر جانتے  ہیں
ان کی آنکھوں  میں  نہ منزل کا تصور جاگے
کس کو کہتے  ہیں  سکوں  اہل سفر جانتے  ہیں
پیمبروں  کی یاد لوٹ آئے  گی
صداقتوں  کی کھولیے  دکان پھر
ہم سے  وابستہ رہی ہر بزم کی رونق مگر
ہم جسے  اپنا سمجھتے  ایسا گھر کوئی نہ تھا
بہت قریب تھا اس کا ضمیر مر جانا
مگر برا جو کہا تو تو برا وہ مان گیا
***

زندگی تیرے  لیے  : احمد عثمانی

        احمد عثمانی کا یہ ناول اردو میں  مہاراشٹر کی دیہاتی زندگی کی پہلی پیشکش ہے۔ موصوف اب تک افسانہ نگار کی حیثیت سے  معروف تھے۔ مگر مذکورہ ناول نے  انہیں  ہند و پاک میں  ناول نگار کی حیثیت سے  متعارف کروایا۔ محبت اس ناول کا موضوع ہے۔ جزئیات نگاری میں  وہ بڑی تفصیل سے  کام لیتے  ہیں۔ اس ناول کے  کردار ہمارے  معاشرے  کے  چلتے  پھرتے  زندہ کردار ہیں، سادے  سیدھے، بھولے  بھالے  کردار۔ بھلا دیہاتی شہری زندگی کی مکاری کیا جانیں۔ مگر آج کل دیہات آہستہ آہستہ صفحۂ ہستی سے  مٹتے  جا رہے  ہیں۔ شہروں  کے  منحوس اثرات آہستہ آہستہ دیہاتوں  میں  سرایت کرتے  جا رہے  ہیں۔ اس ناول میں  مثبت کردار بھی ہیں  اور منفی کردار بھی۔ نیر مسعود، مقصود الٰہی شیخ وغیرہ نے  اس ناول کو بہت پسند کیا ہے۔ بہر حال اس ناول کو موجودہ دور کے  بہترین اور کامیاب ترین ناولوں  میں  شمار کیا جا سکتا ہے۔
***

اردو ڈراما آزادی کے  بعد: ڈاکٹر شہناز صبیح

        مذکورہ مقالے  پر ڈاکٹر صاحبہ کو ۱۹۸۷ء میں  الٰہ آباد ہونیورسٹی کی جانب سے  ڈی۔ فل کی گری تفویض کی گئی تھی۔  اس کتاب کا مقدمہ ڈاکٹر عطیہ نشاط نے  لکھا ہے۔ یہ کتاب پانچ ابواب میں  منقسم ہے۔ جن میں  ڈرامے  کی تعریف سے  لے  کر اہم ڈرامہ نگاروں  کی سوانح اور اردو ڈراما کے  جدید اسالیب پر تفصیلاً روشنی ڈالی گئی ہے۔ اور ایسے  فنکاروں  کے  ڈراموں  کا بھی ذکر کیا گیا ہے  جن کی وجہ شہرت کوئی اور چیز بنی۔ کہیں  کہیں  ڈراموں  پر تبصرہ کرتے  ہوئے  وہ اپنی تنقیدی رائے  بھی پیش کرتی ہیں۔ جو ان کی تنقیدی بصیرت پر دلالت کرتا ہے۔ ڈاکٹر عطیہ نشاط اپنے  مقدمے  میں  لکھتی ہیں :
        ’’ہمت، حوصلہ، لگن، ادبی خلوص، علمی ذوق، تحقیق سے  شغف، تلاش وجستجو کی آرزو، طالبعلمی کے  دوران اپنے  علمی خوابوں  کی تعبیر تلاش کرنے  کا جذبہ یوں  تو بہت سے  طلبہ اور طالبات میں  دیکھا گیا ہے  لیکن اس کی سب سے  روشن مثال ڈاکٹر شہناز صبیح ہیں، جس بار کو فرشتوں  نے  لرز کر رکھ دیا تھا اس کو انہوں  نے  بڑی خندہ پیشانی سے  آزمانے  کے  لیے  اٹھایا۔ ‘‘
        بہر کیف! یہ کتاب ڈرامہ سے  دلچسپی رکھنے  والے  طالبعلموں  کے  لیے  بہت مفید ہے۔ ڈرامے  کی الف بے  سے  واقفیت نہ رکھنے  والے  یہ کتاب پڑھ لیں  تو ان کی معلومات میں  اچھا خاصا اضافہ ہو جاتا ہے۔
***


قصے  کہانیاں    : نذیر احمد یوسفی      

        نذیر احمد یوسفی بچوں  کے  لیے  رواں  دواں  اسلوب میں  کہانیاں  لکھنے  میں  اچھا خاصا درک رکھتے  ہیں۔ چھوٹے  جملوں  میں  عمدہ خیالات بڑی مہارت کے  ساتھ سلیقے  سے  پیش کرتے  ہیں۔ اس سے  قبل بھی ان کی کہانیوں  کا ایک مجموعہ منصۂ شہود پر آ چکا ہے۔ اصلاحی انداز ان کی کہانیوں  میں  غالب ہے۔ اس کتاب کی قیمت بہت کم ہے۔ امید ہے  کہ اس سے  بچوں  کی جیب خرچ پر کسی طرح کا برا اثر نہیں  پڑے  گا۔ بچوں  کے  ادب پر آج کل توجہ کی بہت ضرورت ہے۔ کیونکہ یہی نسل آگے  چل کر بڑوں  کا ادب پڑھے  گی۔
***

یادوں  کی مہک:حبیب عاصم

        حبیب عاصم کا یہ پہلا شعری مجموعہ ہے۔ اگر چہ کہ کمیت کے  لحاظ سے  یہ مختصر ہے۔ مگر کیفیت کے  لحاظ سے  ضخیم سے  ضخیم سے  شعری مجموعوں  پر بھاری ہے۔ موصوف گیت بڑے  پیارے  کہتے  ہیں۔ وصل سے  زیادہ فراق کے  لمحات کو انہوں  نے  اپنی شاعری میں  پرویا ہے۔ انہوں  نے  زبان بڑی اچھی استعمال کی ہے۔ اپنی شاعری کے  حوالے  سے  کہتے  ہیں :’’میرا صحیح تعارف میری شاعری ہے۔ اسے  غور سے  پڑھیے ! شاید اس میں  آپ کو اپنی زندگی کی کوئی تصویر نظر آئے۔ ‘‘      
        صفحہ ۲۴ پر اپنا تعارف کرواتے  ہوئے  لکھتے  ہیں    ؂
کوئی دولت نہیں  ایمان کی دولت کے  ہم پلہ
یہ وہ دولت ہے  جو ہم مفلس و نادار رکھتے  ہیں
        ان کے  گیتوں  میں  میں  نے  اختر شیرانی کا رنگ غالب دیکھا ہے۔ غزل میں  وہ رسمی موضوعات سے  آگے  نہیں  بڑھ سکے۔ مگر بعض مقامات پر عصری مسائل کی جھلک ضرور نظر آتی ہے        ؂
حق بات ہی نہ کہنا جو عزت عزیز ہے
ایسا نہ ہو کہ تم پہ بھی پتھر اٹھائیں  لوگ
عاصمؔ کریں  نہ یاد کبھی بھول کر ہمیں
اور سامنے  جب آئیں  محبت جتائیں  لوگ
میں  نے  خود ہی حق بیانیوں  سے  روک لی زباں
ہو نہ جائے  کوئی واردات سوچتا رہا
        بہر کیف! عاصمؔ  صرف گیت پر طبع آزمائی کرتے  تو یقیناً آج کے  سب سے  بڑے  گیت کار ہوتے۔
***

درد آشنا: انوری بیگم

        یہ انوری بیگم کا تیسرا شعری مجموعہ ہے۔ ان کی شاعری کا مطالعہ بتاتا ہے  کہ فن پر ان کی گرفت مضبوط ہے۔ اظہارات کے  اسالیب سے  وہ بخوبی واقف ہیں۔ وصل سے  زیادہ فراق کے  درد بھرے  لمحوں  کو اپنی شاعری کے  فریم میں  منعکس کرنا ان کو بے  حد پسند ہے۔ یہی وجہ ہے  کہ اپنے  شعری مجموعے  کا نام انہوں  نے  ’’درد آشنا‘‘ رکھا ہے۔ مدیر ’’شاعر‘‘ افتخار امام صدیقی نے  ان کی شاعری کے  بارے  میں  لکھا ہے : ’’ انوری بیگم کسی سے  مرعوب یا متاثر نہیں  ہوتیں، وہ تو اپنا آئینہ اور عکس آپ ہیں۔ اور خود شناسی اس کا اظہاریہ بھی۔ ‘‘ ان کی شاعری کے  مختلف رنگ ہیں۔ اور یہ رنگ قاری کو اپنی طرف مائل کر لیتے  ہیں۔ ان رنگوں  کا ایک خاص تاثر ہوتا ہے، جو پڑھنے  والوں  کو جہانِ معنیٰ کی سیر کراتا ہے۔ دوران مطالعہ انوری کے  یہ اشعار مجھے  بے  حد پسند آئے      ؂
تم مرے  آئینہ خانوں میں  رہو گے  محفوظ
غم کی حدت سے  بھی نہ پگھلے  وہ پتھر تم ہو
 وہ یوں  ملا کہ مجھے  درد آشنا ہی لگا
اسے  جو دل میں  بسایا تو اک سزا ہی لگا
عقابوں  کی ہے  محفل اب کبوتر خواب ہے  گویا
جدھر بھی دیکھتی ہوں  بس یہی ہے  سلسلہ یا رب
انوریؔ  چار سو رقصاں  تھی محبت ہر پل
ایسے  کچھ اس بزم سے  اہل وفا بھی گزرے
تمہیں  میں  نے  جب رہنما کہہ دیا ہے
تمہاری ہے  مرضی جہاں  چھوڑ جاؤ
***


بند مٹی کا بھرم شاعر: ڈاکٹر محبوب راہی

        ڈاکٹر صاحب کی نگارشات سے  اردو کا ہر معروف و غیر معروف رسالہ مزین نظر آتا ہے۔ وہ زود نویس ہیں۔ مگر وہ معیار سے  کبھی بھی سمجھوتہ نہیں  کرتے۔ ’’بند مٹی کا بھرم‘‘ ان کی غزلیات کا مجموعہ ہے، جو ۲۰۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ ’’مجھے  اعتراف ہے ...........‘‘ کے  تحت وہ اس کتاب کی ابتداء میں  کہتے  ہیں :’’ پچھلی چار دہائیوں  سے  کم و بیش ہر مروجہ صنف شعر و ادب میں  مضامین نو بہ نو کے  انبار لگانے، ہند و پاک کے  تمام معیاری ادبی اور کمرشیل اردو رسائل و جرائد میں  مسلسل اور نمایاں  طور پر چھپتے  رہنے  اور نظم و نثر پر مبنی ایک درجن کتابیں  منظر عام پر لانے  نیز ان کتابوں  پر مختلف صوبائی اردو اکادمیوں  سے  انعامات پانے  کے  باوجود ارباب نقد و بصیرت سے  وہ پذیرائی حاصل نہ کر سکا جس کا بجا طور پر استحقاق اپنی چالیس سالہ تخلیقی سرگرمیوں  کے  نتیجے  میں  تخلیق شدہ وقیع اور بسیط سرمائے  کے  تناظر میں  مجھے  حاصل ہے۔ ‘‘ یہ ہماری اردو زبان کا المیہ ہے  کہ کسی بھی شخص کو اس کا جائز مقام نہیں  دیا جاتا۔ بہر کیف! مجھے  ان کی شاعری بہت پسند ہے۔ ان کی غزلوں  کے  مختلف روپ ہیں۔ اپنی غزلوں  میں  ایک طرف زندگی کے  خوبصورت رویوں  پر روشنی ڈالتے  ہیں۔ تو دوسری طرف زندگی کے  بدصورت رنگوں  کی بھی وہ عکاسی کرتے  ہیں۔ محبوب راہیؔ  موزوں  طبع ہیں۔ بڑی کامیاب غزلیں  کہتے  ہیں۔ ان کے  یہ شعر مجھے  اچھے  لگے ؂
ہر جگنو خود کو سورج سے  برتر سمجھے  بیٹھا ہے
چاہیں  جس سے  بات کریں  اب چاہے  جس کی بات کریں
مہک اٹھیں  گی فضائیں  گلوں  کی خوشبو سے
وہ گل جمال سراپا جدھر سے  نکلے  گا
عجب اک صورت حالات سے  دوچار ہیں  دونوں
مجھے  وہ پا نہیں  سکتا، اسے  میں  کھو نہیں  سکتا
ابھی تک ساتھ میرا دے  رہی ہے
حیاتِ بے  سروسامان میری
***


چاند کرتا ہے  گفتگو ہم سے: ارشد نظرؔ

        ارشد نظرؔ کا یہ دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ ان کی شاعری مواد، اسلوب، ہیئت اور زبان و بیان کے  حوالے  سے  ممتاز حیثیت کی حامل ہے۔ ارشد نظرؔ  نے  پیچیدہ زبان، گنجلک تراکیب، بعید الفہم تراکیب سے  اپنا دامن بچایا ہے۔ موصوف غزل بڑی پائے  کی کہتے  ہیں۔ غزل ان کا خاص میدان ہے۔ غزل کی فیلڈ میں  نام پیدا کرنا بہت حد تک مشکل کام ہے۔ اس میدان میں بہت ہی کم لوگ بہتر اور اچھے  انداز میں  کہنے  میں  کامیابی حاصل کر پاتے  ہیں۔ ارشد نظرؔ  کو میں  موجودہ دور کے  ایک حد تک کامیاب شعراء میں  شامل کرتا ہوں۔ ان کا اسلوب بڑا جاندار ہے۔ خصوصاً ان کی غزلیات کا مطالعہ کرنے  والے  کے  دل میں  ایک کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ جسے  کسی معلوم جذبے  کا  یا معلوم کیفیت کا نام نہیں  دیا جا سکتا۔ ان کی اکثر غزلوں  سے  یک تاثری کی کیفیت جھلکتی ہے، یعنی غزل کا مطلع  پڑھتے  ہوئے  جو تاثر محسوس ہوتا ہے  وہی تاثر برابر مقطع تک بر قرار رہتا ہے۔ ارشد نظرؔ  اپنی شاعری کے  تعلق سے  کہتے  ہیں : ’’ آج کل کے  شاعر نئی لفظیات کو برت کر یہ سمجھ رہے  ہیں  کہ وہ انسانی معاشرے  کی روح تک پہونچ چکے  ہیں۔ جب کہ حقیقت حال اس کے  بر عکس ہے۔ مجھے  اپنے  بارے  میں  کوئی خوش فہمی نہیں  ہے۔ میری شاعری میں جہاں  فکر ہے  وہیں  احساس کا کھردرا پن بھی ہے۔ مجھے  یقین ہے  یہ اشعار ہر عہد میں  زندہ رہیں  گے         ؂
کس کے  غم میں  ہوائیں  روتی ہیں
کوئی روشن دیا بجھا تو نہیں
ان کی صداؤں  نے  ہر بار سنبھالا ہے
دنیا کی اگر سنتا کب کا میں  بھٹک جاتا
گر کر بلندیوں  سے  نہ اٹھا کوئی نظرؔ
یوں  تو دنیا میں  ڈوب کے  کتنے  خدا ہوئے
دوڑ مت خواہشات کے  پیچھے
کچھ تو ارشد نظرؔ  خدا سے  ڈر
میں  کیا ڈوبوں  تیرے  اندر
میرے  اندر سات سمندر
        بہر حال! ارشد نظرؔ  کی شاعری میں  فکر و خیال کی ایک وسیع دنیا آباد ہے۔ جو صحتمند اذہان و قلوب کو عرصے  تک جلا بخشتی رہے  گی۔
***

غالب پر تین یادگار تقریریں مرتب: سنجئے  گوڈبولے     

        غالب کی شخصیت اور شاعری آفاقی حیثیت کی حامل ہے۔ ان کی شاعری پرنہ صرف اردو میں  بلکہ رومن اور انگریزی زبانوں  میں  بھی اچھا خاصا کام ہو چکا ہے۔ مذکورہ کتاب تین ماہرین غالبیات کی غالبؔ  پر تین تقاریر کا مجموعہ ہے۔ پہلی تقریر ڈاکٹر علی سردار جعفری مرحوم کی ہے۔  ’’بنارس کے  متعلق غالب کا نظریہ، چراغ دیر کی روشنی میں ‘‘  پر جعفری صاحب نے  روشنی ڈالی ہے۔ دوسری تقریر بھی اسی موضوع پر علامہ کالی داس گپتا رضا نے  کی ہے۔ ’’چراغِ دیر‘‘ غالبؔ کی فارسی مثنوی ہے ، جسے  غالبؔ  نے  اپنے  بنارس کے  قیام کے  دوران تحریر کیا تھا۔ غالبؔ  نے  اپنی فطری مشکل پسندی کے  ساتھ بنارس کے  فطری حسن پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ تیسری تقریر ’’ہماری زبان‘‘ کے  مدیر ڈاکٹر خلیق انجم کی ہے۔ اور انہوں  نے  غالبؔ  کے  خطوط اور ان کی اہمیت پر گفتگو کی ہے۔ وہ جو کہا جاتا ہے  کہ خطوط انسانی شخصیت کے  آئینہ دار ہوتے  ہیں، غالبؔ  کے  خطوط پڑھتے  ہوئے  یہ نظریہ ایک حد تک صحیح معلوم ہوتا ہے۔ خلیق انجم کہتے  ہیں : ’’ان کے  خطوط میں  جو شیفتگی، طنز و مزاح، اور ہنسی مذاق ہے  وہ ہمیں  سکھاتا ہے  کہ بھائی مرد وہی ہے  جو حوصلے  اور ہمت سے  مصیبتوں  کا مقابلہ کرے۔ ‘‘
        بہر کیف! ان تین اہم تقریروں  کو سنجئے  گوڈبولے  نے  مرتب کیا ہے۔ اسباق پبلیکیشنز نے  اسے  شائع کیا ہے۔ کتاب کے  آخر میں  انگریزی میں  غالب کی مختصر سوانح اور کچھ اشعار کا ترجمہ دیا گیا ہے، جس سے  کتاب کی اہمیت اور افادیت میں  خاصا اضافہ ہوا ہے۔
***

دیوانِ میرؔ  (دوم عکسی)  : سنجئے  گوڈبولے

        میرؔ  کو خدائے  سخن کہا جاتا ہے۔ جس طرح غالبؔ  کی مشکل پسندی کو شہرت حاصل ہے  اسی طرح میرؔ  کی سادگی پسندی مشہور ہے۔ مذکورہ دیوان میرؔ  کے  انتقال کے  تیس سال بعد ہی نقل کیا گیا تھا۔ جس کا عکسی ایڈیشن سنجئے  گوڈبولے  نے  شائع کر دیا ہے۔ سنجئے  اردو زبان کے  عاشق ہیں، اور عاشقی میں  وہ اتنا بڑھ چکے  ہیں  کہ اردو کے  حوالے  سے  بہت سے  قدیم مخطوطات کو اپنے  نوادر خانے  میں  انہوں  نے  جمع کر لیا ہے۔ کتاب دو حصوں  میں  منقسم ہے۔ پہلے  حصے  میں  سنجئے  گوڈبولے  اور نذیر فتحپوری کے  مضامین میرؔ  کے  متعلق شامل ہیں۔ نیز کالی داس گپتا رضا کی ’’توقیتِ میرؔ ‘‘ بھی شامل کی گئی ہے۔ دوسرا حصہ میرؔ  کے  کلام پر مشتمل ہے۔ سنجئے  ذکرِ میرؔ  میں  لکھتے  ہیں :’’ مجھے  مخطوطے  جمع کرنے  کا شوق ہے۔ ایک دن اچانک میر تقی میرؔ  کے  دیوان دوم کا مخطوطہ میرے  ہاتھ لگا۔ جس کی سائز ۱۸ ضرب ۳۰ سنٹی میٹر تھی۔ کاغذ کے  اوپر واٹر مارک تھا۔ جس پر ۱۸۴۰ء درج ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مذکورہ مخطوطہ میرؔ  کی وفات کے  تیس سال بعد ہی نقل کیا گیا تھا۔ یہ مخطوطہ فنِ کتابت کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس پر صفحہ نمبر درج نہیں  ہے۔۔۔۔ یہ مخطوطہ ایک طرح سے  انیسویں  صدی کا آئینہ ہے۔ جس میں  ہم اس وقت کے  اردو خط اور املا کی صورت دیکھ سکتے  ہیں۔ اس مقصد کے  تحت اے  عکسی شائع کیا جا رہا ہے۔ ‘‘
***

آغا حشر کے  نمائندہ ڈرامے    : ڈاکٹر انجمن آرا  انجمؔ

        آغا حشر کا نام ڈرامے  کی دنیا کا سب سے  زیادہ روشن نام ہے۔ پہلی مرتبہ اغلاط سے  بالکل پاک اور متون کی صحت کے  ساتھ آغا حشر کے  تین چار ڈرامے  کتابی شکل میں  شائع ہوئے  ہیں۔ کتاب کی ابتداء میں  ڈاکٹر صاحبہ نے  اردو ڈرامے  کے  آغاز و ارتقاء، آغا حشر کی مختصر سوانح اور حشر کے  فن تمثیل نگاری پر لکھا ہے۔ حشر نے  جس زمانے  میں  ڈرامے  کی دنیا میں  قدم رکھا وہ زمانہ اردو ڈرامے  کے  لیے  بہت ہی زریں  اور درخشاں  تھا۔ ان کے  مسجع و مقفع اسلوب میں  جو بلند آہنگی، جاذبیت اور کشش ہے، ہمیں  کسی اور کے  ڈراموں  میں  نہیں  ملتی۔ T.Vکی وجہ سے  ہندوستان میں  اردو ڈرامہ بالکل ختم ہو چکا ہے۔ البتہ ممالک غیر میں  آج بھی اس کا رواج باقی ہے۔ اس کتاب میں  آغا حشر کے  تین ڈرامے  سفید خون، یہودی کی لڑکی اور رستم وسہراب شامل ہیں۔ ہر ڈرامے  کے  شروع میں  مؤلفہ نے  مختصراً تعارف پیش کر دیا ہے، جس سے  ہر ڈرامے  کو سمجھنے  میں  قاری کو مدد ملتی ہے۔ یہ کتاب فخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی حکومت اتر پردیش لکھنؤ کے  مالی تعاون سے  شائع ہو رہی ہے۔ مؤلفہ اسی طرح اپنے  علمی و ادبی مضامین بھی شائع کریں  گی تو یہ اردو کی بہت بڑی خدمت ہو گی۔
***


مرزا تقی ہوسؔ  لکھنوی۔ شخصیت اور فن : سید محمد آقا حیدر حسن عابدی

        مذکورہ کتاب آقا حیدر حسن عابدی کی Ph.Dکا مقالہ ہے، ناگپور یونیورسٹی نے  اس کتاب پر ۱۹۷۵ء میں  Ph. Dکی ڈگری تفویض کی ہے۔ ہوسؔ  اپنے  زمانے  کے  نسبتاً کم معروف شاعر تھے۔ اپنے  دور میں  جو رنگ سخن رائج تھا، اس سے  ہٹ کر نہیں  کہتے  تھے۔ اگر چہ کہ ان کا تخلص ہوسؔ  تھا، مگر ہوسناکی سے  ان کی شاعری کوسوں  دور تھی۔ حسن و عشق کے  موضوعات کے  ساتھ ساتھ اخلاقِ کریمانہ پر خوب شعر کہتے  تھے۔ اس حوالے  سے  کہتے  ہیں : ’’ ہوسؔ  جیسا نرالا تخلص اپنانے  کے  باوجود ان کے  کلام میں  ہوس پرستی اور سوقیانہ جذبات نگاری کا شائبہ بھی نہیں  پایا گیا۔ ‘‘ اس کتاب میں  ہوسؔ  کی سوانح متعدد مخطوطات کی مدد سے  تحقیقی انداز میں  جمع کی گئی ہے۔ نیز ہوسؔ  کا منتخب کلام شامل کیا گیا ہے۔ جس سے  ان کے  کلام کی روح ابھر کر سامنے  آ گئی ہے۔ مثنوی گل صنوبر کو پہلی مرتبہ اس کتاب میں  مکمل شائع کیا گیا ہے۔ ہم ہوسؔ  کا مختصر نمونۂ کلام پیش کرنے  پر اکتفاء کرتے  ہیں        ؂
دیکھو مزاجِ حسن کی نازک مزاجیاں
لغزش ہے  پائے  یار کو بوئے  شراب سے
دیوانوں  کی طرح سے  میں  پھرتا ہوں  روز و شب
مجھ سا بھی دوستو! کوئی صحرا نورد ہے
مطلق کھلا نہ بھید کہ کیا ہو گا بعدِ مرگ
سب عمر گزری جھگڑے  میں  امید و بیم کے
مریض درد ہجراں  کو اجل مہلت اگر دیوے
تلاطم اشک کا سارے  جہاں  کو غرق کر دیوے
لہو رونے  کی عاشق فرصت اگر دیوے
سراسر وادیِ مجنوں  کے  تھالے  خوں  سے  بھر دیوے
        آقا حیدر حسن عابدی نے  ہوسؔ  کی خوبیوں  کے  ساتھ ساتھ خامیوں  پر بھی اچھی خاصی روشنی ڈالی ہے۔
***


جانشینِ داغؔ   بھائی جان عاشق: سنجئے  گوڈبولے

        اس کتاب کو سنجئے  کی اہم ترتیبات میں  شمار کیا جا سکتا ہے۔ دیوان میرؔ  دوم کے  بعد یہ ان کا دوسرا تحقیقی کارنامہ ہے۔ داغؔ  دہلوی کے  نورتنوں  میں  عاشقؔ  کا شمار کیا جا سکتا ہے۔ یہ ٹونک کے  رہنے  والے  تھے۔ حالیؔ  کے  مشورے  پر داغؔ  کی شاگردی اختیار کی۔ انہیں  کے  رنگ میں  شعر کہتے  رہے۔ اس کتاب کا انتساب نذیر فتحپوری کے  نام ہے۔ عاشقؔ  ٹونکی پر تعارفی مضمون سید منظور الحسن برکاتی نے  لکھا ہے۔ خاصا طویل مضمون ہے۔ جس میں  عاشقؔ  اور ان کے  حالات کا تفصیلی تذکرہ ملتا ہے۔ عاشقؔ  نے  غمزہ و ادا، ناز و انداز کو زیادہ تر موضوع سخن بنایا ہے۔ اس حوالے  سے  انہوں  نے  بڑے  خوبصورت اور اچھے  شعر نکالے  ہیں۔ سنجئے  گوڈبولے  مخطوطے  کے  حوالے  سے  لکھتے  ہیں : ’’دیوانِ میر دوئم عکسی کی اشاعت کے  وقت میں  بتا چکا ہوں  کہ مجھے  مخطوطے  حاصل کرنے  کا شوق ہے۔ دیوانِ میر عکسی کی اردو حلقوں  میں  جو پذیرائی ہوئی ہے، اس نے  میرے  حوصلے  بڑھا دیے۔ اور اب اپنے  ذخیرے  سے  یہ دوسرا مخطوطہ شائع کر کے  اردو دنیا کے  روبرو پیش کر رہا ہوں۔ یہ مخطوطہ عکسی نہیں  ہے۔ اس کے  عکس کی چھپائی ممکن نہیں  تھی۔ اس میں  تمام غزلیں  یے  کی ردیف میں  ہیں۔ مخطوطہ کی سائز ش 6121X سنٹی میٹر ہے۔ کاغذ انگریزی ہے۔ کلام کاغذ کے  دونوں  طرف مسلسل تحریر کیا گیا ہے۔ کل ۲۶ صفحات ہیں۔ آخری ۹ صفحے  میں  تحریر بدل گئی ہے۔ اس سے  ظاہر ہوتا ہے  کہ ان صفحات کو دو لوگوں  نے  نقل کیا ہے۔ ‘‘
        عاشق ٹونکی کا مختصر نمونۂ کلام پیش کیا جا رہا ہے     ؂
بہت تھی آپ کی مجھ پر طبیعت وہ بھی کیا دن تھے
نہ تھی اوروں  کی آنکھوں  میں  مروّت وہ بھی کیا دن تھے
جو کوئی بات میری آپ کے  دل کو بری لگتی
تو پہروں  ہوتی رہتی تھی شکایت وہ بھی کیا دن تھے
(جو) ہوتا شام کا وعدہ تو گھڑیاں  گن کے  دن کٹتا
محبت کا زمانہ بھی تھا آفت وہ بھی کیا دن تھے
***


رنگ دگر: اقبال فرید میسوری

        اقبال فرید میسوری کا یہ پہلا شعری مجموعہ ہے، وہ بہت کم لکھتے  ہیں۔ ان کی شاعری با ذوق قارئین کو بور نہیں  کرتی۔ با ذوق قاری ھل من مزید کے  چکر میں  ان کی ساری شاعری پڑھ ڈالتا ہے۔ اقبال فرید بیک وقت شاعر، مصور اور کاتب ہیں۔ اور اس سے  بڑی بات یہ ہے  کہ وہ ایک اچھے  انسان ہیں۔ آج کے  دور میں  ان جیسے  مخلص لوگوں  کا شارٹیج ہے۔ احمد ندیم قاسمی ان کی شاعری کے  بارے  میں  کہتے  ہیں : ’’ اس شاعر کے  ہاں  وہ سبھی کچھ ملتا ہے  جو اہل زبان شعراء کے  یہاں  موجود ہوتا ہے۔ پھر اپنی غزل کے  لیے  نئی ردیفیں  نکالنے  اور ساتھ ہی انہیں  نباہنے  کا اقبالؔ  فرید کو پورا ملکہ حاصل ہے۔ ’’سورج‘‘ ، ’’چند‘‘   اور  ’’محدود‘‘ ان کی چند حیرت انگیز ردیفیں  ہیں۔ ان کی غزلوں  میں  غور و تامل یعنی فکر کا عنصر نمایاں  ہے۔ اور زبان کے  مختلف تیوروں  پر بھی انہیں  دسترس حاصل ہے۔ ‘‘  کتاب کے  پیش لفظ میں  وہ کہتے  ہیں : ’’ غزل میری پسندیدہ صنفِ سخن ہے۔ ‘‘ شاید یہی وجہ ہے  کہ انہوں  نے  غزل کو غزل بنانے  میں  بڑی محنت کی۔ بہت سے  انوکھے  مضامین کو انہوں  نے  شعرایا ہے۔ غزل کی یہی پسندیدگی انہیں  ہمہ وقت نت نئے  قوافی تراشنے  اور زبان میں  جدت پیدا کرنے  کی طرف مائل رکھتی ہے۔ ان کی شاعری میں  ایک نامعلوم کسک ہے، درد ہے، تڑپ ہے۔ ان کے  فن پر موجودہ کتاب میں  امجد اسلام امجدؔ ، پروفیسر مشکور حسین یادؔ ، واصل عثمانی، افتخار امام صدیقی  وغیرہ نے  روشنی دالی ہے۔ مجھے  یقین ہے  کہ اقبالؔ  فرید کے  یہ اشعار عرصے  تک چمکتے  رہیں  گے     ؂
کہہ رہے  ہیں  میرے  بچے  میرا گھر
لوٹ کر اب آ بھی جا اے  زندگی
ماضی کو بھول جاؤ ثبوت کمال دو
یا خود ہی سوچو اور وجوہ زوال دو
ملتا ہے  کچھ صلہ یہ توقع فضول ہے
نیکی جہاں  کرو وہیں  دریا میں  ڈال دو
میں  اک بہتا دریا ہوں
پھر بھی کتنا پیاسا ہوں
شام آئی تو کیسے  چپکے  سے
مرے  ساغر میں  ڈھل گیا سورج
چاندنی رات بھی اندھیری ہے
رنگ بدلا ہے  آسماں  لوگو!
زندگی صرف چند روزہ ہے
کچھ تو ہنس بول لو یہاں  لوگو!
کیا ترقی ہوئی اے  زمانے
ڈر گیا آدمی آدمی سے
آساں  آساں  کھیل ہیں  سارے  عشق تو ایسا کھیل نہیں
کھیلنا چا ہو ہم سے  سیکھو کھیل ہے  یہ دیوانوں  کا
***

برقرار: احمد کمال پروازی

        احمد کمال پروازی کا تعلق اجین سے  ہے۔ جن کا پہلا شعری مجموعہ ’’مختلف‘‘ ۱۹۸۸ء؁ میں  منظر عام پر آیا تھا۔ اب یہ دوسرا مجموعہ ایک طویل عرصے  کے  بعد ۲۰۰۵ء؁ میں  شائع ہوا ہے۔ کمال صاحب کا اسلوب اک طرف سوچ لفظوں  سے  دلوں  کو گرماتا ہے، تو دوسری طرف ایک منفرد اسلوب اور شاندار انداز بیان کی نشاندہی کرتا ہے۔ طویل مدت میں  دو شعری مجموعے  اس بات کی طرف اشارہ کرتے  ہیں  کہ وہ حرمت فن سے  بخوبی واقف ہیں۔ فن کی تمام گہرائیوں  اور باریکیوں  پر اُن کی نظر ہے۔ بات کہنے  کا نرالا انداز وہ اپنے  پاس رکھتے  ہیں۔ غزل پر ان کی گرفت مضبوط ہے۔ ان کے  اشعار میں  متاثر کرنے  اور مرعوب کرنے  کی صلاحیت موجود ہے۔ ان کی شاعری کا مطالعہ کرتے  ہوئے  دل میں  ایک گداز سا محسوس ہوتا ہے۔
        میں  ان کی غزل پڑھ کر بہت حیران ہوا کہ ہمارے  یہاں  ایسے  عظیم اور با کمال غزل گو موجود ہیں۔ ان کا اچھوتا انداز بیان ان کے  کمال فن، کمالِ قدرت اور کمال علم پر دلالت کرتا ہے۔ ان کی شعری کائنات کا افق غزل کے  نور سے  منور ہے۔ غزل کے  علاوہ انہوں  نے  کسی اور صنف کو ہاتھ نہیں  لگایا ہے۔ ان کا خاص اور جداگانہ اسلوب ہے۔ جو ان کی بہترین شعری صلاحیتوں  اور فکری صلاحیتوں  کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ انہوں  نے  اپنی غزلوں  میں  بے  نام کرب کو سمویا ہے  اور معاشرے  کے  تاریک گوشوں  کو منعکس کیا ہے۔ انہوں  نے  بہت سے  ایسے  موضوعات کو ہاتھ لگایا ہے  جن میں  سے  کسی ایک موضوع کو بھی کسی دوسرے  شاعر نے  چھوا تک نہیں۔    ؂
خوف بھی منزلِ مقصود پہ لے  جاتا ہے
پیچھے  آتا ہوا قاتل بھی ضروری سمجھو
دیکھا تو جیسے  باپ کی تصویر ہو بہو
دینا پڑا فقیر تھا، ٹالا نہیں  گیا
رات کا یاتری نہیں  آیا
خالی خالی الاؤ جلتا رہا
کیسی آواز تھی آدمی کی
چیتھڑے  اڑ گئے  پتھروں  کے
میں  جانتا ہوں  بہاریں  وصول کرنا
سوال یہ ہے  مجھے  لوٹنا نہیں  آتا
تمام لوگ ستاروں  پہ تصفیہ کر لیں
میں  اپنا چاند زمیں  کھود کر نکالوں  گا
جوانی اور بوڑھے  پن میں  بے  شک فرق ہوتا ہے
مگر یہ فرق آتا ہے  تو بچے  کٹنے  لگتے  ہیں
اس گھر کی دیکھ ریکھ کو ویرانیاں  تو ہوں
جالے  ہٹا دیے  تو حفاظت کرے  گا کون
٭٭٭

No comments:

Post a Comment