Showing posts with label 6جامعہ دارالسلام کا ایک دن. Show all posts
Showing posts with label 6جامعہ دارالسلام کا ایک دن. Show all posts

Wednesday, April 24, 2013

6جامعہ دارالسلام کا ایک دن

6جامعہ دارالسلام کا ایک دن
ظہر کی اذان ہو رہی ہے، ہم نیند سے بیدار ہو گئے، وضو کر کے حمام خانے سے نکلے، اپنا چہرہ، ہاتھ تولیے سے پونچھنے کے بعد ظہر کی نماز کے لیے تیز تیز قدموں سے مسجد سلطان کی طرف جارہے ہیں، لیجیے جماعت ٹھہر گئی ہے، مولانا ابوالبیان حمادؔ عمری امامت کے لیے آگے بڑھ چکے ہیں، مولانا نے اس مسجد کا افتتاح کرتے ہوئے غالباً سب سے پہلے ظہر کی نماز پڑھائی تھی، اس کے بعد سے آج تک مسلسل ظہر کی نماز پڑھاتے آ رہے ہیں، بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ آپ مسجد سلطان میں ظہر کی نماز نہ پڑھائیں۔
’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ ، ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ مولانا ظہر کی نماز کا سلام پھیر چکے ہیں، طلباء جلدی جلدی تسبیحات ادا کر رہے ہیں، کچھ طلباء کی نماز قضاء ہو گئی ہے، وہ جلد از جلد اپنی بقیہ رکعتیں ادا کرنے میں مصروف ہیں، کچھ طلباء تسبیحات مکمل کرکے سنن ونوافل سے فراغت حاصل کر رہے ہیں، لیجیے ہم بھی سنت پڑھ کر مسجد سے باہر نکل آئے، چائے پینے کے لیے ہوٹل کی طرف جا رہے ہیں، بعض طلباء جو چائے پینے کے عادی نہیں ہیں کلاسوں کا رخ کر رہے ہیں، ابھی کلاس شروع ہونے کے لیے آدھا گھنٹہ باقی ہے، طلباء رسائل، جرائد اور اخبارات کا مطالعہ کر رہے ہیں، پانی پینے والے پانی پی رہے ہیں، کچھ طلباء گپ شپ میں مصروف ہیں، جامعہ کے سکریٹری مولانا کا کا سعید احمد عمری نہ جانے کیسے بے وقت اس طرف تشریف لا رہے ہیں، ہمیشہ جامعہ کی ترقی ، طلباء کے تعلیمی معیار میں اضافے کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں، آپ چاہے جہاں ہوں جامعہ کی فکر دامن گیر رہتی ہے، طلباء میں کسی قسم کی کوئی خامی برداشت نہیں کر سکتے، کاکا محمد عمرؒ ، کاکا محمد اسماعیلؒ ،کاکا محمد ابراہیمؒ نے جس پودے کی آبیاری کی تھی ، جسے اپنے خون دل سے سینچا تھا وہ آج تناور درخت کی شکل اختیا ر کرچکا ہے، کاش آج کے دن یہ بزرگان موجود ہوتے تو جامعہ کی ترقی دیکھ کر کیسے خوش ہوتے، کیسی مسرت کا اظہار کرتے۔
مولانا کاکا سعید احمد عمری کے ساتھ آج کاکا انیس بھی تشریف لا رہے ہیں، بڑی حلیم، متین، بردبار شخصیت ہیں، قابل باپ کے قابل فرزند ہیں، ہمیشہ اپنے باپ کے کندھے سے کندھا ملا کر چلتے ہیں، اپنے والد کا پورا پورا تعاون کرتے ہیں، اللہ آپ کی مساعئ جمیلہ کو قبول فرمائے۔
دو بجنے کے لیے پانچ منٹ اور باقی ہیں، وارننگ بیل بج چکی ہے، ہمارے ساتھی ،دیگرکلاسوں کے طلباء تیزی سے چلتے ہوئے اپنی کلاسوں میں داخل ہو چکے ہیں، ہم بھی اپنی کلاس میں داخل ہوگئے، اپنی مخصوص سیٹ پر بیٹھ گئے، دیکھئے! مولانا آ گئے، یہ مقدمہ ابن خلدون اور کی گھنٹی ہے، ہفتے میں تین دن مقدمہ ابن خلدون پڑھاتے ہیں، ابن خلدوں کے اس مقدمے سے ہمیں ان کے گہرے، تاریخی، سماجی، تہذیبی شعور کا پتہ چلتا ہے، مولانا نے اس کتاب کو بڑی محنت، لگن سے پڑھایا، مزہ آ گیا۔
دوپہر کی دوسری گھنٹی مولانا ظفر الحق طالب نائطیؔ عمری کی ہے، جو تاریخ الادب العربی اور دیوان متنبی پڑھاتے ہیں، ہفتے کے تین دن تاریخ ادب، بقیہ دن دیوان متنبی کے لیے مختص ہیں، لیجئے! آپ تشریف لا چکے ہیں، ادب کی گھنٹی ہو، استاد مولانا ظفر الحق طالب نائطیؔ عمری ہوں تو اس کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے، مولانا اپنے مخصوص انداز میں احمد حسن زیات کی تاریخ ادب عربی پڑھا رہے ہیں، مولانا کی خوبی یہ ہے کہ ان کی گھنٹی کے دوران سب کی توجہ سبق پر مرکوز ہوتی ہے، عبارت کا ترجمہ چست رواں دواں کرتے ہیں، درمیان میں کبھی غالبیات پر بحث ہو رہی ہے تو کبھی اقبالیات موضوع گفتگو ہے، کبھی مولانا آزاد پر بات ہو رہی ہے، الغرض یہ گھنٹی یک رنگی نہیں ست رنگی گھنٹی ہے، قواعد عربی سمجھانے کا آپ کااپنا انداز ہے۔
آپ شاعر بھی ہیں، مشاعرے میں عموماً اپنی غزلیں، فارسی اشعار سنا کر سامعین کو مرعوب کر دیتے ہیں، مولانا کا یہ شعر مجھے بہت پسند ہے ؂
عزیمتوں کے راستے بڑے ہی پرخطر سہی
جو حوصلے بلند ہوں نشیب کیا فراز کیا
دیکھتے ہی دیکھتے دوسری گھنٹی بھی ختم ہو گئی، مولانا کی پر بہار گھنٹی کب شروع ہوئی، کب ختم ہوئی احساس ہی نہیں ہوا۔ گھنٹی بجنے کے ساتھ ہی آپ نے اپنا سبق روک دیا، اٹھ کر کلاس سے چلتے بنے، تیسری گھنٹی انگریزی کی گھنٹی ہے، اس گھنٹی میں کلاس دوحصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے، ’’الف‘‘ اور ’’با‘‘ ، ’’الف‘‘ کے طلباء اسی کلاس میں بیٹھ جاتے ہیں، ’’با‘‘ کے طلباء اوپر چلے جاتے ہیں، الف کے استاد ہیں ماسٹر مسعود صاحب، ’’با‘‘ کے استاد ہیں ماسٹر فضل اللہ صاحب، میں نے جامعہ دارلاسلام میں جماعت چہارم میں داخلہ لیا، جماعت چہارم سے آٹھویں جماعت تک مجھے انگریزی ماسٹر مسعود صاحب ہی سے پڑھنے کا اتفاق ہوا، یہ بھی اتفاق ہی ہے کہ عارف الحق کا نام بھی مسلسل ماسٹر مسعود صاحب کی جماعت میں ہی لکھا جاتا رہا، ماسٹر صاحب بھی انہیں بہت چاہتے تھے، ماسٹر مسعود صاحب بھی بسا اوقات واقعات، لطائف سناتے، کلاس کو متحرک رکھتے، پڑھانے سے کبھی غفلت کا اظہار نہ کرتے، اگرچہ طلباء انہیں بہت پریشان کرتے تھے، کبھی کوئی بلی کی آواز نکال رہا ہے، کوئی کتے کی طرح بھونک رہا ہے، ماسٹر صاحب ایسے وقت میں جلال میں آ جاتے، ان کی حالت ایسی صورت میں قابل دید ہوتی، ماسٹر صاحب کو طلباء کی فطرت سے آگاہ ہونا چاہئے، اگر وہ طلباء کی ان حرکتوں کا نوٹس نہیں لیں گے تو طلباء ازخود خاموش ہو جائیں گے، طلباء تو طلبا ٹھہرے، شرارت کرنا ان کی فطرت ثانیہ ہے، خواہ وہ پہلی جماعت کے طلباء ہوں یا آخری جماعت کے، ان سے سنجیدگی کی توقع کرنا فضول ہے، کبھی کبھی اصول صحت پر بھی کھل کر بحث کرتے کہ کون سی چیز صحت کے لیے مفید ہے ؟ کون سی مضر ہے؟ کس چیز کو کس طرح استعمال کرنا چاہئے اور کس طرح نہیں؟ اس حوالے سے اور کیا کیا گفتگو ہوتی ہوگی آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔
ماسٹرفضل اللہ صاحب کے پاس چونکہ پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا اس لیے ان کے انداز تدریس کے بارے میں اظہار خیال کرنے سے قاصر ہوں، طلباء بتاتے ہیں کہ وہ بہت اچھی طرح پڑھاتے ہیں، سمجھاتے ہیں، مگر شنیدہ کی بود مانند دیدہ۔
ماسٹر مسعود صاحب کتاب بند کر چکے ہیں، ’’ٹائم کیا ہوا بھئی؟‘‘ مسعود صاحب نے سوال کیا۔ کسی نے جواب دیا ’’ابھی پانچ منٹ باقی ہیں‘‘ طلباء خاموشی سے بیٹھے ہوئے وقت گزرنے کا انتظار کر رہے ہیں، لیجئے! پانچ منٹ گذر گئے، چھٹی کی گھنٹی بج گئی، ہم جلدی جلدی کتابیں سمیٹے اپنی کلاس سے باہر جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، ہمارے قدم آگے بڑھ رہے ہیں، طلباء اپنی جماعتوں سے غول در غول نکل رہے ہیں، کوئی خاموشی سے اور کوئی گفتگو کرتے ہوئے مسجد کی طرف جارہا ہے، ہم مسجد میں پہونچ گئے، مسجد کے صحن کے دائیں طرف اپنی کتابیں رکھ دیں، چپل چھوڑ دیے، حوض کی طرف جا رہے ہیں، حوض کے ٹھنڈے پانی سے وضو کیا، وضو سے فراغت کے بعد ہم مسجد میں جا کر بیٹھ گئے، جماعت کے لیے ابھی پانچ منٹ باقی ہیں، ہم سنت ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوئے، دو رکعت سنت پڑھ کے بیٹھ گئے، کچھ طلباء ہاتھ باندھے جماعت کے انتظار میں کھڑے ہوئے ہیں، کچھ تیزی سے وضو سے فراغت حاصل کر رہے ہیں۔
عصر کی جماعت کھڑی ہو گئی ہے، امامت کے لیے عارف الحق آگے بڑھ چکے ہیں، تکبیر تحریمہ کی آواز سن کر طلباء جو وضو بنانے میں مصروف تھے دوڑتے ہوئے آ رہے ہیں، جماعت میں شریک ہو رہے ہیں، چہار رکعت عصر کی فرض نماز امام صاحب کے سلام کے ساتھ ختم ہوئی، ہم فرض نمازوں کے بعد کی تسبیح میں مصروف ہیں، کچھ طلباء کے چہروں پر بیچینی محسوس ہو رہی ہے، شاید وہ جلد گراؤنڈ جا نا چاہتے ہوں گے، یا آج ان کا میچ ہوگا۔
بہر کیف! عصر پڑھ کر ہم باہر نکلے، عصر کے بعد آٹھویں جماعت والوں کو تجوید کی گھنٹی پڑھنی ہوتی ہے، اس میں حفاظ غیر حفاظ کی تفریق نہیں کی جاتی، ہم کتابیں لے کر کمرے کی طرف جارہے ہیں، الماری میں کتابیں رکھنے کے بعد مصحف لے کر تیزی سے کلاس کی جانب رواں ہو جاتے ہیں، وہاں تجوید کے استاد مولانا محمد عبدالقیوم طاہر مدنی ہم سے پہلے کلاس میں حاضر ہیں، طلباء اپنے اسباق سنا رہے ہیں، قاری صاحب تجوید کی چھوٹی موٹی اغلاط کی نشاندہی کر رہے ہیں، قاری عبدالقیوم طاہر مدنی صاحب کے بار ے میں آپ جانتے ہی ہوں گے کہ یہ الجامعۃ الاسلامیۃ سے فارغ التحصیل ہیں، قدرت نے نہایت خوبصورت آواز سے نوازا ہے، بڑے نستعلیق قسم کے انسان ہیں، مخصوص رکھ رکھاؤ اور سلیقہ ان کی فطرت کا حصہ ہے، الجامعۃ الاسلامیۃ (المدینۃ المنورۃ) میں دس سال امامت کے فرائض انجام دے چکے ہیں، ہمیں آپ کی شخصیت کو بہت قریب سے دیکھنے، پرکھنے، سمجھنے کا موقع ملا، بڑے نرم مزاج انسان ہیں، اردو سے زیادہ عربی کتابیں پڑھنے کا ذوق رکھتے ہیں، آپ کی لائبریری میں بڑی اہم، بنیادی کتابیں دستیاب ہیں۔