Showing posts with label قانون کا فلسفہ. Show all posts
Showing posts with label قانون کا فلسفہ. Show all posts

Friday, March 22, 2013

قانون کا فلسفہ


قانون کا فلسفہ
جولوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ کسی حرام شے کے حلاال ہوجانے کے لئے ب اتنی ہی بات کافی ہے جس علتکی وجہ سے حرمت کا حکم دیاگیا تھا وہ علت عملاً موجود ہوتو ایسا خیال کرنا دنیا اور دین دونوں کے فلسف�ۂقانون سے ناواقفیت پرمبنی ہوگا دنیاوی قوانین کی مثال دیکھئے کہ بغیر لائسنس کے پستول رکھنا جرم ہے ۔ علت اس جرم کی اس کے سوا کیا ہے کہ لائسنس کی شرط نہ ہونے کی صورت میں یہ مہلک ہتھیار تمام ان لوگوں کے بھی قبضے میں پہنچ جائے گا جن کے کردار کاکوئی علم حکومت کو نہیں اور جن سے ہر وقت یہ اندیشہ ہے کہ وہ اسے جائز طور پر استعمال کرڈالیں گے۔
اب فرض کیجئے ایک شخص بغیر لائسنس کا پستول رکھے کے جرم میں ماخوذ ہوتا ہے لیکن اس نے ابھی تک اس پستول کو ناجائز طور پر استعمال نہیں کیا ہے تو کیا قانون کا فیصلہ یہ ہوگا کہ اسے کوئی سزا دی جائے کیوں کہ اس کے معاملہ میں وہ علت عملاً نہیں پائی گئی جسکی بنیاد پر پستول رکھنا جرم قرار دیا گیا تھا اور کیا جج یہ کہے گا کہ اسے مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ اس نے پستول کا استعمال ہی نہیں کیا۔
سب کومعلوم ہے کہ قانون کا فیصلہ یہ نہیں ہوگا اس لئے نہیں ہوگا کہ دراصل جرم قرار دینے کی بنیاد خطرے کا عملی جامہ پہن لینانہیں بلکہ بجائے خود اس خطرے کا پایاجانا ہے ۔
اسیطرح شراب کی حرمت اگر چہ بظاہر نشے ہی پر قائم ہے لیکن فی الاصل نشہ پیدا کرنے کی صلاحیت کا پایاجانا سبب حقیقی ہے نہ کہ اس نشہ کا عملی جامہ پہن لیناجو شخص ایک بوند استعمال کرلیتا ہے اس کے بارے مین یہ باور کرنے کی کوئی ضمانت نہیں کہ چند بوندیں اور بھی استعمال نہیں کرے گا ۔ یہی امکان اور اندیشہ ہے جسے دنیا وی قوانین میں بھی ملحوظ رکھاگیا ہے اور دینی قوانین میں بھی۔ ایک غیر سند یافتہ ڈاکٹر اسی وقت مجرم نہیں تھیرایا جائے گا جب کہ وہ اپنے اناڑی پن سیکسی مریض کو ہلاک کردے بلکہ سے اس صورت میں بھی قانون مجرم ہی قرار دیگا جب کہ کوئی ضرر اس سے کسی مریض کو نہ پہنچ ہو بلکہ فائدہ ہی فائدہ پہنچ رہا ہو۔حالاں کہ غیر سند یافتہ لوگوں کو پریکٹس کی ممانعت اسی بنیاد پر ہوتی ہے کہ ان کے اناریپن سے صحتِ عامہ کو خطرہ ہے لیکن اس خطرے کا عملی لباس پہن لینا ضروری نہیں لہٰذا شراب کی حرمت کے لئے بھی قطعاً ضروری نہیں کہ اس کی وہی مقدار حرم ہو جو عملاً نشہ پیدا کردے۔
شرعی تمثیلی میں زنا کی مثال لیجئے ۔ ظاہر ہے زنا کی حرمت کے لئے بھی کوئی نہ کوئی علت و سبب ہے ۔ آپ کوئی بھی علت ۔یا متعدد علتیں تجویز کریں مگر بعض صورتیں زنا کی ایسے ضرور نکل سکتی ہیں جن میں تجویز کردہ علتوں میں سے ایک بھی علت نہ پائی جاتی ہو تو کیا ان صورتوں میں آپ زنا کو جائز قرار دیں گے؟۔۔۔مان لیجئے ایک ایسی بیوہ ہے جسے آپریشن کے ذریعے اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم کردیاگیا ہے ۔ اب ایک شخص اس سے نہایت محفوظ و مخفیمقام پر زنا کرتا ہے تو دیکھ لیجئے کہ کوئی بھی وہ علت نہیں پائی گئی جسے مادہ پرستانہ نقطۂ نظر ے حرمتِ زنا کی علت قرار دیا جائے۔ لیکن زنا پھر بھی حرام پائے گا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض افعال اپنی سرشت اور وضیع ہی میں قبیح ہوتے ہیں اور ان کی حرمت ا بات پر موقوف نہیں ہوتی کہ ہم نے عقل و منطق کے ذریعہ جن گونا گوں نقصانات کو ان کے لئے اسباب حرمتسمجھا ہے ان میں سے کوئی سبب ظہور میں آہی آجائے ۔ جن شاذ صورتوں میں کوئی بھی سبب موجود نظر نہ آئے وہ بھی ممنوع قرار پائیں گے۔
شراب بھی زنا کی طرح قبیح بالذات ہے ۔ اس سے خمیر اور سرشت ہی میں نشہ آور ی ہے لہٰذا حرمت کا فیصلہ دینے کے لئے اس کا انتظار نہیں کیا جائے گا کہ نشہ ظہور ہی میں آجائے ایسا کیسے نہ ہو جب کہ قانون کا ازلی و ابدی فلسفہ ہی یہ ہے کہ جو فعل ممنو ع ہوگا اس کے طبعی ذرائع پر بھی حکم ممانعت لگایاجائیگا اور ممانعت کی نرمی یا شدت اس پر منحصر ہے کہ اسل جرم کس درجے کا جرم ہے ۔ اگر بھیانک قسم کا جرم ہے تو اس کے وسائل و اسباب کی ممانعت میں بھی شدت و وسعت برتی جائیگی ۔ شراب ، قمار ، زنا ،سود شریعت میں بدترین قسم کے جرائم ہیں ۔چنانچہ سود ہی کو حرام نہیں قرار دیاگیا بلکہ اللہ کے رسولؐ بے بعض ایسے معاملات کو بھی فاسد قرار دیا جن میں سود کی مشبہت تھی ۔ اسی بنیاد پر قانون شرعی میں یہ طے ہے کہ ماہرین قانون کے نزدیک جس عقد (معاملے) میں سود کی مشابہت جوہری اعتبار سے متحقق ہوجائے وہ حرام وباطل قرار پائیگا۔اور اسی طرھ شراب پینے ہی کو نہیں اس کے بنانے کو بیچنے کو ، س کی درآمد بر آمد کو ، اس کیلئے جگہ کراے پر دینے کو ممنوع ٹھیرایا اور اسی طرھ مردوزن کے اختلاط ، بوس و کنار اور حد سے متجاوز بے تکلفی کو جرم قراردیا۔
الحاصل جو لوگ صحیح طور پر یہجان لیں کہ شراب نوشی کا سد بابا کس شدت واصرر کے ساتھ اسلام کو مطلوب ہے ۔ انھیں اس نکتہ پر مطمئن ہونے میں ہرگز تامل نہیں ہوسکتا کہ شراب کا ایک قطرہ بھی حرام ہے اور ایسے ٹانک اور دوائیں مسلمان کے لئے’’نجاست ‘ ‘کا درجہ رکھتی ہیں جن میں شراب آمیز کی گئی ہو۔