Showing posts with label جلیل ساز. Show all posts
Showing posts with label جلیل ساز. Show all posts

Monday, March 18, 2013

جلیل ساز




جلیل ساز

تعارف:

علم و ادب میں  کافی شہرت یافتہ شہر یعنی ناگپور سے  جلیل سازؔ  صاحب کا تعلق ہے، آپ کی غزلیں  میں  نے  جستہ جستہ شاعر (مدیر: افتخار امام صدیقی، ممبئی)میں  دیکھیں، اچھی لگیں، اور دل کو چھو گئیں، اب جب کہ ان کا مکمل مجموعۂ کلام ’’نگاہ‘‘ میرے  سامنے  ہے  تو مجھے  خوشی اور مسرت محسوس ہو رہی ہے۔ شاعری پر گفتگو سے  قبل میں  ان کا تعارف کرا دینا مناسب سمجھتا ہوں، آپ کے  آباء و اجداد ۱۸۵۷؁ء کے  بعد مبارکپور، ضلع مؤ سے  ہجرت کر کے  ناگپور منتقل ہو گئے، والد کا نام تھا حاجی محمد رفیق، جن کی دوسری بیوی سے  تین لڑکے  یعنی جلیل سازؔ ، وکیل پرویز، عبد القدیر اور تین لڑکیاں  تولد ہوئیں، اور جلیل سازؔ  کی تاریخ پیدائش ہے  ۲  فروری ۱۹۳۱؁ء۔ آپ کی تعلیم دسویں  جماعت سے  آگے  نہیں  بڑھی، لیکن آپ کو تجربے  نے  اتنا کچھ سکھا دیا کہ زیادہ سے  زیادہ تعلیم یافتہ انسان بھی آپ کے  سامنے  ہیچ معلوم ہوتا ہے، عبد الصمد اختر، طرفہ قریشی، بھنڈاری اور احسان دانش سے  اپنے  کلام کی اصلاح لیتے  رہے، ۱۹۵۶؁ء میں  فارغ الاصلاح قرار دے  دیے  گئے، اس کے  بعد سے  آج تک مسلسل شاعری کر رہے  ہیں اور اردو کی خدمت میں  لگے  ہوئے  ہیں۔ شاعری کے  ساتھ ساتھ سیاسی مضامین لکھنے  اور سماجی خدمت کرنے  سے  بھی حد درجہ دلچسپی ہے۔ آپ ڈاکٹر ذاکر حسین ڈی۔ ایڈ کالج کے  بانی و صدر ہیں۔ نیز مجیدیہ گرلس ہائی اسکول اینڈ جونیر کالج (مومن پورہ) کے  بھی صدر ہیں۔ ۱۹۶۲؁ء سے  ۱۹۶۷؁ء تک محمد علی سرائے  کے  جوائنٹ سکریٹری رہ چکے  ہیں۔ مدرسۂ یعقوبیہ کے  بھی کئی سال سکریٹری رہ چکے  ہیں۔ جلیل سازؔ  نے  اپنے  تجربات کے  بارے  میں  لکھا ہے :
’’سیاسی وسماجی خدمات کے  دوران مجھ کو جو تجربے  اور مشاہدے  ہوئے  ہیں  میری فکر کا محور قرار پائے۔۔۔۔ میری تعلیم دسویں  سے  آگے  نہ جاسکی۔۔۔ میرے  جوہر کو بزرگوں  نے  نمایاں  کیا۔ بفضل تعالیٰ انگریزی، اردو، ہندی اور فارسی پر بخوبی گرفت ہے۔ میرے  دل میں  جو جذبات ہیں  وہ بھی بزرگوں  کی صحبت میں  رہنے  سے  پیدا ہوئے  ہیں۔ سچائی یہی ہے  کہ بزرگوں  کے  سائے  میں رہ کر انسان جو کچھ سیکھتا ہے  وہ بہت کارآمد ہوتا ہے۔ ‘‘
اخلاق سے  بھر پور شاعری

ہر مذہب (خواہ اس کا تعلق آسمانی مذاہب سے  ہو یا زمینی مذاہب سے ) میں  اچھے  اخلاق کو بے  حد اہمیت دی گئی ہے۔ نبی ا کرم ﷺ نے  عربوں  کے  دل حسن اخلاق کی بدولت جیتے  قرآن کریم نے  اس بات کی گواہی دی ہے  : وانک لعلیٰ خلق عظیم (ترجمہ: یقیناً آپ (یعنی رسول ﷺ)اخلاق کے  بلند ترین منصب پر فائز ہیں ) عروج یافتہ قوم کی نشانی عمدہ اخلاق ہوا کرتے  ہیں۔ کسی قوم کو جب زوال لاحق ہوتا ہے  تو سب سے  پہلے  حسن خلق کی صفت اس سے  چھین لی جاتی ہے، اسی کے  پیش نظر ہمارے  شاعر نے  بڑے  پیارے  اور رس بھرے  شعر کہے  ہیں۔ ملاحظہ کریں :
اخلاق کے  داعی ہم، وحدت کے  پیامی ہم
اس عالم فانی میں  ہیں  نقش دوامی ہم
مرے  خلوص کا ادنیٰ کمال یہ بھی ہے 
ہر ایک شخص لپٹتا ہوا نظر آیا
ہوس سیم و زر ہے  روح کا روگ
دے  مجھے  عافیت کا سرمایہ
ٹھہر جاتی ہے  سچائی جہاں  بھی
نکل آتے  ہیں  رستے  کربلا کے 
ملو تو سازؔ  خلوص اور سادگی سے  ملو
نہیں  پسند یہ بے  جا تکلفات مجھے 
انکے  دل کا آئینہ صاف تھا کدورت سے 
نسل کتنی پیاری تھی وہ کہانیوں  والی
ایسی زندگی سے  تو سازؔ  موت بہتر ہے 
چند سانسیں  اور وہ بھی مہربانیوں  والی
قدم زمیں  پہ جما کے  چلو تو بات بنے 
پھر اپنے  سر کو اٹھا کے  چلو تو بات بنے 
تجلیوں  سے  ہیں  محروم تک کئی گوشے 
وہاں  بھی دیپ جلا کے  چلو تو بات بنے 
سیاہ رات بہت ہے  یہاں  کدورت کی
دلوں  میں  پیار جگا کے  چلو تو بات بنے 
کھلے  بدن کی نمائش کا بڑھ گیا ہے  رواج
نظر کو اپنی جھکا کے  چلو تو بات بنے 
دوسروں  کی جستجو شام و سحر
آدمی خود کی خبر رکھتا نہیں 
اندھیرے  راستے  میں  جس کو روشن کر گیا کوئی
نچھاور اس دیے  کی روشنی پر ساری تنویریں 
ہمارے  عہد کے  رہبر کا سازؔ  اللہ حافظ ہے 
مسیحا خود اگر بیمار ہو تو کیسی تدبیریں 
طنزیہ شاعری

معاشرے  میں  دو قسم کے  افراد ہوتے  ہیں، ایک قسم کے  افراد تو وہ ہیں  جن کا تعلق بے  حسی، بے  ضمیری اور بے  شعوری سے  ہوتا ہے، وہ بڑی سے  بڑی برائی کو بھی معمول کی بات سمجھتے  ہیں  اور اس سے  ان کے  معمول پر کوئی فرق نہیں  پڑتا، دوسر قسم کے  افراد وہ ہیں جو بڑے  ہی حساس، دل دردمند رکھنے  والے  اور سارے  جہاں  کا درد رکھنے  والے  ہوتے  ہیں۔ دنیا میں  کہیں  بھی غلط ہو تو سب سے  پہلے  اس کا اثر ان کے  دل پر ہوتا ہے۔ اور صرف ذمہ داری محسوس کرنا کمال نہیں  ہے  بلکہ اسے  پورا کرنے  کی کوشش کرنا کمال ہے۔ اس احساس کو ظاہر کرنے  کے  لیے  کوئی شاعری کا سہارا لیتا ہے  تو کوئی نثر کا، کوئی تقریر کا سہارا لیتا ہے  تو کوئی تحریر کا، اور ہمارے  شاعر محترم جلیل سازؔ  کا تعلق معاشرے  کی اسی دوسری قسم سے  ہے۔ جی ہاں ! جلیل سازؔ  بڑے  حساس دل انسان ہیں، با ضمیر ہیں، معاشرے  کے  تعلق سے  وہ اپنی ذمہ داری پوری طرح محسوس کرتے  ہیں۔ اور اسے  نبھانے  کی کوشش بھی کرتے  ہیں۔ اور یہ کمال جلیل سازؔ  کے  اشعار سے  بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ جلیل سازؔ  نے  اپنے  حساس ہونے  کا ذکر اپنے  ایک شعر میں  اس طرح کیا ہے۔ 
احباب کا شکوہ کیا، دنیا سے  شکایت کیوں 
اے  ساز ہمیں  اپنے  احساس نے  مارا ہے 
سازؔ  کے  یہاں  ان اشعار کی کثرت ہے، جن میں  معاشرے  کے  برے  اور گندے  عناصر پر طنز، جھوٹی شان و شوکت پر طنز، کھوکھلے  دعووں، انا پرستی، دوسروں  کی تحقیر، اپنوں  کی بے  وفائی، خود غرضی، فحاشی، ننگا پن، بے  حسی، مردہ ضمیری، اپنے  آپ کو سب کچھ سمجھنا، زندگی کی مشکلیں، پریشانیاں، موجودہ ترقی یافتہ دور کی اخلاقی گراوٹ، جنسی انارکی، مال کی اور مالداروں  کی بے  جا تعریف و توصیف، غریبوں کی تحقیر ان تمام جذبوں  اور احساسات پر ان کی شاعری میں  بے  حد طنز پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے  کہ بار بار ہمیں  ان کی شاعری کے  ان کے  احساسات کے  صحیح ہونے  کی تصدیق کرنی پڑتی ہے، ان کے  مفروضات کو ماننا پڑتا ہے، وہ بار بار ہمیں  اپنے  زمین پر ہونے  کا احساس دلاتے  ہیں، یہ احساس اس وقت اور شدت اختیار کر لیتا ہے  جب وہ اپنے  اقارب کے  عقارب ہونے  کا تذکرہ کرتے  ہیں، انسانوں  کے  حیوان بننے  کا ذکر چھیڑتے  ہیں۔ 
سازؔ  نے  یہ طنزیہ اسلوب کہیں  شدت کے  ساتھ برتا ہے، تو کہیں  تمثیلی پیرایہ اختیار کیا ہے، کہیں  اشاروں  کنایوں  سے  کام لیا ہے  تو کہیں  تفصیلی انداز اختیار کیا ہے، سازؔ  کے  چند اشعار بطور نمونہ پیش کرنا چا ہوں  گا:
وہ سایہ بن کے  مرے  ساتھ ساتھ رہتا تھا
بڑھا اندھیرا تو ہٹتا ہوا نظر آیا
کل کے  قصے  نہ سنا آج حقیقت ہے  یہی
کون دنیا میں  وفاؤں  کا صلہ دیتا ہے 
ہے  زخم زخم بدن اور جی رہا ہوں  میں 
رہیں  گے  یاد عزیزوں  کے  التفات مجھے 
جہاں  میں  بھوک سے  نہیں  کوئی عظیم اے  سازؔ 
خدا کو بھول گئے  لوگ روٹیاں  پا کر
کھلے  بدن کی نمائش کا بڑھ گیا ہے  رواج
نظر کو اپنی جھکا کے  چلو تو بات بنے 
یاد آ کے  رہ جاتے  ہیں  اے  سازؔ  سلوک احباب
وقت کے  ساتھ سبھی زخم تو بھر جاتے  ہیں 
دوسروں  کی جستجو شام و سحر
آدمی خود کی خبر رکھتا نہیں 
ہم نے  بھی دنیا سے  سیکھا یارو بچ کر چلنا
ہم مشرب کو ساتھ میں  رکھا، کم ظرفوں  کو ٹالا
سادھو، گیانی، شکشک، نیتا، پاکھنڈی سب لوگ
مالک کیسے  مکاروں  سے  پڑ گیا اپنا پالا
اپنی کرتوتوں  کا جلوہ دیکھ رہی ہے  دنیا
پہلے  کی راتیں  کالی تھیں  اور اب کا دن کالا
ہر ایک آنکھ میں  نفرت ہے  کس سے  چاہ ملے 
سلگ رہی ہے  دشائیں، کہاں  پناہ ملے 
سب اپنے  اپنے  مفادات کے  محافظ ہیں 
یہ حال ہے  تو کہاں  کوئی خیر خواہ ملے 
طریق اپنا جدا ہے  دوستو اہل طریقت سے 
دکھاوے  کی عبادت اور دعا ہم سے  نہیں  ہو گی
عبادت کے  عوض آسائشِ فردوس حاصل ہو
کبھی اے  سازؔ  ایسی التجا ہم سے  نہیں  ہو گی
پھونک دے  گا مرا بھائی مری ساری کائنات
مٹھیوں  میں  ایٹمی ذرات لے  کر آئے  گا
سازؔ  ہے  مجھ کو یقیں  بیٹا مرا پردیس سے 
خوب سارے  سونے  چاندی ساتھ لے  کر آئے  گا
ہمارے  دوست بڑوں  کی خوشامدوں  میں  رہے 
کبھی کبھی تو غریبوں  کی دعا لے  لیتے 
اب تو یہ سمجھنا بھی دوستو! ہوا مشکل
کون ہے  مرا دشمن؟ کون ہے  مرا بھائی؟
عزم و حوصلے  کی شاعری

اس ناطے  سے  جب ہم سازؔ  کی شاعری پر نظر ڈالتے  ہیں  تو ہم کو مایوسی نہیں  ہوتی۔ عزم، حوصلہ اور ہمت کے  موضوع پر بہت سے  شعراء نے  شعر کہے  ہیں، مثال کے  طور پر:
عزم کامل ہو تو کشتی لب ساحل ہو گی
حوصلہ چاہیے  طوفان سے  ٹکرانے  کا
حزیمتوں  کے  راستے  بڑے  ہی پرخطر سہی
جو حوصلے  بلند ہوں  نشیب کیا فراز کیا
محترم جلیل سازؔ  کے  چند عزم و حوصلہ سے  بھرپور شعر ہیں، ان کا بانکپن، انداز بیان اور اسلوب ہی اور ہے۔ آپ کے  اشعار سے  ایک طرح کی تحریک اور ولولہ محسوس ہوتا ہے۔ نا امیدی اور یاس کی حالت میں  معمولی سا امید کا جگنو بھی انسان کو کامیاب و کامران کرنے  کے  لیے  کافی ہے۔ حوصلہ بڑھانا، یہ معمولی چیز نہیں  ہے، اللہ تعالیٰ نے  قرآن کریم میں  مومنوں  کو مخاطب کرتے  ہوئے  کہا کہ اللہ کی رحمت سے  مایوس نہ ہونا، اور ایک مقام پر کہا کہ اللہ کی رحمت سے  کافر ہی مایوس ہوتے  ہیں۔ گویا مایوسی کفر اور امید ایمان ہے۔ غالباً اسی کو مد نظر رکھ کر سازؔ  صاحب نے  اپنے  احساسات کو اشعار کا لباس پہنایا:
بلندیوں  پر پہنچنا نہیں  محال اے  سازؔ 
جو حوصلہ ہو تو دل میں  اٹھان کتنی ہے 
مرے  شعور کی تابندگی کو اپنا کر
جو ہو سکے  تو نئے  صبح و شام پیدا کر
سیاہ رات بہت ہے  یہاں  کدورت کی
دلوں  میں  پیار جگا کے  چلو تو بات بنے 
تجلیوں  سے  ہیں  محروم تک کئی گوشے 
وہاں  بھی دیپ جلا کے  چلو تو بات بنے 
جہالت کے  اندھیروں  سے  نکلنا بھی ضروری ہے 
بدل ڈالے  زمانے  کو بدلنا بھی ضروری ہے 
جدید الفاظ کا استعمال

جلیل سازؔ  نے  بہت سے  ایسے  الفاظ سے  اپنی شاعری کو گوندھا ہے  جنہیں  شاید ہی کسی دوسرے  شاعر نے  استعمال کیا ہو، نہ صرف استعمال کیا بلکہ اپنے  استعمال سے  ان الفاظ میں  جان ڈال دی ہے۔ قدرت نے  جلیل سازؔ  کو لفظ کے  استعمال کا بڑا پیارا سلیقہ بخشا ہے۔ اسی سے  کام لے  کر انہوں  نے  لفظ ٹیکس، فوٹو، کیمرہ، خط کو ایک نئے  انداز سے  حسین اسلوب میں  استعمال کیا ہے  کہ یہ لفظ اور حسین بن گئے  ہیں۔ مثال کے  طور پر یہ اشعار دیکھیے :
ہو ٹیکس ادا کیسے  بھلا فاقہ کشی میں 
برسات کا موسم ہے  مکاں  چھین رہے  ہیں 
(ٹیکس)
امیروں  کے  شبستانوں  کا فوٹو چھاپنے  والو!
شکستہ جھونپڑوں  کا حال بھی اخبار میں  لکھنا
(فوٹو)
مری عادت ہے  ہر خط میں  تقاضہ وصل کا کرنا
تری فطرت سہی اس کا جواب انکار میں  لکھنا
(خط)
سوز در سوز دے  گئی دنیا
دکھ نیا روز دے  گئی دنیا
میں  تو ساکت تھا کیمرے  کی طرح
مختلف پوز دے  گئی دنیا
(کیمرہ)
نوحۂ مسلم

مسلمان جنہوں  نے  ہزاروں  سالوں  تک دنیا میں  حکمرانی کی تھی، ساری دنیا کو امن وامان کا درس دیا تھا، آج بے  حد ذلیل و خوار ہیں، اس کے  اسباب کیا ہیں ؟ اس سے  ہمیں  بحث نہیں  ہے، بلکہ یہ تو ایک فطری چیز تھی، ہر عروج را زوال!، علامہ اقبالؒ نے  اس حوالے  سے  کتنی پیاری بات کہی تھی؛
آ تجھ کو بتاتا ہوں  تقدیر امم کیا ہے 
شمسیر و سناں  اول طاوٗس و رباب آخر
ہر حساس انسان کا دل اس المیے  پر کڑھتا ہے، اور مسلمانوں  کو دوبارہ عروج حاصل ہو اس بات کی دعاء ہر دردمند دل رکھنے  والا انسان کرتا ہے، جلیل سازؔ  نے  متفرق غزلوں  میں  اس حوالے  سے  لکھا ہے  اور بے  حد ڈوب کر دردو کرب کے  ساتھ لکھا ہے، ایسی بات نہیں  ہے  کہ انہوں  نے  رسمی طور پر اس سلسلے  میں  لکھا ہو، وہ خود مسلمان ہیں  اور اس درد کو بخوبی محسوس کر سکتے  ہیں، جلیل سازؔ  کے  اشعار اور ان کے  تیور (مسلمانوں  کے  زوال کے  تعلق سے) دیکھیے  اور ہماری تصدیق کیجیے، جلیل سازؔ  کے  یہ شعر درد کا بحر بے  کراں  ہیں، غم و الم کا بے  کنار سمندر ہیں، لفظ بھرپور کو انہوں  نے  اپنے  احساس سے  تر کر دیا ہے، پھر لفظ لفظ نہیں  رہا بلکہ مجسم احساس بن گیا ہے، اور قاری کے  دل کو اپنی مٹھی میں  لے  کر بھینچے  لگتا ہے، اس کے  دل پر کچوکے  لگاتا ہے، مسلمانوں  کی زبوں  حالی پر خون کے  آنسو رلاتا ہے :
ایک یہ بھی زمانہ ہے  ہم جڑ ہیں  فسادوں  کی
اک دور کہ دنیا میں  تھے  امن کے  حامی ہم
شیرازۂ ملت کو بکھرا ہوا پاتا ہوں 
اے  سازؔ  نہ ہو جائیں  مرہون غلامی ہم
اپنی کوتاہ نصیبی ہے  کہ محکوم ہیں  ہم
ہم کو مالک نے  بنایا تھا حکومت کے  لیے 
جذبات سے  عاری ہم،احساس سے  خالی ہم
وہ دور گیا جب تھے، دنیا میں  مثالی ہم
کل جس کی کفالت میں  تھے  ہاتھ کھلے  اپنے 
اس شخص کی چوکھٹ پر ہیں  آج سوالی ہم
تخریب پسندی کا دیتے  ہو ہمیں  طعنہ
نادانو! رہے  صدیوں  اس باغ کے  مالی ہم
جلیل سازؔ  کی ایک نظم ہے  ’’ تم کیسے  مسلمان ہو‘‘ یہ پوری نظم اسی کیفیت کی آئینہ دار ہے، اس میں  مسلمانوں  کی بزدلی کی طرف شاعر نے  اشارہ کیا ہے  تو ساتھ میں  یہ بھی کہا ہے  کہ اوصاف کریمانہ جو مسلمانوں  کا طرۂ امتیاز ہیں، یہی اوصاف مسلمانوں  کو وراثت میں  ملنے  چاہیے  تھے، مال نہیں ! مگر افسوس کہ ان اوصاف حمیدہ کی قدر مسلمانوں  کو نہیں  ہے، اوصاف حمیدہ و رذیلہ میں  امتیاز کرنے  کی حس سے  بھی وہ محروم کر دیے  گئے  ہیں۔ مسلمانوں  کی خدمت خلق سے  دوری، عزم و ہمت سے  دوری، بے  سمتی مقصدیت کا بحران، ایسی تمام چیزوں  کی طرف اس نظم میں  اشارے  دیے  گئے  ہیں، مثال کے  طور پر چند شعر:
تم عامل قرآں  ہو، تم حافظ قرآں  ہو
تم کیسے  مسلماں  ہو، کس بات پہ نازاں  ہو
جیتے  ہو تو جینے  کے  انداز نرالے  ہیں 
ڈرتے  ہو حوادث سے  طوفاں  سے  ہراساں  ہو
اوصاف بزرگوں  کے  تم میں  نہ رہے  باقی
تم صرف بزرگوں  کی عظمت کے  ثنا خواں  ہو
پردہ ہے  بصارت پر تکیہ ہے  قناعت پر
دعویٰ ہے  کہ عاقل ہو سچ یہ ہے  کہ ناداں  ہو
اعزاز جہانگیری کیا دے  گا خدا تم کو
تم لوگ تو غیروں  کی محکومی پہ نازاں  ہو
دل اور جگر دونوں  اے  سازؔ  ہوں  فولادی
اس قوم کی خدمت کا جس شخص کو ارماں  ہو
استعاراتی شاعری

جلیل سازؔ  نے  استعارہ، تشبیہ اور تمثیل کو اپنی شاعری میں  برتا ہے، ویسے  بھی بلاغت کے  ان فنون کا استعمال ایک اچھے  شاعر کے  لیے  ایک طرح سے  ناگزیر ہو جاتا ہے، اس کا مقصد آپ جانتے  ہیں  کہ قاری کے  دل میں  واضح انداز میں  بات بیٹھ جائے، تأثر میں  اضافہ ہو، بسا اوقات ایسا ہوتا ہے  کہ ایک بات وضاحت کے  ساتھ کھلم کھلا کہنے  سے  وہ بات پیدا نہیں  ہوتی جو کہ استعاراتی زبان میں  کہنے  سے  پیدا ہوتی ہے، جلیل سازؔ  کی شاعری پر نظر ڈالنے  سے  ایک پوری غزل ہی اس انداز کی ہمیں  نظر آتی ہے، بظاہر یہ غزل عام سی غزل معلوم ہوتی ہے، لیکن ذرا سا غور و فکر کرنے  اور تدبر سے  کام لینے  کی صورت میں  معانی کی پرتیں  یکے  بعد دیگرے  ہمارے  سامنے  کھلتی چلی جاتی ہیں، جن کے  علم کے  بعد ایک طرح کی خوشی، مسرت و فرحت حاصل ہوتی ہے۔ جلیل سازؔ  کی اس غزل کا مزہ بھی چکھ لیا جائے :
مہکے  زخم اپنے  نسترن کی طرح
دل کا آنگن ہوا چمن کی طرح
ان کے  نازک لبوں  پہ آئی ہنسی
صبح کی اولیں  کرن کی طرح
صبح چمکی برنگ روئے  حسیں 
رات سمٹی ترے  بدن کی طرح
اک جوالا مکھی ہے  ذہن تپاں 
دل بھی گردش میں  ہے  گگن کی طرح
ہے  خرد کا بھی تار تار لباس
اپنے  بوسیدہ پیرہن کی طرح
سازؔ  شکوہ ہے  اہل فن سے  مجھے 
فن کو برتا گیا نہ فن کی طرح
سیاسی شاعری

موجودہ دور کی سیاست گندگی کا پوٹ ہے، پچھلے  دور میں  یہی سیاست تھی جس سے  بڑے  سے  بڑے  علماء اور لیڈر وابستہ تھے، جنہوں  نے  عوام اور غریبوں  کی خوب خدمت کی، اور سیاست کو عبادت سمجھتے  رہے، مگر آج کے  سیاست داں  سیاست کو بھی کاروبار سمجھتے  ہیں۔ غریبوں  کی خدمت کے  نام پر ووٹ بٹورتے  ہیں، مگر غریبوں  کی خدمت کے  علاوہ سب کچھ کرتے  ہیں، ہمارے  لیڈروں  کے  اسی رویے  پر سازؔ  اس طرح طنز کرتے  ہیں :
جو اقتدار ملا ہے  تو سازؔ  گھر بھر لو
یہ تم سے  کس نے  کہا خدمت عوام کرو
اب سیاست بھی جفا کاروں  کا شیوہ ٹھہری
کون اٹھتا ہے  غریبوں  کی حمایت کے  لیے 
اسی طرح سازؔ  کی ایک نظم ہے  ’’تین کردار‘‘ جس میں  اہل زر، ماسٹر، منتری کے  تین عناوین کے  تحت تین تین شعر پیش کیے  ہیں، منتری کے  عنوان سے  جو شعر ہیں  وہ یقیناً توجہ کے  لائق ہیں، جن میں  پچھلے  دور کے  منتریوں  اور آج کے  منتریوں  کے  درمیان بڑا اچھا اور حقیقت سے  قریب موازنہ پیش کیا گیا ہے، میں  سمجھتا ہوں  کہ اس سے  اچھا موازنہ کسی شاعر نے  نہیں  کیا ہو گا:
ہمارے  دور میں  جو منتری تھے 
وہ بے  شک لائق صد سروری تھے 
تمہارے  دور میں  جو منتری ہیں 
لٹیرے  ہیں  کہاں  کے  سنتری ہیں 
کہ ان کی آہنی الماریوں  میں 
ہے  جتنا سونا چاندی اور نوٹیں 
گھوٹالوں  اور حوالوں  سے  بھری ہیں 
اس طرح کے  اور بھی متعدد موضوعات کو جلیل سازؔ  نے  بے  حد اچھے  انداز میں بہترین اسلوب میں  اور مناسب الفاظ میں  پیش کیا ہے، موضوعات کی ایک کہکشاں  ہے  جو ان کی شاعری کا مطالعہ کرنے  والے  کو سرور و فرحت بخشتی ہے۔ آگہی کے  نئے  در وا کرتی ہے۔ 
مشاہیر کی نظر میں

ہارون بی۔ اے  (مدیر بے  باک،مالیگاؤں ) نے  لکھا ہے  کہ:
’’جلیل سازؔ  ہمارے  دور کے  شاعر ہیں، ان کی شاعری کی جتنی عمر ہے  تب سے  میں  انہیں  جانتا ہوں، وہ ایک حساس اور خوش فکر شاعر ہی نہیں  بلکہ اچھا سماجی، تعلیمی، سیاسی اور فکری شعور بھی رکھتے  ہیں، جس کی وجہ سے  ان کی علمی، ادبی اور عوامی مقبولیت سے  کسی کافر کو بھی انکار کرنے  کی جرأت نہیں  ہو سکتی، ان کی زندگی اور ان کی شاعری کا ہر ورق آج کے  دانشوروں  اور نقادوں  کے  سامنے  دعوت فکر دیتا نظر آتا ہے۔ زندگی کے  سرد و گرم، آرائشوں  اور جدوجہد کے  درمیان تپا ہوا یہ شاعر اپنی قلبی واردات کو برملا اشعار میں  ڈھال کر زندگی کے  خوشگوار مستقبل کی بشارت دیتا ہوا بھی نظر آتا ہے۔ ‘‘
عبد الاحد سازؔ  کہتے  ہیں  کہ:
’’جلیل سازؔ  کے  تخلیقی سفر کے  مراحل سے  ہماری ادبی برادری ایک عرصۂ دراز سے  واقف ہے۔۔۔ گوناگوں  شخصی مشاہدوں، اطراف و اکناف کے  منتشر تجربوں  اور حالات حاضرہ کے  بکھراؤ کو بخشی ہوئی فہم کے  آپسی تال میل سے  ان کا شعری مواد برآمد ہوتا ہے۔۔۔ جلیل سازؔ  کی غزلوں  میں  بے  ساختگی اور ہوشمندی کا ایک امتزاج پایا جاتا ہے۔ ‘‘
٭٭٭