Showing posts with label مولانا الطاف حسین حالیؔ. Show all posts
Showing posts with label مولانا الطاف حسین حالیؔ. Show all posts

Thursday, March 21, 2013

راز دل کی سر بازار خبر کرتے ہیں آج ہم شہر میں خون اپنا ہدر کرتے ہیں




(۵)

راز دل کی سر بازار خبر کرتے ہیں 
آج ہم شہر میں خون اپنا ہدر کرتے ہیں 
عقل کی بات کوئی ہم نے کہی ہے شاید
جنَّتی جتنے ہیں سب ہم سے حذر کرتے ہیں 
زہد و طاعت کا سہارا نہیں جب سے زاہد 
یاد اللہ کو ہم آٹھ پہر کرتے ہیں 
عیب یہ ہے کہ کرو عیب، ہنر دکھلاؤ
ورنہ یاں عیب تو سب فرد بشر کرتے ہیں 
جی رکاوٹ سے جو ان کی کبھی رک جاتا ہے 
اک لگاوٹ میں ادھر سے وہ ادھر کرتے ہیں 
تلخیاں زیست کی تھوڑی سی رہی ہیں باقی
یہ مہم جو بھی خدا چاہے تو سر کرتے ہیں 
کہیں افطار کا حیلہ تو نہ ہو یہ حالی ؔ 
آپ اکثر رمضان ہی میں سفر کرتے ہیں 
***

دل کو درد آشنا کیا تو نے درد دل کو دوا کیا تو نے




(۴)

دل کو درد آشنا کیا تو نے 
درد دل کو دوا کیا تو نے 
طبع انساں کودی سرشت وفا
خاک کو کیمیا کیا تو نے 
ناؤ بھرکر جہاں ڈبوئی تھی
عقل کو ناخدا کیا تو نے 
جب ہو ا ملک و مال رہزن ہوش 
بادشہ کو گدا کیا تو نے 
جب ملی کامِ جاں کو لذَّت درد
درد کو بے دوا کیا تو نے 
عشق کو تاب انتظار نہ تھی 
غرفہ اک دل میں وا کیا تو نے 
حرم آباد اور دیر خراب
جو کیا سب بجا کیا تو نے 
سخت افسر دہ طبع تھی احباب
ہم کو جادو نوا کیا تو نے 
پھر جو دیکھا تو کچھ نہ تھا یارب
کون پوچھے کہ کیا کیا تو نے 
حالی ؔ اٹھّا ہلا کے محفل کو
آخر اپنا کہا کیا تو نے 

جب سے سنی ہے تیری حقیقت چین نہیں اک آن ہمیں اب نہ سنیں گے ذکر کسی کو آگے کو ہوئے کان ہمیں




(۳)

جب سے سنی ہے تیری حقیقت چین نہیں اک آن ہمیں 
اب نہ سنیں گے ذکر کسی کو آگے کو ہوئے کان ہمیں 
پاس انہیں گر اپنا ذرا ہو،  جاں اپنی بھی ان پہ فدا ہو
کرتے ہیں خود نا منصفیاں ،  اور کہتے ہیں نافرمان ہمیں 
داد طلب سب غیر ہو ں جب تو،  ان میں کسی کا پاس نہ ہو
بتلائی ہے زمانے نے انصاف کی یہ پہچان ہمیں 
یہاں تو بدولت زہد و ورع نبھ گئی خاصی عزت سے 
بن نہ پڑا پر کل کے لئے جو کرنا تھا سامان ہمیں 
سُر تھے وہی اور تال وہی پر راگنی کچھ بے وقت سی تھی
غل بہت یاروں نے مچایا پر گئے اکثر مان ہمیں 
غیر سے اب وہ بیر نہیں اور یار سے اب وہ پیار نہیں 
بس کوئی دن کا اب حالی ؔ یہاں سمجھو اب مہمان ہمیں 

دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا سینے میں داغ ہے کہ مٹایا نہ جائے گا




(۲)

دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا
سینے میں داغ ہے کہ مٹایا نہ جائے گا
تم کو ہزار شرم سہی مجھ کو ہزار ضبط
الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا
اے دل رضائے غیر ہی شرط رضائے دوست
زنہار بار عشق اٹھایا نہ جائے گا
راضی ہیں ہم کہ دوست سے ہو دشمنی مگر
دشمن کو ہم سے دوست بنایا نہ جائے گا
کیوں چھیڑتے ہو ذکر نہ ملنے کا رات کے 
پوچھیں گے ہم سبب تو بتایا نہ جائے گا
جھگڑوں میں اہل دیں کے نہ حالیؔ پڑیں بس آپ
قصَّہ حضور سے یہ چکایا نہ جائے گا

Monday, March 18, 2013

مولانا الطاف حسین حالیؔ




مولانا الطاف حسین حالیؔ 

(۱۸۳۷ء۔ ۱۹۱۴)

شیفتہ اور غالب کے شاگرد مولانا الطاف حسین حالی ۱۸۳۷ء میں بمقام پانی پت پیدا ہوئے۔ سلسلہ نسب حضر ت عبد اللہ انصاری سے جا ملتا ہے۔ والد کا نام خواجہ ایزد بخش تھا۔ ۔ ۱۸۵۷ء میں تعلیم کی غرض سے دہلی تشریف لائے۔ مرزا غالب کی شہرت پہلے سے سن رکھی تھی دل میں غالب کی شاگردی اختیار کرنے خواہش بھی انگڑائیاں لے رہی تھی۔ چنانچہ غالب کی شاگردی اختیار کر لی۔ غالب سے ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ چھوٹی ملاقاتیں طویل ملاقاتوں کی شکل اختیار کرنے لگیں۔ حالی نے ایک مرتبہ اصلاح کی غرض سے کلام دکھایا تھا تو غالب نے کہا تھا:  ’’اگرچہ میں کسی کو فکر سخن کی صلاح نہیں دیا کرتا لیکن تمھاری نسبت میرا یہ خیال ہے کہ اگر تم شعر نہیں کہو گے تو اپنی طبیعت پر ظلم کرو گے ‘‘۔ 
۱۹۰۴ء میں شمس العلماء کا خطاب آپ کو عطا کیا گیا۔ ان کا دل اصلاح معاشرہ کی طرف مائل تھا،  مسلمانوں کی گرتی ہوئی حالت کو دیکھ کر کڑھتا تھا۔ وہ سوچتے تھے مسلمانوں کی اس گرتی ہوئی حالت میں بہتری کیسے پیدا کی جا سکتی ہے۔ مسلمانوں میں بیداری کیسے لائی جا سکتی ہے۔ یہی وہ جذبہ تھا جس نے ان کو مسدس حالیؔ المعروف بہ مدو جزر اسلام لکھنے پر مائل کیا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اصلاحی  اور مذہبی شاعری ہی اصل شاعری ہے۔ بے مقصد شاعری کسی کام کی نہیں۔ وہ سمجھ چکے تھے کہ ادب کی اصل مقصدیت ہے۔ مقصدیت کے بغیر ادب کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بے مقصد ادب بے کار ادب ہے گویا چند بے جان الفاظ کا مجموعہ۔ 
اپنے کلام کے ساتھ انہوں نے جو مقدمہ لکھا ہے وہ الگ سے کتابی شکل میں شائع ہو چکا ہے۔ جس کا عنوان ہے ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ یہ کتاب اردو تنقید کی پہلی باقاعدہ کتاب تسلیم کی جا چکی ہے۔ مولانا نے اس کتاب میں جو اصول پیش کئے ہیں ان کی آج بھی وہی اہمیت ہے جو پہلے تھی۔ ان کی ملازمت ہی ایسی تھی کہ اچھی خاصی انگریزی کی کتابیں ان کے مطالعے میں آتی چلی گئیں۔ اور اپنے اس مطالعے سے انہوں نے اچھا کام لیا۔ 
مولانا بڑے ہی سادہ مزاج خوش خلق اور اپنے چھوٹوں سے محبت کرنے والے تھے۔ وہ اپنے ملنے جلنے والوں کا خاص خیال رکھتے تھے۔ مولوی عبد الحق نے لکھا ہے :
’’مولانا کی سیرت میں دو ممتاز خصوصیتیں تھیں۔ ایک سادگی دوسری درد دل۔ اور یہی شان ان کے کلام میں ہے۔ ان کی سیرت اور ان کا کلام ایک ہے۔ یا یوں سمجھئے وہ ایک دوسرے کا عکس ہیں۔ مجھے اپنے زمانے کے بعض نامور اصحاب اور اپنی قوم کے اکثر بڑے بڑے شخصیتوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے۔ لیکن مولانا حالی جیسے پاک سیرت اور خصائل کا بزرگ ابھی تک مجھے نہیں ملا‘‘
   (چند ہم عصر۔ از:مولوی عبد الحق،  صفحہ:۱۶۱۔ ایڈیشن:۱۹۵۹ء )
مولانا حالی نے بہت سی تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ جیسے :یادگار غالبؔ ، حیات جاوید، ؔ ،  مسدس حالی ؔ ،  دیوان حالیؔ ،  شکوۂ ہند مناظرۂ تعصب و انصاف، رحم انصاف، برکھا رت،  نشاط امید اور حب وطن۔ 
یادگار غالب بڑے اونچے مرتبے کی کتاب ہے۔ جو پہلی مرتبہ نامی پریس کانپور سے  ۱۸۷۹ ء میں شائع ہوئی۔ اس کا دوسرا ایڈیشن  محمڈن کالج بکڈپو نے حالی ؔ کی  اجازت سے مکتبۂ فیض عام لکھنو سے شائع کیا۔ یہ کتاب ان کی غالب سے حد درجہ عقیدت کی غماز ہے۔ اس کتاب میں حالی نے غالب کے فن شعر پر غالب ہو نے کے ثابت کرنے میں صرف کیا۔ مالک رام نے یادگار غالب (۱۹۹۷ء)کے مقدمے میں اس بات کی اشارہ کیا ہے :
’’حقیقت یہ ہے کہ حالی نے یہ کتاب غالب کی سوانح عمری کے لئے نہیں لکھی تھی۔ ان کے نزدیک یہ ثانوی بات تھی۔ اصل میں وہ غالب کی شعری و ادبی حیثیت اور اس میدان میں ان کی بلند پائیگی ثابت کرنا چاہتے تھے ‘‘
            (یادگار غالب،  (مقدمہ از:مالک رام)مطبوعہ:ستمبر۱۹۹۷)
حالی سر سید احمد خان کی تحریک سے بے حد متاثر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سر سید کی حیات ’’حیات جاوید ‘‘کے نام سے لکھی۔ حالی سر سید سے اس لئے متاثر تھے کہ دونوں کے خیالات ایک تھے دونوں اپنی قوم کو ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔ ابھر تا ہوا اور دنیا سے اپنا آپا منواتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔ ایسے وقت میں حالی سر سید کی سرگرمیوں سے متاثر ہوئے تو یہ کوئی تعجب خیز امر نہیں ہے۔ 
مولانا حالیؔ  نے ابتداء میں روایتی طرز کی غزلیں کہی ہیں۔ مگر آگے چل کران کا قلم اصلا ح قوم کی طرف مائل ہو گیا۔ شعری و نثری پیرایۂ بیان میں انہوں نے اچھی خاصی مہارت حاصل کی۔ اور اپنے دور میں شاعری کی بدولت اچھے خاصے معروف ہوئے۔ ۱۹۱۴ ء میں آپ کا انتقال ہوا۔