(۳)
جب سے سنی ہے تیری حقیقت چین نہیں اک آن ہمیں
اب نہ سنیں گے ذکر کسی کو آگے کو ہوئے کان ہمیں
پاس انہیں گر اپنا ذرا ہو، جاں اپنی بھی ان پہ فدا ہو
کرتے ہیں خود نا منصفیاں ، اور کہتے ہیں نافرمان ہمیں
داد طلب سب غیر ہو ں جب تو، ان میں کسی کا پاس نہ ہو
بتلائی ہے زمانے نے انصاف کی یہ پہچان ہمیں
یہاں تو بدولت زہد و ورع نبھ گئی خاصی عزت سے
بن نہ پڑا پر کل کے لئے جو کرنا تھا سامان ہمیں
سُر تھے وہی اور تال وہی پر راگنی کچھ بے وقت سی تھی
غل بہت یاروں نے مچایا پر گئے اکثر مان ہمیں
غیر سے اب وہ بیر نہیں اور یار سے اب وہ پیار نہیں
بس کوئی دن کا اب حالی ؔ یہاں سمجھو اب مہمان ہمیں
No comments:
Post a Comment