Friday, March 22, 2013

شراب ملی ہوئی دوائیں


شراب ملی ہوئی دوائیں
سوال۲؂
از شاہد اقبال ۔ دہلی۔
آج کل عام طور سے انگریزی دوائین بہت استعمال کی جاتی ہیں ۔ ان میں بعض دواءٰن ایسی ہوتی ہیں جن میں شراب کاجز ملاہوتا ہے ۔ مثلاً ایک دو اآتی ہے جس کا نام واٹر بری کمپاؤنڈ ہے ۔ یہ شربت کی شکل کی ہوتی ہے اور نزلہ کیلئے اکسیر ہے ۔ لیکن اس کے ڈبے پر لکھا ہوتا ہیکہ اس میں شراب کا جز بھی ملا ہوا ہے تواب ایسی صورت میں اس دوا کا استعمال جائز ہے یا نہیں جب کہ س کے پینے سے ذرہ برابر بھی نشہ کا اثر نہیں ہوتا؟ 
الجواب:۔ مختصر جواب تو یہ ہے کہ کسی بھی ایسیمکسچر یا مشروب کا پینا جائز نہیں ہے جس میں شرب کی آمیزش کا یقین یا گمان غالب ہو ۔ شراب کیحرام ہونے کی علت تو بے شک نشہ ہی ہے لیکن دلائل قویہسے یہ اصول طے پاگیا ہے کہ جس شے کی معتدبہ مقدار نشر لانے والی ہو اس کی قلیل مقدار بھی جرام ہوگی خواہ وہ قلیل مقداربجائے خود نشہ طاری کرنے کی قوت نہ رکھتی ہو۔ مااسکو کثیرہ فقلیلہ حرام (ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ بیہقی) ۔
ماضی میں تو یہ ایک صاف سا مسئلہ تھا جس میں بحث و بدل کی کوئی گنجائش نہیں تھی لیکن موجود ہ زمانے میں مغربی طرز فکر کے غلبہ وتسلط اور احوال و کوائف کے تغیر نے بعض اور مسائل کی طرح اسے بھی قدرے الجھا دیا ہے لہٰذا ان حضرات کے لئے جو دین سے بغاوت کا بھی ارادہ نہیں رکھتے مگر احکامِ شرعیہ کے ارے میں ذہنی تسکین کے بھی طالب ہیں ہم قدرے تفصیل کی راہ اختیار کریں ۔
اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ شراب کی حرمت کا سبب اس کا نشہ آور ہونا اگر چہ ظاہر و باہر ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ صرف اسی شخص کے لئے حرام ہوگی جس پر اسے پی کر طشہ طارہ ہوجائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ شراب میں بالذات نشہ پیدا کرنے کی سلاحیت موجود ہے اور اسے تیار ہی کیا جات ہے نشہ آور مشروب کی حیثیت سے ۔ لہٰذا اس کا صرف اک قطرہ بھی کسی نہ کسی درجے میں اس علت کا حامل ہے جس پر حرمت منحصر ہے یعنی نشہ پیدا کرنے کی صلاحیت تو حرمت کے لئے ایک قطرہ بھی کافی ہوگا جب تک کہ کسی مصنوعی یا قدرتی عمل سے اس کی حقیقت ہی تبدیل نہ ہو جائے۔
حقیقت تبدیل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کیمیاوی تحلیل یا پکانے اور جلانے کے کسی طریق سے اس کے تمام یا بعض اجزاء میں جوہری تغیر واقع ہوجائییا اس کا کوئی ایسا جز و مکمل ور پر تحلیل ہوجائے جس کے بغیر باقی اجزاء نشہ پیدا کرنے کی سلاحیت سے عاریہوں ۔ ایسی صورت میں حرمت کا حکم باقی نہ رہے گا۔ جیسے کہ سر کی کسی مقدار میں بھی حرمت نہیں اور جیسے کہ کچا گوشت پکانے کے بعد حلال وہ طاہر ہوجاتا ہے حالانخۃ جو لہو بجائے خود حرام تھا وہ اس سے علیحدہ نہیں کیا گیا بلکہ پکنے کے دوران اس کے بعض عناصر بھاپ بن کر اڑگئے اور بعض اپنی جوہری ترتیب ختم کر کے پارچوں میں جذب ہوگئے ۔ یا جیسے دریا میں بول و براز کی آمیزش اس کے پانی کو ناپاک نہیں کرتی کیوں کہ مقداری تناسب کا فرقِ عظیم کیمیاوی تحلیل کا قدرتی سبب بن جاتا ہے۔ اور نجاست کے وہ اوصاف کا لعدم ہوجاتے ہیں جن کے وجود سے یہ نجاست عبارت تھی۔
اس تفصیل کی روشنی میں ہروہ مکسچر اور مشروب بالیقین حرام ٹھیرتا ہے جس میں شراب، شراب ہی کی حیثیت سے آمیز کی گئی ہو اور اجزا کا تنساب اس درجہ کانہ ہ کہ شراب کے اجزاو عناصر کا لعدم ہوکر رہجائیں ۔ واٹر بری کمپاؤں ڈ کے بارے میں جب کہ خود بنانے والوں نے وضاحت کردی ہے کہ اس شراب کا جز و موجود ہے تو پھر اس میں کسی شبہ کیگنجائش نہیں رہتی کہ شراب کو اس کے فارمولے میں ایک جزوِ مستقل کی حیثیت حاصل رہتی ہے اور تناسب کے اعتبار سے بھی اس کی مقدار کافی ہے ورنہ اس کی آمیزش کی صراحت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ 
لیکن ان دواؤں کی حرمت کا فیصلہ دینا آسان نہ ہوگا جن کے بارے میں ہمیں یقین تو کیا گمانِ غالب بھی نہ ہو کہ اس میں شراب آمیز کی گئی ہے ۔مشہور عام طور پر یہی ہے کہ اکثر ڈاکٹر ی دواؤں میں شراب کی ملاوٹ ضروری ہوتی ہے۔ لیکن یہ شہرت حرمت کے لئے کافی نہیں ۔خصوصاً اس دور میں تو دواؤں کے پیکنگ پر فارمولا (نسخہ) بھی درج ہوتا ہے اس کو پڑھ کر معلوم کیا جاسکتا ہے کہ شراب شامل ہے یا نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment