Friday, March 22, 2013

درود کا مفہوم


درود کا مفہوم
سوال۸؂ :از ۔ عبد الرشید (باجڑہ گڑھی )
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نبی کی بلکہ ہر شخص کی پوری قوم کو اس کی آل کہا گیا ہے ۔ اہل تشیع کی تو بات ہی اور ہے خود ہمارے یہں اس کو عجیب گورکھ دھند انادیا گیا ہے ۔ مثلا ہمارے یہاں جو درود شریف مروج ہے ۔ ’’اللھم صل علیٰ محمد و علیٰ آلہٖ و اصحابہٖ و سلم۔‘‘اس سے معلم ہوتا ہے کہ آل اور اصھاب علیحدہ علیحدہ ہیں، مہر بانی فرما کر الجھن کو دور کریں کہ کیا مذکورہ شخصیتیں دو ہیں ؟اور اگر نہیں تو بھی اس درود شریف کا کیا مفہوم ہے ؟
الجواب:۔
آنجناب کی تشفی کرنے سے قبل ہم کچھ تشفی ان حضرات کی بھی کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے ان چند ماہ میں نہایت طنز و طعن کے ساتھ دلخراش الفاظ مین ہمیں لکھا ہے کہ تم نے آل کا مفہوم سمجھا نے میں خیانت کی ہے اور آ ل تو بالیقین اہل خانہ ہی کو کہتے ہیں ۔
رنج ہوتا ہیکہ اہل علم کی نفسانیت اور اشتعال پذیرائی نے عوام کو بھی ذہنی تشدد میں مبتلا کردیا اور ان کا المناک حال یہ ہے کہ جہاں کسی نے ان کے کسی محبوب عقیدہ کے خلاف کچھ لکھا بس وہ آپے سے باہر ہوگئے اور اخلاق و شائستگی میں قبوری شریعت والے ہند عین ہی س سے آگے ہیں مگر ماضی قریب میں کھلا کہ وہ سنی احباب تو ان سے بھی کئی قدم آگے ہیں جن کے نظام فکر کو تشیع کی دیمک لگی ہوتی ہے ۔ ہوسکتاہے ریسرچ کی جائے تو ثابت ہوکہ تشیع اور قبوری تصوف کے مابین بھی کوئی ربطِ خاص موجود ہے اور یہ شیعت زدہ سنی زیادہ تر وہی ہیں جنھیں مردہ پر ستی اور قبر بازی کا چسکا لگا ہوا ہے ۔
بہر حال حقیقت کچھ ہو لوگوں نے بڑے تند و تلخ خطوط ہمیں لکھے ہیں اور ان سب کا مرکزی خیال یہ ہے کہ درود میں لفظ آل کو عام کر کے تم اہلِ بیت سیکینۂ بغض کا ثبوت دے رہے ہو۔ تم چاہتیہو کہ صلوٰۃ الہیٰ سے وہی پاکیزہ بندے محروم رہ جائیں جنھیں سرکارِ دوعالم ؐ کی قرابت داری کا بے مثال امتیاز حاصل ہے ۔ 
افسوس ان علم�أ سؤ کے بگاڑے ہوئے کجکلاہوں سے اس کی کیا توقع ہوسکتی تھی کہ یہ پورے قرآن پر نظر ڈال کر ثابت کرتے کہ آل ہر ہر گہ اہل بیت اور اقربا ہی کے لئے آیا ہے ۔ یہ بیچارے تو یہ سامنے کی حقیقت بھی نہ پاسکے کہ آل سے تمام امتِ مسلمہ یا تمام بندگانِ نکوکار مرادلے لینے سے اہل بیت رضوان اللہ ‘ ہم کہاں خارج از دعا ہوئے جاتے ہیں ۔ وہ توصریح طور پر اصحاب میں شامل ہیں ۔اللہ تعالیٰ انھین عقل و علم کے بحران سے نجات دے۔ ان کی زیادہ پر واہ ہمیں نہیں ہے ، لیکن اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ان کی تفہیم پر بھی کچھ کاغذ سیاہ کرنے ہوں گے ۔ امید تو ان سے بہت کم ہے کہ شرافت دیانت کے ساتھ توجہ کر سکیں یہ تو وہ بد دماغ دبلید الذہن لوگ ہیں کہ ہم رسول اللہ ؐ کو بشر کہہ دی تو انھین ابکائیاں آنے لگیں ۔ ہم غیب کو خدا کیلئے خاص قرار دیں تو یہ وہابی وہابی پکار اٹھیں ۔ ہم قبروں کی مشر کانہ بدعات و خرافات کو معصیت ٹھہرائیں تو یہ بغلیں بجا بجا کے ہمیں بد عقیدہ مشہور کردیں ۔ ایسے جامد ، کج فکر او ہٹ دھرم لوگوں سے عدل و سعات کی کیا توقع ہوسکتی ہے مگر خدا بھلا کرے کہنے والے کاجس نے کہا ہےؒ ۔ ؂
مانیں نہ مانیں آپ کو یہ اختیار ہے 
ہم نیک و بد حضور کو سمجھا ئے جائیں گے 
اگر تعصبات سیبالا تر ہو کر قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آل کا لفظ زیادہ تر گھرانے ہی کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور گھرانے کا مصداق بالبچے اور قرابت دار ہی ہیں ، لیکن بعض مقامات پر یہ مفہوم نہیں لیا گیا ، بلکہ اس کا مصداق وہ تمام لوگ ٹھہرے جو خون کے تعلق سے تو چاہے قرابت دار نہ ہوں اور ایک ہی گھرانہ نہ کہلا سکیں ، لیکن مشرب و مسلک ، عقیدے ، عمل اور سیرت و کردار کے کسی خاس رخ پر بہت نمایا توافق و یکسانیت رکھتے ہوں ۔ اس کی مثال ابھی ہم دیں گے۔
ایسی صور ت میں کسی کا یہ دعویٰ کرنا کہ جہاں کہیں بھی آل آیاہے اس کے معنی اہل بیت ہی ہیں بالکل درست نہیں ہے جب تک کہ قریبے سے معلومنہ ہوجائے کہ دوسرے معنی لینے نا ممکن ہیں ۔ پھر اس دعوے ہی تک بات نہیں ، بلکہ یہ دعویٰ بعض فاسد عقائد کے اثبات کی کاطرکیا جاتا ہے اور ان عقائد کی لپیت مین کتنے ہی مسلم الثبوت عقائد خاک بسر ہوجاتے ہیں یہ افسوس ناک صورتِ حال ہو تو عدل و توسط پسند کرنے والوں کو یہ کہنا ہی پڑے گا کہ جب قرآن نے آل کو خونی رشتوں تک محدود نہیں کیا بلکہ وسیع معنوں میں بھی استعمال کیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم بھی ۔۔۔۔ایسے مقامات پرجہاں وسیع معنوں میں استعمال کرنا عقل و قیاس کے خلاف نہ ہو اسے گھرانے اور اہل بیت تک محدود نہ کریں ۔ ایسا کہنا باطل عقائد کی راہ روکنے کے لئے مستحسن بھی ہوگا اورمعقول بھی ۔ اسی لئے ہم اس کہنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے کہ درود میں آل سے مراد امت کے وہ تمام لوگ ہیں جو محمد ﷺ کی شریعت کے پیرواں سے محبت کرنے والے ، ان کے سیرت و کردار کو اعلیٰ نمونہ سمجھنے والے اور طاعت و نکو کاری پر مائل ہونے والے ہیں ۔
****
لفظ آل کے مفہوم کی وسعت پر قرآنی مثال ملاحظہ فرمائیے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
’’اِذْ نجینٰکم من آل فرعونیسومونکم سوۃَ العذابِ یذبحون ابناء کم و یستحیون نساء کم ۔ ‘‘ تمام معتبر تفاسیر اتھا کر دیکھ لیجئے یہ نہیں ملے گا کہ نبی اسرائیل پر مظالم ترنے والے فرعون سے خاندانی رشتہ داریاں رکھتے تھے ۔ بلکہ ظالمین کی فہرست بڑی وسیع پائیں گے اس میں فرعون کے عزیز و اقرباء بھی ملیں گے اور مصر کے حکمران طبقے کے وہ کثیر افاد بھی جو فرعون کے رشتہ دار نہیں تھے ان سب کو آل فرعون کے لقب سے اسی لئے ملقب کیا گیا کہ ظالمانہ مزاج، متکبرانہ سیرت و کردر ، برے عادات و خصائل ، جباری قہاری کفران وطغیان اور جورو بربریت میں وہ فرعون کے ہم مشرب تھے ۔ فرعون کے بے رحمانہ احکام کے نفذ میں اس کے دست و بازو تھے ۔ اردو محاورے مین کہہ سکتے ہیں کہوہ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے تھے ۔ ان کی باہمی رشتہ داریوں سے قرآنی بیان کو کوئی سروکار نہیں ، بلکہ ان کی شقاوت و بے رحمی کی طرف اس کا روئے سخن ہے اور فرعونی عادات و خصائل کے تعلق سے ہی وہ آل فرعون کہلائے ہیں ۔پھر بار تعالیٰ فرمات ہے :۔
واِذْ فرقْنا بِکُمُ البَحْرَ فَاَنْجَیْنٰکُمْ و اَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ ۔تو تفسیریں بھی دیکھئے اور عقل سے بھی سوچئے کہ بنی اسرائیل کا تعاقب کرنے والا تمام لشکر کیا فرعون کیبھائی بھتیجوں اور سالے بہنوئیوں پر ہی مشتمل تھا یا اس میں ایسے کثیر افرا بھی رہے ہوں گے جن کا کوئی نسبی رشتہ فرعون سے نہیں تھا ۔ عقل ، نقل ، قیاس ہر اعتبار سے معلوم ہو گا کہ پورا لشکر فرعون کے قرابت داروں تک محدود نہیں ہوسکتا ۔کوئی شخص فرعون کے رشتہ داروں کو مور و ملخ جیسا تو سع بھی عطا کردے تببھی یہ تاریخ کی اتل حقیقت سے بھتی نہین کئے جاتے ہ ۔ بنی اسرائیل کا پیچھا کرنے والا طاغوتی لشکر یقیناً محض اونچے افیسروں کا مجموعہ نہ ہوگا۔ بلکہ معمولی آفیسر اور سولجر بھی اس مین کافی شامل ہوں گے ۔ پھر یہ سب ٖرق کر دئے گئے اور اللہ انھین آل فرعون سے ملقب ۔ کررہا ہے ۔ تو کیا یہ ثابت نہیں ہوا کہ آل کا اطلاق ہمیشہ اہل خاندان ہی پر نہیں ہوتا ، بلکہ کسی خاص وصف میں مشترک گروہ اور کسی خاص رخ پر چلنے والی جماعت پر بھی ہوتا ہے ۔
****
اب خود آنجناب اپنی الجھن کیبارے مین سن لیں کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔منطق بجائے روز مرہ اور محاورت کی میزان اٹھایئے ۔ آپ بسا اوقات اس انداز سے دعا مانگتے ہیں :۔
’’اے اللہ ! مجھ پر اور میرے اہل و عیال پر اپنا فضل فرما ۔ ان کی صحتوں میں برکت اور رزق میں فراوانی عطا کر۔ ان کی مشکلات کو ختم کرکے ؤسانیو کا دروازہ کھو ل دے ۔ اور اسے اللہ میرے بیٹے طلحہ ؔ کی بیماری دور فرمادے۔ اور میرے بھانجے لطیفؔ کو روزگار عطار فرما اور میرے بھتیجے نعیم ؔ کو مقدمہ میں کامیاب کردے !‘‘
۔۔۔۔۔ کیا آپ کا بیٹا ، بھانجا اور بھتیجا سب ہی اہل و عیال میں شامل نہ تھے اور پہلے عام فقروں میں آپ کی دعا ان کو شامل نہ ہوچکی تھی ؟ ظاہر ہے کہ یہ سب شامل تھے اور وہ سب مقاصد بھی دعائے مجمل میں آگئے تھے جنھیں بعد میں تشریح کے ساتھ شامل دعا کیا گیا لیک آپ کو چونکہ خصوصی تعلق ان اعزاء کے ساتھ تھا۔ اسلئے فطرتاً خصوصیتکے ساتھ ان کا نام لیا اور التجا ئے عام کے بعد التجائے خاص کیَ تخصیص بعد التعمیم ایک معروف اسلوب ہے ۔ منصوص دعاؤں میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں مثلاً ترمذی وغیرہ مین ایک دعا منقول ہے ۔
’’اللھم انی اعومن منکرات الا خلق والاعمال والاھوا ء والا دواء‘‘ (ترجمہ : اے اللہ میں آجپ کی پناہ چاہتا ہوں ناپسنددیدہ اخلاق و اعمال سے اور نفسیاتی خواہشات و امراض سے ۔)
کوئی سی بھی برائی لے لیجئے اس ایک جامع جملے میں یقیناًآگئی ہے اور اتنی ہی دعا تمام ذمائم و منکرات سے پناہ طلبی کے لئے بالکل کافی تھی ، لیکن دعا اتنے ہی پر ختم نہیں ہوگئی بلکہ آگے خاص کر ’’خیانت ‘‘ سے بھی پناہ مانگی گئی ہے ۔ تو کیا یہ کہا جاسکے گا کہ خیانت ضرور ناپسندیدہہ اعمال و اخلاق سے جدا گانہ کوئی شے ہوگی ورنہ تمام ہی منکرات سے پناہ مانگ چکنے کے بعد اس کے خصوصی ذکر کی کیا وجہ تھی کتنی جامع دعا ہے :۔
’’ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار‘‘
کونسی آسائش ایسی ہے جس کی طلب اور کون سی تکلیف ایسی ہے جس سے بچاؤ کی التجا اس بلیغ و فصیح مختصر دعا میں موجود نہیں ہے ، لیکن پھ بھی قرآن و سنت ہمیں بہت سی اور بھی مفصل اور خاص دعاؤں کی ترغیب دیتے ہیں اور انسانی فطرت بھی متقاضی ہوتی ہے کہ وقتاً فوقتاً تسمیہ و تخصیص کے ساتھ دعائین کی جاتی رہیں ۔
بس یہی صورتِ حال درود میں سمجھ لیجئے ۔ سب سے پہلے اس ہستی معظم پر نزول رحمت کی استد عا کی گئی جو ہمارے تعلق خاطر کی سب سے زیادہ مستحق اور رحمتِ خداوندی کی سب سے بڑھ کر شایاں ہے ۔ پھر فی الجملہ تمام امت کا یا کم سے کم اس گروہ مومنین کا نام لیا گیا جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے لائے ہوئے دین پر چلنے میں کوشاں رہا ہے اور رہے گا اس کے بعد شدت تعلق اور شکر گذاری کے اقتضا میں ان اصحاب کا خصوصی تذکرہ ضروری ہوا جو رسول اللہ کے بعد مسلمانون کے خصوصاً اور تمام عالمِ انسانیت کے عموماً سب سے بڑے محسن ہیں ۔ جن کی محبت حبِ نبی ؐ کی دلیل اور جن کا تشکر شکر گذار بندوں کا دلی تقاضا ہے ۔ جو قصرِ امت کے ستون اور جسدِ ملت کے فس نا طقہ ہیں ۔ اہل بیت رضوان اللہ علیہم پر خدا کی ہزار ہزار رحمتیں ہوں وہ سب ان میں بدرجہ اولیٰ شامل ہیں اور اگر عدم بلوغ کے باعث بعض افراد کی صحابیت میں کسی اصول پر ست کو کلام ہو تب بھی اس کی حقیقت اصطلاح سے زیادہ کچھ نہیں اور اہلِ بیت آل کے دائرے میں بہر صورت جلوہ افروز ہیں ۔ درود میں تو اہل بیت ونوں ہی صورتوں میں تکرار کے ساتھ شامل ہیں چاہے آل کے معنی گھرانے کے لئے جائیں چاہے متبعین و متوسلین کے ۔
امید ہے ان تصریھات سے آپکی الجھن دور ہوگئی ہوگی ۔ نہ ہوئی ہوتو چلئے آپ آل کو گھرانے تک محدود کر لیجئے۔ ہمیں اس میں بھی کوئی گرانی نہیں ۔محبوب سبحانی صلی الہ علیہ و سلم کے فوراً بعد ہم ان کی اولاد اور ان کی ازواجِ مطہرات کے لئے اللہ سے طلبِ رحمت کریں تو یہ گراں کیوں ہو۔ جن سے حضور ؐ نے محبت کی ان سے تو محبت کرنا تمام امت پر لازم ہے ۔ یہ لزوم فقہی نہ سہی ، قانونی نہ سہی طبعی اور نفسیاتی ضرور ہے ۔ بے شک ہم اہلیت کے چاہنے والوں میں ہیں ۔ لیک آل کے مفہوم و مراد کی بحث تو دراصل اس وقت کھڑی ہوتی ہے جب بعض کج فکرے مخصوص مقاصد کے لئے آل کو محدود کر دیتے ہین ان مقاصد سے ہم کبھی اتفاق نہیں کرسکتے ۔ کیوں کہ اہلِ بیت کے لئے چاہئے کتنی ہی انفرادی فضیلیتں کوئی ثابت کردے ، لیکن مجموعی اوصاف کے وزن و قیمت کے اعتبار سے فضیلت حضور ؐ کے بعد سب پرابو بکر صدیقؓ ہی کو رہے گی اور ان کے بعد علیٰ الترتیب تینوں خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم کو ۔ حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ جیسی بے مثال مائین کہاں نصیب ہوتی ہے ۔ شمس و قمر کی درخشاں نیاں ان کے نقوش قدم کی تابانیوں پر قربان ۔ بیٹے ماں سے زیادہ کسے چاہیں گے ۔ مگر مشیت ایزدی اور فیصلۂ باری کے آگے پوری کائنات سر نگوں ہے ۔ اسی نے فیصلہ کردیا کہ محمد عربی ﷺ کے بعد سب سے بڑا انسان ابو قحافہ کا بیٹا ابو بکر ہے تو پھر تمام دعوے خاموش ، تمام جذبات گنگ اور تمام دلائل سپر انداز ہوئے۔ حقائق ہمارے جذبوں کے پابند نہیں وہ اتل ہیں ۔ ناقابل شکست ہیں ۔ سبحانہٗ ما اعظم شانہٗ و ھو العلی الکبیر۔

No comments:

Post a Comment