Wednesday, March 27, 2013

رام راج کو روک لو (بچوں کی کہانی)


رام راج کو روک لو
تسکین زیدی
آج وہ اداس اور بے چین بیٹھا ہوا اسکول کی ایک ایک کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے یہ منظر اب کچھ لمحوں میں اس سے روپوش ہوجائے گا۔ اس جدائی کے احساس نے اس کے دل کا سکون منتشر کردیا تھا۔
وہ تب چونکا جب آفس کے پردیپ بابو نے اسے پکار کرکہا’’کہاں کھوئے ہوئے ہو رام راج دادا؟وقت ہوگیا ہے گھنٹی بجاؤ ورنہ پرنسپل صاحب ناراض ہوں گے۔‘‘
وہ بوجھل قدموں سے اٹھا سے اور گھنٹی بجانے لگا۔
’’ٹن۔۔۔ٹن۔۔۔ٹن۔۔۔‘‘گھنٹی بج اٹھی۔ لڑکے ایک کلاس سے دوسرے کلاس میں آنے جانے لگے اور وہ آپس میں باتیں کرنے لگے۔ گفتگو کا موضوع یہی گھنٹی کی آواز تھی۔
’’آج یہ گھنٹی کی آواز کو کیا ہوگیا، عجیب سی گھٹی گھٹی سی آواز ہے جیسے کسی نے کریاردکراسے بجایا ہو۔ کیا رام راج نے سوتے سے اٹھ کر گھنٹی بجائی ہے؟‘‘
وہ یہ سر گوشی سن کر چونک پڑا۔پھر بڑبڑانے لگا۔
’’ٹھیک کہو ہو بچو!‘‘اب تو میں بہت تھک گیا ہوں۔ بوڑھاہوگیا ہوں۔۔۔اس اسکول میں میرا آج آخری دن ہے کل میں کہاں ہوں گا اوریہ کہاں ؟ تم لوگ بھی مجھ سے دور ہوجاؤ گے۔ اس احساس نے میرے ہاتھوں کی مانوجان ہی نکل لی ہے۔ کانپتے ہاتھوں سے جب گھنٹی بجائی جائے گی تو یوں یہی مدھم سی آواز نکلے گی۔‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ پھر اپنی جگہ آکر بیٹھ گیا اور خیالوں میں کھو گیا۔ اس کے تیس برس اس اسکول میں گزرے ہیں اور آج اس سے جدا ہوتے ایسا لگ رہا ہے کہ اب اس سے اس کا کوئی رشتہ ہی نہیں رہ گہا ہو۔ اب تو باقی زندگی گاؤں کے چھپرے گھرے کچے بوسیدہ مکان میں گزرے گی۔ پنشن ضرور ملے گی مگر اتنی کم ہوگی کہ دونوں وقت کا کھانا بھی مشکل سے بن پائے گا اور پنشن ملنے میں بھی سال بھر لگ جائے گا۔ فنڈ تو لڑکی کی شادی میں ہی ختم ہوچکا ہے باقی بیوی کی بیماری کھا گئی ۔ کاش کہ اس وقت کا کوئی لڑکا ہوتا تو اس کا سہارا بنتا۔۔۔گاؤں کا ماحول بھی کافی بدل چکا ہے اب وہاں وہ پہلا ساپیار کہاں رہ گیا ہے۔ گاؤں کا آدمی بھی بہت چالاک ہوگیا ہے ہر وقت اپنا الّو سیدھا کرنے میں لگا رہتا ہے۔ وہاں اس ماحول میں وہ کیسے باقی زندگی بتاسکے گا؟ یہاں تو دن بھر بچوں کے درمیان ایسا مصروف رہتا ہے کہ اپنا بھی ہوش نہیں رہتا۔
رام راج کو پرنسپل سے لے کر ٹیچرس اور طلباء سبھی دل سے چاہتے تھے ویسے اس اسکول میں اس طرح کے پانچ چھ چپراسی اور بھی تھے مگر اس کا برتاؤ نرم تھا کہ سب اسی کو ہر کا کے لئے پکارتے تھے اور وہ بھی کسی کو کسی کام کے لئے منع نہیں کرتا تھا۔ اس لئے سب اسی کا خیال رکھتے تھے۔ اب تو پرنسپل بھی اس کے کام سے متاثر ہوکر اس کو ’’رام راج دادا‘‘کہنے لگے تھے۔ اب اس سے کوئی چھوٹا کام نہیں لیتے تھے۔ وہ بھی ہر وقت اسکول کی بھلائی کا خیال رکھتا تھا اور کب آرام کرتا تھا۔ اسکول گیٹ کی نگرانی، آفس کا سامان کی دیکھ بھال۔۔۔ایک آدمی میں فرائض کی ادئیگی کا اتنا احساس کم ہی دیکھایا سنا گیا ہے۔
اسکول میں ہی گیٹ کے پاس ایک چھوٹی سی کوٹھری تھی جس میں تھک کر وہ لیٹ جاتا تھا۔ کھانا وہ خود ہی اپنے ہاتھوں سے پکاتا تھا۔۔۔معمولی کپڑا پہنتا۔ دھوتی اور بنیان میں ہی اس نے اپنی ساری زندگی بتادی۔۔۔کبھی کسی نے اسے پیروں میں چپلیں یا جوتا پہنتے نہیں دیکھا تھا۔
ٍ وہ بڑا ایماندار تھا۔ کبھی کسی کی کوئی چیز بھولے سے رہ جاتی تو او اسے اٹھا کر رکھ دیتا تھا یا آفس میں جمع کردیتا تھا۔ پھر اس کی یہ کوشش بھی رہتی تھی کہ جس کی چیز ہے اس تک جلد سے جلد پہنچ جائے۔
ایک بار کلاس میں کسی لڑکے کا پرس رہ گیا۔ وہ کسی مالدار گھرانے کا تھااس میں ڈھائی سوروپے تھے۔ رام راج جب شام کو کمرہ بند کرنے آیا تو اسے میز پر یہ بٹوا پڑا ہو ملا ۔ اس نے اسے اٹھا کر اپنے پاس رکھ لیا اور دوسرے دن اس لڑکے کو ڈھونڈکر دے دیا۔ اس نے خوشی ہو کراسے دس روپے کا نوٹ انعام میں دینا چاہا تو وہ ناراض ہوکر بولا۔۔۔ ’’جاؤ بچہ ! خوش رہو۔ تم میرے بچے ہو کوئی اپنے نچوں سے بھی بخشیش لیتا ہے۔‘‘
ایک لڑکی کا سونے کا کان کا بالا بھی گرگیا تھا اسے بھی اس نے سنبھال کر رکھا تھا۔ دوسرے دن جب اس کے ڈیڈی اسے پہنچانے آئے اور انہوں نے بالے کے بارے میں اس سے پوچھا تو رام راج نے آفس سے لاکر اسے دے دیا۔ لڑکی کے باپ بھی کچھ انعام دینا چاہتے تھے۔ ان سے اس نے بڑی عاجزی سے کہا:’’انعام کیسا صاحب ! یہ تو میرا فرض تھا۔‘‘
’’حضور ! میں تو آپ کا نوکر ہوں۔‘‘ وہ آہستہ سے بولا۔ اس کی آواز رندھی ہوئی تھی۔ پرنسپل نے اس کے گلے میں پھولوں کاہار ڈال دیا۔
رام راج نے حیرت سے چاروں طرف دیکھا پتہ نہیں کیوں کانپ رہاتھا۔ اس قدر منزلت کے لئے وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آنسواس کی پلکوں پرٹھہرے ہوئے تھے اور دل نہ جانے کیوں زور زور سے دھڑک رہاتھا۔
’’دادا رام راج! تم تو اس سے بھی زیادہ عزت کے مستحق ہو۔ اسکول کے لئے تمہاری خدمات کیا یہ اسکول ٹیچرس اور طلبہ آسانی سے بھلا سیکں گے؟ کبھی نہیں۔۔۔ہمیں تم پر ناز ہے۔ہمارے بچوں کو تمہاری مثالی زندگی سے سبق لینا چاہیے۔‘‘ پرنسپل صاحب بولتے بولتے رکے اور پھر انہوں نے طالب علموں سے مخاطب ہوکر کہا’’آج جو یہ ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے ہیں تو ہم کیوں ان کی عزت کررہے ہیں؟ یہ عزت ان کی نہیں اس کے کام کی ہے، ان کی ایمانداری ، محنت اور لگن کی ہے۔‘‘ پھر اسے مخاطب کرتے ہوئے بولے۔
’’لو یہ ہماری جانب سے چھوٹا سا تحفہ قبول کرو۔‘‘ ایک شال او ر ہاتھ کی گھڑی انہوں نے اسے پہنادی۔ اس کے بعد ٹیچرس کی طرف سے ایک دھوتی کرتہ اور پانچ سو روپے کا چیک پیش کیا گیا۔ پھر لڑکوں کی باری آئی۔
ایک لڑکے نے سب کی طرف سے کچھ کپڑے اور پانچ سو ایک روپے لفافے میں رکھ کر اسے پیش کئے۔
رام راج کو اتنے تحفے اورنقد ملا کہ وہ ریٹائر ہونے کے بعد کئی مہینے تک آرام سے کھا پی سکتا تھا۔
اب وہ حیرت بھری نظروں سے ان تحفوں کو دیکھ رہاتھا۔ اس سے جب سب نے دولفظ بولنے کے لئے کہا تو اس کی زبان گنگ ہوگئی۔ ہمت کر کے اس نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ جوڑے اور کہا۔
’’ان تحفوں کے لئے آپ سب کا شکریہ ۔۔۔مجھے یہ سب کچھ نہیں چاہیے۔ مجھے میرا اسکول چاہیے۔ مجھے یہ بچے چاہئیں۔ اس لئے کہ میرا پریم میری چاہ ان ہی سے ہے۔ آپ یہ نہیں دے سکتے تو۔۔۔‘‘ رام راج کی آواز بھر آگئی لیکن وہ رویا نہیں، بس ایک دم اسٹیج سے اترا اور تیز تیز قدموں سے ہال سے نکل گیا۔

No comments:

Post a Comment