Friday, March 22, 2013

عامر عثمانی


عامر عثمانی
(۱۹۲۰۔۷۵ ۱۹)
ظہیردانش عمری
مولانا عامر عثمانی دیوبند کے فیض یافتہ تھے۔دیوبند کے کتب خانے سے انہوں نے بہت استفادہ کیا۔اپنے دور کے شعراء میں انہوں نے اپنی مخصوص شناخت بنائی ۔ ۱۹۲۰ ؁ء میں دیوبندمیں پیداہوئے ۔والد کانام مطلوب الرحمن تھا جو انجنیرتھے۔دیوبند سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد پتنگیں بناکر بیچنے لگے۔ایک عرصے تک اس کام سے جڑے رہے۔لیکن اس سے ضروریات پوری نہیں ہوتی تھیں۔اس لئے شیشے پر لکھنے کی مشق کرنے لگے اور اس میں وہ مہارت حاصل کی کہ اچھے اچھوں کو پیچھے چھوڑدیا۔تجلی کے اکثر سرورق خود مولانا نے بنائے اس ہیں۔اس کے بعد مولانا پروہ دور بھی آیاکہ ان کا قلم بمبئی کی گندی فلم نگری کی طرف مڑگیا۔مگریہ دنیا مولانا کی طبیعت سے میل نہیں کھاتی تھی اوروالد مرحوم نے یہ بھی کہہ دیاکہ فلم سے کمایاہوایک پیسہ بھی میں نہیں لوں گا۔اسی لئے جلد ہی مولانا دیوبند لوٹ گئے ۔ذریع�ۂ معاش کے طور پر تجلی کا اجراء کیا۔احباب نے خاصی ہمت شکنی کی ۔طعنے کسے ۔پریشان کیا لیکن مولانا کے پائے استقلال میں جنبش نہیں ہوئی ۔دنیا نے دیکھ لیاکہ اس رسالے نے علمی و ادبی دنیا میں کس قدر کم مدت میں کتنی زیادہ شہرت حاصل کی ۔تجلی کا اجراء ۱۹۴۹ ؁ ء میں کیا گیا جو مولانا کی وفات تک یعنی ۲۵سال تک مسلسل بلا کسی انقطاع کے شائع ہوتا رہا۔
’’مسجد سے مے خانے تک ‘‘کے عنوان سے تجلی میں ایک طنزیہ کالم شائع ہوتاتھا۔جس میں مغرب کی بھونڈی نقالی ،مروجہ بدعات و خرافات،علماء سوء کی خامیاں او رمسلمانوں کی کم علمی پر عام طور پربڑا طنزکیاجاتاتھا۔’’تجلی‘‘میں شائع شدہ خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’’مسجد سے مے خانے تک‘‘کو وہ بہت پسند کرتے ہیں اور بعضے تو ایسے تھے جو محض اس کالم کے مطالعے کے لئے پورارسالہ خریدتے تھے۔مولانا عامرعثمانی نے مولاناماہرالقادری کے انداز میں تبصرے لکھنے شروع کئے ۔میں سمجھتا ہوں کہ تبصرہ نگاری کے فن کواگر ماہرالقادری کے بعد کسی نے پوری طرح نبھایاہے تو وہ مولانا عامرعثمانی ہیں۔
مولانا جماعت اسلامی کے بے حدمداح تھے۔ہندوستان میں اس وقت جماعت اسلامی کے لئے میدان کارساز نہیں تھا ۔جماعت اسلامی کی موافقت میں بات کرنا مشکل تھا مگر مولانا عامر عثمانی ایسے وقت میں جماعت کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے لگے۔جب مولانامودودی نے ’’خلافت و ملوکیت‘‘لکھی تو اسے شدید طنز وتعریض کانشانہ بنایاگیا۔مولانا مودودی کا استہزاکیاگیا۔مولانا عامر عثمانی کی حمیت یہ بات برداشت نہ کرسکی ۔نتیجۃًانہوں نے خلافت وملوکیت نمبرنکالا اوران کے موقف کو درست ثابت کیااو ردلائل وبراہین کے ایسے انبارلگائے کہ جماعت اسلامی کے مخالفین منہ دیکھتے رہ گئے ۔
مولانا عامر عثمانی شاعر کی حیثیت سے ادبی دنیا میں شہرت حاصل کرچکے تھے۔مرض الموت میں جب انہیں ڈاکٹروں نے چلنے پھرنے سے منع کردیا ۔سفر کی سخت ممانعت تھی ۔مگر شایدمولانا کو اس بات کا احساس ہوگیاتھا کہ یہ ان کا آخری سفر ہے۔پونے کے ایک مشاعرے میں شرکت کے لئے مولانا نے پونے کاطویل سفر اختیارکیا۔او راپنی مشہورنظم ’’جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتاہوں میں ‘‘سنانے کے دس منٹ بعد ہی جہان فانی سے کوچ کرگئے ۔اناللہ واناالیہ راجعون۔
مولانا کے انتقال کے بعد اخبارات ورسائل میں تعزیتی مضامین کاانبار لگ گیا۔ماہرالقادری نے جون۱۹۷۵ ؁ء کے فاران میں لکھاہے :
’’مولانا عامر عثمانی کا مطالعہ بحر اوقیانوس کی طرح عریض و طویل او رعمیق تھا۔وہ جو بات کہتے تھے کتابوں کے حوالوں اور عقلی وفکری دلائل وبراہین کے ساتھ کہتے تھے۔پھرسونے پرسہاگہ زبان وادب کی چاشنی اورسلاست و رعنائی ۔تفسیر ،حدیث،فقہ و تاریخ،لغت و ادب غرض تمام علوم میں مولانا عامر عثمانی کو قابل رشک بصیرت حاصل تھی ۔جس مسئلے پرقلم اٹھاتے اس کا حق اداکردیتے ۔ایک ایک جزئیے کی ترید یاتائید میں امہات الکتب کے حوالے پیش کرتے ۔علمی و دینی مسائل میں ان کی گرفت اتنی سخت ہوتی کہ بڑے بڑے چغادری اوراہل قلم پسینہ پسینہ ہوجاتے‘‘
حفیظ جالندھری کے شاہنامہ اسلام کے طرز پرمولانا عامر عثمانی نے’’ شاہنامہ اسلام جدید‘‘لکھا۔جس میں وفات رسول ﷺکے واقعے کومنظوم کیا۔
مولانا کا شعری مجموعہ ’’مرکزی مکتبہ اسلامی ۔دہلی ‘‘کے زیر اہتمام شائع ہواتھا جس کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہوا ہے جو اس بات کی دلیل ہے مولاناکاکلام قبول خاص وعام ہے ۔
ۃۃۃ

No comments:

Post a Comment