Friday, March 22, 2013

مولاناعامرعثمانی


مولاناعامرعثمانی 
ماہر القادری
مولانا عامرعثمانی سے پاکستان بننے کے بعد کراچی میں ملاقات ہوئی اور پہلی ہی ملاقات میں ایسا محسوس ہوا جیسے ہم دونوں ایک دوسرے کی صورت دیکھنے قبل بھی دوست تھے ۔ دیو بند سے وہ کراچی اپنے والدین اور بھائیوں سے ملنے کے لئے کئیبار آئے ۔اور ان سے مسلسل ملاقاتوں کے بعد بھی سیری نہیں ہوئی ،تشنگی باقی رہی!مولانا عامر عثمانی اور راقم الحروف کے درمیان نسل و رنگ اور قوم و وطن کا نہیں دین کا رشتہ تھا ۔ اس رشتہ سے زیادہ قوی و مستحکم کوئی دوسرا رشتہ نہیں !جو وہ سوچتے اور لکھتے تے ۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میرے خیالات لڑگئے ہیں اور میرے محسوسات کا توارد ہوگیا ہے ۔افکار و خیالات میں اس قدر ہم آہنگی اور یک رنگی کم ہی دیکھنے میں آئی ہے۔
مگر یہ دنیامیں جس میں انتہائی مخلص دوستوں ، عزیزوں اور مخلص خیر خواہوں سے بھی اختلافات کے موقعے آجاتے ہیں ۔ مشہور ناصبی العقیدہ اہلقلم محمود عباسی کے موقف کی تائید میں جو تحریریں ماہنامہ ’’تجلی ‘‘میں شائع ہوئیں تو مولانا عامر عثمانی کے اس موقف پر راقم الحروف کو حیرت بھی ہوئی اور وجدان نے اذیت بھی محسوس کی ، میں نے ان کو کئی خط بھی لکھے اور ’’فاران ‘‘ میں بھی عامر عثمانی کی تحریروں پر نقد و احتساب کیا ۔ میرے لئے یہ شدید مرحلہ تھا ۔ ایک طرف گہری دوستی ،مخلصانہ روابط اور برادرانہ تعلقات تھے اور دوسری طرف اظہار حق کے تقاضے تھے ۔ میں سکوت بھی اختیار کرسکتا تھا لیکن دوست کی رو رعایت کے لئے ضمیر کی آواز کو دبانا میرے بس کی بات نہ تھی ۔ راقم الحروف نے وہی بات کہی جو اس کے نزدیک حق تھی ۔
پھر اللہ کرنا ایسا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے قبولِ حق کے لئے ان کا سینہ کھول دیا ، حق ان پر چڑھتے ہوئے سورج کی طرح واضح ہوگیا ۔عامر عثمانی ؔ نے اپنے موقف سے رجوع کرکے محمود عباسی کی کتابوں پر اس قدر مدلل جرح و تنقید کی کہ پڑھنے والے عش عش کر نے لگے ! بھارت میں جن نامی گرامی علمانے مولانا مودودیؒ کی ’خلافت و ملوکیت کو طنز و تنقید کا ہدف بنایا اور مولانا موصوف پر اہانتِ صحابہؓ کا جھوٹا الزام لگایا تھا ۔ ان کی تحریروں ، کتابوں کے مولانا عامر عثمانی نے دلیل و برہان کی تیغ براں سے پر خچے اڑادئے ۔
دارالعلوم دیو بند کی مجلس شوریٰ کے رکن اور جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا محمد میاں کی کتاب ’’شوا ہد تقدس ‘‘کا ماہنامہ ’’تجلی ‘‘میں اس قدر مہارت و بصیرت کے ساتھ پوسٹ مارٹم کیا گیا کہ یہ کتاب (شواہد تقدس) شواہد جہالت نظر آنے لگی ! تنہا اس شخص نے دیو بند میں رہ کر ، جماعت اسلامی کی مخالفت کے طوفان کا منہ پھیر دیا ہے اور جیشِ تحریک اسلامی کے اس اکیلے سپاہی نے جماعت اِسلامی اور مولانا مودودیؒ کے مخالفین و معاندین کی پلٹن کا مقابلہ کیا ہے !
راقم الحروف اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر ، آخرت کی جواب دہی کے احساس کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار کررہا ہے کہ مولانا عامر عثمانی نے بڑے بڑے علماء دین جن کے علم و فضل کے ڈنکے بج رہے ہیں ان کی کتابوں اور تحریروں پر خالص علمی اور فقہی انداز میں جب گرفت کی ہے تو مرحوم کی تنقید پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوا ہے کہ یہ علما ئے علم نہیں عقل و بصیرت سے بھی کورے ہیں ۔
مولانا عامر عثمانی ؒ کا مطالعہ بحر اوقیانوس کی طرح عریض و طویل اور عمیق تھا ۔وہ جو بات کہتے تھے کتابوں کے حوالوں اور عقلی و فکری دلائل و براہین کے ساتھ کہتے تھے ۔ پھر سونے پر سہاگا زبان و ادب کی چاشنی اور سلاست و رعنائی ،تفسیر ،حدیث ، فقہ ‘تاریخ، لغت و ادب غرض تمام علوم میں مولانا عامر عثمانی کو قابل رشک بصیرت حاصل تھی ۔ جس مسئلہ پر قلم اتھاتے اس کا حق ادا کردیتے ۔ایک ایک جزئیہکی تردید یا تائید میں امہات الکتب کے حوالے پیش کرتے ، علمی اور دینی مسائل میں ان کی گرفت اتنی سخت ہوتی کہ بڑے بڑے چغادری اور اہل قلم پسینہ پسینہ ہوجاتے ! انھیں اپنی رائے اور فکر پر ، مطالعہ اور استدلال پر پورا اعتماد تھا اس لئے ہر عالم اور مفکر سے بلند و بالا ہوکر اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے !راقم الحروف ان کی تحریر کا ایک ایک لفظ پڑھتا اور پڑھنے کے بعد محسوس ہوتا کہ میں نے بہت کچھ حاصل کرکیا۔ مولانا عامر عثمانی اپنی ذات سے دبستانِ علم و فضل تھے ۔
مولانا عامر عثمانی ؒ کے فقہی جوابات میں ناول جیسی ادبی دلچسپی اور زبان کی چاشنی ہوتی ۔ کیسے کیسے نازک مسائل کی مرحوم نے کس خدا قت و مہارت کے ساتھ گرہ کشائی کی ہے ! ’’مسجد سے میخانے تک ‘‘ ماہنامہ ’’تجلی ‘‘کا مستقل عنوان تھا ۔ اس میں مزاح و ظرافت کا وہ چٹخارہ کہ :
فتادذائقہ در موج کوثر وتسنیم 
مزاح وظرافت کا مقصد لوگوں کی تفریح طبع اور ہنسنا ہنسانا نہیں بلکہ عبرت و موعظت کا درس دیناتھا ! ان چٹکیوں اور گدگدیوں میں وہ بڑے کام کی باتیں کر جاتے ۔
دارالعلوم دیوبند میں ماہنامہ ’’تجلی ‘‘ پر قد غن تھی مگر نہ جانے کتنے گلبہ چھپ چھپا کر ’’تجلی ‘‘ کا مطالعہ کرتے ! مولانا عامر عثمانی مرحوم دارالعلوم دیو بند کے فارغ التحصیل اور اکابردیو بند کے عقیدت مند تھے مگر لکیر کے فقیر نہ تھے !دیو بند کے متوسلین اپنے اکابر کی عقیدت میں جو غلو کرتے ہیں مولانا عامر اس سے محفوظ تھے اور اپنے بڑوں کی غلطیوں کی تائید اور تاویل نہیں کرتے تھے ،اگر دیو بندی حضرات مولانا عامر عثمانی کی روش اختیار کرتے تو دیو بند کی مخالفت میں ’’زلزلہ‘‘نام کی کتاب وجود میں نہ آتی ۔ 
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ مولانا عامرعثمانی کے عمِ محترم تھے ۔ان کے والد حضرت مولانا مطلوب الرحمن قدِس سرہٗ حضرت شیخ الہند ؒ سے بیعت تھے ۔ مگر عامر عثمانی ؒ کو پیری مریدی سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا ۔ تجلی میں عجمی تصوف پر خوب کس کر تنقید کرتے رہتے تھے ۔شرک و بدعت کی تردید او توحیدو سنت کی تبلیغ و اشاعت ان کا سب سے زیادہ محبوب مشغلہ تھا۔ انھوں نے ہزاروں صفحے شرک و بدعت کی تنقیص و تردید میں لکھے ہیں اور مشرکانہ عقائد و رسومکے ایک ایک جزئیہ پر احتساب کیا ہے ،اس میدان میں وہ ہر وقت شمشیر برہنہ رہتے تھے !ان کے مفاخرو حسنات کا سب سے روشن باب شرک و بدعت کے خلاف قلمی جہاد ہے ، جس کا آخر ت میں انشاء اللہ العزیز اجر غیر ممنون انھیں ملے گا۔
اس تمام علم و فضل اور ذہانت و بصیرت کے باوجود مولانا سید الولاعلیٰ مودودیؒ کے انتہائی قدر شناس ،عقیدت منداور مداح تھے ۔مولانا مودودی کو وہ امام العصر اور مجتہد وقت بلکہ اس دور کا مجدد سمجھتے تھے۔مولانا مودودیؒ کی مدافعت میں وہ ہر محاذ پر سینہ سپر نظر آتے تھے ۔
فاران میں کتابوں پر جس انداز میں نقد و تبصرہ کا جاتا ہے ‘ ۔۔۔۔کئی رسالوں نے اختیار یا مگر وہ اسے بناہ نہ سکے ۔ مولانا عامر عثمانی ؒ نے ’’تجلی‘‘ میں اس انداز کو پوری طرح برقرار رکھا ،شعر و ادب اور زبان پر ’’فاران‘‘ کی تنقیدیں ’’تجلی ‘‘ کی تنقیدوں سے شاید کچھ نکلتی ہوئی ہوں ، مگر علمی مباحث اور کتابوں پر ’’تجلی ‘‘ کی تنقیدوں کا جواب نہیں ! یہ مولانا عامر عثمانی کا حصہ تھا ، جہاں تک علم و فضل کا تعلق ہے راقم الحروف کی ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں تھی ۔
اب سے تقریباً بائیس برس قبل مولانا عامر عثمانی تشریف لائے تو ان کی زبان سے اس قسم کی غزلیں : ؂
یہ قدم قدم بلائیں ،یہ سوادِ کوئے جاناں 
وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری
سن کر بڑی مسرت ہوئی ، پھر انھوں نے ’’تجلی ‘‘ میں ابوالاثر حفیظ ؔ جالندھری کے شاہنامہ کی بحراور انداز پر سیرت النبی کے منظوم واقعات کا سلسلہ شروع کیا ، جو خوف تھا اور اسے پسند کیا گیا ! پھر ایک ایسا دور بھی آیا کہ ان کی شاعری کا شوق بجھ ساگیا۔اس پر میں نے ان کو لکھاکہ شعر کہنا ترک نہ کیجئے ،اللہ تعالیٰ نے شعر گوئی کی جو صلاحیت آپ کو دی ہے اسے کام میں لائیے۔
پاکستان اور ہندوستان کے مابین برسوں سے ڈاک بندر ہنے کے بعد جو ڈاک کھلی تو مولانا عامر عثمانی سے مراسلت کا موقع ملا انھوں نے اپنے کئی قطعے بھیجے ،اور اپنی شاعری کے بارے میں میری رائے دریافت کی ، میں نے انھیں جواب میں لکھا کہ فلاں فلاں مصرعوں کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوا کہ آپ کو بھی ’ترقی پسند ‘‘ شاعری کی برائے نام ہی سہی جھپٹ لگ گئی ہے ایک دو مصرعوں کا تجزیہ بھی میں نے کیا کہ ان میں یہ مقامات محلِ نظر ہیں ، میری تنقیدو مشورت کا انھوں نے برا نہیں مانا۔
عجب واقعہ ہے کہ یا تو وہ ایک زمانے میں شاعری سے بے تعلق ہوگئے تھے مگر کئی برس سے شعر گوئی کا شغف بڑھ گیا تھا۔ کوئی شک نہیں وہ نغز گوشاعر تھے ! کئی مہینے ہوئے میرے پاس ان کا خط آیا کہ مہینہ بھر صوبہ مدراس کے مختلف شہروں کا سفر کیا ، ہر جگہ مشاعرے پڑھے پانڈے چیر ی اور کیرالہ بھی ہو آیا ۔ جس دینی مشن کے وہ مبلغ تھے اور ان کو علم و فضل کا جو بلند مقام حاصل تھا اس کے دیکھتے ہوئے مولانا عامر عثمانی کی مشاعروں میں مسلسل شرکت ان کے نیاز مندوں کی نگاہ میں قدرے محسوس ہوئی وہ ’’ماہرالقادری ‘‘ نہیں ۔ ’’مولانا عامر عثمانی تھے ۔‘‘
پو نا کے جس مشاعرے میں شعر پڑھتے ہوئے ان کا انتقال ہوا ہے ۔اس مشاعرے اور ہندوستان کے متعدد شہروں کے مشاعروں کی دعوت راقم الحروف کو ملی تھی ۔ادھر سے اصرار کی کوئی حد و نہایت ہی نہ رہی ۔ خطوط ہی نہیں تار بھی آئے ،فون بھی بمبئی سے گفتگو ہوئی ،کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ نے بسترِعلالت سے دو خط لکھے کہ خدا کے لئے کسی طرح آجاؤ ! مگر میرا جانا نہ ہوسکا ! روزنامہ ’’دعوت‘‘دہلی میں ’’مولانا عامر عثمانی کے آخری چند دن ‘‘ کے عنوان سے جناب محمد داؤد (نگینہ) نے ایک مضمون قلم بند کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں :
’’مولانا عامر عثمانی تین روز تک برابر خاموش پڑے رہے ۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ افاقہ ہونے لگا، آپ نے گھر والوں سے اور ڈاکٹروں سے اپنے بمبئی جانے کے ارادے کا اظہار کیا ، ڈاکٹروں نے کہا کہ ہم اتنے طویل سفر کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتے ۔ آپ کو مسلسل آرام کی ضرورت ہے ۔اس پر مولانا نے کہا کہ اچھا اجازت نہیں دیتے ۔ تو بغیر اجازت ہی چلا جاؤں گا ۔ گھر کے لوگوں نے جب آپ کو اس سفر سے باز رکھنا چاہا تو آپ نے بڑے پر اعتماد لہجے میں کہا میں وہاں ضرور جاؤں گا ، میرا بچپن (۱؂)کا دوست ماہرالقادری آرہا ہے اس سے ملنے کو میرا بے انتہا دل چاہتا ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘
(۱؂مولانا عامرعثمانی مرحوم نے ’’بچپن ‘‘ نہیں کہا ہوگا ، وہ مجھ سے عمر میں بہت چھوتے تھے اور ان سے پہلی بار ملاقات کراچی میں پاکستان بننے کے تین چار برس بعد ہوئی تھی ۔(م۔ق) ) 
جماعت اسلامی مہاراشٹر کے رکن جناب عبدالرحمن صاحب کا میرے نام بمبئی سے جو خط (مورخہ ۱۴/اپریل ) آیا ہے اس میں صاحبِ موصوف نے لکھا ہے :
’’ایک جانکاہ خبر سنانے جارہا ہوں جس کے لئے نہ دل آمادہ ہے نہ قلم چل رہا ہے لیکن مشیت ایزدی کے آگے ہم بے بس ہیں ،مولانا عامر عثمانی صاحب کا پرسوں شب میں پونہ میں انتقال ہوگیا ۔اناللہ واناالیہ راجعون۔
انجمن خیرالاسلام کے ایشیائی مشاعرے میں شرکت کی غرض سے بمبئی تشریف لائے تھے ،مشاعروں سے مرحوم کو کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی ، لیکن چوں کہ آپ بھی شریک ہونے والے تھے لہٰذا آپ سے ملاقات کی شدید خواہش کے پیشِ نظر گذشتہ ماہ جب وہ بمبئی تشریف لائے تو ہم لوگوں سے فرمایا تھا کہ اس ایشیائی مشاعرے میں انھیں مدعو کیا جائے تو اچھا ہے ۔چنانچہ بڑی کوششوں کے بعد ان کو دعوت بامہ جاسکا ،کسے معلوم تھا کہ یہ بلاواصلاًاللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہوا ہے ۔پندرہ بیس روز قبل دل کا ایک دورہ پڑچکا تھا ۔ ۲۴ گھنٹے بے ہوش رہے اور ابھی صحت بمبئی کے سفر کی متحمل نہیں تھی ، مگر آپ سے اور دیگر رفقاء سے ملاقات کے شوق میں چلے آئے ۔ احتیاطاً اپنے برادرِ نسبتی کو ساتھ لے لیا تھا ۔ ۱۱/اپریل کو صابو صدیق ٹکنک گراؤنڈ پر کلام بیٹھ کرسنایا ، کچھ بدعتی حضرات نے ہوٹنگ کردی ۔ اس کے بعد مرحوم اسٹیج سے اٹھ گئے ۔ ہم لوگ بھی ان کے ساتھ نکل آئے ۔ڈاکٹر عبدالکریم نائک صاحب نے ایک مشہور CARDIOLOGISTکے نام چھٹی لکھ کر مجھے دی کہ دوسرے دن میں وہاں لے جاکر معائنہ وعلاج کراؤں ۔
لیکن دوسرے دن منتظمین مشاعرہ اصرار کر کے انھیں پونہ کے مشاعرے میں لے گئے جہاں مرحوم نے کلام سنایا ، خوب داد حاصل کی ، کلام سنا کر بیٹھے اور برادرِ نسبتی کے زانو پر سر رکھ کر ابدی نیند سوگئے ! ڈاکٹر نائک صاحب وہاں موجود تھے فوراً کار میں لے کر بمبئی روانہ ہوگئے ۔ یہاں سے ہم نے دیو بند ٹرنک کال لگائی لیکن کامیابی نہیں ہوئی ۔ امیر جماعت اور مفتی عتیق الرحمن صاحب کے مشورے سے بمبئی میں تدفین کردی گئی ، مفتی صاحب ہمارے فون کے فوراً بعد بذریعہ کار دیو بند تشریف لے گئے ہم نے تو ہوائی جہاز کے ذریعہ میت بھیجنے کے انتظامات کر لئے تھے لیکن مفتی صاحب کے مشورے کو ترجیح دی گئی ۔
’’مرحوم کو آپ سے خصوصی تعلق تھا ۔پچھلی بار بمبئی تشریف لائے و بڑے شوق سے آپ کا تذکرہ فرمارہے تھے ۔ آپ کے اس مشورے کا بھی تذکرہ کیا جو آپ نے انھیں شاعری نہ چھوڑ نے کے سلسلہ میں دیا تھا ۔ جماعت اسلامی کے تعلق سے پاکستان میں آپ نے جس محاذ کو سنبھالا ہے اس محاذ پر ہندوستان میں مرحوم چومکھی لڑائی لڑرہے تھے ۔اس لحاظ سے جماعت کا بڑا نقصان ہوا ۔ مرحوم کے قلم میں جو روانی ،تیزی اور منطقی انداز تھا وہ بے مثل ہے ، اللہ تعالیٰ نعم البدل عطا فرمائے ،ان کی حسنات کو قبول فرمائے اور لغزشوں سے درگزر ۔۔۔۔۔۔‘‘
یہ اللہ تعالیٰ کا محض فضل و کرم ہے کہ مجھ جیسے معمولی حیثیت اور سطحی استعداد کے شخص کی اتنے بڑے لوگوں کے دل میں اتنی محبت ڈال دی گئی ہے !
بعض اشعار اور ضرب الامثال رسمی طور پر ہر لکھے پڑھے اور عالم کے لیے لکھ دئے جاتے ہیں مگر مولانا عامر عثمانی کی موت فی الحقیقت ’’موت العالم موتالعالَم‘‘کی صحیح مصداق ہے ،اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے ۔

No comments:

Post a Comment