Friday, March 22, 2013

دوراز کار:۔


دوراز کار:۔
سوال۷؂؛۔(ایضاً)
سید نا یوسف علیہ السلام جس وقت زلیخاؔ سے ملے تو کیا وہ بوڑھی تھی ؟ اور کیا وہ بد صورت تھی ؟ نیز اس کی شادی سیدنا یوسف علیہ السلام سے ہوگئی تھی ؟ اور کیا وہ ایمان لے آئی تھی یا کافر ہ ہی انتقال کرگئی تھی ۔ کیا ان مذکورہ سوالا ت کا کسی حدیث صحیح سے پتہ چلتا ہے ؟ کیا یہ بھی صحیح ہے کہ عوج بن عنق اتنا لمبا تھا کہ سمندر میں اس کے صرف ٹخنے ڈوبتے تھے اور مچھلیاں سورج کی ٹکیا سے بھونتا تھا ؟ مجھے قویٰ امید ہیکہ جناب والا مجھے محروم نہ فرمائیں گے ۔ اور قصص الانبی�أ کے پہلے باب پر بھی کچھ تبصرہ فرمائیں گے ۔
الجواب:۔معلوم نہین اس طرح کے سوالات پیدا کیوں ہوتے ہیں اور ان کا حاصل کیا نکلے گا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ میں جو اجزا بیان کے مستحق تھے انھیں قرآن نے بیان کردیا اور باقی کو چھوڑ دیا۔ حدیث بھی اس بارے میں کوئی سیر حاصل تفصیل نہین بتاتی ۔ بہت سی روایات شہرہ پاگئی ہیں جو اکثر و بیشتر موضوع ہیں ۔ ان کا سراسرائیلیات سے ملتا ہے ۔
آپ ذرا غور کرتے تو اس لغو سوا ل کی گنجائش ہی نہ پاتے کہ کیا زلیخا بوڑھی اور بدصورت تھی ؟ بوڑھی اور بدصورت عورت کے دستِ ہوس کو تو آج بھی ایک عام جوان نفرت و استکراہ کے ساتھ جھٹک سکتا ہے ۔ پیغمبر ہی نے کیا کمال کیا جس مقصد سے قصہ یوسفؑ کے اس خاص حصے کو تشریح کے ساتھ بیان کیا ہے اسے آپ نے سمجھا ہی نہیں ۔ مقصد صاف طورپر یہ بتانا ہے کہ اللہ کے مخصوص بندے کیسے کیسے نازک مواقع پر بھی صراطِ مستقیم سے نہیں بھٹکتے ایک طرف یوسف علیہ السلام پر صحت مند شباب کا نکھار ۔ دوسری طرف حسن و شباب کی کشش انگیزیوں کا مرقع ۔۔۔زلیخا انجذاب و سپردگی کے طوفانی جذبے میں سرشار دیکھنے والا کوئی نہیں ۔ خلوت اور شبستان کا نشاط افروز بستر ۔۔۔ یہی سب کچھ تھا جس نے حضرت یو سفؑ کی صسلابت کردار اور ضبطِ نفس کی قوت پر عظمت کی مہریں ثبت کردیں ۔ یہی سب کچھ تھا جس کی آہنی گرفت سے پاک و صاف بچ کر نکلجانا حضرت یوسفؑ کی پیغمبری انہ تقدیس کا بے مثال منظر سامنے لاتا ہے اور نازک تر مراحل میں جادۂ مستقیم پر قائم رہتے کا سبق دیتا ہے ۔ پیغمبرانہ عصمت مآبی کی شان ہی کیا رہے گی اگر زلیخا کو مجسم�ۂ حسن و شباب کی بجائے بوڑھی اور بد شکل مان لیا جائے ۔
بعد میں حضرت یوسف ؑ کی شادی زلیخا سے ہوئییا نہیں ۔ اس کا ہمیں علم نہین عقل و قیاس کہتیہیں نہیں ہوئی ہوگی ۔ لیکن ایک ایسے معاملہ میں عقل وقیاس کے گھوڑے دوڑا نے کی ضرورت ہی کیا ہے جس کا علم اورجہل دونوں برابر ہیں ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ زلیخا مومن مری یا کافر۔ ہماری بلا سے اس کا جو بھی حال رہا ہو ۔ اگر ایمان لائی ہوگی تو وہ ہم مسلمانوں کی اس دعا میں شامل ہے جو عام طور پر جملہ مومنیں کے لئے کی جاتی ہے اور اگر نہ لائی ہوگی تو جہنم بہر حال بہت برا ٹھکانا ہے ۔
عوج بن عنق کی لمبائی اپنے والا کوئی فیتہ ابھی تک ایجاد نہیں ہوا۔ نہ کبھی ہوگا جس طور نہ عرض کو محض و ہم و ترنگ نے جنم دیا ہو اس کی پیمائش کوئی کیوں کر کرے ۔ عوج بن عنق اگر واقعی کوئی ذی روح گذرا ہو اور اس نے سورج کی ٹکیا(؟) سے مچھلیاں بھون لی ہوں تو اس میں نہ سورف کا کچھ نقصان ہے نہ مچھلیوں کا ۔ مچھلیاں سورج سے بھونی جاءٰں یا چولھے کی آگ سے نتیجہ ایک ہی ہے ۔ پھر یہ جناب کو فکر و تشویش کیوں ؟
اچھا ہو کہ کام کی کتابوں کا مطالعہ فرمائیں اور لایعنی باتوں میں سر نہ کھپائیں ۔

No comments:

Post a Comment