Showing posts with label مولاناعامرعثمانی. Show all posts
Showing posts with label مولاناعامرعثمانی. Show all posts

Friday, March 22, 2013

امتیازی الفاظ


امتیازی الفاظ 
سوال۷؂ : (ایضاً)
ہندوستان میں خاندان و نسب کے خطابات امتیاز و برتری کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں ۔ لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ علمائے کرام بھی اپنے ناموں کے ساتھ ایسے خطابات ۔۔۔۔استعمال کرتیہیں جن سے برتری کا اظہار ہوتا ہے ۔ اسلامی ۔۔۔مساوات کے پیش نظر بعض احباب کو اس طرح کے خطابات سے ۔۔۔ ذہنی الجھاؤ ہے شرعی حیثیت سے اس کی کہاں تک اجازت ۔۔۔ صراحت کیساتھ تحریر فرمائیں ۔
الجواب:۔ اصل ناموں پر اضافہ کئے ہوئے الفاظ دو قسم کے ہوسکتے ہیں ۔ ایک وہ جن سے تعارف مقصو د ہو ۔ دوسرے وہجن سے مدح و ستائش کا ارادہ کیا جائے ۔ پہلی قسم کی مچالیہ ہے جیسے سلمان فارسی ،ابوذر غفاری ،صہیب رومی ،بلال حبشی ،معین الدین چشتی ، عبدالقادری جیلانی، عامر عثمانی ، ابو الاعلیٰ مودودی وغیرہ ان ناموں میں اصل پر جو ضافہ ہے وہ کسی مقام یا خاندان یا گروہ کی طرف نسبت کی شکل میں ہے جو صرف تمیز و تعارف کا فائدہ دیتا ہے خود ستائی ، تفوق پسندی اور استکبار سے اس کا کوئی تعلق نہیں اس طرح کے تمیز و تعارف کی اجازت خود باری تعالیٰ نے دی ہے۔
یا ایھاالناس انا خلقنٰکم من ذکرو انثیٰ و جعلنٰکم شعوبا و قبائل لتعارفوا (الحجرات)۔(اے لوگو ہم نے تمھیں بنایا ایک مرد اور ایک عورت سے او ر رکھیں تمہاری ذاتیں اور قبیلے تاکہ آپس کی پہچان ہو) ۔
متعدد صحابہؓ کے ناموں کا وطن یا خاندان کے ساتھ منسوب ہوتا اور حضورؐ کا اسے پسندیدہ قرار نہ دینا بجائے خود کافی شافی دلیل ہے اس بات کی کہ یہ انتساب و اعلان برتری کا مظہر نہیں نہ مساوات کا مخالف ہے ۔
دوسری قسم کی مثال ہ ہے جیسے علامہ، مولانا ، حکیم الامت ، شیخ الاسلام ، محبوب الملت وغیرہ۔ یہ خطابات عموماً عوام کی طرف سے دئے جاتے ہیں ۔ ان کے استعمال میں دوسرے لوگوں کے لئے تو کوئی گناہ نہین بشرطیکہ انھیں خواہ مخواہ گھڑ لیا گیا ہو، البتہ خود صاحب خطب کو انھین اپنے نام کے ساتھ استعمال کرنا جائز نہیں ہے کیوں کہ یہ صریحاً خود ستائی ہوگی ۔ واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہ احکم ۔

انعامی باؤنڈز


انعامی باؤنڈز
سوال۳؂:(ایضاً)
ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں نے کئی سال سے’’قومی انعامی باؤنڈ‘‘کے نام سے ایک سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ اس وقت صرف پاکستان اسکیم کے بارے میں معلومات کرتی ہے۔
شاید آپ کو بھی معلوم ہو ‘حکومت نے یہ طریقہ کیا ہے کہ نوٹ سے مشابہ پاؤنڈ ز تیار کرائے ہیں جن پر ان کی متعینہ قیمت درج ہوتیہے اس طرح یہ پاؤند ز اسی مقررہ قیمت کے کرنسی نوٹ کے مساوی ہوتے ہیں جو ان پر درج ہے ۔ جو شخص یہ بونڈ خریڈ تا ہے وہ اس کا مجاز رکھتا ہے کہ روپئے کی ضروت پڑنے پر وہ جب بھی جہاں سے چاہے اسے کیش کراسکتا ہے ۔ زرِ مبادلہ میں اسے اتنے ہی روپئے مل جائیں گے جتنے کا اس نے یہ خریدا تھا ۔حکومت کی مقرر کردہ معیادوں پر سال میں چ ار مرتبہ تمام فروخت شدہ بونڈوں کی قرعہ اندازی ہوتی ہے اور تعداد مقررہ کے مطابق قرعہ اندازی مین نکلنے والے بونڈوں کے نمبروں کے بوند جس کے پاس بھی ہوں وہ اسے دکھا کر اپنا ناعام وصول کرسکتا ہے ۔ ایک بار انعام نہ نکلنے کے بعدیہ بونڈ بے کار نہیں ہوتے بلکہ بعد کی قرعہ اندازی میں بھی شریکہوتے ہیں اور اگر انعام پانے والا شخص چاہے تو ایک یا دو بار انعام حاصل کرنے کے باوجود بغیر کسی سودی لین دین کے انھین کسی بینک میں یا نجی طور پر فروخت کر کے اپنی اصل قیمتِ خرید وصول کرلے۔مختصر یہ کہ کوئی شخص خواہ انعام حاصل کرے یا نہ کرے اس کی اصل رقم بہر حال محفوظ رہتی ہے اور وہ جب بھی چاہے ایک پیسہ بھی سود کاٹے یا دیتے بغیر اسے وصول کرسکتا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوت ہے کہ ان بونڈوں کی خرید و فروخت جائز ہے یا ناجائز ۔ اگر ناجائز ہے تو اس کی کیا وجہ ہے؟ 
الجواب:۔اس پر پہلے بھی تجلی مین اظہار کیال کیا جاچکا ہے ، لیکن اب تک کسی ایسے سبب کا علم نہیں ہوا جس کی بنیاد پر ان باؤنڈوں کی خرید وفروخت کو حرام قرار دیا جائے ۔ اس معاملے کی جو ہری مشابہت نہ سود سے ہے نہ قمار س نہ بیع فاسد کا کوئی ایسا عنصر اس میں پایا جاہے جس کی تاویل نہ ہوسکے ۔ لہٰذا سبب حرمت سے آگاہ ہوئے بغیر تو ہم اسے جائز ہی کہیں گے ۔ سنا ہے کہ بعض حضرات جواز کے قائل نہیں ۔ معلوم نہیں ان کے دلائل کی ہیں۔
فال اور استخارہ 
سوال :۔ (ایضاً)
شریعت میں استخارہ کے کیا کیاحیثیت ہے کیا ہر شخص استخارہ کرنے کا مجاز ہے ؟ استخارہ کس طرح کرنا چاہئے اور کس قسم کے معاملات ہیں ؟بعض لوگ ہرمعاملہ میں استخارہ کرانے قائل ہوتے ہیں اور خاص طورپر شادی بیاہ کے معاملات میں خواہ شادی کرنے والے راضی ہوں لیکن وہ لوگ بغیر استخارہ کرائے بات کرنے پر راضی نہیں ہوتے اور بعد میں کہہ دیتے ہیں کہ استخارہ بہت خراب آیا ہے وغیرہ ۔ کیا اس طرح ہر بات پر چاہے جس سے استخارہ کرالینا درست ہے؟
الجواب:۔ہمیں اس بات میا8 صرف اتنا معلوم ہے کہ قرآن وغیرہ سے فال نکالنا بے بنیاد ہے اور بعض حالتوں میں اس کی حرمت کا قول کیا جائیگا۔رہا استخارہ تو ایسے امور میں جن کا کرنا نہ کرنا شرعاً میاج ہو اس کا جواز ہے ۔ گوکہ اس سے حاصل شدہ فیصلیکی حیثیت تکمین وظن سے زیادہ نہیں ۔ترکیب کا ہمیں علم نہیں کسی اور صاحبِ علم سے دریافت کی جائے۔

شراب ملی ہوئی دوائیں


شراب ملی ہوئی دوائیں
سوال۲؂
از شاہد اقبال ۔ دہلی۔
آج کل عام طور سے انگریزی دوائین بہت استعمال کی جاتی ہیں ۔ ان میں بعض دواءٰن ایسی ہوتی ہیں جن میں شراب کاجز ملاہوتا ہے ۔ مثلاً ایک دو اآتی ہے جس کا نام واٹر بری کمپاؤنڈ ہے ۔ یہ شربت کی شکل کی ہوتی ہے اور نزلہ کیلئے اکسیر ہے ۔ لیکن اس کے ڈبے پر لکھا ہوتا ہیکہ اس میں شراب کا جز بھی ملا ہوا ہے تواب ایسی صورت میں اس دوا کا استعمال جائز ہے یا نہیں جب کہ س کے پینے سے ذرہ برابر بھی نشہ کا اثر نہیں ہوتا؟ 
الجواب:۔ مختصر جواب تو یہ ہے کہ کسی بھی ایسیمکسچر یا مشروب کا پینا جائز نہیں ہے جس میں شرب کی آمیزش کا یقین یا گمان غالب ہو ۔ شراب کیحرام ہونے کی علت تو بے شک نشہ ہی ہے لیکن دلائل قویہسے یہ اصول طے پاگیا ہے کہ جس شے کی معتدبہ مقدار نشر لانے والی ہو اس کی قلیل مقدار بھی جرام ہوگی خواہ وہ قلیل مقداربجائے خود نشہ طاری کرنے کی قوت نہ رکھتی ہو۔ مااسکو کثیرہ فقلیلہ حرام (ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ بیہقی) ۔
ماضی میں تو یہ ایک صاف سا مسئلہ تھا جس میں بحث و بدل کی کوئی گنجائش نہیں تھی لیکن موجود ہ زمانے میں مغربی طرز فکر کے غلبہ وتسلط اور احوال و کوائف کے تغیر نے بعض اور مسائل کی طرح اسے بھی قدرے الجھا دیا ہے لہٰذا ان حضرات کے لئے جو دین سے بغاوت کا بھی ارادہ نہیں رکھتے مگر احکامِ شرعیہ کے ارے میں ذہنی تسکین کے بھی طالب ہیں ہم قدرے تفصیل کی راہ اختیار کریں ۔
اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ شراب کی حرمت کا سبب اس کا نشہ آور ہونا اگر چہ ظاہر و باہر ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ صرف اسی شخص کے لئے حرام ہوگی جس پر اسے پی کر طشہ طارہ ہوجائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ شراب میں بالذات نشہ پیدا کرنے کی سلاحیت موجود ہے اور اسے تیار ہی کیا جات ہے نشہ آور مشروب کی حیثیت سے ۔ لہٰذا اس کا صرف اک قطرہ بھی کسی نہ کسی درجے میں اس علت کا حامل ہے جس پر حرمت منحصر ہے یعنی نشہ پیدا کرنے کی صلاحیت تو حرمت کے لئے ایک قطرہ بھی کافی ہوگا جب تک کہ کسی مصنوعی یا قدرتی عمل سے اس کی حقیقت ہی تبدیل نہ ہو جائے۔
حقیقت تبدیل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کیمیاوی تحلیل یا پکانے اور جلانے کے کسی طریق سے اس کے تمام یا بعض اجزاء میں جوہری تغیر واقع ہوجائییا اس کا کوئی ایسا جز و مکمل ور پر تحلیل ہوجائے جس کے بغیر باقی اجزاء نشہ پیدا کرنے کی سلاحیت سے عاریہوں ۔ ایسی صورت میں حرمت کا حکم باقی نہ رہے گا۔ جیسے کہ سر کی کسی مقدار میں بھی حرمت نہیں اور جیسے کہ کچا گوشت پکانے کے بعد حلال وہ طاہر ہوجاتا ہے حالانخۃ جو لہو بجائے خود حرام تھا وہ اس سے علیحدہ نہیں کیا گیا بلکہ پکنے کے دوران اس کے بعض عناصر بھاپ بن کر اڑگئے اور بعض اپنی جوہری ترتیب ختم کر کے پارچوں میں جذب ہوگئے ۔ یا جیسے دریا میں بول و براز کی آمیزش اس کے پانی کو ناپاک نہیں کرتی کیوں کہ مقداری تناسب کا فرقِ عظیم کیمیاوی تحلیل کا قدرتی سبب بن جاتا ہے۔ اور نجاست کے وہ اوصاف کا لعدم ہوجاتے ہیں جن کے وجود سے یہ نجاست عبارت تھی۔
اس تفصیل کی روشنی میں ہروہ مکسچر اور مشروب بالیقین حرام ٹھیرتا ہے جس میں شراب، شراب ہی کی حیثیت سے آمیز کی گئی ہو اور اجزا کا تنساب اس درجہ کانہ ہ کہ شراب کے اجزاو عناصر کا لعدم ہوکر رہجائیں ۔ واٹر بری کمپاؤں ڈ کے بارے میں جب کہ خود بنانے والوں نے وضاحت کردی ہے کہ اس شراب کا جز و موجود ہے تو پھر اس میں کسی شبہ کیگنجائش نہیں رہتی کہ شراب کو اس کے فارمولے میں ایک جزوِ مستقل کی حیثیت حاصل رہتی ہے اور تناسب کے اعتبار سے بھی اس کی مقدار کافی ہے ورنہ اس کی آمیزش کی صراحت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ 
لیکن ان دواؤں کی حرمت کا فیصلہ دینا آسان نہ ہوگا جن کے بارے میں ہمیں یقین تو کیا گمانِ غالب بھی نہ ہو کہ اس میں شراب آمیز کی گئی ہے ۔مشہور عام طور پر یہی ہے کہ اکثر ڈاکٹر ی دواؤں میں شراب کی ملاوٹ ضروری ہوتی ہے۔ لیکن یہ شہرت حرمت کے لئے کافی نہیں ۔خصوصاً اس دور میں تو دواؤں کے پیکنگ پر فارمولا (نسخہ) بھی درج ہوتا ہے اس کو پڑھ کر معلوم کیا جاسکتا ہے کہ شراب شامل ہے یا نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شطرنج :۔


شطرنج :۔
سوال۱۰؂:۔از ۔رئیس احمد احمدآباد۔
میں جنات ہوں تجلی کے صفحات قیمتی ہین اور شطرنج جیسی لغو چیزکے بارے میں بحث کرنا آپ پسند نہیں فرمائیں گے ۔ لیکن یقیین کیجئے یہ بحچ بہت لوگوں کے لئے مفید ہوگی ۔ شطرنج کل بھیمقبول تھی اور آج بھی متروک نہیں ہے ۔ اچھے خاصے وقیع لوگ بھی اسے کھیلتے اور وقت ضائع کرتے ہین ۔ مجھے اس کی حر مت میں کوئی شک نہین ہے ۔ کیوں کہ یہ یقیناًلہو و لعب میں داخل اور لہو و لعب کی ممانعت کسی مسلمان پر مخفی نہین لیکن ایک بحث کے دوران بعض دوستوں نے کہا کہ بعج اماموں کے نزدیک شطرنج جائز ہے ۔ اس کی کیا حقیقت ہے ؟ میری طبیعت تو کسی طرح نہیں مانتی کہ ایسی ملعون کے مطابق تفصیل سے اس مسئلہ کے ہر پہلو کو مشرح فریادیں تو فائد�ۂ عام کا باعث ہوگا ۔ جزاکم اللہ خیر الجزأ۔
الجواب:۔شطرنج یوں تو صریحاً لہو ولعب میں داخل ہے اور لہو و لعب جتنے بھی ہیں اصولی طور پر مکروہات و فضولیات کی فہرست میں آتے ہیں ۔ اس طرح شطرنج کا نا محمود ہونا اپنی جگہ مسلم ہوا۔ 
لیکن تمام ہی لہو و لعب پر فقہ یکساں حکم نا فذ نہیں کرتی ۔ کرنا بھی نہیں چاہئے ۔ ہماری زندگی میں بے شمار ایسے اشغال و اعما ل ہیں جن کے غیر ضروری ہونے میں کوئی شک نہیں اور ہرغیر ضروری ہونے مین کوئی شک نہیں اور ہر غیر ضروری فعل لہو و لعب ہی کی نوعیت رکھتا ہے ۔ تو وہ شریعت جس نے تنگیوں کو فراخیوں اور دشوار یوں کو آسانیوں میں بدلا ہے ایسی سخت گیر کیسے ہوسکتی ہے کہ ہ غیر ضروری کو حرام قرار دے دے اور زندگی سے تفریح کا عنصر بالکل کارج کردے جو شریعت تمام عالم کے لئے آئی ہو اس میں یک رخا اجتہاد کبھی مفید نہ ہوگا ۔ ضرورت ہے کہ سطحی اندازِ فکر کی جگہ گہرا اور ہمہ گیر اندازِ فکر اختیار کیا جائے اور احتیاط و اعتدال کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔
شطرنج کیا ہے ؟۔۔۔ ایک ایسا کھیل جو وقت خوری میں اپنا جواب نہیں رکھتا۔ اس کا انہماک کچھ نشہ کی سی کیفیت رکھتاہے ۔ اور س کے کھلاڑ ی افیمیوں کی طرح اس میں گم ہوجاتے ہیں ۔ مگر کیا یہ چیز اس کی شرعی حرمت کے لئے بھی کافی ہے ؟ ۔۔۔ اس سوال کا جواب اثبات میں دینا بہت مشکل ہے ۔ وقت ضائع کرنا کتنا ہی برا سہی ، لیکن شریعت نے اسے حرام نہیں ٹھہرا یا بشرطیکہ انسان اپنے فرائض و واجبت سے غافل نہ ہو۔ اگر اضاعتِ وقت مطلقاً حرام ہوتو پھر کوئی بھیکھیل اور مشغل�ۂ تفریح جائز نہیں ہوسکتا ۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ 
پھر کونسی چیز ہے جو شطرنج کو ملعون قرار دینے پر اہل علم کو متفق کرسکتی ہے ۔ کیا وہ جواہے ؟ کیا اس پرمالی ہا جیت کی بازیکھیلیجاتی ہے ؟۔۔۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کی حرمتِ تطعی میں دو (۲)راسے کی گنجائش نہیں تھی مگر جہاں تک ہمارا علم ہیوہ آلۂ قمار بازی نہیں ہے ۔ آج بھی اور ماضی میں بھی وہ عام طور پر تفریحاً کھیلی جاتی رہی ہے ۔ ہم نے نہیں سنا کہ اس کی ہارجیت خیالی حدودسے گذر کر روپے پیسے تک پہنچی ہو ۔ اس پر جوا کھیلنا نہ تاریخی طور پر ثابت ہے ، نہ آج ہمیں نظر آتا ہے کہ اسے قمار بازی کے طور پر کھیلا جاتا ہو پھر بھی اگر کوئی اس کی ہار جیت پر کسی رقم کی ہار جیت مقرر کر لے تو یہ ایس ہی ہوگا جیسے ہاکی ، کرکٹ ، گلی ڈنڈا ، یا کشتی کی ہار جیت پر رقم کی بازی لگالی جائے ۔ یہ کھیل جوے بازی کے کھیل نہیں ہیں ۔ ان کا جواز شریعت میں قطعاً متفق علیہ ہے ۔ الا یہ کہ کوئی عارض ان کے جواز کو حرمت میں بدلد ے ۔ تو جس وت ان پر رقم کی بازی لگے گی اس وقت یہ حرام ہوں گے ۔۔ مطلقاً حرام نہیں ہوں گے ۔ اسی طرح شطرنج پر رقم کی بازی لگالی جائے تو اس کی حرمت یقینی ہے ، لیکن نہ لگائی جائے تو اس کی حرمت و ملعونیت پر گفتگو کی خاصی گنجاش ہے ۔
ائمہ و فقہاء نے اس کے بارے میں اختلا ف کیاہے جس کی ضرو ری تفضیل یہ ہے :۔ 
امام مالک ؒ اس کی اباحت وجواز کے قائل ہیں ۔امام شافعی کے س کے متعلق دو(۲) قول پائے جاتے ہیں ۔ ایک یہ کہ جائز ہے ، دوسرا یہ کہ مکروہ ہے ۔ مگر یہ کراہٹ تحریمی نہیں طنز یہی ہے ۔ گو یا دوسرے قول کی بنیاد پر بھی اس میں ھرمت کی گندگی شامل نہیں ہوتی ، بلکہ صرف نا محمود یت اور لغویت آتی ہے جس سے دامن بچانا اچھے مسلمانوں کا طرۂ امتیاز ہونا چاہئے ۔
احناف مین دو (۲)گروہ ہیں ۔ ایک اسے حرام کہتا ہے ۔ دوسرا جائز قرار دیتا ہے ۔ جواز کے لئے شرط یہ ہے کہ اس پر رقم کی باز ی نہ لگے۔ نیز نمازیں قضانہ کی جائین اور فحش سے بچا جائے۔
علماء و فقہاء کے کچھ فرموداتمع حوالہ یہ ہیں :۔ فتاویٰ مجمع البرکات میں ہے :۔ 
’’شطرنج کا کھیل علماء کے مابین فقہی اعتبار سے مختلف فیہ ہے ۔ کچھ اسے جائز قرار دیتے ہیں ، کیوں کہ اس سے جنگ میں مدد ملتی ہے اور حریف کی پوزیشن معلوم ہوجاتی ہے ۔ لیکن جواز تین (۳) شرطوں سے مشروط ہے ۔ اول قمار نہ ہو، تاخیر نہ کی جائے سوئم گال گلوج اور فحش کلامی کی نوبت نہ آئے اگر ان میں سے کوئیشرط معدوم ہوگی تو جواز مرتفع ہوجائے گا اور کھیلنے والا مرد ود الشہادۃ قرار پائے گا۔‘‘
در مختار میں ہے:۔
’’اس شخص کی شہادۃ مردود ہوگی جو شطرنج میں قمار کھیلے یا نماز ین قضا کرے یا اس پر بکثرت قسمیں کھائے یا عام گذر گاہوں پر کھیلے یا دائمی طور پر کھیلے ۔‘‘
شارح وہبانیہ لکھتے ہیں :۔ 
’’قاضی شرق و غربؒ سے منقول ہے شطرنج کھیلنے میں کچھ حرج نہیں ہے ۔‘‘
تنویر الابصار میں ہے :۔
’’چو سر اور شطرنج کھیلنا مکروہ تحریمی ہے۔‘‘ 
امام غزالی خلاصے میں تو مکروہ لکھتے ہیں ، لیکن احیاء العلوم میں جائز قرار دیتے ہیں ، لیکن دوام اور کثرت پھر بھی سخت مکروہ ہے ۔
امام بیہقیؒ نے شعب الایمان مین ایک حدیث بھی روایت کی ہے کہ لایلعب بالشطرنج الاخاطئ (شطرنج خطا کار ہی کھیلتا ہے )لیکن اول تو اس کی سند میں گفتگو ہے دوسرے یہ فقہی فیصلہ دینے میں صریح نہیں ۔ خطا کار تو وہ شخص یقیناًہے ہی جو مفید اور ثواب دینے والے کاموں کے عوض کھیل کود میں وقت گنواتا ہے ، لیکن یہ خطا شریعت میں علی الاطلاق حرمت کے دائریمیں نہیں آتی ۔ اس اصول پر تو وہ تمام کا م حرام ہوجائین گے جو وقت کو کھاتے ہیں اور ثواب کچھ نہیں دیتے حالاں کہ ایسا ہرگز نہین ہے ۔ تفریح کیخاطر ایسے اوقات ضائع کردیناجن میں کوئی فریضہ ضائع نہ ہو رہا ہو شرعی جواز رکھتا ہے ۔ اور جواز شاید اسی لئے ہوکہ تفریح بھی بجائے خود ایک ضرورت ہے اور اسلام کاقانون ضرورت کی حد بندی میں اتنا سخت گیر نہیں ہے جتنا بعض یا بس مزاج اور تقشف پسند حضرات سمجھتے ہیں ۔
کچھ علماء و فقہا کے اقوال ہم نے نقل کردئے ۔ ان میں غور و فکر اور شریعت کے احکام میں تفحص کے بعد جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ شطرنج ایک ایسا کھیل ہے جو نکو کاروں کے شایانِ شان نہیں ۔ کام کے آدمیوں کو اس سے دور ہی رہنا چاہئے ۔ اسے کھیلنا وقت کا ایک برا مصرف ہے ۔
لیکن کوئی شخص نمازیں ضائع کئے بغیر شائستگی کے ساتھ کبھی کبھار اسے کھیل لیتا ہے تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ فعلِ حرام کامرتکب ہورہا ہے ۔ 
عجیب لطیفہ ہے ۔ بعض لوگوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ شطرنج کو تو وہ شدت کے ساتھ حرام قرار دیتے ہیں اور اس کے کھیلنے والے سے بغض کی حد تک نفرت واستکراہ کا مظاہرہ فرماتے ہیں ، لیکن کرکٹ جب سے مقبول عام ہوئی ہے یہ اس مین خاصی دلچسپی لے رہے ہیں ۔ میچوں کے ایام میں ریڈیو سے لو لگائے انھیں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور کبھی کوئی لفظِ استکراہ کرکٹ یا اس کے کھلاڑیوں کے لئے ان کی زبانِ مبارک سے نہیں سنا ۔ کیا کرکٹ ان کی نگاہ میں بلا کراہت جائز ہے جب کہ اس کے میچ کا آئینی پروگرام نمازوں کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ حالاں کہ شطرنج اپنی بے پناہ وقت خوری کے باوجود اتنی گنجائش بہر حال رکھتی ہے کہ آدمی نماز باجماعت کا وقت نکال لے۔ یا ایسے اوقات منتخب کرے جن میں ترکِ جماعت کا اندیشہ نہ ہو۔
خیر یہ تو ضمنی بات تھی ۔ اصل جواب کا خلاصہ یہ نکلا کہ شطرنج کھیلنا جائز ہے حرام نہیں ، لیکن اس کا بکثرت شغل ناجائز ہے ، اور جو شخص کبھی کبھا ر شغل کرے اسے بھی نماز باجماعت کا خیال رکھنا چہئے۔نیز شائستگی کو ہاتھ سے نہیں دینا چاہئے ۔ شارع عام پر کھیلنا یا جاہلون کیسی فحش کلامیوں کے ساتھ کھیلنا اس شغل کو حرمت کے دائرے میں کھینچ لاتا ہے ۔
رہا حنفی مقلدین کا معاملہ تو یہ معلوم ہوچکا کہ خود بعض احناف بھی جواز کے قائل ہیں ۔ لہذٰا جواز کا عقیدہ رکھنے والا غیر مقلدین بھی نہیں کہلائے گا ۔ واللہ اعلم با لصواب۔

مولاناعامرعثمانی

صفات عامر عثمانی
حسن احمد صدیقی
ظرافت: ظرافت و مزاح ان کی فطرت میں داخل تھا ۔انھیں زندگی میں بہت کم رنجیدہ و مغموم دیکھا گیا ہے۔ہر وقت ہنستے ہی رہتے ۔ ان کی گفتگو مرصع تو نہیں ہوتی تھی لیکن اتنی دلچسپ ضرور ہوتی تھی کہ سننے الا اس میں کھوجائے ۔خشک اور غمگین ہونٹوں پر تبسم کی چاندنی بکھیر دینا ان کے لئے کچھ مشکل نہ تھا ۔ آپ جس کو چاہا ہنسنے پر مجبور کردیا ۔ان کی شگفتہ مزاجی ہر عام و خاص مجلس میں انھیں ’’ہیرو‘‘ بنادیتی ۔ دیو بند میں ادبی اور شعری نشستیں ہوتیں۔ کثیر تعداد میں شعراء سامعین شریک ہوتے اورایسا محسوس ہوتا کہ یہاں عامر عثمانی کے سوا کوئی موجود ہی نہیں ہے۔
دوران گفتگو ار دوران خاموشی میں ہلکے پھلکے مزاحہ فقرے ۔۔کو شاید وہ ضروری سمجھتے تھے ضروری سمجھتے تو انھیں کسی محفل میں تو ۔۔دیکھا جاتا ۔ میں نے جن ادبی اور علمی محفلوں میں شرکت کی وہاں یہی دیکھا کہ فضا جب کسی وجہ سے بوجھل ہوئی ، عامر عثمانی ۔۔۔اٹھے اور مجمع بادل ناخواستہ بھی ہنسنے پر مجبور ہوگیا ۔
ایک ادبی نشست میں دار العلوم کے ایک طالب علم اپنی ۔۔۔ہدیہ ناظرین کررہے تھے ۔ اسی نشست میں ایک کٹر قسم کے ۔۔آدمی بھی جلوہ افروز ہیں ۔ غزل کے اشعار کچھ دعائیہ انداز کے ۔۔ان دیو بندی صاحب نے شعروں پر داد و تحسین کے ڈونگرے لٹانے کے بجائے بآواز بلند ہر شعر پر آمین آمین کہن شروع کردیا ۔ 
عامر عثمانی صاحب انھیں حیرت سے دیکھتے رہے ۔ پھر زیر لب بولے:
آج معلوم ہوا کہ آپ بھی آمین بالجہرکے قائل ہیں ۔
ایک مرتبہ میں نے اپنی ایک غزل بغرض اصلاح مرحوم کو دی ۔ انھوں نے اس کی ضروری مرمت کرنے کے بعد کہا ۔ غزل خاصی ہے لیکن میری رائے یہ ہے کہ تم شعر و شاعری کے چکر میں مت پڑو ورنہ یہ چہرے پر جتنی کتنی رونق ہے سب غائب ہوجائے گی ۔ 
ایک بر میری چھوٹی بہن سے کہنے لگے ۔
منیا! میں نے سنا تھا کہ جہیز میں تمہیں اونٹ کا بچہ بھی دیا گیا ہے ۔
ایک مرتبہ ایک صاحب دور دراز سے ان سے ملنے کے لئے آئے ۔ انھوں نے مولانا کو دیکھ کر بڑے اچنبھے کے ساتھ کہا ۔ آپ عامر عثمانی ہیں ۔ کیوں آپ کو شک کیوں ہے ؟ ظاہر ہے کہ یہ آواز مرحوم کی تھی ۔ ان صاحب نے فرمایا کہ میں نے سنا تھا عامر عثمانی صاحب کے داڑھی نہیں ہے ،اور آپ کے تو اتنی طویل داڑھی ہے ۔
یہ سن کر مرحوم مسکرائے اور بولے 
ہلا کر اطمینان کر لو ، ورنہ کہنے والے تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جو داڑھی تم دیکھ کر آئے ہو وہ مصنوعی تھی ۔ 
اس قسم کے ہزاروں فقرے میرے ذہن کے ٹیپ ریکارڈ میں محفوظ ہیں ۔ جو مرحوم کی شگفتہ مزاجی اور ظرافت کی شہادت دیتے ہیں ۔ میں ان سب فقروں کو فی الوقت کاغذ پر سمیٹنا نہیں چاہتا فی الحال تو ان کی ظرافت کا یقین دلانے کے لئے میں نے یہ چند فقرے نقل کردئے ہیں ۔ زندگی نے کبھی مہلت دی تو میں کچھ اور واقعات قلم بند کر کے قارئین تجلی کی خدمت میں پیش کروں گا ۔
ظرافت اور شگفتہ مزاجی چونکہ ان کی ذات کا جزوِ لاینفک تھی اس لئے وہ آخیر عمر تک قائم رہی ۔ موت کے بستر پر بھی انھوں نے بعض حرکتیں ایسی کی تھیں کہ جو سراپائے لطیفہ تھیں اور جنھیں ایک حساس آدمی کبھی نہیں بھلا سکتا ۔
صورتِ حال یہ تھی کہ تقاہت و کمزوری کی زیادتی نے انھیں بالکل نڈھال کر دیا تھا ۔مرض بھی ضعف اور کمزوری کی طرح غیر معمولی تھا ۔ یہ سورت حال دیکھ کر ڈاکٹروں کو اس بات کی تاکید کرنی پڑی کہ آپ کم سے کم بولیں گے ۔ قارئین سے یہ کہنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ دل کے مرض میں زیادہ بولنا خطرہ کا باعث ہوا کرتا ہے ۔ڈاکٹروں کی فہم و تشخیص کے مطابق مرض دل ہی کا تھا لہذا انھوں نے حتی الامکان زبان بند کرنے کی تاکید کی ۔ اور یہ تائید بالکل بجا تھی ۔ لیکن معاملہ کچھ ایسا تھا کہ مرحوم حتیٰ الامکان باتیں کرنے کی جدو جہد میں لگے ہوئے تھے ۔ گھر والوں نے سمجھایا کہ ڈاکٹروں نے زیادہ بولنے کو منع کیا ہے ۔ لہذا خدا کے لئے آپ چپ رہئے ۔ ڈاکٹروں کی منطق ان کے سمجھ میں نہیں آئی ۔وہ جھلائے اور انھوں نے صاف کہہ دیا کہ وہ بولیں گے اور زیادہ سے زیادہ بولیں گے ۔ ان کی یہ بے جا جھلا ہٹ دیکھ کر گھر والے بھی گڑ بڑاگئے اور انھوں نے نرمی اور ہمدردی کو طلاق رجعی دینے کے بعد کہا ۔ اب آپ نہیں بولیں گے اور بالکل نہیں بولیں گے ۔ اگر آپ نے زبان کھولی تو آپ کو کمرہ میں تنہا چھوڑ کر دروازہ بند کرلیا جائے گا ۔
وہ ذہین تھے ۔ ان کے لئے یہ سمجھنا کچھ دشوار نہیں تھا کہ اب پورا گھر بغاوت پر آمادہہے ۔ انہوں نے مسلحت اسی میں سمجھی کہ زبان پر خاموشی کا قفل چڑھالیا جائے ۔ وہ یکلٰخت دہم ہوگئے اور اسی دن انھوں نے ایک کاغذ کے پرزے پر یوں لکھا :۔
’’میں گونگا ہوں عامر عثمانی
اس کے بعد جب کوئی ان کی عیادت کے لئے حاضر ہوتا تو وہ اسے کاغذ کا پرزہ دکھادیتے ۔ گویا کہ اب زبان ہلانی بھی بند کردی ۔ اب خدا ہی جانے یہ عین فرمانبرداری تھی یا خاموشی انتقام۔
اسی دنشام کو ایک پرچہ پریوں لکھا۔۔۔۔۔۔
حسن میاں کو بلاؤ۔
گھر والوں نے آواز لگائی اور حسن میاں آگئے۔۔۔۔۔۔
حسن کو دیکھ کر انھوں نے پھر قلم کو حرکت دی اور نتیجتاً کاغذپر یہ الفاظ بکھر گئے ۔
’’حقہ لاؤ۔
حسن نے کہا دل کے مرض میں تمبا کو نوشی زہر کاکام کرتی ہے ۔ یہ سن کر بگڑ گئے ۔زبان پھر فرمانبرداری کی قید سے آزاد ہوگئی ۔بولے کون بے و قوف کہتا ہے ۔
حسن نے سٹ پٹاکر کہا ۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں ۔
بو لے ڈاکٹر اقبال سے بڑا کوئی ڈاکٹر دنیا میں موجود نہیں ہے ۔اور ڈاکٹر اقبال نے حالت سنجیدگی میں فرمایا تھا ۔۔۔کہ زہر بھی کرتا ہے کارتریاقی ۔
اور ۔۔۔اور بس۔
وقت گذر گیا یادیں باقی رہ گئیں ۔ اور یہ یادیں زندگی بھر ہمارا تعاقب کرتی رہیں گی ۔
***
سادگی 
سادگی کی مختلف پہلو ہوسکتے ہیں ۔ ایک پہلو یہ بھی ہے ۔
ایک دن کسی طالب علم کی طرح چلے جارہے تھے اور بغل میں بخاری شریف دبی ہوئی تھی ۔ میں نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ۔ کہاں تشریف لے جارہے ہیں؟
جواب دیا ۔۔۔مولانا شریف الحسن صاحب کے پاس جارہا ہوں ۔ایک حدیث کے بارے میں تحقیق کرنی ہے ۔
سادگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے :۔
ایک بار انھیں ایک مزدور کے ساتھ اس طرح جاتے ہوئے دیکھا گیا کہ مزدور کے کاندھے پر ان کا ہاتھ تھا ۔اور دوسرے ہاتھ میں ایک تھیلہ تھا ۔ یہ تھیلہ ان کا نہیں بلکہ مزدور کا تھااور اس میں اس کا یہ سامان تھا آری،ہتھوڑی ، بسولہ وغیرہ ۔قارئین یہ تو سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ یہ مزدور کوئی بڑھئی تھا ۔ اتنااور سن لیجئے کہ یہ مزدور مولانا کے گھر میں مزدوری کے طور کچھ کام کررہا تھا اور دیوبند کا ایک انتہائی غریب اور مفلس آدمی تھا ۔اس کے کپڑوں پر جگہ جگہ پھٹن اور پیوند کی شکل میں غربتوافلاس کی جیتی جاگتی نشانیاں موجود تھیں ۔۔۔ اورمولانا عامر عثمانی عثمانی جیسا عظیم المرتبت انسان اس کے ساتھ اس انداز میں چل رہا تھا جیسے دونوں ایک ہی سطح آور ایک ہی درجہ کے انسان ہوں ،جیسے ان میں کوئی ممتاز نہ ہو۔ 
سادگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے ۔اپنے لئے ہمیشہ ایسا کپڑا خرید کر لاتے جو کم سے کم داموں میں مل جاتا ۔ انتہائی سستا اور سیدھا سادا لباس انھیں مرغوب تھا ۔اچھے اور عمدہ کپڑے سے یک گونہ نفرت تھی ۔ لیکن ان لوگوں سے کبھی نفرت نہیں کی جو اچھا اور قیمتی کپڑا پہننے کے عادی ہوں ۔
ان کی طبیعت میں بخل نہیں تھا، ورنہ یہ سمجھ لیا جاتا کہ قیمتی کپڑا خرید تے وقت دم گھٹتا ہوگا ، عید و بقر عید کے موقعہ پر اور دوسری تقریبات کے لئے مشتر کہ کپڑا آتا ۔پورے گھر کے لئے عمدہ سے عمدہ اور قیمتی سے قیمتی کپڑا خرید کر لاتے اور اپنے لئے وہی معمولی اور گھٹیا ۔
سادگی کے کچھ پہلو یہ بھی ہیں ۔۔۔ سفر و حضرمیں کیا کرتے تھے۔ اپنا ہر کام خود انجام دے لیتے ۔ کپڑوں پر پیوند لگا لیتے ۔ اپنے کمرے میں جھاڑو دے لیتے ۔ بازار سے سودا خرید لاتے ۔ سواری بہت ہی ضرورت کے وقت کرتے ۔ ورنہ عموما پیدل چلتے نظر آتے ۔
ایک مرتبہ مزدوروں ے ساتھ لگ کر گھر کی دیواروں پر روغن تک کرتے دیکھا گیا ۔ علاوہ ازیں میں نے کئی بار انھیں ایسے معمولی کام کرتے دیکھا جنھیں میں نہیں کرسکتا ، حالاں کہ علم فہم، عزت،شہرت اور مرتبہ کے اعتبار سے میری ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ۔ مجھ جیسے لوگ جن چھوٹے کاموں کی انجام دہی میں عار اور ہتک محسوس کرتے انھوں نے ان کاموں کی انجام دہی میں کبھی عار اور ہتک محسوس نہیں کی ۔اور کبھی نہیں دیکھا کہ وہ کسی چھوٹے کام کے لئے مزدور کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہوں ۔
سخاوت
گلی گلی میں ان کی سخاوت کے پرچے تھے ۔ یہ تو سبھی جانتے تھے کہ محتاجوں اور بے کسوں کی مدد کرناان کی عادت ثانیہ تھی لیکن اس بات سے کوئی واقف نہ تھا کہ بعض امدادیں انھوں نے ایسی بھی د ی ہیں کہ دائیں ہاتھ سے مدد کرنے کے بعد بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہوسکی ۔ ان کی وفات کے بعد کئی رازوں سے پردہ اٹھا ۔ کئی ایسی حقیقیتیں سامنے آئیں جو خوابوں اور افسانوں سے زیادہ خوبصورت تھیں اور جو ان حقائق و وقعات کی تصدیق کر رہی تھیں جنھیں میں نے صرف کتابوں میں پڑھا تھا ۔۔۔ عمل کی دنیا میں مشاہدہ نہیں ہوسکا تھا ۔
انتقال کے بعد ایک بیوہ کی زبان سے معلوم ہوا کہ اتنی رقم ہر سال مجھے دیا کرتے تھے اور یہ رقم مقررہ تاریخ کو از خود مجھے پہنچا دیا کرتے تھے ۔
ایک دوکاندار کی زبانی معلوم ہوا کہ فلاں فلاں مکان پر ہر ماہ اتنا آٹا اور اتنا دوسرا سامان میری دکان سے جاتا کرتا تھا ۔
دارالعلوم کے کتنے ہی طلباء کا وظیفہ مقرر تھا ۔ ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو یہ وظیفہ ادا کردیا جاتااور کسی تیسرے آدمی کو خبر نہ ہو پاتی وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو سخاوت بعد میں کرتے ہیں اور حاتم طائی کا خطاب پہلے مل جاتا ہے ۔ انھیں زندگی میں سخی ہونے کے باوجود جو دو کرم کاپتلا کبھی نہیں سمجھا گیا ۔البتہ ان کی وفات کے بعد کچھ نادر رازوں سے پردہ ہٹ جانے کی وجہ سے اب دنیا میں انھیں جواد کہے تو کوئی مبالغہ نہیں ہے ۔
دارالعلوم کے بعض طلباء اور شہر کی بعض بیواؤں کا وظیفہ ابھی تک برقرار ہے ۔اقتصادی حالات نے اگر چہ ہماری کمرتوڑدی ہے لیکن انشائا للہ ہم ان وظیفوں کا سلسلہ منقطع نہیں کریں گے جو مرحوم کے جاری کردہ ہیں ۔
ایک زمانہ میں ان کے مکان کی حیثیت بیت المال کی سی تھی ۔ لوگ اپنی ضرورت کا اظہار کرتے اور انھیں کبھی قرض کی صورت میں کبھی اور کسی صورت میں کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا۔اس زمانے میں لوگوں نے انھیں بڑے فریب دئے ۔ ہزاروں فریب کھانے کے بعد انھوں نے اپنی روش بد لدی اور اس کے بعد ان کا گھر مسلم فنڈ میں متبدل ہوگیا ۔ اب صورت یہ تھی کہ کوئی چیز رہن رکھ جاؤ اور قرض لے جاؤ ۔ بیسیوں چیزیں ہر وقت ان کے بکس میں نظر آتی تھیں ۔ یہ چیز یں بطور رہن ان کے پاس موجود رہتیں ۔ مرتہن جب بھی قرض ادا کردیتا مرہونہ چیز اس کے حوالہ کردی جاتی ۔ سخاوت سے متعلق کچھ واقعات ایک صاحب قلم نے ایک مضمون میں سمیٹ دئے ہیں یہ مضمون انشا ء اللہ نمبر کی اگلی قسط میں جلوہ گر ہوگا ۔ میں اس موضوع پر اس سے زیادہ کچھ نہیں لکھتا ۔
بڑاپن
علم و فہمکو گواہ بنا کر یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ جو شخص دوسروں کی خطاؤں کو نظر انداز کردے اور اپنی خطاؤں کی ہر وقت معافی مانگنے کے لئے تیار رہے وہ بلند ہے عظیم ہے ۔رفیع المرتبت ہے ۔ ان کا عالم یہ تھا کہ دسروں کی غلطیوں کو نظر اندازی کرنے اور اگر خود سے کوئی غلطی سر زد ہوجاتی تو آئیں بائیں شائیں اور اگر مگر کرنے کے بجائے جھٹ سے اپنی کوتاہیوں کی معافی طلب کرلیتے ۔ دوسروں سے گستاخی سرزد ہوجاتی تو اسے نسیاً منسیا کردیتے ۔ میں کئی بار انھیں چھوٹے لوگوں سے معذرت اور معافی طلب کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔
ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ مجھے آواز دی (ان دنوں میں ان کے مکان کے نچلے حصہ میں رہا کرتا تھا ۔اور اس وقت ان کے اور میرے درمیان وہ نازک رشتہ قائم نہیں ہوا تھا ۔ جو بعد میں ان کی لخت جگر کے توسط سے قائم ہوا) میں فوراً ان کی آواز پر لبیک نہ کہہ سکا اور مجھے ان تک پہنچنے میں ذراسی تاخیر ہوگئی یہ تاخیربلا وجہ نہیں تھی ۔دراصل جب انھوں نے آواز دی تو میں مغرب کی نماز پڑھ رہا تھا ۔ نماز پوری کر کے اور پہنچا تو دس منٹ کا عرصہ بیت چکا تھا ۔ یہ دس منٹ انھیں بہت گراں گذرے ،اس کی ایک وجہ ان کا ایک ارجنٹ کام تھا جو ۔سرعت و عجلت کا متقاضی تھا ۔ ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس سے پہلے جب کبھی انھوں نے یاد فرمایا میں ایک منٹ گنوائے بغیر ان کی خدمت میں پہنچ گیا ۔ بہر حال وجہ کچھ بھی رہی ہو انھیں دس منٹ کی تاخیر بڑی گراں گذری اور وہ مجھے دیکھتے ہی برس پڑے ۔شاید یہ پہلااور آخریاتفاق تھا کہ انھوں نے مجھ سے تلخ لہجہ میں گفتگو کی ۔ میں گردن جھکائے کھڑا رہا اور وہ بولے چلے جارہے تھے ۔ دوبار پکار چکا ہوں ۔ معلوم نہیں کیا کرتے رہتے ہو ۔۔۔ اپنی جگہ سے ہلنا ہی نہیں چاہتے ۔ جاؤ اب مجھے تمہاری ضروری نہیں ۔ ہوگیا کام 
میں چلا آیا ۔۔۔ یہ کہنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ اس وقت میرے دل کو زبردست ٹھیس پہنچی تھی ۔۔۔ قارئین کو تجربہ ہوگا کہ محسن اور مہربان لوگ جب الفاظ کی چھڑی گھماتے ہیں تو احساس کی کائنات تھر تھرااٹھتی ہے اور پلکیں اس پانی سے تربتر ہوجاتی ہیں جو بیک وقت مہمل بھی ہوتا ہے اور ذومعنی بھی ۔ انھوں نے ہمیشہ مجھ پر احسانات کئے تھے ۔ ۔۔مجھے محبت دی تھی ۔ میری خواہشوں کا احترام کیا تھا، اپنے لب و لہجہ کا مٹھاس بخشا تھا ۔ انھوں نے ہمیشہ ہی یہ واضح کیا تھا کہ وہ میرے محسن ہیں کرم فرما ہیں ۔ صاحب شفقت ہیں ۔
ان کے ہونٹوں پر میں اپنے لئے تلخیاں کیسے گوارہ کرلیتا ۔ میرے سینہ میں دھڑکنے والے لو تھڑے پر غم اور اداسی کا کہرا چھا گیا ، لیکن یہ کہرا زیادہ دیر تک باقی نہیں رہ سکا ، اگلے دن نیچے میرے کمرے میں آئے ۔ اور سوز و گداز سے بھرے لہجے میں بولے : 
کیا ہوا ناراض ہوگئے ۔
نہیں تو۔۔۔ غالباً یہی الفاظ میری زبان سے نکلے تھے ۔
تو پھر؟
بھلا پھر کا جواب میرے پاس کیا تھا اور اگر تھا تو ادب و۔۔۔ میری زبان پر ایک پہرے دار کی حیثیت سے بیٹھے ہوئے تھے ۔ اور مجھے خاموش رہنے پر مجبور کر رہے تھے ۔چنانچہ میں چپ ہی رہا ۔
چند لمحوں تک وہ بھی چپ رہے پھر بولے:
کل جو کچھ ہوا اس پر میں شرمندہ ہوں ۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہے ۔ چلو چھوڑو،اٹھو ذرا اصلی گھی لانا ہے ۔ میں ان کے ساتھ چل دیا ۔ اور راستہ طے کرتے ہوئے مجھے یوں لگا جیسے قدرت براہِ راست مجھ سے مخاطب ہو اور کہہ رہی ہو کہ ہم نے دانستہ عامر عثمانی سے ایک غلطی کرائی تھی تاکہ تجھ پر ان کی بلند ی اور عظمت واضح ہو جائے ۔ میں پہلے بھی ان کی عظمت و ترفع کا قائل تھا ۔ اس کے بعد عقیدت میں اور زیادہ شدت پیدا ہوگئی ۔۔۔ اور اس طرح قدرت کا منشاء پورا ہوگیا ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ان کا مجھ پر برس پڑنا اغلاط کی فہرست میں نہیں آتا اس لئے کہ وہ میرے بڑے تھے اور بڑوں کو چھوٹوں پر اتنا حق تو ہونا ہی چاہئے کہ وہ انھیں ڈانٹیں ، متنبہ کریں ،تاہم انھوں نے شرمندگی کا اظہار کیااور شرمندگی کے اس اظہار نے میرے دل میں ان کی رفعت کی جڑیں اور زیادہ گہری کردیں ۔
ایک بار ایسا ہوا کہ ان کے گھر میں تعمیر و چنائی کا کام ہورہا تھا ۔ دسیوں مزدور کام میں لگے ہوئے تھے ۔ اسی دوران ایک دن ان کے کرتے کی جیب میں پانچ سو روپئے غائب ہوگئے ۔ انھیں شبہ ایک مزدور پر ہوا ۔ کچھ قرائن نے ان کے شبہ میں تقویت پیدا کردی اور انھوں نے اس مزدور سے پوچھ تاچھ کی ۔ اس نے شدت کے ساتھ انکار کیا ۔مرحوم نے اس سے زیادہ شدت کے ساتھ کہا ۔ نہیں روپئے تم ہی نے نکالے ہیں ۔
مزدور پیہم انکار کرتا رہا ۔اور و ہ اس بات کا اصرار کرتے رہے کہ نہیں اپنے جرم کا اعتراف کرو۔ چوری تم ہی نے کی ہے ۔
معاملہ ابھی رفع رفع نہیں ہوا تھا کہ ایک صاحب ۔۔ان سے ملنے آگئے۔ ان سے ملنے کے لئے وہ اپنے کمرے میں چلے آئے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ صاحب چلے گئے لیکن ان کے چلے جانے کے بعد مرحوم نے اس مزدور کو اپنے کمرے میں بلایااور اس سے دست بستہ معافی چاہتے ہوئے کہا دوست مجھے معاف کردو میں نے تم پر الزام لگایا ہے اور پھر مزدور کی آنکھوں میں تڑپنے والے بے شمار سوالوں ک جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا ۔
ہوا یہ کہ روپئے کسی طرح جیب سے گر کر نیچے رکھے ہوئے اخباروں مایں دب گئے تھے ۔ اب جو اخباروں کی گڈی اٹھائی تو اس کے نیچے سے روپئے بر آمد ہوگئے ۔
غلطی تو بے شک مرحوم ہی کی تھی کہ انھوں نے مضبوط ثبوت کے بغیر مزدور کو سارق سمجھ لیا تھا ۔لیکن پھر بر ملا انھوں نے اپنی غلطی کی معافی چاہ کر یہ ثابت کردیا تھا کہ وہ فطری طور پر عظیم ہیں ۔ بڑائی اور عظمت ان کے لہو میں تحلیل ہے ۔ آخر وہ یہ بھی تو کرسکتے تھے کہ روپئے مل جانے کے بعد کوسی کو ہوا بھی نہ دیتے اور چپ ہو کر بیٹھ جاتے لیکن وہ ایسا نہیں کرسکے انھوں نے کھلے عام اور کھلے الفاظ میں اپنی غلط فہمی کی دت بستہ معافی طلب کرلی اور اس طرح انھوں نے یہ ثابت کردیا کہ بڑا آدمی اگر اپنی غلطی کا اعتراف کرلے تو اس سے اس کی بڑائی میں کوئی اضمحلال پیدا نہیں ہوتا ۔ بلکہ اس کے بڑے پن میں ایک گوہ اضافہ ہوجاتا ہے ۔ چنانچہ وہ مزدور جو اس واقعہ سے پہلے انھیں صرف ایک بڑا عالم سمجھتا تھا ، اس واقعہ کے بعد ایک بڑا انسان بھی سمجھنے لگا ۔
کئی بار میں انھیں ایسے لوگوں سے معافیاں طلب کرتے دیکھا ہے معاشرہ جنھیں جوئی حیثیت نہیں دیتا اور دنیا جنھیں ذلیل سمجھتی ہے اپنی غلطی مان لینے کی صفت فی زمانہ عنقا اور نادر الوقوع ہوچکی ہے ۔ میں نے کئی بار بڑے بڑے چوٹی کے پر ہیز گاروں کو غلطیوں اور لغزشوں کا شکار ہوتے دیکھا ہے لیکن میری آنکھوں نے یہ منظر کبھی نہیں دیکھاکہ ان پرہیز گاروں نے اپنی غلطیوں اور لغزشوں کا اعتراف کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہو کہ وہ واقعی خدا ترساور پرہیز گار ہیں۔ تصنع ،تکلف،بناوٹ اور عاجزی و انکساری کی ایکٹنگ عام ہے ۔لیکن فی الحقیقت کتنے ایسے لوگ ہیں جو واقعی خود کو چھوٹا حقیر اور ذرہ بے مقدار سمجھتے ہوں۔۔۔؟
مومنانہ اعتماد
بے شک مومن کوے کی طرح چالاک نہیں ہوتا ۔ وہ اکثر دنیا کے بچھائے ہوئے دام فریب میں آجاتا ہے ۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ مومن سچ بولتا ہے ،صداقت کا پرستار ہوتا ہے ۔ جھوٹ سے اسے نفرت ہوتی ہے ۔ وہ اس کذب خفی ار کذب جلی کے پاس بھی جانا نہیں چاہتا جس کو اس کے مذہب نے منافقت کی نشانی قرار دیا ہے ۔
اور نفسیات یہ کہتی ہے کہ جھوٹا آدمی کبھی دووسروں پر اعتماد نہیں کرتا اور سچ بونے والا ہر کاذب کی لن ترانیوں پر بھی ایمان لانے کے لئے تیار رہتا ہے ۔ کاذب و صادق کو پرکھنے کی سب سے بہترین کسوٹی یہی ہے جو شخص دسروں پر بڑی حد تک اعتماد کرتا ہے سمجھ لیجئے کہ وہ خود بھی قابل اعتماد ہے اور جو دوسروں کی دعوں کو ہوائی اور کھوکھلے سمجھتا ہے یقین کر لیجئے کہ اس کے اپنے دعوے بھی ہوائی اور کھوکھلے ہوتے ہیں ۔
مرحوم عامر عثمانی صاحب میں جہاں اور صفتیں تھیں وہاں یہ صفت بھی موجود تھی کہ وہ دوسروں کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے ۔دوسروں پر خصوصاً پرانے۔ یہ سب ان کے حق میں ہمیشہ غیر مفید ہی رہی ۔ یا ر لوگ ان کی اس صفت کو کمزوری پر محمول کرتے ہوئے بہت کچھ ناجائز فائدہ اٹھا لیاکرتے تھے ۔
ایسے ہزاروں واقعات نقل کئے جاسکتے ہیں کہ ان کے مومنانہ اعتماد کا دنیا نے غلط فائدہ اٹھا یا ۔ لیکن کاغذ کی تنگ دامانی تفصیل میں جانے کی اجازت نہیں دیتی بس ایک واقعہ سن لیجئے :
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک طالب علم نے مولانا کے پاس ایک جوڑی کڑوں کی رکھوائی بطور رہن اور بطور قرض دوسو(۲۰۰)روپئے مرحوم سے وصول کر لئے ، مدت گذر گئی وہ طالب علم لوٹ کر ہی نہیں آئے ۔ طویل در طویل انتظار کے بعد بھی ۔۔۔ان طالب علم کی کہیں جھلک نظر نہیں پڑسکی تو مرحوم کو خیال ہوا کہ کہیں وہ مر تو نہیں گئے ۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ ان کے مر۔۔چلنے کی تحقیق کس سے کی جائے ۔ ان کے پاس ان کا مکمل تحریر نہیں تھا ۔ مکمل کیا غیر مکمل پتہ بھی موجود نہیں تھا جس ۔۔۔سہارا لے کر ان کی تلاش کی جاتی ۔ مجبوراً صبر کئے بیٹھے رہے۔ 
ایک دن مرحوم کو خیال ہوا کہ ان کے کڑوں کے بارے میں یہ تحقیق کی جائے کہ وہ کتنے وزن کے ہیں اور بازار میں کتنی قیمت میں فروخت ہوسکتے ہیں ۔فوراً ہی انھوں نے ۔۔خیال کو عملی جامہ پہنایا اور بکس میں سے وہ کڑے نکالے۔۔۔میں سے بعض افراد نے ان کڑوں کا مشاہدہ کرتے ہی پر۔۔آواز میں کہا۔ یہ کڑے سونے کے نہیں رولڈ گولڈ کے ہیں یونی زیادہ سے زیادہ پندرہ روپئے کے ۔
اب مولانا کا یقین دیکھئے ۔بولے:
نہیں ۔یہ ہرگز نہیں ہوسکتا ۔ تم لوگوں کو سونے کی پہچان ہی نہیں ہے ۔ یہ یقینی طور پر سونے کے ہیں ۔
گھر والوں کا دعویٰ وہی تھا کہ خالص رول گولڈ ۔۔مرحوم گھر والوں کے دعوے کی تردید کرتے رہے اور یہی ر۔۔رہے کہ تم لوگ پہچاننے میں غلطی کھارہے ہو ۔ یہ سونے ہی ۔۔ہیں۔
اب گھر والوں نے کہا آخر آپ اتنے یقین کے ۔۔انھیں سونا کیوں قرار دے رہے ہیں ۔ 
مرحوم نے مطمئن لہجہ میں کہا۔ اس لئے کہ یہ کڑے ۔۔دارالعلوم کے طالب علم نے بطور رہن رکھوائے تھے ۔۔۔سو فیصد ی یقین ہے کہ دارالعلوم کا طالب دھوکا نہیں دے سکتا البتہ تمہاری سمجھ ٹھوکر کھاسکتی ہے۔
گھر والوں نے کہا مناظرہ ختم آپ کسی سنار کو دکھایا ،سنار کی سمجھ تو ٹھو کر نہیں کھاسکتی ۔ بات معقول تھی ،انھوں نے بازار میں جاکر ایک سنار کو کڑے دکھائے اور سنار نے ہی کہا جو اہل خانہ کہہ رہے تھے ۔ بے میل اور خالص رول گولڈ ۔۔۔۔سونے کا حبہ بھی شامل نہیں ۔گھرواپس آئے تو اہل خانہ نے پوچھا کہئے کیا رہا۔
۔۔۔ہے تو رول گولڈ ہی لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ اس بے چارے طالب علم کو کسی سنار نے سونا کہہ کر رول گولڈ ۔۔بھیڑ دیا ہو۔ یہ تو کوئی ضروری نہیں کہ فریب کاری طالب علم ۔۔ نے کی ہے۔
قارئین یہ واقعہ پڑھ کر خداجانے کیا رائے قائم کریں ۔۔۔ لیکن میرا یہ دعویٰ ہے کہ یہ مومنانہ اعتماد تھا ۔اور اس کی نظریں مرحوم اسلاف کی زندگیوں میں تو نظر آتی تھیں آج کل کے بزرگوں میں نظر نہیں آتیں ۔اور اگر کچھ نظریں ہیں تو ۔۔برائے نام اور برائے ذکر۔
***

مولاناعامرعثمانی,


صفات عامر عثمانی
حسن احمد صدیقی
ظرافت: ظرافت و مزاح ان کی فطرت میں داخل تھا ۔انھیں زندگی میں بہت کم رنجیدہ و مغموم دیکھا گیا ہے۔ہر وقت ہنستے ہی رہتے ۔ ان کی گفتگو مرصع تو نہیں ہوتی تھی لیکن اتنی دلچسپ ضرور ہوتی تھی کہ سننے الا اس میں کھوجائے ۔خشک اور غمگین ہونٹوں پر تبسم کی چاندنی بکھیر دینا ان کے لئے کچھ مشکل نہ تھا ۔ آپ جس کو چاہا ہنسنے پر مجبور کردیا ۔ان کی شگفتہ مزاجی ہر عام و خاص مجلس میں انھیں ’’ہیرو‘‘ بنادیتی ۔ دیو بند میں ادبی اور شعری نشستیں ہوتیں۔ کثیر تعداد میں شعراء سامعین شریک ہوتے اورایسا محسوس ہوتا کہ یہاں عامر عثمانی کے سوا کوئی موجود ہی نہیں ہے۔
دوران گفتگو ار دوران خاموشی میں ہلکے پھلکے مزاحہ فقرے ۔۔کو شاید وہ ضروری سمجھتے تھے ضروری سمجھتے تو انھیں کسی محفل میں تو ۔۔دیکھا جاتا ۔ میں نے جن ادبی اور علمی محفلوں میں شرکت کی وہاں یہی دیکھا کہ فضا جب کسی وجہ سے بوجھل ہوئی ، عامر عثمانی ۔۔۔اٹھے اور مجمع بادل ناخواستہ بھی ہنسنے پر مجبور ہوگیا ۔
ایک ادبی نشست میں دار العلوم کے ایک طالب علم اپنی ۔۔۔ہدیہ ناظرین کررہے تھے ۔ اسی نشست میں ایک کٹر قسم کے ۔۔آدمی بھی جلوہ افروز ہیں ۔ غزل کے اشعار کچھ دعائیہ انداز کے ۔۔ان دیو بندی صاحب نے شعروں پر داد و تحسین کے ڈونگرے لٹانے کے بجائے بآواز بلند ہر شعر پر آمین آمین کہن شروع کردیا ۔ 
عامر عثمانی صاحب انھیں حیرت سے دیکھتے رہے ۔ پھر زیر لب بولے:
آج معلوم ہوا کہ آپ بھی آمین بالجہرکے قائل ہیں ۔
ایک مرتبہ میں نے اپنی ایک غزل بغرض اصلاح مرحوم کو دی ۔ انھوں نے اس کی ضروری مرمت کرنے کے بعد کہا ۔ غزل خاصی ہے لیکن میری رائے یہ ہے کہ تم شعر و شاعری کے چکر میں مت پڑو ورنہ یہ چہرے پر جتنی کتنی رونق ہے سب غائب ہوجائے گی ۔ 
ایک بر میری چھوٹی بہن سے کہنے لگے ۔
منیا! میں نے سنا تھا کہ جہیز میں تمہیں اونٹ کا بچہ بھی دیا گیا ہے ۔
ایک مرتبہ ایک صاحب دور دراز سے ان سے ملنے کے لئے آئے ۔ انھوں نے مولانا کو دیکھ کر بڑے اچنبھے کے ساتھ کہا ۔ آپ عامر عثمانی ہیں ۔ کیوں آپ کو شک کیوں ہے ؟ ظاہر ہے کہ یہ آواز مرحوم کی تھی ۔ ان صاحب نے فرمایا کہ میں نے سنا تھا عامر عثمانی صاحب کے داڑھی نہیں ہے ،اور آپ کے تو اتنی طویل داڑھی ہے ۔
یہ سن کر مرحوم مسکرائے اور بولے 
ہلا کر اطمینان کر لو ، ورنہ کہنے والے تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جو داڑھی تم دیکھ کر آئے ہو وہ مصنوعی تھی ۔ 
اس قسم کے ہزاروں فقرے میرے ذہن کے ٹیپ ریکارڈ میں محفوظ ہیں ۔ جو مرحوم کی شگفتہ مزاجی اور ظرافت کی شہادت دیتے ہیں ۔ میں ان سب فقروں کو فی الوقت کاغذ پر سمیٹنا نہیں چاہتا فی الحال تو ان کی ظرافت کا یقین دلانے کے لئے میں نے یہ چند فقرے نقل کردئے ہیں ۔ زندگی نے کبھی مہلت دی تو میں کچھ اور واقعات قلم بند کر کے قارئین تجلی کی خدمت میں پیش کروں گا ۔
ظرافت اور شگفتہ مزاجی چونکہ ان کی ذات کا جزوِ لاینفک تھی اس لئے وہ آخیر عمر تک قائم رہی ۔ موت کے بستر پر بھی انھوں نے بعض حرکتیں ایسی کی تھیں کہ جو سراپائے لطیفہ تھیں اور جنھیں ایک حساس آدمی کبھی نہیں بھلا سکتا ۔
صورتِ حال یہ تھی کہ تقاہت و کمزوری کی زیادتی نے انھیں بالکل نڈھال کر دیا تھا ۔مرض بھی ضعف اور کمزوری کی طرح غیر معمولی تھا ۔ یہ سورت حال دیکھ کر ڈاکٹروں کو اس بات کی تاکید کرنی پڑی کہ آپ کم سے کم بولیں گے ۔ قارئین سے یہ کہنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ دل کے مرض میں زیادہ بولنا خطرہ کا باعث ہوا کرتا ہے ۔ڈاکٹروں کی فہم و تشخیص کے مطابق مرض دل ہی کا تھا لہذا انھوں نے حتی الامکان زبان بند کرنے کی تاکید کی ۔ اور یہ تائید بالکل بجا تھی ۔ لیکن معاملہ کچھ ایسا تھا کہ مرحوم حتیٰ الامکان باتیں کرنے کی جدو جہد میں لگے ہوئے تھے ۔ گھر والوں نے سمجھایا کہ ڈاکٹروں نے زیادہ بولنے کو منع کیا ہے ۔ لہذا خدا کے لئے آپ چپ رہئے ۔ ڈاکٹروں کی منطق ان کے سمجھ میں نہیں آئی ۔وہ جھلائے اور انھوں نے صاف کہہ دیا کہ وہ بولیں گے اور زیادہ سے زیادہ بولیں گے ۔ ان کی یہ بے جا جھلا ہٹ دیکھ کر گھر والے بھی گڑ بڑاگئے اور انھوں نے نرمی اور ہمدردی کو طلاق رجعی دینے کے بعد کہا ۔ اب آپ نہیں بولیں گے اور بالکل نہیں بولیں گے ۔ اگر آپ نے زبان کھولی تو آپ کو کمرہ میں تنہا چھوڑ کر دروازہ بند کرلیا جائے گا ۔
وہ ذہین تھے ۔ ان کے لئے یہ سمجھنا کچھ دشوار نہیں تھا کہ اب پورا گھر بغاوت پر آمادہہے ۔ انہوں نے مسلحت اسی میں سمجھی کہ زبان پر خاموشی کا قفل چڑھالیا جائے ۔ وہ یکلٰخت دہم ہوگئے اور اسی دن انھوں نے ایک کاغذ کے پرزے پر یوں لکھا :۔
’’میں گونگا ہوں عامر عثمانی
اس کے بعد جب کوئی ان کی عیادت کے لئے حاضر ہوتا تو وہ اسے کاغذ کا پرزہ دکھادیتے ۔ گویا کہ اب زبان ہلانی بھی بند کردی ۔ اب خدا ہی جانے یہ عین فرمانبرداری تھی یا خاموشی انتقام۔
اسی دنشام کو ایک پرچہ پریوں لکھا۔۔۔۔۔۔
حسن میاں کو بلاؤ۔
گھر والوں نے آواز لگائی اور حسن میاں آگئے۔۔۔۔۔۔
حسن کو دیکھ کر انھوں نے پھر قلم کو حرکت دی اور نتیجتاً کاغذپر یہ الفاظ بکھر گئے ۔
’’حقہ لاؤ۔
حسن نے کہا دل کے مرض میں تمبا کو نوشی زہر کاکام کرتی ہے ۔ یہ سن کر بگڑ گئے ۔زبان پھر فرمانبرداری کی قید سے آزاد ہوگئی ۔بولے کون بے و قوف کہتا ہے ۔
حسن نے سٹ پٹاکر کہا ۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں ۔
بو لے ڈاکٹر اقبال سے بڑا کوئی ڈاکٹر دنیا میں موجود نہیں ہے ۔اور ڈاکٹر اقبال نے حالت سنجیدگی میں فرمایا تھا ۔۔۔کہ زہر بھی کرتا ہے کارتریاقی ۔
اور ۔۔۔اور بس۔
وقت گذر گیا یادیں باقی رہ گئیں ۔ اور یہ یادیں زندگی بھر ہمارا تعاقب کرتی رہیں گی ۔
***
سادگی 
سادگی کی مختلف پہلو ہوسکتے ہیں ۔ ایک پہلو یہ بھی ہے ۔
ایک دن کسی طالب علم کی طرح چلے جارہے تھے اور بغل میں بخاری شریف دبی ہوئی تھی ۔ میں نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ۔ کہاں تشریف لے جارہے ہیں؟
جواب دیا ۔۔۔مولانا شریف الحسن صاحب کے پاس جارہا ہوں ۔ایک حدیث کے بارے میں تحقیق کرنی ہے ۔
سادگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے :۔
ایک بار انھیں ایک مزدور کے ساتھ اس طرح جاتے ہوئے دیکھا گیا کہ مزدور کے کاندھے پر ان کا ہاتھ تھا ۔اور دوسرے ہاتھ میں ایک تھیلہ تھا ۔ یہ تھیلہ ان کا نہیں بلکہ مزدور کا تھااور اس میں اس کا یہ سامان تھا آری،ہتھوڑی ، بسولہ وغیرہ ۔قارئین یہ تو سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ یہ مزدور کوئی بڑھئی تھا ۔ اتنااور سن لیجئے کہ یہ مزدور مولانا کے گھر میں مزدوری کے طور کچھ کام کررہا تھا اور دیوبند کا ایک انتہائی غریب اور مفلس آدمی تھا ۔اس کے کپڑوں پر جگہ جگہ پھٹن اور پیوند کی شکل میں غربتوافلاس کی جیتی جاگتی نشانیاں موجود تھیں ۔۔۔ اورمولانا عامر عثمانی عثمانی جیسا عظیم المرتبت انسان اس کے ساتھ اس انداز میں چل رہا تھا جیسے دونوں ایک ہی سطح آور ایک ہی درجہ کے انسان ہوں ،جیسے ان میں کوئی ممتاز نہ ہو۔ 
سادگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے ۔اپنے لئے ہمیشہ ایسا کپڑا خرید کر لاتے جو کم سے کم داموں میں مل جاتا ۔ انتہائی سستا اور سیدھا سادا لباس انھیں مرغوب تھا ۔اچھے اور عمدہ کپڑے سے یک گونہ نفرت تھی ۔ لیکن ان لوگوں سے کبھی نفرت نہیں کی جو اچھا اور قیمتی کپڑا پہننے کے عادی ہوں ۔
ان کی طبیعت میں بخل نہیں تھا، ورنہ یہ سمجھ لیا جاتا کہ قیمتی کپڑا خرید تے وقت دم گھٹتا ہوگا ، عید و بقر عید کے موقعہ پر اور دوسری تقریبات کے لئے مشتر کہ کپڑا آتا ۔پورے گھر کے لئے عمدہ سے عمدہ اور قیمتی سے قیمتی کپڑا خرید کر لاتے اور اپنے لئے وہی معمولی اور گھٹیا ۔
سادگی کے کچھ پہلو یہ بھی ہیں ۔۔۔ سفر و حضرمیں کیا کرتے تھے۔ اپنا ہر کام خود انجام دے لیتے ۔ کپڑوں پر پیوند لگا لیتے ۔ اپنے کمرے میں جھاڑو دے لیتے ۔ بازار سے سودا خرید لاتے ۔ سواری بہت ہی ضرورت کے وقت کرتے ۔ ورنہ عموما پیدل چلتے نظر آتے ۔
ایک مرتبہ مزدوروں ے ساتھ لگ کر گھر کی دیواروں پر روغن تک کرتے دیکھا گیا ۔ علاوہ ازیں میں نے کئی بار انھیں ایسے معمولی کام کرتے دیکھا جنھیں میں نہیں کرسکتا ، حالاں کہ علم فہم، عزت،شہرت اور مرتبہ کے اعتبار سے میری ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ۔ مجھ جیسے لوگ جن چھوٹے کاموں کی انجام دہی میں عار اور ہتک محسوس کرتے انھوں نے ان کاموں کی انجام دہی میں کبھی عار اور ہتک محسوس نہیں کی ۔اور کبھی نہیں دیکھا کہ وہ کسی چھوٹے کام کے لئے مزدور کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہوں ۔
سخاوت
گلی گلی میں ان کی سخاوت کے پرچے تھے ۔ یہ تو سبھی جانتے تھے کہ محتاجوں اور بے کسوں کی مدد کرناان کی عادت ثانیہ تھی لیکن اس بات سے کوئی واقف نہ تھا کہ بعض امدادیں انھوں نے ایسی بھی د ی ہیں کہ دائیں ہاتھ سے مدد کرنے کے بعد بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہوسکی ۔ ان کی وفات کے بعد کئی رازوں سے پردہ اٹھا ۔ کئی ایسی حقیقیتیں سامنے آئیں جو خوابوں اور افسانوں سے زیادہ خوبصورت تھیں اور جو ان حقائق و وقعات کی تصدیق کر رہی تھیں جنھیں میں نے صرف کتابوں میں پڑھا تھا ۔۔۔ عمل کی دنیا میں مشاہدہ نہیں ہوسکا تھا ۔
انتقال کے بعد ایک بیوہ کی زبان سے معلوم ہوا کہ اتنی رقم ہر سال مجھے دیا کرتے تھے اور یہ رقم مقررہ تاریخ کو از خود مجھے پہنچا دیا کرتے تھے ۔
ایک دوکاندار کی زبانی معلوم ہوا کہ فلاں فلاں مکان پر ہر ماہ اتنا آٹا اور اتنا دوسرا سامان میری دکان سے جاتا کرتا تھا ۔
دارالعلوم کے کتنے ہی طلباء کا وظیفہ مقرر تھا ۔ ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو یہ وظیفہ ادا کردیا جاتااور کسی تیسرے آدمی کو خبر نہ ہو پاتی وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو سخاوت بعد میں کرتے ہیں اور حاتم طائی کا خطاب پہلے مل جاتا ہے ۔ انھیں زندگی میں سخی ہونے کے باوجود جو دو کرم کاپتلا کبھی نہیں سمجھا گیا ۔البتہ ان کی وفات کے بعد کچھ نادر رازوں سے پردہ ہٹ جانے کی وجہ سے اب دنیا میں انھیں جواد کہے تو کوئی مبالغہ نہیں ہے ۔
دارالعلوم کے بعض طلباء اور شہر کی بعض بیواؤں کا وظیفہ ابھی تک برقرار ہے ۔اقتصادی حالات نے اگر چہ ہماری کمرتوڑدی ہے لیکن انشائا للہ ہم ان وظیفوں کا سلسلہ منقطع نہیں کریں گے جو مرحوم کے جاری کردہ ہیں ۔
ایک زمانہ میں ان کے مکان کی حیثیت بیت المال کی سی تھی ۔ لوگ اپنی ضرورت کا اظہار کرتے اور انھیں کبھی قرض کی صورت میں کبھی اور کسی صورت میں کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا۔اس زمانے میں لوگوں نے انھیں بڑے فریب دئے ۔ ہزاروں فریب کھانے کے بعد انھوں نے اپنی روش بد لدی اور اس کے بعد ان کا گھر مسلم فنڈ میں متبدل ہوگیا ۔ اب صورت یہ تھی کہ کوئی چیز رہن رکھ جاؤ اور قرض لے جاؤ ۔ بیسیوں چیزیں ہر وقت ان کے بکس میں نظر آتی تھیں ۔ یہ چیز یں بطور رہن ان کے پاس موجود رہتیں ۔ مرتہن جب بھی قرض ادا کردیتا مرہونہ چیز اس کے حوالہ کردی جاتی ۔ سخاوت سے متعلق کچھ واقعات ایک صاحب قلم نے ایک مضمون میں سمیٹ دئے ہیں یہ مضمون انشا ء اللہ نمبر کی اگلی قسط میں جلوہ گر ہوگا ۔ میں اس موضوع پر اس سے زیادہ کچھ نہیں لکھتا ۔
بڑاپن
علم و فہمکو گواہ بنا کر یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ جو شخص دوسروں کی خطاؤں کو نظر انداز کردے اور اپنی خطاؤں کی ہر وقت معافی مانگنے کے لئے تیار رہے وہ بلند ہے عظیم ہے ۔رفیع المرتبت ہے ۔ ان کا عالم یہ تھا کہ دسروں کی غلطیوں کو نظر اندازی کرنے اور اگر خود سے کوئی غلطی سر زد ہوجاتی تو آئیں بائیں شائیں اور اگر مگر کرنے کے بجائے جھٹ سے اپنی کوتاہیوں کی معافی طلب کرلیتے ۔ دوسروں سے گستاخی سرزد ہوجاتی تو اسے نسیاً منسیا کردیتے ۔ میں کئی بار انھیں چھوٹے لوگوں سے معذرت اور معافی طلب کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔
ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ مجھے آواز دی (ان دنوں میں ان کے مکان کے نچلے حصہ میں رہا کرتا تھا ۔اور اس وقت ان کے اور میرے درمیان وہ نازک رشتہ قائم نہیں ہوا تھا ۔ جو بعد میں ان کی لخت جگر کے توسط سے قائم ہوا) میں فوراً ان کی آواز پر لبیک نہ کہہ سکا اور مجھے ان تک پہنچنے میں ذراسی تاخیر ہوگئی یہ تاخیربلا وجہ نہیں تھی ۔دراصل جب انھوں نے آواز دی تو میں مغرب کی نماز پڑھ رہا تھا ۔ نماز پوری کر کے اور پہنچا تو دس منٹ کا عرصہ بیت چکا تھا ۔ یہ دس منٹ انھیں بہت گراں گذرے ،اس کی ایک وجہ ان کا ایک ارجنٹ کام تھا جو ۔سرعت و عجلت کا متقاضی تھا ۔ ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس سے پہلے جب کبھی انھوں نے یاد فرمایا میں ایک منٹ گنوائے بغیر ان کی خدمت میں پہنچ گیا ۔ بہر حال وجہ کچھ بھی رہی ہو انھیں دس منٹ کی تاخیر بڑی گراں گذری اور وہ مجھے دیکھتے ہی برس پڑے ۔شاید یہ پہلااور آخریاتفاق تھا کہ انھوں نے مجھ سے تلخ لہجہ میں گفتگو کی ۔ میں گردن جھکائے کھڑا رہا اور وہ بولے چلے جارہے تھے ۔ دوبار پکار چکا ہوں ۔ معلوم نہیں کیا کرتے رہتے ہو ۔۔۔ اپنی جگہ سے ہلنا ہی نہیں چاہتے ۔ جاؤ اب مجھے تمہاری ضروری نہیں ۔ ہوگیا کام 
میں چلا آیا ۔۔۔ یہ کہنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ اس وقت میرے دل کو زبردست ٹھیس پہنچی تھی ۔۔۔ قارئین کو تجربہ ہوگا کہ محسن اور مہربان لوگ جب الفاظ کی چھڑی گھماتے ہیں تو احساس کی کائنات تھر تھرااٹھتی ہے اور پلکیں اس پانی سے تربتر ہوجاتی ہیں جو بیک وقت مہمل بھی ہوتا ہے اور ذومعنی بھی ۔ انھوں نے ہمیشہ مجھ پر احسانات کئے تھے ۔ ۔۔مجھے محبت دی تھی ۔ میری خواہشوں کا احترام کیا تھا، اپنے لب و لہجہ کا مٹھاس بخشا تھا ۔ انھوں نے ہمیشہ ہی یہ واضح کیا تھا کہ وہ میرے محسن ہیں کرم فرما ہیں ۔ صاحب شفقت ہیں ۔
ان کے ہونٹوں پر میں اپنے لئے تلخیاں کیسے گوارہ کرلیتا ۔ میرے سینہ میں دھڑکنے والے لو تھڑے پر غم اور اداسی کا کہرا چھا گیا ، لیکن یہ کہرا زیادہ دیر تک باقی نہیں رہ سکا ، اگلے دن نیچے میرے کمرے میں آئے ۔ اور سوز و گداز سے بھرے لہجے میں بولے : 
کیا ہوا ناراض ہوگئے ۔
نہیں تو۔۔۔ غالباً یہی الفاظ میری زبان سے نکلے تھے ۔
تو پھر؟
بھلا پھر کا جواب میرے پاس کیا تھا اور اگر تھا تو ادب و۔۔۔ میری زبان پر ایک پہرے دار کی حیثیت سے بیٹھے ہوئے تھے ۔ اور مجھے خاموش رہنے پر مجبور کر رہے تھے ۔چنانچہ میں چپ ہی رہا ۔
چند لمحوں تک وہ بھی چپ رہے پھر بولے:
کل جو کچھ ہوا اس پر میں شرمندہ ہوں ۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہے ۔ چلو چھوڑو،اٹھو ذرا اصلی گھی لانا ہے ۔ میں ان کے ساتھ چل دیا ۔ اور راستہ طے کرتے ہوئے مجھے یوں لگا جیسے قدرت براہِ راست مجھ سے مخاطب ہو اور کہہ رہی ہو کہ ہم نے دانستہ عامر عثمانی سے ایک غلطی کرائی تھی تاکہ تجھ پر ان کی بلند ی اور عظمت واضح ہو جائے ۔ میں پہلے بھی ان کی عظمت و ترفع کا قائل تھا ۔ اس کے بعد عقیدت میں اور زیادہ شدت پیدا ہوگئی ۔۔۔ اور اس طرح قدرت کا منشاء پورا ہوگیا ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ان کا مجھ پر برس پڑنا اغلاط کی فہرست میں نہیں آتا اس لئے کہ وہ میرے بڑے تھے اور بڑوں کو چھوٹوں پر اتنا حق تو ہونا ہی چاہئے کہ وہ انھیں ڈانٹیں ، متنبہ کریں ،تاہم انھوں نے شرمندگی کا اظہار کیااور شرمندگی کے اس اظہار نے میرے دل میں ان کی رفعت کی جڑیں اور زیادہ گہری کردیں ۔
ایک بار ایسا ہوا کہ ان کے گھر میں تعمیر و چنائی کا کام ہورہا تھا ۔ دسیوں مزدور کام میں لگے ہوئے تھے ۔ اسی دوران ایک دن ان کے کرتے کی جیب میں پانچ سو روپئے غائب ہوگئے ۔ انھیں شبہ ایک مزدور پر ہوا ۔ کچھ قرائن نے ان کے شبہ میں تقویت پیدا کردی اور انھوں نے اس مزدور سے پوچھ تاچھ کی ۔ اس نے شدت کے ساتھ انکار کیا ۔مرحوم نے اس سے زیادہ شدت کے ساتھ کہا ۔ نہیں روپئے تم ہی نے نکالے ہیں ۔
مزدور پیہم انکار کرتا رہا ۔اور و ہ اس بات کا اصرار کرتے رہے کہ نہیں اپنے جرم کا اعتراف کرو۔ چوری تم ہی نے کی ہے ۔
معاملہ ابھی رفع رفع نہیں ہوا تھا کہ ایک صاحب ۔۔ان سے ملنے آگئے۔ ان سے ملنے کے لئے وہ اپنے کمرے میں چلے آئے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ صاحب چلے گئے لیکن ان کے چلے جانے کے بعد مرحوم نے اس مزدور کو اپنے کمرے میں بلایااور اس سے دست بستہ معافی چاہتے ہوئے کہا دوست مجھے معاف کردو میں نے تم پر الزام لگایا ہے اور پھر مزدور کی آنکھوں میں تڑپنے والے بے شمار سوالوں ک جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا ۔
ہوا یہ کہ روپئے کسی طرح جیب سے گر کر نیچے رکھے ہوئے اخباروں مایں دب گئے تھے ۔ اب جو اخباروں کی گڈی اٹھائی تو اس کے نیچے سے روپئے بر آمد ہوگئے ۔
غلطی تو بے شک مرحوم ہی کی تھی کہ انھوں نے مضبوط ثبوت کے بغیر مزدور کو سارق سمجھ لیا تھا ۔لیکن پھر بر ملا انھوں نے اپنی غلطی کی معافی چاہ کر یہ ثابت کردیا تھا کہ وہ فطری طور پر عظیم ہیں ۔ بڑائی اور عظمت ان کے لہو میں تحلیل ہے ۔ آخر وہ یہ بھی تو کرسکتے تھے کہ روپئے مل جانے کے بعد کوسی کو ہوا بھی نہ دیتے اور چپ ہو کر بیٹھ جاتے لیکن وہ ایسا نہیں کرسکے انھوں نے کھلے عام اور کھلے الفاظ میں اپنی غلط فہمی کی دت بستہ معافی طلب کرلی اور اس طرح انھوں نے یہ ثابت کردیا کہ بڑا آدمی اگر اپنی غلطی کا اعتراف کرلے تو اس سے اس کی بڑائی میں کوئی اضمحلال پیدا نہیں ہوتا ۔ بلکہ اس کے بڑے پن میں ایک گوہ اضافہ ہوجاتا ہے ۔ چنانچہ وہ مزدور جو اس واقعہ سے پہلے انھیں صرف ایک بڑا عالم سمجھتا تھا ، اس واقعہ کے بعد ایک بڑا انسان بھی سمجھنے لگا ۔
کئی بار میں انھیں ایسے لوگوں سے معافیاں طلب کرتے دیکھا ہے معاشرہ جنھیں جوئی حیثیت نہیں دیتا اور دنیا جنھیں ذلیل سمجھتی ہے اپنی غلطی مان لینے کی صفت فی زمانہ عنقا اور نادر الوقوع ہوچکی ہے ۔ میں نے کئی بار بڑے بڑے چوٹی کے پر ہیز گاروں کو غلطیوں اور لغزشوں کا شکار ہوتے دیکھا ہے لیکن میری آنکھوں نے یہ منظر کبھی نہیں دیکھاکہ ان پرہیز گاروں نے اپنی غلطیوں اور لغزشوں کا اعتراف کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہو کہ وہ واقعی خدا ترساور پرہیز گار ہیں۔ تصنع ،تکلف،بناوٹ اور عاجزی و انکساری کی ایکٹنگ عام ہے ۔لیکن فی الحقیقت کتنے ایسے لوگ ہیں جو واقعی خود کو چھوٹا حقیر اور ذرہ بے مقدار سمجھتے ہوں۔۔۔؟
مومنانہ اعتماد
بے شک مومن کوے کی طرح چالاک نہیں ہوتا ۔ وہ اکثر دنیا کے بچھائے ہوئے دام فریب میں آجاتا ہے ۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ مومن سچ بولتا ہے ،صداقت کا پرستار ہوتا ہے ۔ جھوٹ سے اسے نفرت ہوتی ہے ۔ وہ اس کذب خفی ار کذب جلی کے پاس بھی جانا نہیں چاہتا جس کو اس کے مذہب نے منافقت کی نشانی قرار دیا ہے ۔
اور نفسیات یہ کہتی ہے کہ جھوٹا آدمی کبھی دووسروں پر اعتماد نہیں کرتا اور سچ بونے والا ہر کاذب کی لن ترانیوں پر بھی ایمان لانے کے لئے تیار رہتا ہے ۔ کاذب و صادق کو پرکھنے کی سب سے بہترین کسوٹی یہی ہے جو شخص دسروں پر بڑی حد تک اعتماد کرتا ہے سمجھ لیجئے کہ وہ خود بھی قابل اعتماد ہے اور جو دوسروں کی دعوں کو ہوائی اور کھوکھلے سمجھتا ہے یقین کر لیجئے کہ اس کے اپنے دعوے بھی ہوائی اور کھوکھلے ہوتے ہیں ۔
مرحوم عامر عثمانی صاحب میں جہاں اور صفتیں تھیں وہاں یہ صفت بھی موجود تھی کہ وہ دوسروں کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے ۔دوسروں پر خصوصاً پرانے۔ یہ سب ان کے حق میں ہمیشہ غیر مفید ہی رہی ۔ یا ر لوگ ان کی اس صفت کو کمزوری پر محمول کرتے ہوئے بہت کچھ ناجائز فائدہ اٹھا لیاکرتے تھے ۔
ایسے ہزاروں واقعات نقل کئے جاسکتے ہیں کہ ان کے مومنانہ اعتماد کا دنیا نے غلط فائدہ اٹھا یا ۔ لیکن کاغذ کی تنگ دامانی تفصیل میں جانے کی اجازت نہیں دیتی بس ایک واقعہ سن لیجئے :
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک طالب علم نے مولانا کے پاس ایک جوڑی کڑوں کی رکھوائی بطور رہن اور بطور قرض دوسو(۲۰۰)روپئے مرحوم سے وصول کر لئے ، مدت گذر گئی وہ طالب علم لوٹ کر ہی نہیں آئے ۔ طویل در طویل انتظار کے بعد بھی ۔۔۔ان طالب علم کی کہیں جھلک نظر نہیں پڑسکی تو مرحوم کو خیال ہوا کہ کہیں وہ مر تو نہیں گئے ۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ ان کے مر۔۔چلنے کی تحقیق کس سے کی جائے ۔ ان کے پاس ان کا مکمل تحریر نہیں تھا ۔ مکمل کیا غیر مکمل پتہ بھی موجود نہیں تھا جس ۔۔۔سہارا لے کر ان کی تلاش کی جاتی ۔ مجبوراً صبر کئے بیٹھے رہے۔ 
ایک دن مرحوم کو خیال ہوا کہ ان کے کڑوں کے بارے میں یہ تحقیق کی جائے کہ وہ کتنے وزن کے ہیں اور بازار میں کتنی قیمت میں فروخت ہوسکتے ہیں ۔فوراً ہی انھوں نے ۔۔خیال کو عملی جامہ پہنایا اور بکس میں سے وہ کڑے نکالے۔۔۔میں سے بعض افراد نے ان کڑوں کا مشاہدہ کرتے ہی پر۔۔آواز میں کہا۔ یہ کڑے سونے کے نہیں رولڈ گولڈ کے ہیں یونی زیادہ سے زیادہ پندرہ روپئے کے ۔
اب مولانا کا یقین دیکھئے ۔بولے:
نہیں ۔یہ ہرگز نہیں ہوسکتا ۔ تم لوگوں کو سونے کی پہچان ہی نہیں ہے ۔ یہ یقینی طور پر سونے کے ہیں ۔
گھر والوں کا دعویٰ وہی تھا کہ خالص رول گولڈ ۔۔مرحوم گھر والوں کے دعوے کی تردید کرتے رہے اور یہی ر۔۔رہے کہ تم لوگ پہچاننے میں غلطی کھارہے ہو ۔ یہ سونے ہی ۔۔ہیں۔
اب گھر والوں نے کہا آخر آپ اتنے یقین کے ۔۔انھیں سونا کیوں قرار دے رہے ہیں ۔ 
مرحوم نے مطمئن لہجہ میں کہا۔ اس لئے کہ یہ کڑے ۔۔دارالعلوم کے طالب علم نے بطور رہن رکھوائے تھے ۔۔۔سو فیصد ی یقین ہے کہ دارالعلوم کا طالب دھوکا نہیں دے سکتا البتہ تمہاری سمجھ ٹھوکر کھاسکتی ہے۔
گھر والوں نے کہا مناظرہ ختم آپ کسی سنار کو دکھایا ،سنار کی سمجھ تو ٹھو کر نہیں کھاسکتی ۔ بات معقول تھی ،انھوں نے بازار میں جاکر ایک سنار کو کڑے دکھائے اور سنار نے ہی کہا جو اہل خانہ کہہ رہے تھے ۔ بے میل اور خالص رول گولڈ ۔۔۔۔سونے کا حبہ بھی شامل نہیں ۔گھرواپس آئے تو اہل خانہ نے پوچھا کہئے کیا رہا۔
۔۔۔ہے تو رول گولڈ ہی لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ اس بے چارے طالب علم کو کسی سنار نے سونا کہہ کر رول گولڈ ۔۔بھیڑ دیا ہو۔ یہ تو کوئی ضروری نہیں کہ فریب کاری طالب علم ۔۔ نے کی ہے۔
قارئین یہ واقعہ پڑھ کر خداجانے کیا رائے قائم کریں ۔۔۔ لیکن میرا یہ دعویٰ ہے کہ یہ مومنانہ اعتماد تھا ۔اور اس کی نظریں مرحوم اسلاف کی زندگیوں میں تو نظر آتی تھیں آج کل کے بزرگوں میں نظر نہیں آتیں ۔اور اگر کچھ نظریں ہیں تو ۔۔برائے نام اور برائے ذکر۔
***

مولاناعامرعثمانی


مولاناعامرعثمانی 
ماہر القادری
مولانا عامرعثمانی سے پاکستان بننے کے بعد کراچی میں ملاقات ہوئی اور پہلی ہی ملاقات میں ایسا محسوس ہوا جیسے ہم دونوں ایک دوسرے کی صورت دیکھنے قبل بھی دوست تھے ۔ دیو بند سے وہ کراچی اپنے والدین اور بھائیوں سے ملنے کے لئے کئیبار آئے ۔اور ان سے مسلسل ملاقاتوں کے بعد بھی سیری نہیں ہوئی ،تشنگی باقی رہی!مولانا عامر عثمانی اور راقم الحروف کے درمیان نسل و رنگ اور قوم و وطن کا نہیں دین کا رشتہ تھا ۔ اس رشتہ سے زیادہ قوی و مستحکم کوئی دوسرا رشتہ نہیں !جو وہ سوچتے اور لکھتے تے ۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میرے خیالات لڑگئے ہیں اور میرے محسوسات کا توارد ہوگیا ہے ۔افکار و خیالات میں اس قدر ہم آہنگی اور یک رنگی کم ہی دیکھنے میں آئی ہے۔
مگر یہ دنیامیں جس میں انتہائی مخلص دوستوں ، عزیزوں اور مخلص خیر خواہوں سے بھی اختلافات کے موقعے آجاتے ہیں ۔ مشہور ناصبی العقیدہ اہلقلم محمود عباسی کے موقف کی تائید میں جو تحریریں ماہنامہ ’’تجلی ‘‘میں شائع ہوئیں تو مولانا عامر عثمانی کے اس موقف پر راقم الحروف کو حیرت بھی ہوئی اور وجدان نے اذیت بھی محسوس کی ، میں نے ان کو کئی خط بھی لکھے اور ’’فاران ‘‘ میں بھی عامر عثمانی کی تحریروں پر نقد و احتساب کیا ۔ میرے لئے یہ شدید مرحلہ تھا ۔ ایک طرف گہری دوستی ،مخلصانہ روابط اور برادرانہ تعلقات تھے اور دوسری طرف اظہار حق کے تقاضے تھے ۔ میں سکوت بھی اختیار کرسکتا تھا لیکن دوست کی رو رعایت کے لئے ضمیر کی آواز کو دبانا میرے بس کی بات نہ تھی ۔ راقم الحروف نے وہی بات کہی جو اس کے نزدیک حق تھی ۔
پھر اللہ کرنا ایسا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے قبولِ حق کے لئے ان کا سینہ کھول دیا ، حق ان پر چڑھتے ہوئے سورج کی طرح واضح ہوگیا ۔عامر عثمانی ؔ نے اپنے موقف سے رجوع کرکے محمود عباسی کی کتابوں پر اس قدر مدلل جرح و تنقید کی کہ پڑھنے والے عش عش کر نے لگے ! بھارت میں جن نامی گرامی علمانے مولانا مودودیؒ کی ’خلافت و ملوکیت کو طنز و تنقید کا ہدف بنایا اور مولانا موصوف پر اہانتِ صحابہؓ کا جھوٹا الزام لگایا تھا ۔ ان کی تحریروں ، کتابوں کے مولانا عامر عثمانی نے دلیل و برہان کی تیغ براں سے پر خچے اڑادئے ۔
دارالعلوم دیو بند کی مجلس شوریٰ کے رکن اور جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا محمد میاں کی کتاب ’’شوا ہد تقدس ‘‘کا ماہنامہ ’’تجلی ‘‘میں اس قدر مہارت و بصیرت کے ساتھ پوسٹ مارٹم کیا گیا کہ یہ کتاب (شواہد تقدس) شواہد جہالت نظر آنے لگی ! تنہا اس شخص نے دیو بند میں رہ کر ، جماعت اسلامی کی مخالفت کے طوفان کا منہ پھیر دیا ہے اور جیشِ تحریک اسلامی کے اس اکیلے سپاہی نے جماعت اِسلامی اور مولانا مودودیؒ کے مخالفین و معاندین کی پلٹن کا مقابلہ کیا ہے !
راقم الحروف اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر ، آخرت کی جواب دہی کے احساس کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار کررہا ہے کہ مولانا عامر عثمانی نے بڑے بڑے علماء دین جن کے علم و فضل کے ڈنکے بج رہے ہیں ان کی کتابوں اور تحریروں پر خالص علمی اور فقہی انداز میں جب گرفت کی ہے تو مرحوم کی تنقید پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوا ہے کہ یہ علما ئے علم نہیں عقل و بصیرت سے بھی کورے ہیں ۔
مولانا عامر عثمانی ؒ کا مطالعہ بحر اوقیانوس کی طرح عریض و طویل اور عمیق تھا ۔وہ جو بات کہتے تھے کتابوں کے حوالوں اور عقلی و فکری دلائل و براہین کے ساتھ کہتے تھے ۔ پھر سونے پر سہاگا زبان و ادب کی چاشنی اور سلاست و رعنائی ،تفسیر ،حدیث ، فقہ ‘تاریخ، لغت و ادب غرض تمام علوم میں مولانا عامر عثمانی کو قابل رشک بصیرت حاصل تھی ۔ جس مسئلہ پر قلم اتھاتے اس کا حق ادا کردیتے ۔ایک ایک جزئیہکی تردید یا تائید میں امہات الکتب کے حوالے پیش کرتے ، علمی اور دینی مسائل میں ان کی گرفت اتنی سخت ہوتی کہ بڑے بڑے چغادری اور اہل قلم پسینہ پسینہ ہوجاتے ! انھیں اپنی رائے اور فکر پر ، مطالعہ اور استدلال پر پورا اعتماد تھا اس لئے ہر عالم اور مفکر سے بلند و بالا ہوکر اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے !راقم الحروف ان کی تحریر کا ایک ایک لفظ پڑھتا اور پڑھنے کے بعد محسوس ہوتا کہ میں نے بہت کچھ حاصل کرکیا۔ مولانا عامر عثمانی اپنی ذات سے دبستانِ علم و فضل تھے ۔
مولانا عامر عثمانی ؒ کے فقہی جوابات میں ناول جیسی ادبی دلچسپی اور زبان کی چاشنی ہوتی ۔ کیسے کیسے نازک مسائل کی مرحوم نے کس خدا قت و مہارت کے ساتھ گرہ کشائی کی ہے ! ’’مسجد سے میخانے تک ‘‘ ماہنامہ ’’تجلی ‘‘کا مستقل عنوان تھا ۔ اس میں مزاح و ظرافت کا وہ چٹخارہ کہ :
فتادذائقہ در موج کوثر وتسنیم 
مزاح وظرافت کا مقصد لوگوں کی تفریح طبع اور ہنسنا ہنسانا نہیں بلکہ عبرت و موعظت کا درس دیناتھا ! ان چٹکیوں اور گدگدیوں میں وہ بڑے کام کی باتیں کر جاتے ۔
دارالعلوم دیوبند میں ماہنامہ ’’تجلی ‘‘ پر قد غن تھی مگر نہ جانے کتنے گلبہ چھپ چھپا کر ’’تجلی ‘‘ کا مطالعہ کرتے ! مولانا عامر عثمانی مرحوم دارالعلوم دیو بند کے فارغ التحصیل اور اکابردیو بند کے عقیدت مند تھے مگر لکیر کے فقیر نہ تھے !دیو بند کے متوسلین اپنے اکابر کی عقیدت میں جو غلو کرتے ہیں مولانا عامر اس سے محفوظ تھے اور اپنے بڑوں کی غلطیوں کی تائید اور تاویل نہیں کرتے تھے ،اگر دیو بندی حضرات مولانا عامر عثمانی کی روش اختیار کرتے تو دیو بند کی مخالفت میں ’’زلزلہ‘‘نام کی کتاب وجود میں نہ آتی ۔ 
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ مولانا عامرعثمانی کے عمِ محترم تھے ۔ان کے والد حضرت مولانا مطلوب الرحمن قدِس سرہٗ حضرت شیخ الہند ؒ سے بیعت تھے ۔ مگر عامر عثمانی ؒ کو پیری مریدی سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا ۔ تجلی میں عجمی تصوف پر خوب کس کر تنقید کرتے رہتے تھے ۔شرک و بدعت کی تردید او توحیدو سنت کی تبلیغ و اشاعت ان کا سب سے زیادہ محبوب مشغلہ تھا۔ انھوں نے ہزاروں صفحے شرک و بدعت کی تنقیص و تردید میں لکھے ہیں اور مشرکانہ عقائد و رسومکے ایک ایک جزئیہ پر احتساب کیا ہے ،اس میدان میں وہ ہر وقت شمشیر برہنہ رہتے تھے !ان کے مفاخرو حسنات کا سب سے روشن باب شرک و بدعت کے خلاف قلمی جہاد ہے ، جس کا آخر ت میں انشاء اللہ العزیز اجر غیر ممنون انھیں ملے گا۔
اس تمام علم و فضل اور ذہانت و بصیرت کے باوجود مولانا سید الولاعلیٰ مودودیؒ کے انتہائی قدر شناس ،عقیدت منداور مداح تھے ۔مولانا مودودی کو وہ امام العصر اور مجتہد وقت بلکہ اس دور کا مجدد سمجھتے تھے۔مولانا مودودیؒ کی مدافعت میں وہ ہر محاذ پر سینہ سپر نظر آتے تھے ۔
فاران میں کتابوں پر جس انداز میں نقد و تبصرہ کا جاتا ہے ‘ ۔۔۔۔کئی رسالوں نے اختیار یا مگر وہ اسے بناہ نہ سکے ۔ مولانا عامر عثمانی ؒ نے ’’تجلی‘‘ میں اس انداز کو پوری طرح برقرار رکھا ،شعر و ادب اور زبان پر ’’فاران‘‘ کی تنقیدیں ’’تجلی ‘‘ کی تنقیدوں سے شاید کچھ نکلتی ہوئی ہوں ، مگر علمی مباحث اور کتابوں پر ’’تجلی ‘‘ کی تنقیدوں کا جواب نہیں ! یہ مولانا عامر عثمانی کا حصہ تھا ، جہاں تک علم و فضل کا تعلق ہے راقم الحروف کی ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں تھی ۔
اب سے تقریباً بائیس برس قبل مولانا عامر عثمانی تشریف لائے تو ان کی زبان سے اس قسم کی غزلیں : ؂
یہ قدم قدم بلائیں ،یہ سوادِ کوئے جاناں 
وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری
سن کر بڑی مسرت ہوئی ، پھر انھوں نے ’’تجلی ‘‘ میں ابوالاثر حفیظ ؔ جالندھری کے شاہنامہ کی بحراور انداز پر سیرت النبی کے منظوم واقعات کا سلسلہ شروع کیا ، جو خوف تھا اور اسے پسند کیا گیا ! پھر ایک ایسا دور بھی آیا کہ ان کی شاعری کا شوق بجھ ساگیا۔اس پر میں نے ان کو لکھاکہ شعر کہنا ترک نہ کیجئے ،اللہ تعالیٰ نے شعر گوئی کی جو صلاحیت آپ کو دی ہے اسے کام میں لائیے۔
پاکستان اور ہندوستان کے مابین برسوں سے ڈاک بندر ہنے کے بعد جو ڈاک کھلی تو مولانا عامر عثمانی سے مراسلت کا موقع ملا انھوں نے اپنے کئی قطعے بھیجے ،اور اپنی شاعری کے بارے میں میری رائے دریافت کی ، میں نے انھیں جواب میں لکھا کہ فلاں فلاں مصرعوں کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوا کہ آپ کو بھی ’ترقی پسند ‘‘ شاعری کی برائے نام ہی سہی جھپٹ لگ گئی ہے ایک دو مصرعوں کا تجزیہ بھی میں نے کیا کہ ان میں یہ مقامات محلِ نظر ہیں ، میری تنقیدو مشورت کا انھوں نے برا نہیں مانا۔
عجب واقعہ ہے کہ یا تو وہ ایک زمانے میں شاعری سے بے تعلق ہوگئے تھے مگر کئی برس سے شعر گوئی کا شغف بڑھ گیا تھا۔ کوئی شک نہیں وہ نغز گوشاعر تھے ! کئی مہینے ہوئے میرے پاس ان کا خط آیا کہ مہینہ بھر صوبہ مدراس کے مختلف شہروں کا سفر کیا ، ہر جگہ مشاعرے پڑھے پانڈے چیر ی اور کیرالہ بھی ہو آیا ۔ جس دینی مشن کے وہ مبلغ تھے اور ان کو علم و فضل کا جو بلند مقام حاصل تھا اس کے دیکھتے ہوئے مولانا عامر عثمانی کی مشاعروں میں مسلسل شرکت ان کے نیاز مندوں کی نگاہ میں قدرے محسوس ہوئی وہ ’’ماہرالقادری ‘‘ نہیں ۔ ’’مولانا عامر عثمانی تھے ۔‘‘
پو نا کے جس مشاعرے میں شعر پڑھتے ہوئے ان کا انتقال ہوا ہے ۔اس مشاعرے اور ہندوستان کے متعدد شہروں کے مشاعروں کی دعوت راقم الحروف کو ملی تھی ۔ادھر سے اصرار کی کوئی حد و نہایت ہی نہ رہی ۔ خطوط ہی نہیں تار بھی آئے ،فون بھی بمبئی سے گفتگو ہوئی ،کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ نے بسترِعلالت سے دو خط لکھے کہ خدا کے لئے کسی طرح آجاؤ ! مگر میرا جانا نہ ہوسکا ! روزنامہ ’’دعوت‘‘دہلی میں ’’مولانا عامر عثمانی کے آخری چند دن ‘‘ کے عنوان سے جناب محمد داؤد (نگینہ) نے ایک مضمون قلم بند کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں :
’’مولانا عامر عثمانی تین روز تک برابر خاموش پڑے رہے ۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ افاقہ ہونے لگا، آپ نے گھر والوں سے اور ڈاکٹروں سے اپنے بمبئی جانے کے ارادے کا اظہار کیا ، ڈاکٹروں نے کہا کہ ہم اتنے طویل سفر کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتے ۔ آپ کو مسلسل آرام کی ضرورت ہے ۔اس پر مولانا نے کہا کہ اچھا اجازت نہیں دیتے ۔ تو بغیر اجازت ہی چلا جاؤں گا ۔ گھر کے لوگوں نے جب آپ کو اس سفر سے باز رکھنا چاہا تو آپ نے بڑے پر اعتماد لہجے میں کہا میں وہاں ضرور جاؤں گا ، میرا بچپن (۱؂)کا دوست ماہرالقادری آرہا ہے اس سے ملنے کو میرا بے انتہا دل چاہتا ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘
(۱؂مولانا عامرعثمانی مرحوم نے ’’بچپن ‘‘ نہیں کہا ہوگا ، وہ مجھ سے عمر میں بہت چھوتے تھے اور ان سے پہلی بار ملاقات کراچی میں پاکستان بننے کے تین چار برس بعد ہوئی تھی ۔(م۔ق) ) 
جماعت اسلامی مہاراشٹر کے رکن جناب عبدالرحمن صاحب کا میرے نام بمبئی سے جو خط (مورخہ ۱۴/اپریل ) آیا ہے اس میں صاحبِ موصوف نے لکھا ہے :
’’ایک جانکاہ خبر سنانے جارہا ہوں جس کے لئے نہ دل آمادہ ہے نہ قلم چل رہا ہے لیکن مشیت ایزدی کے آگے ہم بے بس ہیں ،مولانا عامر عثمانی صاحب کا پرسوں شب میں پونہ میں انتقال ہوگیا ۔اناللہ واناالیہ راجعون۔
انجمن خیرالاسلام کے ایشیائی مشاعرے میں شرکت کی غرض سے بمبئی تشریف لائے تھے ،مشاعروں سے مرحوم کو کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی ، لیکن چوں کہ آپ بھی شریک ہونے والے تھے لہٰذا آپ سے ملاقات کی شدید خواہش کے پیشِ نظر گذشتہ ماہ جب وہ بمبئی تشریف لائے تو ہم لوگوں سے فرمایا تھا کہ اس ایشیائی مشاعرے میں انھیں مدعو کیا جائے تو اچھا ہے ۔چنانچہ بڑی کوششوں کے بعد ان کو دعوت بامہ جاسکا ،کسے معلوم تھا کہ یہ بلاواصلاًاللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہوا ہے ۔پندرہ بیس روز قبل دل کا ایک دورہ پڑچکا تھا ۔ ۲۴ گھنٹے بے ہوش رہے اور ابھی صحت بمبئی کے سفر کی متحمل نہیں تھی ، مگر آپ سے اور دیگر رفقاء سے ملاقات کے شوق میں چلے آئے ۔ احتیاطاً اپنے برادرِ نسبتی کو ساتھ لے لیا تھا ۔ ۱۱/اپریل کو صابو صدیق ٹکنک گراؤنڈ پر کلام بیٹھ کرسنایا ، کچھ بدعتی حضرات نے ہوٹنگ کردی ۔ اس کے بعد مرحوم اسٹیج سے اٹھ گئے ۔ ہم لوگ بھی ان کے ساتھ نکل آئے ۔ڈاکٹر عبدالکریم نائک صاحب نے ایک مشہور CARDIOLOGISTکے نام چھٹی لکھ کر مجھے دی کہ دوسرے دن میں وہاں لے جاکر معائنہ وعلاج کراؤں ۔
لیکن دوسرے دن منتظمین مشاعرہ اصرار کر کے انھیں پونہ کے مشاعرے میں لے گئے جہاں مرحوم نے کلام سنایا ، خوب داد حاصل کی ، کلام سنا کر بیٹھے اور برادرِ نسبتی کے زانو پر سر رکھ کر ابدی نیند سوگئے ! ڈاکٹر نائک صاحب وہاں موجود تھے فوراً کار میں لے کر بمبئی روانہ ہوگئے ۔ یہاں سے ہم نے دیو بند ٹرنک کال لگائی لیکن کامیابی نہیں ہوئی ۔ امیر جماعت اور مفتی عتیق الرحمن صاحب کے مشورے سے بمبئی میں تدفین کردی گئی ، مفتی صاحب ہمارے فون کے فوراً بعد بذریعہ کار دیو بند تشریف لے گئے ہم نے تو ہوائی جہاز کے ذریعہ میت بھیجنے کے انتظامات کر لئے تھے لیکن مفتی صاحب کے مشورے کو ترجیح دی گئی ۔
’’مرحوم کو آپ سے خصوصی تعلق تھا ۔پچھلی بار بمبئی تشریف لائے و بڑے شوق سے آپ کا تذکرہ فرمارہے تھے ۔ آپ کے اس مشورے کا بھی تذکرہ کیا جو آپ نے انھیں شاعری نہ چھوڑ نے کے سلسلہ میں دیا تھا ۔ جماعت اسلامی کے تعلق سے پاکستان میں آپ نے جس محاذ کو سنبھالا ہے اس محاذ پر ہندوستان میں مرحوم چومکھی لڑائی لڑرہے تھے ۔اس لحاظ سے جماعت کا بڑا نقصان ہوا ۔ مرحوم کے قلم میں جو روانی ،تیزی اور منطقی انداز تھا وہ بے مثل ہے ، اللہ تعالیٰ نعم البدل عطا فرمائے ،ان کی حسنات کو قبول فرمائے اور لغزشوں سے درگزر ۔۔۔۔۔۔‘‘
یہ اللہ تعالیٰ کا محض فضل و کرم ہے کہ مجھ جیسے معمولی حیثیت اور سطحی استعداد کے شخص کی اتنے بڑے لوگوں کے دل میں اتنی محبت ڈال دی گئی ہے !
بعض اشعار اور ضرب الامثال رسمی طور پر ہر لکھے پڑھے اور عالم کے لیے لکھ دئے جاتے ہیں مگر مولانا عامر عثمانی کی موت فی الحقیقت ’’موت العالم موتالعالَم‘‘کی صحیح مصداق ہے ،اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے ۔