Showing posts with label عامرعثمانی کی شاعری. Show all posts
Showing posts with label عامرعثمانی کی شاعری. Show all posts

Sunday, March 24, 2013

حسن کی بارگاہیں گلی درگلی لالہ وگل کے جلوے چمن درچمن


عامرعثمانی کی شاعری
(۴)
حسن کی بارگاہیں گلی درگلی لالہ وگل کے جلوے چمن درچمن
جنتیں اس جہاں میں بہت ہیں مگر آپ کی انجمن آپ کی انجمن
وقت کی گردشوں کابھروسہ ہی کیامطمئن ہو کے بیٹھیں نہ اہل چمن
ہم نے دیکھے ہیں ایسے بھی کچھ حادثے کھوگئے رہ نما لٹ گئے راہ زن
چندفرضی لکیروں کو سجدے نہ کرچند خاکی حدوں کاپجاری نہ بن
آدمیت ہے اک موجۂ بے کراں ساری دنیا ہے انسانیت کا وطن
کتنے شاہیں بسیرے کوترساکئے باغ پر چھاگئے کتنے زاغ وزغن
کتنے اہل وفا دارپرچڑھ گئے کتنے اہل ہوس بن گئے نورتن
صرف شہر سیاست کا ماتم نہیں ہرنگرہرڈگر ایک ساحال ہے 
کتنی قبروں پہ چڑھتی رہیں چادریں کتنے لاشے پڑے رہ گئے بے کفن
دیجئے ترک تقوی کا طعنہ مگر شیخ کا حسن تاویل تو دیکھئے 
جب قدم زہد کے لڑکھڑانے لگے رکھ دیا حسن کا نام تو بہ شکن
بزم میں ایک جوئے رواں ہے جنوں عزم میں ایک برق تپاں ہے جنوں
یہ تماشا ہے عامرؔ جنوں تونہیں مچ گئی ہاؤ ہو پھٹ گئے پیرہن

ماتھے پر تحریر ہے غم کی خشک ہیں لب آنکھیں نم ہیں


عامرعثمانی کی شاعری 
(۳)
ماتھے پر تحریر ہے غم کی خشک ہیں لب آنکھیں نم ہیں
ہم سے ہمارا حال نہ پوچھوہم توسراپاماتم ہیں
روحیں بے کل ،ذہن پریشاں ،سینے کرب مجسم ہیں
اوربظاہراس دنیا کو کیا کیا عیش فراہم ہیں
وہم و گماں کے شیش محل ہیں ریت کے تودوں پرقائم 
او ریقیں کے تاج محل کی بنیادیں مستحکم ہیں
آج کے دور علم وہنر میں مہرو وفاکانام نہ لے
آج پرانے وقت کی ساری قدریں درہم برہم ہیں
فکر و نظر کیاقلب و جگر کیا؟سب ہیں اسیر زلف بتاں
سچ تو یہ ہے صحن حرم صرف ہمارے سر خم ہیں
کل تک جن کی تشنہ لبی کودریا بھی ناکافی تھے 
آج وہی ارباب عزیمت شکر گزار شبنم ہیں
گل چینوں کا شکوہ بے جا ،صیادوں کا ذکر فضول
میرے چمن کے مالی عامرؔ صید نفاق باہم ہیں

نہ سکت ہے ضبط غم کی ،نہ مجال اشک باری


عامرعثمانی کی شاعری 
(۲)

نہ سکت ہے ضبط غم کی ،نہ مجال اشک باری 
یہ عجیب کیفیت ہے نہ سکوں نہ بے قراری
ترا ایک ہی ستم ہے ترے ہرکرم سے بھاری 
غم دوجہاں سے دیدی مجھے تونے رستگاری
مری زندگی کا حاصل ترے غم کی پاسداری
ترے غم کی آبرو ہے مجھے ہر خوشی سے پیاری
یہ قدم قدم بلائیں یہ سواد کوئے جاناں
وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری
ترے جاں نوازوعدے مجھے کیا فریب دیتے
ترے کام آگئی ہے مری زود اعتباری
مری رات منتظر ہے کسی اورصبح نوکی 
یہ سحر تجھے مبارک جو ہے ظلمتوں کی ماری
مری عافیت کے دشمن مجھے چین آچلاہے 
کوئی اور زخم تازہ کوئی اورضرب کاری
جو غنی ہوماسواسے وہ گدا گدا نہیں ہے
جواسیر ماسوا ہو وہ امیر بھی بھکاری

جینا بھی اسی کا حق ہے جسے ، مرنے کا سلیقہ آتا ہے


عامرعثمانی کی شاعری 
(۱)
جینا بھی اسی کا حق ہے جسے ، مرنے کا سلیقہ آتا ہے 
جومرنے سے گھبراتا ہے ،وہ جیتے جی مرجاتا ہے 
بے سوز و تپش ، بے درد و خلش، بے عمرابد بھی لاحاصل 
آغاز وہی ہے جینے ک ، جب دل کو تڑپنا آتا ہے 
جو پاک خدا کے بندوں پر ، کرتے تھے خدائی کے دعوے 
اب ان کا سفینہ اپنے ہی‘دریا میں تھپیڑے کھاتا ہے 
وہ دیکھ !افق سے آگ اٹھی ، بادل گرجا ،طوفاں آئے 
وہ دیکھ ! نظامِ کہنہ کو ، کس رنگ سے بدلا جاتا ہے 
تھا وہ بھی زمانہ اے عامرؔ !بازو تھے ہمارے تیغ وسناں 
اب تیغ وسناں کی صورت کو دیکھے سے پسینہ آتا ہے