Showing posts with label ظہیردانش عمری کے مضامین. Show all posts
Showing posts with label ظہیردانش عمری کے مضامین. Show all posts

Saturday, March 23, 2013

حیدرآباد کے چند اہم جدیدغزل گو


حیدرآباد کے چند اہم جدیدغزل گو 
ظہیر دانشؔ عمری
حیدرآباد فرخندۂ بنیاد مختلف تہذیبوں کا جامع شہر ہے، جس کا سنگ بنیاد ابراہیم قلی قطب شاہ(1580-1550) کے تیسرے فرزند محمد قلی قطب شاہ(1611-1580) نے رکھا، حیدرآباد کی تعمیر 1000ھ میں چار مینار کی تعمیرسے شروع ہوئی، جس کا اختتام 1007ھ میں ہوا(۱)اردو کے حوالے سے حیدرآبادکو مرکز کی حیثیت پہلے بھی حاصل تھی اورآج بھی ہے، جامعہ عثمانیہ وہ پہلی یونیورسٹی ہے جس میں اردو زبان کو ذریعۂ تعلیم کی حیثیت سے اختیار کیا گیا، یہاں کے حکمرانوں نے جیسی اردو کی سر پرستی کی اس کے لیے اپنے خزانے کھول دئے تواردو کے بیشتر ارباب کمال نے حیدرآباد کا رخ کیا اور ان کی خوب قدرافزائی کی گئی، جن میں سے چند قابل ذکر نام یہ ہیں: داغ دہلوی، امیرمینائی، فانی بدایونی، جوش ملیح آبادی ، صدف جائسی۔
دکنی شاعروں سے لے کر آج تک حیدرآباد کے شعرانے غزل سے جیسی محبت وعشق کا اظہار کیا ہے، غزل کو جس نزاکت کے ساتھ استعمال کیا ہے، اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ذیل کے مضمون میں حیدرآباد اہم ترین جدید غزل کے شاعروں کا تذکرہ مختصر طور پر کیا جاتا ہے۔
جدید غزل کے شاعروں میں خورشید احمدجامی(۱۹۱۰۔۱۹۷۰) کو صفِ اول میں جگہ دی جاسکتی ہے موصوف مشاعروں میں بہت کم شرکت کرتے تھے، البتہ رسائل وجرائد کو اپنا کلام پابندی سے ارسال کیاکرتے تھے، غزل کو نئے استعاروں اور تشبیہات کے ذریعے آپ نے ثروت مند بنایا، آپ کے شعری مجموعے ’’رخسار سحر‘‘ ’’برگ آوار‘‘ ’’یاد کی خوشبو‘‘ ’’قسمت عرض ہند‘‘ آج کل نایاب ہیں، اپنی شاعری کے تعلق سے موصوف نے لکھا ہے: ’’نئے ذہن اور نئے شعور کے سویرے میں ایسی ہی ایک حقیر سی کوشش میری غزلوں میں نظر آئے گی۔ میرے فن نے تجربات کی دھوپ میں جوزخم چنے ہیں ان کو پیار کی خوشبو سے مہکا کر نذرحیات کرتا ہوں‘‘(۲)
تمھارے درد کو سورج کیا ہے نیا اسلوب غزلوں کودیا ہے
کچھ نہیں ان راستوں میں دور تک کھڑا کھڑاتے خشک پتوں کے سوا 
بہت دنوں سے میرے دل کے پاس ہوتی ہے کوئی نگاہ کسی حسرت بیاں کی طرح
کوئی ہلچل ہے نہ آہٹ نہ صداہے کوئی دل کی دہلیز پہ چپ چاپ کھڑا ہے کوئی
مخدوم محی الدین، سکندر علی وجہ، شاذتمکنت اور سلیمان اریب کی شاعری میں جدیدیت کی گہری چھاپ نظر آتی ہے، خواہ شاعری کے موضوعات ہوں یا اسلوب، ان کی شاعری جدت طرازی سے آراستہ ہے، سلیمان اریب (۱۹۲۲۔۱۹۷۰) ترقی پسند تحریک کے روح رواں تھے، اس کے لیے آپ کوکئی مرتبہ زنداں کا قیدی بھی بنایا گیا۔ چاررسائل کے مدیر رہے۔ اخیر میں اپنا رسالہ صبا جاری کیا۔ جو آخری تک نکالتے رہے۔ شاعری کے دو مجموعے ’’پاس گریباں‘‘ ’’کڑوی خوشبو‘‘ شائع ہوچکے ہیں۔
لب پر آہیں، سینے خالی ایسے عاشق عام بہت ہیں
ویسے پینا جرم نہیں ہے لیکن ہم بدنام بہت ہیں
ہم سے آوارہ مزاجی کا بھرم ہے ساقی اپنی پرواز میں جبریل کا دم ہے ساقی
لڑکھڑاتے ہوئے اُٹھے تو فلک تک پہونچے یہ بھی تیری نگہہ لطف وکرم ہے ساقی
سلیمان اریب نے آزاد نظم، نثری نظم، رباعی اور قطعہ میں بھی طبع آزمائی کی۔
’’موسم سنگ‘‘ اور ’’ایک سخن اور‘‘ کے شاعر مضطر مجاز(پ:۱۹۳۵) جدید غزل کے اہم شاعر ہیں آپ نے منظوم ترجمے کی جانب بھی توجہ دی، علامہ اقبال کے فارسی مجموعے طلوع مشرق، پیام مشرق، اارمغان مجاز اور جاوید نامہ کے ترجمے کیے، فی الحال روز نامہ منصف کے ادبی صفحے کی ادارت آپ کے ذمے ہے، منصف کے معتبر ومعیاری ادبی صفحے سے آپ کی ادبی صلاحیتوں کا ہلکا سا اندازہ ہوتا ہے۔ عالم خوند میری، پروفیسر سید وحیدالدین سلیم، ڈاکٹر مغنی تبسم نے آپ کی شعری وترجمہ نگاری کی صلاحیتوں کو تسلیم کیا اور آپ کی توصیف کی، موصوف نے اپنی غزل میں استعارات کے ساتھ ساتھ جدید دور کے مختلف واقعات کو بطور تلمیح اپنی غزل میں برتا ہے، آپ کی غزل میں اسلامی مزاج رکھنے والے بیشتر شعر بھی ہمیں ملتے ہیں۔
اس چمن میں کیا یہی دستورہے پھول کے تم مستحق پتھر کے ہم
میں نگاہ باغباں میں کوئی اور ہوگیاہوں ابھی چاردن ہوئے کہ جلا ہے آشیانہ
رؤف خیر ؔ (پ:۱۹۴۸) نے بکثرت لکھا اور متعدد ادبی رسائل وجرائد میں مسلسل چھپتے رہے۔غزل کے ساتھ ساتھ نظم ،رباعی ہائیکو کے علاوہ بیشتر نئی اصناف سخن میں اپنے تخلیقی جوہر دکھائے،اقرا (۱۹۷۷) ایلاف (۱۹۸۲) شہداب(۱۹۹۱) سخن ملتوی (۲۰۰۴) خیریات(۲۰۱۰) آپ کی شاعری کے صحیفے ہیں، آپ کسی بھی موضوع کو بشرطیکہ وہ اچھوتا اور انوکھا ہو بڑی بے ساختگی کے ساتھ اپنی شاعری کا حصّہ بناتے ہیں، آپ کی غزلوں میں مذہبیات سے متعلق بہت سے شعر مل جاتے ہیں،مسلکاً اہلحدیث ہونے کے سبب اپنی شاعری کو قرآن وسنت کا ترجمان بنانے میں بہت حدتک کامیاب نظر آتے ہیں، اپنی شاعری کے بارے میں رؤف خیر یو ں لکھتے ہیں:
’’میرے اپنے محسوسات، جذبات ، تجربات ومشاہدات دسروں سے کسی نہ کسی سطح پر مختلف ہیں۔یہی میرے ہونے کا جواز ہے۔۔۔میں کوشش یہی کرتا ہوں کہ کوئی ایسی بات نہ کہوں جو کہی ہوئی ہے میری تخلیقات گواہ ہیں کہ خود اپنے آپ کو بھی میں کبھی نہیں دہراتا میں شاعری میں آزری کا نہیں بت شکنی کا قائل ہوں۔ اس کے باوجود زبان وبیان کی تمام تر باریکیوں کا لحاظ رکھنے کی امکان بھر کوشش کرتا ہوں، میں چونکہ زبان وبیان سے کھلواڑ نہیں کرتا اس لیے اہل نظر میرے شعر کو پسند کا درجہ دیتے ہیں‘‘(۳)رؤف خیر کی شخصیت اور ان کے فن پر صبیحہ سلطانہ ایم۔فل کی ڈگری حیدرآبادسنٹرل یونیورسٹی سے حاصل کی ہے۔
اب رتجکے ہیں جیسے لہو میں رچے ہوئے کیا رات تھی کہ ایک کہانی میں کٹ گئی 
کیا بھرے اشجار آخر ہاتھ خالی ہوگئے بس ہوا گزری تھی یونہی ڈالی ڈالی کھیلتے
دوقدم چلتے ہی اب تو پھولنے لگتی ہے سانس ہاتھ پاؤں میں اگر دم ہوتا کچھ بھی کھیلتے
سورج ہے کہ بس نوک پہ سوئی کی کھڑا ہے اب فرصت کم کم بھی میرے بھائی کہاں ہے
خوں چوستے لمحوں سے کہو ہاتھ پساریں احساس کی صورت ابھی زردائی کہاں ہے
وہ شخص بڑے چاؤ سے کچھ پوچھ رہا ہے تو ایسے میں اے لذت گویائی کہاں ہے
رؤف خیر کی ہر غزل کی خاصیت یہی ہے کہ اس میں کم از کم دوتین شعر ضرور ایسے مل جاتے ہیں جو اُن کی شناخت کا وسیلہ بنتے ہیں۔
اسد ثنائی کی شاعری میں خود شناسی وخود اعتمادی کا جو احساس ہے وہ ان کے معاصرین میں کم ہی ملتاہے، اپنے متنوع اسالیب، موضوعات کے سبب اسد کی غزل اور نعت یگانہ محسوس ہوتی ہے۔ آپ کی غزلیات کا مجموعہ شہر جاں کی سرحدیں ۲۰۰۳ میں شائع ہواتھا۔ جس کے بعد نعتوں کا مجموعہ مشک آسماں ۲۰۰۶ء میں شائع ہوا ہے’’ الأنصار‘‘ نامی نہایت خوب صورت، معیاری اور ضخیم سالنامہ شائع کرتے ہیں جو تسلسل کے ساتھ اشاعت پذیر ہورہا ہے، مناظر عاشق ہرگانوی ،جمیل الدین شرفی، سکندر احمد، شہزاد سلیم نے آپ کی غزل ونعت کی کھل کر تعریف کی ہے۔ حیدرآباد کے جدید غزل کے معاصر شعرامیں آپ کانام نمایاں ہے، غزل میں آپ کا کمال فن انتہا کو پہونچتا ہوا محسوس ہوتا ہے بقولِ مناظر عاشق ہرگانوی: ’’اسدثنائی کی نظموں اور غزلوں میں تیقن ملتا ہے۔ جذبے کے لطیف ترین عنصر کی فراونی ملتی ہے اور فکری بلندی کی قوت سے بو قلموں نکات ومسائل میں بے ساختہ پن ملتا ہے ۔کلاسیکت اور جدیدیت کے رجحان کے امتزاج کی پاسداریہ غزلیں اور نظمیں فکر انگیز اور مثبت سوچ رکھتی ہیں‘‘ (۴) راہی فدائی نے آپ کے کی نعت کے حوالے سے لکھا ہے: ’’اسد ثنائی نے غزلوں کے علاو نعتوں میں بھی جدت طرازیاں دکھلائی ہیں‘‘(۵)
درد کے آتش کدے سے اب دھواں اُٹھتا نہیں جسم زندہ ہے مگر احساس مردہ ہوگیا
نئے مزاج نئے راستوں کی خواہش میں جدیدیت کا پیمبر بنا ہنر سے گیا
آنکھ بے خواب ہوگئی ایسی جسم ہو جیسے بے لباس کوئی
عمر بھر جس کا ساتھ میں نے دیا زندگی کیا ہے ! ناسپاس کوئی
رات بھر جاگتا ہے دیوانہ اپنی آنکھوں میں لے کے پیاس کوئی 
اس محفل کے سب سے کم عمر اور آخری شاعر سردار سلیم ہیں۔جنہوں نے بہت ہی کم عمری میں اپنی شاعری کے ذریعے بڑے بڑے نقادوں اور شاعروں کو اپنا معتقد بنالیا ہے، ’’دھیان کی رحل‘‘ ’’راگ بدن‘‘ اور ’’رات رانی‘‘ آپ کے شعری مجموعے ہیں، سردار سلیم کی غزل میں ہلکا سا طنز موجودہ معاشرے پر ملتا ہے، اس کے علاوہ قدیم وجدید موضوعات بھی آپ کے مخصوص اسلوب میں غزلاتے گئے ہیں، آپ کے تیسرے مجموعے’’رات رانی‘‘ کاپیش لفظ مولانا سید جمیل الدین شرفی نے لکھا ہے، نوجوان شاعر کی خوب توصیف کی اور انصاف پسندی سے کام لیا، ورنہ عام طور پر بڑی عمر والے لوگ کم عمروں کی تحقیر کرتے نظر آتے ہیں۔
حضرت جمیل الدین شرفی کا مختصر اقتباس پیش کیا جاتا ہے: ’’سردار سلیم اپنے مجموعہائے شعری سے ثابت کرچکے ہیں کہ وہ اردو زبان وادب میں اضافے اور ترقی کا باعث ہیں، ان کا فن اور زبان کو برتنے کا ڈھنگ خوب سے خوب تر ہے، غزل ہوکہ نظم دوہا ہو کہ گیت ہر صنف میں اپنی پہچان آپ ہیں۔ جدید آزاد لہجے پر بھی عبور کے مالک ہیں، پابند اور روایتی اسلوب میں بھی وہ یکتا ہیں‘‘(۶)
اور خود سردار سلیم کو اس بات کی بڑی شکایت ہے کہ ان کے ہمعصروں میں حیدرآباد میں ان کے علاوہ کوئی ایسا شاعر نہیں ہے، جس سے امیدکی جاسکتی ہے کہ سچی اور اچھی شاعری سے اردو ادب کو مالامال کرے گا، ان کا یہ خیال واحساس کچھ غلط بھی نہیں ہے، بقول سردار سلیم: ’’سچ کہوں تو میرے آس پاس کے ماحول میں شاعری کی بہتات ہے مگرمیں نہ جانے کیوں اسے قحط شعر کا عہد کہنے پر مجبور ہوں۔۔خصوصاًمیرے دیار محبت حیدرآباد میں شاذؔ ، جائی اور مخدومؔ کے بعدآنے والی کھیب میں چند ایک میرے پسندیدہ شاعر ہیں لیکن اس کے بعد والی جس سے میرا تعلق ہے نہایت کمزور اور بے جان ہے‘‘(۷)
؂ اناج پانی وفا آبروراحت یہاں کسی نہ کسی شئے کا کال چلتا رہا
ہوس ہرن کی طرح پھرتی رہی تھیں چوکڑیاں خمیر مست قلندر کی چال چلتا رہا
زباں اب کھلی جبکہ تم جارہے ہو تو پہلی دفعہ آخری بات کرلیں؟
مجھ کو جی بھر کے دیکھ لینے دو گفتگو مت کرو،مگر بیٹھو
دل کو اتنا ہی چین ملتا ہے اس کی محفل میں جس قدر بیٹھو
آج خود کو جواب دینا ہے آج دنیا سے بے خبر بیٹھو
یہ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے اہم ترین جدید غزل گو تھے، جن کا ذکر بہر حال ضروری تھا۔ ان کے علاوہ بھی کچھ اور جدید غزل گو ہوسکتے ہیں۔ جن کے یہاں جدید رجحانات واحساسات کا پتہ چلتاہو لیکن فہرست سازی میرا مقصد اور کام نہیں ہے۔
***
حواشی
(۱) مآثر دکنی سید علی اصغر بلگرامی، ص:۷
(۲) انتخاب کلام جامی، مئی ۱۹۹۶، ص:۵۶
(۳) خیر یات، رؤف خیر، ۲۰۱۰، ص:۵ اور ۶
(۴) شہر جاں کی سرحدیں، اسد ثنائی، ۲۰۰۳، ص :۱۴
(۵) مشک آسماں، اسد ثنائی، ۲۰۰۶،ص:۱۵۷
(۶) رات رانی، سردار سلیم، ۲۰۰۶،ص:۹
(۷) رات رانی، سردار سلیم، ۲۰۰۶،ص:۴
Zaheer danish Umari,8/209-5,Almas pet,Bismilla Nagar,Kadapa 516001(A.P)Cell:9701065617 E-mail:zaheer_dani@yahoo.co

نیر مسعود کے افسانے


نیر مسعود کے افسانے

ظہیردانش عمری
8/209-5,almas pet,kadapa 516001 A.P cell:9701065617
نیرمسعود ہمارے دور کے بہترین افسانہ نگار ہیں ،آپ نے اردو ادب کو ایسے لاجواب اور بے مثال افسانے دئے ہیں کہ ان کی قرات سے حیرت اور مسرت ہوتی ہے ،میں نے موصوف کے افسانے شمس الرحمن فاروقی کے زمانہ ساز رسالے شب خون میں پڑھے ،طاؤس چمن کی مینا وہی پہلا افسانہ تھا جیسے پڑھنے کا مجھے موقع تھا ،اس افسانے میں ماضی اور حال اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ انہیں ایک دوسرے سے جدا کرنا قریب قریب ممکن نہیں ہے ،نیز مسعود کے افسانوں کا مجموعہ ’’طاوس چمن کی مینا ‘‘ کے عنوان سے ۱۹۹۸ میں شائع ہوا تھا ،اس میں نیز مسعود کے دس افسانے شامل ہیں ،سب سے پہلا افسانہ ‘‘بائی کے ماتم دار ‘‘ ہے جو واحد متکلم کی تکنیک میں بیان ہوا ہے ،کہانی کا ر سب سے پہلے اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ اسے دلہنوں سے خوف آتا ہے ،مگر یہ خوف ایک عرصے بعد کی پیداوار ہے ،پہلے پہل تو اسے دلہنیں دلچسپ اور خوب صورت معلوم ہوتی تھیں مگر جیسے ہی ایک واقعہ رونما ہوتا ہے تو کہانی کا رکے دل میں عشق کی جگہ خوف ودہشت پیدا ہوجاتی ہے ،دولہن کو جب زیورات کے ساتھ دفن کردیا جاتا ہے تو دولہا رات میں اس قبر کھودتا ہے ،بعد میں لوگوں سے اس بات کا ذکر کرتا ہے کہ دولہن کے زیورات اس سے چمٹ گئے تھے افسانہ جب ختم ہوتا ہے تو وہاں بھی اسی نوع کا واقعہ نمودار ہوتا ہے کہ ایک ضعیف بائی جب مرجاتی ہے اس کے رشتہ دار ماتم کے لیے جمع ہوتے ہیں تو اس کے سارے زیورات اس سے زبردستی چھین لیتے ہیں،اس وجہ سے بائی کے جسم کے مختلف مقامات سے خون آنے لگتا ہے ،بائی کے شوہر باہر گئے ہوئے ہیں ،وہ چار دن کے لوٹتے ہیں تو ان کو ساری بات بتادی جاتی ہے اور وہ لوٹ جاتے ہیں ۔
یہ افسانہ خوف کی فضائیں میں پروان چڑھتا ہے ،دولہن کے زیورات کا خوف ،لیکن جب کہانی کار کے اندر کا شعور جاگتا ہے تو اس کا خوف جاتا رہتا ہے ،ہم اس افسانے پر غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ کہانی کار نے اس میں انسانی لالچ کی تصویر کشی کی ہے ،لالچ ایسی چیز ہے جس کی انتہا نہیں ہے لالچ کے سبب ایک شخص قبر میں اُترنا پسند کرتا ہے ،مردہ انسان کے تن سے زیورات نوچنا لالچی کے لیے ایک عام اسی بات ہے ،نیز مسعود نے اس افسانے میں معاشرے کی زوال پذیر قدروں کا ماتم کیا ہے کہ رشتہ داری ،محبت اور خلوص کی مال ودولت کے سامنے کوئی قدر وقیمت نہیں ہے ۔
’’اہرام کا میر محاسب ‘‘ مختصر افسانہ ہے ،مگر اس سے افسانہ نگار کا مطمع نظر واضح نہیں ہے نیز مسعود کہنا کیا چاہتے ہیں میں بالکل بھی نہیں سمجھ سکا ہوں ،
’’رے خاندان کے آثار‘‘ یہ افسانہ ماضی کا نوحہ بیان کرتا ہے ،بظاہر یوں لگتا ہے کہ افسانہ نگار کو رے خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک عورت کی تلاش ہے لیکن کیا صرف ایک خاتون کی تلاش مصنف کا مقصد ہے ؟بالکل نہیں ،مصنف نے اس کی آڑ میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ماضی سے ہمارا تعلق کمزور سے کمزور تر ہوتا جارہا ہے ،کہانی جیسے ہی شروع ہوتی ہے مصنف کا مدعا واضح ہونے لگتا ہے ،پرانی اور یادگار چیزیں جن سے ہماری زندگی کی کوئی نہ کوئی سنہری یادوابستہ ہوکیا اس لائق بھی نہیں ہوتیں کہ انہی سینت کررکھا جائے ،دوسرے لفظوں میں مصنف نے ہم سے سوال کرنے کی کوشش کی :
’’اسی الجھن کے زمانے میں ایک دن میں نے ایک صپخی کی اس دیواری الماری کو کھولا جس میں میرے بچپن کے زمانے کی فضول چیزیں بھری ہوئی تھیں ،الماری کے پٹوں کی لکڑی گل گئی تھی ۔۔۔خود میر اسامان اوپر اور نیچے ہوئے قلم ،چاقوؤں کے زنگ کھائے ہوئے پھل ،جادوئی تماشے دکھانے کا ٹوٹا پھوٹا ہوا سامان ،بچوں کے پھٹے پرانے رسالے وغیرہ تھے ۔۔۔الماری کی باقی چیزوں کو دیکھ کر کچھ نہ کچھ یاد آتا تھا ،مجھے یقین ہوگیا کہ میں ان میں سے ایک چیز کو بھی الگ نہیں کرسکتا ‘‘(طاؤس چمن کی مینا ،ص:۷۰)
اس افسانے میں افسانہ نگار نے بڑی گہری باتیں بڑی سادگی سے بیان کردی ہیں ،ماضی ایسی سنہری چیز ہے کہ جس سے قطع تعلق کرلینا کسی طور مناسب نہیں ،انسان جب اپنے ماضی سے منسلک ہوتو اس کا حال ومستقبل درخشاں ہوتا ہے ،بین السطور میں موصوف نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اگر آپ خلوص دل سے کسی چیز کو تلاش کریں تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ چیز آپ کو نہ ملے ،طلب سچی تو ہر قسم کی تلاش میں انسان کا میاب ہوتا ہے ۔
اینجیلا رے کے تعلق سے اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے راوی بتاتا ہے کہ اُسے صرف ایک مرتبہ اینجیلارے کے گھر جانے کا موقع ملا ،وہ پہلا اور آخری موقع تھا ،رے کی ماں آخری وقت آن پہونچا تھا ،راوی اس موقع کو یوں بیان کرتا ہے :
’’ہم لوگ ان کے آخری وقت میں انہیں دیکھنے گئے تھے ۔وہ پہلا اور آخری موقع تھا جب میں نے انجیلا کا گھر اور انجیلا کو گھر میں دیکھا تھا ،چھوٹا سا پھولوں کی دو تین کیاریوں اور مور پنکھی کے ایک درخت کی وجہ سے باغچہ کہا جاتا تھا ۔۔۔’’آؤ‘‘ انہوں نے اپنی سہیلیوں سے کہا اورجب ہم کمرے سے باہر نکلنے لگے تو وہ مجھ سے بولیں :’’تم چاہے یہیں بیٹھو ‘‘ لیکن میں سب کے پیچھے پیچھے باہر نکل آیا ،پتلے بر آمدہ میں داہنے ہاتھ پر ایک اور دروازہ تھا اور اس سے کچھ آگے بڑھ کر ایک اور ،ہم اس آخری دروازے میں داخل ہوئے ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔کمبل میں لپٹا ہوا سکڑا بدن مجھے نظر نہیں آیا لیکن کھلے ہوئے چہرے کو میں نے غور سے دیکھا یہ میری طرف کروٹ لیے ہوئے ایک بوڑھی عورت کا جھلسا ہوا کھئی چہرہ تھا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی اور بند تھیں ،چہرے سے اذیت ظاہر تھی لیکن وہ عورت ہنس رہی تھی ،اس طرح کہ سفید دانتوں کی دونوں قطاروں کی آخری داڑھیں تک دکھائی دے رہی تھیں ،کمرے کی خاموشی میں مجھے اینجلا کی تیز سسکی اور گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی : ’’اُدھر نہ دیکھو !‘‘ لیکن میں نے دیکھا کہ اس ہنستی ہوئی عورت کے مرجھائے ہوئے ہونٹ سختی سے بھنچے ہوئے ہیں ،مگر اس کے دانت اب بھی اسی طرح نظر آرہے تھے ،تب مجھے پتہ چلا کہ وہ ہنس نہیں رہی تھیں ،ہونٹوں کے کونے سے لے کر کان کی لوتک اس کے داہنے رخسار کا سارا گوشت گل کر غائب ہوچکا تھا ‘‘ (۸۰ اور ۸۱)
اس اقتباس سے بڑا ہی درد اور کرب ٹپکتا ہے ،اس افسانے کا بین السطور بڑا معنی خیز اور قابل توجہ ہے ،اس افسانے میں جو واقعات بیان ہوئے ہیں ان کا بالکل اخیر میں پتہ چلتا ہے کہ وہ کوما کی حالت میں ہیں ،اور راوی اس سے ملاقات کیے بغیراپنے گھر کی راہ لیتا ہے ،نیز مسعود کا افسانہ ایک کامیاب اور بے مثال افسانہ ہے ،اس کی تعریف جتنی بھی کی جائے کم ہے ،کیونکہ اس میں افسانے کے تمام فنی لوازم موجود ہیں ۔
نیز مسعود کے افسانوں میں خوابناک فضا کی موجودگی قاری کے لیے دلکشی کا باعث بنتی ہے ،خواب انسانوں کے لیے ہمیشہ سے ہی وجہ دلکشی رہے ہیں ،یہ دلکشی تب اور بڑھ جاتی ہے جب اس کے ساتھ عمدہ اور اعلیٰ تخیل بھی شامل ہوجاتا ہے ،موصوف کا ایک افسانہ ’’تحویل ‘‘ اس کی بہترین مثال ہے ،اس میں نو روز نامی ایک دکاندار کی کہانی کا بیان ہے نو روز کسی فرد واحد کا نام نہیں بلکہ ایک نوروز کے بعد جب دوسرا شخص دکان سنبھالتا ہے تو اسے نوروز کا نام دے دیا جاتا ہے ،خواہ اس کا خاندانی نام امروز ہوکہ افروز ،اسی دکان کے بارے میں نیز مسعود لکھتے ہیں :
’’یہ دکان کئی پشتوں تک چلتی رہی اور دکان کے مالک کا نام ہر پشت میں نو روز ہی رہا ،حالانکہ ملکیت سنبھالے سے پہلے اس کا نام کچھ اورہوتا تھا لیکن دکان پر اس کے بیٹھنے کے بعد سب لوگ اسے نو روز کہنے لگتے ،شاید اس کیے اس دکان کو نوروز کی دکان کیا جاتا تھا ‘‘(ص:۹۱)
کہانی کاراوی بھی نور روز کا کردار نبھاتا ہے ،جس کے سبب نو روز کی تمام مصروفیات ہمارے علم میں آجاتی ہیں ،کہانی کے راوی سے پہلے جو نوروز تھا اس کی دوبچیاں تھیں ان کے پالنے کی ذمہ داری راوی اُٹھاتا ہے اور وہ بھی اس لیے کہ اُس سے قبل کا نوروز پاگل ہوچکا ہے ،کچھ تخیل کچھ حقیقت کے مابین کہانی ارتقاء کا سفر طے کرتی ہے ،اس میں اپنے قاری کو جکڑلینے کی پوری صلاحیت موجود ہے ،تجسس تو مجبور کرتا ہی ہے کہ پوری کہانی پڑھ لیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کہانی کی زبان اور اسلوب میں بھی وہ قوت وطاقت ہے کہ قاری اسے پڑھنے پر مجبور ہوجائے۔
’’طاؤس چمن مینا ‘‘ اردو کے چند بہترین افسانوں میں رکھے جانے کے لائق ہے ،یہ کالے خان کی داستان ہے ،جو ایک نواب کے یہاں ملازم ہے،کالے خان کی بیٹی کا نام فلک آرا ہے ،یہ داستان فلک آراء اور ایک پہاڑی مینا کے آس پاس گھومتی ہے ،فلک آرا پہاڑی مینا کے لیے ضد کرتی ہے مگر کالے خان کی یہ استطاعت نہیں کہ اسے خریدسکے ،جب بچی کا اصرار بہت بڑھا تو کالے خان نے کچھ دن کے پہاڑی مینا چرالی اور واپس بھی رکھ دی ،مگر چوری کا راز اس وقت کھلنا ہے جب میناؤں کو تعلیم دی جاتی ہے ،کالے خان نے جو میناچرائی تھی وہ پکار اُٹھتی ہے ‘‘ فلک آراء شہزادی ہے .دودھ جیسی کھاتی ہے ۔کالے خاں کی گوری گوری بیٹی ہے ‘‘ اس کے بعد لمبا قصہ ہے ،بلآخر کالے خاں رہا کردیا جاتا ہے ۔
اس افسانے میں نیر مسعود نے نوابین لکھنؤ کے شوق کی تفصیل بیان کی ’’طاؤس چمن ‘‘ جیساکہ نام سے ظاہر ہے موروں کا چمن ،موروں کو مختلف درختوں سے تراش خراش کر ایسی شکل دی گئی تھی کہ نقل پراصل کا گمان ہوتا تھا ،اس چمن کے ایک ایک جزئیے کی ایسی تفصیل بیان کی گئی کہ آنکھوں کے سامنے اس کی تصویرس کھنچ جاتی ہے ،مثال کے طور پر :
’’اور میں پھر قفس کو دیکھنے لگا اندر سے وہ ایک چھوٹا ما قصر باغ ہورہا تھا ۔فرش پرسنگ سرخ کی بجری بچھی ہوئی تھی ،بیچ میں پانی سے بھرا ہوا حوض جس میں چھوٹی چھوٹی سنہری کشتیاں تیررہی تھیں اور ان کشتیوں میں بھی تھوڑا تھوڑا پانی تھا ،فرش پر لال سبز چینی کی نیچی نیچی ناندوں میں پتلی لمبی شاخوں والے چھوٹے قد کے درخت تھے ،دیواروں سے ملی ملی بسنت مالتی ،بشن کانتا ،جوہی کی بیلیں تھیں ،ان میں ٹہنیوں سے زیادہ پھول تھے اور انہیں اس طرح چھانٹا گیا تھا کہ قفس کی خوب صورتی ان میں چھپ جانے کے بجائے اور اُبھر آئی تھیں ،جگہ جگہ ستاروں کی وضع کے آئیے جڑے تھے جن کی وجہ سے قفس میں جدھر دیکھو پھول ہی پھول نظر آتے تھے ،پانی کے کاسے ،دانے کی کٹوریاں ،یانڈیاں،چھوٹے چھوٹے جھولے ،گھومنے والے اڈیّ،پتلے پتلے مچان اور آشیانے ہر طرف تھے اور انہیں سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ جگہ پرندوں کے لیے ہے ‘‘ (ص: ۱۵۰)
لکھنؤ کی تہذیب ،نوابوں کے جونچلے اگر کوئی دیکھنا چاہے تو اس افسانے کا مطالعہ کرلے کہ کس طرح ایک شخص کو خوش کرنے کے لیے مصاحبوں اور جی حضوری کرنے والوں کی پھیڑ کی پھیڑ لگی رہتی ہے ،زبان کا سلیقہ ،نزاکت لکھنؤ کے علاوہ اور کہاں مل سکتی ہے ۔
لکھنؤ کے بارے میں نیر مسعود کے بیانات کو اہم مانا جائے گا ،نیر مسعود لکھنوی ہیں کسی بھی وطن کے بارے میں اہل وطن سے بڑھ کر اور کون جان سکتا ہے ،نوابین قدیم صرف برائی کا مجموعہ نہیں تھے ان میں بہت سی خوبیاں بھی تھیں ،جیسے اگر وہ کسی سے خوش ہوجاتے تو کرم وعطا کی بارش کردیتے ،جو دوسخا اور دریادلی کئی نوابوں کی شان وفطرت رہی ہے ،اس افسانے میں اس کی ایک جھلک ہمیں اس وقت دکھائی دیتی ہے جب کالے خاں کو معاف کردیا جاتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی نواب صاحب کا یہ فرمان بھی ہوتا ہے کہ چوری اس گھر میں کرتے ہیں جہاں مانگنے سے ملتا نہ ہو ۔
بات کرنے کا سلیقہ ،بڑوں کا ادب ،رکھ رکھاؤکا بیان تفصیل سے اس افسانے میں کیا گیا ،اس میں نوابوں کی بخشش کا احوال بھی ہے اور ناراضگی کا فسانہ بھی ،افسانے کا اختتام غیر متوقع ہے ۔
’’لکھنؤ میں میرا دل نہ لگتا اور ایک مہینے کے اندر بنارس میں آرہنا ،ستاون کی لڑائی ،سلطان عالم کا کلکتہ کا تباہ ہونا ،قیصر باغ پر گواروں کا دھاوا کرنا ،کٹہروں میں بند شاہی جانوروں کا شکار کرنا ،ایک شیرنی کا اپنے گورے شکاری کو گھائل کرکے بھاگ جانا ،گوروں کا طیش میں اکر داروغہ بنی بخش کو گولی ماردینا،رلب دوسرے قصے ہیں اور ان قصوں کے اندر بھی قصے ہیں ،لیکن طاؤس چمن کی مینا کا قصہ وہیں پر ختم ہوتا ہے جہاں ننھی فلک آرا میری گود میں بیٹھ کر اس کے نئے نئے قصے سنانا شروع کرتی ہے ‘‘ (۱۸۵اور ۱۸۶)
ان افسانوں کے علاوہ کچھ اور افسانے نے نیر مسعود کے اس میں شامل ہیں مگر ان میں ہو دلکشی اور جاذبیت نہیں ہے جو قاری کو اپنے دام میں گرفتار کرلے ۔
بہرکیف اس میں شک نہیں کہ نیر مسعود نے اپنے قاری کو اپنے جذبات سے آگاہ کرنے کے لئے افسانے کا سہارالیا اورپوری دلچسپی اورتوجہ کے ساتھ بہت ہی عمدہ ،توجہ کو اپنی جانب منعطف کرلینے والے افسانے تحریرفرمائے ۔