Showing posts with label نبیوں کی سر زمین فلسطین کی کہانی. Show all posts
Showing posts with label نبیوں کی سر زمین فلسطین کی کہانی. Show all posts

Wednesday, March 27, 2013

نبیوں کی سر زمین فلسطین کی کہانی



نبیوں کی سر زمین فلسطین کی کہانی
مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری
بندر جب انصاف کی کرسی پر بیٹھتا ہے تو بڑے کرتب اور کرشمے دکھاتا ہے اور یہ کرشمے ہنساتے نہیں رلاتے ہیں ،اور وہ بھی خون کے آنسو ۔ انصاف کا خونِ ناحق انسانیت کی آنکھوں سے خشک ہوئے بغیر ٹپکتا چلاجاتا ہے ،تاریخ بتاتی ہے کہ ہر دور میں اکثر بندر ہی انصاف کی کرسی پر براجمان ہوا ہے ۔ مولانا آزاد ؒ رقم طراز ہیں : ’’ تاریخِ عالم کی سب سے بڑی نا انصافیاں میدانِ جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں ہی میں ہوئی ہیں ۔ دنیا کے مقدس بانیانِ مذہب سے لے کر سائنس کے محققین اور مکتشفین تک ،کوئی پاک اور حق پسند جماعت نہیں ہے جو مجرموں کی طرح عدالت کے سامنے کھڑی نہ کی گئی ہو‘‘۔(قول فیصل :۳۴)
کرسی جتنی چاہے اونچی بنالیجیے مگر وہاں تک پہنچنے میں بندر کے لیے رکاوٹ ہی کیا ہے ۔ بندر بانٹ کی ایک ایسی ہی المناک تاریخی کہانی آج آپ کو سنانی ہے جو آپ کی نیند ہی نہیں ہوش بھی اڑادے گی ۔
اقوامِ عالم میں یہودی قوم اپنی سرکشی اور سازشی ذہن کی بدولت بڑی شہرت یافتہ ہے ،خود غرضی اس کی فطرت ہے اور حق تلفی اس کی عادت ۔ انبیاء ورسل کو ستایا ، تنگ کیا اور قتل تک کردیا ،اپنے محسنین کی احسان ناشناسی کی حد کردی ،جس برتن میں کھاتے اسی میں چھید کرنے سے ان کے لیے کوئی اخلاق مانع نہیں تھا ۔ موسیٰ علیہ السلام ان کے محسنِ اعظم تھے ،ذلت وپستی اور بدترین غلامی کی زندگی سے ان کو نجات دلائی ،کوئی اور قوم ہوتی تو موسیٰ کی پوجا کرتی مگر انہوں نے ایسے محسن کو بھی بہت ستایا اور پریشان کیا ۔ ان کا کوئی حکم اور مشورہ قبول کرنے سے انکار کرتے رہے ،بلکہ الٹا ان کی شان میں گستاخانہ رویہ اور جارحانہ ناشائستہ لب ولہجہ اختیار کیے ہوئے تھے ،غلامی کی طویل مدت نے انہیں نزدل بھی اتنا بنادیا تھا کہ موسیٰ نے انہیں اللہ کا فیصلہ سنایا کہ سرزمین فلسطین کو اللہ نے تمہارے حق میں کردیا ہے ،ذراسء جرأت وہمت کا مظاہرہ کرو، کامیاب ہوجاؤ گے۔ ایسی بشارت سن کر بھی ان کی ہمت نہیں ہوئی۔جواب میں کہا:وہاں کی قوم زبردست ہے ،اس مقام کا ایک ایک شخص جب تک باہر نہیں نکل جائے گا ہم داخل ہونے کا خطرہ مول نہیں لیں گے ۔موسیٰ نے اپنی بے بسی کا حال اللہ سے بیان کیا تو فرمان الہی صادر ہوا:قال فانھا محرمۃ علیھم اربعین سنۃ یتیھون فی الارض فلاتاس علی القوم الفاسقین ۔(المائدہ :۲۶) ’’اچھا تو وہ ملک (فلسطین)چالیس سال تک ان پر حرام ہے ، یہ زمین میں مارے مارے پھریں گے، ان نافرمانوں کی حالت پر ہرگز ترس نہ کھاؤ‘‘۔
پورے چالیس برس بھٹکتے رہنے اور دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد یہود فلسطین میں داخل ہوئے ۔چند سو سال چین سے گزرے ہوں گے کہ سن ۵۸۶ ؁ ق م میں آشوریوں اور اہل بابل کے ہاتھوں بڑی ہولناک تباہی سے دوچار ہوئے ۔پھر رومیوں نے سن ۷۰ ؁ء میں یہودیوں کو مار مار کر فلسطین سے نکال باہر کیا ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ملاحظہ ہو :ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الزِّ لَّۃُُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْ آ اِلَّا بِِحَبْلٍٍِ مِّنَ اللّٰہِ و حَبْلٍٍ مِِّنَا لنَّا سِ وَبَآ ءُ وْ بِغَضَبٍٍ مِِّنَ اللّٰہِ وَ ضُرِِ بَتْ عَلَیْھِمُ الْمَسْکَنَۃُ ذٰلِکَ بِاَ نَّھُمْ کَا نُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰ یٰتِ اللّٰہِ وَیَقْتُلُوْنَ الْاَ نْبِیَآ ءَ بِغَیْرِ ھَقٍّ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْ اوَّ کَا نُوْ ا یَعْتَدَُوْنَ (آل عمرآن :۱۱۲)’’یہ جہاں بھی پائے گئے اِن پر ذلت کی مارہی پڑی ،کہیں اللہ کے ذمے یا انسانوں کے ذمہّ میں پناہ مل گئی تو یہ اور بات ہے ۔ یہ اللہ کے غضب میں گھرچکے ہیں ،ان پر محتاجی ومغلوبی مسلط کردی گئی ہے اور یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا ہے کہ یہ اللہ کی آیات سے کفر کرتے رہے اور انہوں نے پیغمبروں کو ناحق قتل کیا ۔یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا انجام ہے ۔‘‘
’’ یعنی دنیا میں اگر کہیں ان کو تھوڑا بہت امن وچین نصیب ہوا بھی تو وہ ان کے اپنے بل بوتے پر قائم کیا ہوا امن وچین نہیں ہے بلکہ دوسروں کی حمایت اور مہربانی کا نتیجہ ہے ،کہیں کسی مسلم حکومت نے ان کو خدا کے نام پر امان دے دی ،اور کہیں کسی غیر مسلم حکومت نے اپنے طور پر انہیں اپنی حمایت میں لے لیا ۔ اسی طرح بسا اوقات انہیں دنیا میں کہیں زور پکڑنے کا موقع بھی مل گیا ہے ،لیکن وہ بھی اپنے زورِ بازو سے نہیں بلکہ محض ’’ بپائے مردی ہمسایہ ‘‘۔ (تفہیم القرآن :۱/۲۸۰)
یہی حقیقت اس یہودی ریاست کی ہے جو اسرائیل کے نام سے محض امریکہ ،برطانیہ اورروس کی حمایت سے قائم ہوئی۔
اللہ رب العزت کے اس فرمان کی صداقت ابدی ہے ،اتنی بڑی دنیا میں یہودیوں کا کوئی ٹھور ٹھکانا نہیں رہا ، جہاں بھی تھے وہ بدیسی اور پردیس کی حیثیت سے تھے ،دنیا کے ہرخطے اور گوشے میں اکے دکے پھیل گئے،ان کو مظلوم جان کر سب نے بھر پور تعاون دیا ،ہمدردی اور دستگیری کی ،مقام ومنصب سے سرفراز کیا ،مگر یہ قوم اپنی فطرت سے مجبور تھی ،بدعہدی ،بدخواہی ،بے وفائی ،خود غرضی اور محسن کشی کی خصلت کے ہاتھوں محسنوں کو نقصان پہنچانے کے لیے سازشون کا جال بننے میں ہمہ تن مصروف ہوگئی ۔ ان کے رہنما ہدایات بھیجتے تھے کہ اپنی اولاد کو دین ،طب اور اقتصاد کے شعبوں میں داخل کراؤ،تاکہ دنیا کے تمام مذاہب میں شکوک وشبہات پیدا کرکے لوگوں کو مذہب بیزار کردیں۔ طب کے ذریعے غیر یہود کے جسم وعقل اور سوچنے کی طاقت اور تعمیری صلاحیت کو کمزور کریں اور اقتصاد میں مہارت حاصل کرکے ہر ملک کی معیشت کو تباہ برباد کرنے کا فریضہ انجام دیتے رہیں ۔
ان کی خفیہ تحریکوں کے خطوط پکڑے گئے ،ناپاک منصوبے ظاہر ہوے،میزبان اور مہربان ممالک زبردست بحران سے دوچار ہوئے ،توسب کی آنکھیں کھلیں ،مغرب کے عیار ذہن کو ان سے ہمدردی تو نہیں تھی اور ہمدردی ہو بھی نہیں سکتی ، کیوں کہ یہود ونصاری کے بنیادی عقائد آگ اور پانی سے بھی آگے ہیں ۔مریم اور عیسیٰ علیہما السلام کو عیسائی الوہیت کی بلندی تک پہنچاکر بھی بس نہیں کرتے ،اور یہودی ان دونوں کو پستی کے اس مقام پر لانا چاہتے ہیں اور ایسا گھناؤنا الزام دیتے ہیں کہ لکھتے ہوئے قلم کانپ جاتا ہے ،اور بولتے ہوئے زبان لڑکھڑانے لگتی ہے ، اس لیے قیامت تک دونوں کی دوستی کا سوال ہی نہیں ہوتا ،مگر وہ جو کہا جاتا ہے علی کی محبت میں نہیں ،معاویہ کی عداوت میں ہمیں یہ کر گزرنا ہے ،علی کا بھلا ہوجائے تو بلا سے ،ہمارے انتقام کی آگ تو ٹھنڈی ہوجائے گی۔مغرب کے دانشور سر جوڑ کے بیٹھے اور ایک تیر سے دوشکار کرنے کی ان مکار شکاریوں کی پرانی عادت ہے ،طے کرلیا کہ یہود کے مکروہ فریب ،شرارت اور سازش سے محفوظ ہونا ہے تو ان کو عربوں کے سروں پر مسلط کردینا چاہئیے،پھر ہم چین کی بانسری بجاتے رہیں گے اور عرب کبھی سر نہیں اٹھاسکیں گے،یہودی عربوں کے سینوں پر زندگی بھر مونگ دلتے رہیں گے ۔
غریب کی بیوی سب کی بھابی ،فلسطین کے عوام فریب ونکبت کا شکار تھے ،شاطر شکاریوں کی نظر اسی طرف گئی ۔یہود کی قدیم تاریخ اس سے وابستہ تھی اور ان کے مذہبی جذبات بھی اسی سے معلق تھے ،وہ بصد مسرت یہاں آبادکاری کے لیے آمادہ تھے ۔بیسویں صدی کے اوائل میں فلسطین دولت آل عثمان کا ایک حصہ تھا ۔شکاری ہر قسم کے جال کے ساتھ سلطان عبد الحمید کے دربار میں پہنچے، سلطان نے ان کی چال کو بھانپ لیا ،ذلت کے ساتھ انہیں بے نیل مرام واپس کردیا ،ارکانِ وفد کو اتنا سخت اور سست کہا کہ وہ مایوس ہو کر کسی گہری سوچ میں ڈوب گئے ۔
۱۹۱۴ ؁ء میں پہلی جنگ عظیم کے شعلے بھڑکے ،ساری دنیا اس کی لپیٹ میں آگئی ،برے انقلابات بساط عالم میں رونما ہوئے ،مئی ۱۹۱۶ ؁ء کے ’’سایکس ییکو‘‘ معاہدے کے تحت برطانیہ کی جھولی میں ’’مرد بیمار‘‘ ترکی کا ترکہ آگیا اور یہود کی بن آگئی ،امید یں بندھ گئیں اور حوصلے بڑھ گئے ع
سیاں ہوئے کتوال اب ڈرکا ہے کا 
فارسی زبان کے شاعر نے بہت پہلے پتہ نہیں کیسے کہہ دیا ع
بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند
ہمارے شہر کے کفن چوروں نے قبروں کی تقسیم کے لیے ایک انجمن (یونین)بنالی ہے، بالکل اسی طرح فلسطین کی ایک اڈہاک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے اپنے دستاویزی دستور کے دوسرے پیراگراف میں اعلان کردیا ’’اڈہاک کمیٹی یعنی برطانیہ کی ذمہ داری ہے کہ فلسطین کی سیاسی ،اقتصادی اور سلامتی امور میں ایسے قوانین ہوں گے جو یہود کے قومی وطن کے نشو ونما کی ضمانت دیں گے۔‘‘
دستور کے پانچویں مادے کی عبارت ہے :’’یہود کی لائق جمعیت کو ایک عمومی جمعیت کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے گا ،وہ فلسطینی محکمہ کی اقتصادی اور اجتماعی امور وغیرہ میں مشیرومعاون کی حیثیت سے شریک رہے ،تاکہ یہود کے قومی وطن کی بنیاد میں اور یہودی باشندوں کے مسائل کی فلسطین میں نگران رہے ۔‘‘
یہ قوانین اور حقوق اس وقت محفوظ کیے جارہے ہیں جب فلسطین میں یہود کی آبادی ۶فیصد کے اندر تھی۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ بلفور (Balfour)نے ۲/نومبر ۱۹۱۷ ؁ء کو یہودی لیڈر( Rothschild)کو لکھا :’’اعلی حضرت کی حکومت فلسطین میں یہود کے ایک قومی وطن کی بنیاد کے لیے نظر کرم رکھتی ہے اور مہربان بھی ہے ۔ساتھ ہی یہ بھی ذہن میں رہے کہ وہاں ایسا کام انجام نہیں دیا جائے گا جو وہاں کی غیر یہودآبادی کے شہری اور مذہبی حقوق کو نقصان پہنچائے اور نہ ان حقوق اور سیاسی حالات کو جن سے یہودی دیگر ممالک میں بہروہ ور ہیں،چھیڑا جائے گا ۔‘‘
مورخ لکھتا ہے کہ آنکھوں میں دھول جھونکنا شاید اسی کو کہتے ہیں ،خالص مسلم ملک میں یہودی وطن کے قیام کا اعلان سب سے بڑا ظلم ،نقصان اور خیانت ہے ۔ اس کے قیام کے بعد یہ نہیں ہونا چاہیے ،وہ نہیں ہونا چاہیے،کھلونے دے کر بہلانے کی بات ہے ۔
ایک طرف یہ سب ہورہا تھا ،دوسری طرف عربوں کی تسلی اور تھپکی دی جارہی تھی کہ قومی وطن سے آپ لوگ یہ نہ سمجھ لیں کہ یہودیوں کی حکومت قائم ہونے جارہی ہے ۔یہ تو صرف ایک روحانی تعلق کے قیام کی بات ہے ،جیسے کرسچن کے لیے واٹیکان ہے اور مسلمانوں کے لیے مکہ، تاکہ یہود مذہبی اور ثقافتی آزادی کے احساس کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکیں۔ ۱۹۳۰ ؁ء میں برطانیہ کے نو آبادیاتی وزیر باسفیلد نے کتاب ابیض میں لکھ دیا کہ ’’ان سب تجاویز اور کارگزاریوں کا مقصد یہودی حکومت کا قیام ہرگز نہیں،کیوں کہ ایسی کوئی بھی بات یا اقدام عربوں سے کیے گئے عہد وپیمان کی خلاف ورزی سمجھی جائے گی۔‘‘
عرب حکومتوں سے صرف وعدے ہوتے رہے اور یہود سے وعدہ وفائی ہوتی رہی ،فلسطین کے اداروں میں یہودی اور یہود نواز انگریزوں کا تقرر زوروں پر شروع ہو گیا ،باہر کے یہودکو ہر قسم کا لالچ دے کر فلسطین میں آباد ہونے کی دعوت عام دی گئی ۔ ۱۹۱۶ء میں پچاس ہزار کے اندر یہودی آبادی تھی ،دیکھتے دیکھتے ۱۹۴۰ ؁ء میں پانچ لاکھ سے اوپر ہوگئی ۔اصلی عرب باشندوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے باہر کرتے رہے ،مسلمانوں کی جائیداد کو منہ مانگی قیمت دینے کے لیے دنیا کے گوشے گوشے میں گھوم گھوم کر فنڈس جمع کیے گئے ۔برطانوی حکومت بنفس نفیس اس مہم کی سرپرستی کرتی رہی ۔عربوں کے دلوں میں بھی مسلمانوں سے روپیہ پیسہ جمع کرکے فلسطینی مسلمانوں کو خوش حال بنانے کا خیال آیا ۔ ۱۹۳۳ ؁ء مین بیت المقدس میں اس سلسلے میں ایک عالمی اسلامی کانفرنس ہوئی ۔ہندوستان جو وفدآیا اس کی یہاں خوب آؤ بھگت ہوئی ،نظامِ حیدرآباد نے دس لاکھ روپئے،طاہر سیف الدین نے پانچ لاکھ روپیئے کا عطیہ دیا ،لاکھ دو لاکھ دینے والوں کے ساتھ ہزاروں میں دینے والے بے حساب تھے ،جلد ہی برطانیہ حکومت اس خطرے کو بھانپ گئی ،وائیسراکو سخت تاکید کی کہ اس کا روائی پر ہرممکن ذریعے سے پابندی لگائی جائے ،کیوں کہ یہ کام تاجِ برطانیہ کی سیاست کے بالکل خلاف ہے ۔
تاریخی حقائق بڑے تلخ ہیں۔ حکومت برطانیہ کے مظالم کی داستانِ ظلم وعدوان کافی دردناک ہے ،یہود کی زمینوں پر برائے نام ٹیکس رکھا گیا ،مسلمانوں کی زمینوں کا ٹیکس ضرورت سے زیادہ تھا ،عدم ادائیگی کی صورت میں زمین سے محروم کردیے جاتے تھے ۔اہم محکمے یہود کے حوالے کردیے گئے ،کلیدی مناصب پر وہی فائز ہوگئے ،اصلی باشندے اپنے ہی وطن میں اجنبی کی طرح کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ،چاروں اطراف مسلمانوں کی حکومتیں تھیں،سب خوابِ غفلت میں یا غرور ونخوت میں مست وسرشار تھے ،حساس اور غیرت مندوں نے جھنجوڑا تو وہی ہنوز دلی دوراست کا جواب دیا ۔دشمن کو بہت حقیر سمجھتے تھے ،کبھی کہتے ’’ان کے مقابلے میں ہمیں خون جلانے کی کیا ضرورت ہے ،ہم بارہ کروڑ سے زائد ہیں ،صرف ایک بار ادھر منہ کرکے دھوک دیں گے تو وہ سب ہمارے تھوک میں غرق ہوکر ختم ہوجائیں گے ‘‘۔ سمندر میں غرق کرنے کی بات آتی تو تحقیر کے ساتھ کہتے :’’ایسا نہ کرو ،ورنہ سمندر ہمیشہ کے لیے نجس ہوجائیں گے‘‘۔غرض عرب باتیں کرتے رہے اور یہودی تیاری کرتے رہے ۔گفتار کے غازی ہمیشہ منہ کھاتے رہے ہیں ،یہاں بھی یہی ہوا ۔ جون ۱۹۶۷ ؁ء میں اسرائیل نے عربوں پر حملہ کردیا ،گھنٹوں میں شام،لبنان،اردن اور مصر کی حکومتوں کو خاک چٹادی اور ایک بہت بڑے حصے پر قابض ہوگیا ۔ حملے کا رعب عربوں پر ایسا بیٹھا کہ اسے ناقابلِ تسخیر سمجھ بیٹھے ۔اسرائیل کی راجدھانی تل ابیب کی جگہ ’’بیت المقدس ‘‘قرارپائی ،مسلمانوں کا قبلۂ اول اور مقاماتِ مقدسہ کی حرمت یہود کے ناپاک عزائم دیکھ کر کراہنے لگے ،اور دہائی دینے لگے۔
عرب حکمرانوں مین شیر ،چیتے ،ہاتھی نام کے بہت سے رہنما ہیں ،مگر ان میں کوئی معتصم ،محمد بن قاسم اور صلاح الدین نہیں ہے ۔امت جب ایسے جیالوں اور دلاوروں سے محروم ہوجائے گی تو ظلم وستم کے لیے تختۂ مشق ہی کا کام انجام دے سکتی ہے ۔آج کامرانی اور کامیابی کی ہرچیز دشمن کے ہاتھ میں ہے ۔ہمارے پاس کیا ہے ؟نہتے بیٹھے تماشہ ہی دیکھ سکتے ہیں ،یا شاعری کرسکتے ہیں کہ ’’مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی ‘‘ اور ’’نگاہ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں ۔‘‘
جدید اسلحہ تو دور کی بات ،قرطاس وقلم کی طاقت سے بھی ہم محروم ہیں ،ورنہ ظلم کا مظاہرہ نہیں تو مظلومیت کا نقشہ ہی کھینچ کر ماحول کو متاثر کرسکتے تھے ۔
شیخ سعدی ؒ کہتے ہیں کہ ایک شخص کے آگے بڑا خوبصورت آدمی آیا اور بتایا کہ وہ شیطان ہے ،دیکھنے والے نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟شیطان کا چہرہ تو انتہائی خوفناک اور مکروہ ہوتا ہے ۔شیطان نے بہت زور کا قہقہہ لگایا اور کہا ؂
بخندید وگفت آں نہ شکل منست ولیکن قلم درکفِ دشمن است 
میرا اصلی چہرہ تو یہی ہے جس میں میں ظاہر ہوا مگر قلم چوں کہ میرا دشمن کے ہاتھ میں ہے اس لیے وہ اپنی مرضی کے مطابق میری تصویر بناتا ہے ۔
میں نے ایک سنجیدہ اور تلخ مضمون میں یہ لطیفہ ہنسانے کے لیے نہیں رلانے کے لیے نقل کیا ہے ۔قلم (ذرائع ابلاغ)ہمارے ہاتھوں میں نہ ہونے کی وجہ سے 
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا 
فلسطینی مسلمان اپنے وطن میں اپنی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے ایک آدھ لٹیرے کو اس کی اوقات دکھائے تو اس کا نام ٹیررسٹ ،آتنگ واد،دہشت گرد کہلائے ،اور ایک لٹیرا معصوم ومظلوم کو اس کے گھرمیں گھس کر سارے اہل خانہ کے سامنے گولیوں سے بھون دے تو وہ بہادر اور جواں مردکہلائے۔ یہ سب زبان وقلم ہی کا تو کرشمہ ہے ۔داددیجیے اس بندر بانٹ کی اور دہرے معیار کی ،واہ رے انصاف ! ؂
بڑی مکار ہے یہ زعفرانی رنگ کی بلی 
میں سیدھی راہ چلتا ہوں تو رستہ کاٹ دیتی ہے
تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے میں نے کچھ تاریخی حقائق قلمبند کردیے ہیں ،سیاست میرا موضوع نہیں ہے ،کچھ کہنے کی جسارت کروں گا تو دخل درنا معقولات شمار ہوگا ،مگر دنیا یہ کہتی ہے کہ آج اسرائیل کے مقابلے میں مسلم حکومتوں کا سکونت کچھ خوف ودہشت کی وجہ سے ہے ۔یعنی اسرائیل کی طاقت کا خوف اورمغربی آقاؤں کی ناراضگی کا خوف ،کیوں کہ وہی ان کی کرسیوں کے محافظ سمجھے جاتے ہیں ،لیکن اصل سبب اتحاد کا فقدان اور مسلم بھائی چارے کا عدمِ احساس ہے اور اپنی اَنا کو قومی مفادات اور دینی ترجحات پر غالب کرنے کا ایک جنون ہے ۔ تجربہ نگار بتاتے ہیں کہ غزہ اسرائیل کے موجودہ حملے کی بابت مصرکی صدر حسنی مبارک کہتے ہیں کہ ’’ غزہ کے لیڈروں نے ہماری بات ٹھکرائی ،جس کی سزاوہ بھگت رہے ہیں ‘‘۔ اگر واقعہ یہی ہے تو مشورہ ٹھکرانے کی سزا اسرائیلی درندوں اور جلادوں سے کیوں دلائی جارہی ہے ؟؟ ایک چھوٹی غلطی کی اتنی بڑی سزا؟؟؟؟