Showing posts with label سعید ریاض. Show all posts
Showing posts with label سعید ریاض. Show all posts

Wednesday, March 27, 2013

احسان کے ہاتھوں


احسان کے ہاتھوں
سعید ریاض
شارق کئی دن سے بہت پریشان تھا۔ اس کی ذراسی غلطی نے اُسے اس طرح الجھادیا تھا کہ وہ جتنا سوچتا ڈور اتنی ہی الجھتی جارہی تھی۔۔۔وہ کیا کرے؟ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ گزرے وقت کا ایک ایک لمحہ اس کے احساس کو زخمی کررہا تھا۔ اُسے یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی اس سے کہہ رہا ہو شارق جذبات اور اُجلت میں کئے گئے فیصلے کبھی کبھی کربناک ہوجاتے ہیں کاش! تم اپنے دوست انور کا مشورہ مان لیتے۔ تم نے اس کی صحیح بات ٹھکرادی اور پھر غلط ہاتھوں میں پھنس گئے۔ اس بات پر شارق کو یاد آیا کہ ایک بار اس کے ابو نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہاتھا۔۔۔
’’شارق بیٹا بُرے لوگوں کا ساتھ بھی بُرا ہوتا ہے ہمیشہ اچھے لڑکوں کے ساتھ رہا کرو۔ اس لئے کبھی کبھی بُرے لڑکوں کی صحبت میں رہنے سے نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔‘‘
آج اسے اپنے ابو کی بات کی سچائی بھی معلوم ہوگئی تھی۔ شارق نے جذبات اور جلد بازی میں کالج کے ایک بدمعاش لڑکے جاوید سے ایک معاملے میں مدد لی تھی اور یہی شارق کی غلطی تھی۔اس لئے کہ اب جاوید اپنی ذرا سی مددکی بھر پور قیمت وصول کررہا تھا۔
شارق مقامی انٹر کالج میں دسویں کلاس کا طالب علم تھا۔ کالج میں اس کے کئی دوست تھے مگر انور اور صادق اس کے جگری دوست تھے۔صادق ایک غریب لڑکا تھا۔بہت ذہین اسے اپنی پڑھائی جارہی رکھنے کے لئے کبھی کبھی بہت پریشانی اٹھانی پڑتی تھی۔ وہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے چھوٹے بچوں کی ٹیوشن کرکے اپنا خرچ چلاتا تھاکچھ اس کے ابو کرتے تھے وہ مزدور تھے۔ انہیں کبھی کبھی کئی کئی دن مزدوری سے محروم رہنا پڑتا تھا۔ شارق رحم دل لڑکا تھا دوسروں کی مدد کرنا اس کی عادت تھی۔ ایک دن وہ کالج آیا تو اس نے اپنے دوست صادق کو کچھ پریشان دیکھا۔ تو اس نے صادق سے پوچھا۔
’’کیا بات ہے صادق! آج بہت پریشان نظر آرہا ہو؟‘‘
’’کچھ نہیں!‘‘ صادق اتنا کہہ کر خاموش ہوگیا تھا مگر شارق نے محسوس کیا کہ صادق کی آنکھوں میں آنسوآگئے تھے یہ دیکھ کر شارق کو اور دکھ ہوا اس نے پھر اس سے کہا۔
’’صادق تم میرے دوست ہو، دوستوں سے دکھ چھپائے نہیں جاتے۔ مجھے بتاؤ کیا بات ہے۔ میں جس قابل ہوں تمہاری مدد کروں گا۔‘‘
’’شارق بات یہ ہے کہ ۔۔۔صادق اس سے آگے کچھ نہ کہہ سکا اور خاموش ہوگیا۔ اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ وہ کچھ کہنا چاہتا چھا مگر نہ جانے کیا بات تھی کہ دل کی بات زبان پر نہیں آرہی تھی۔ اس پر شارق نے اس سے کہا۔
’’دیکھو دوست!اگر ایک دوست پریشانی میں اپنے دوست کا ساتھ نہ دے تو وہ دوستی بیکار ہے۔ تم بے جھجک کہو۔‘‘شارق کی اس بات پر اس نے بڑی مایوس نظروں سے اس کی جانب دیکھا اور بولا۔
’’شارق!مجھے اس وقت کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔‘‘
’’کتنے پیسوں کی؟‘‘ شارق نے پوچھا۔
’’صرف سوروپیہ کی۔‘‘ تو اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے اللہ مددگار ہے۔ شارق نے صادق کو تسلی دیتے ہوئے کہا ۔’’شام کو تمہیں مل جائیں گے۔‘‘
’’تمہارا بہت بہت شکریہ ! شارق تمہارے پیسے ایک ہفتہ میں لوٹا دوں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے صادق ۔ پیسے وقت پر ہی لوٹانے کی کوشش کرنا چونکہ میں یہ پیسے تمہیں کسی سے لے کردوں گا۔‘‘
اس بات کو ایک ماہ گزرگیا ۔ مگر صادق پیسے نہیں لوٹاسکا۔ وہ اپنی کوئی نہ کوئی مجبوری ظاہر کرتا رہا اور حقیقت بھی یہی تھی کہ صادق نے جس بھروسہ پر قرض لیا تھا وہاں سے پیسے ملنے میں دیر ہوگئی تھی۔ اس کے ابو جہاں کام کررہے تھے وہاں سے بھی مزدوری نہیں ملی تھی۔ مگر شارق کو اب شک ہونے لگا تھا کہ شاید صادق پیسے دینا نہیں چاہتا۔ وہ ٹال رہا ہے۔ اسی بات کو سوچ کر وہ پریشان تھا۔
ایک دن شارق بہت صبح اسکول پہنچ گیا تھا تاکہ وہ صادق سے پیسوں کی بات کرلے۔ آج وہ کچھ پریشان ساتھا۔ وہ کلاس کے باہر کھڑا کچھ سوچ رہاتھا کہ ۔۔۔ ایک ساتھی طاہر آگیااور اس نے شارق سے کہا ’’آج تم کالج بہت پہلے آگئے ۔ کیا بات ہے؟‘‘اس پر شارق نے اسے ساری بات بتائی اور بولا۔۔۔
’’اگر اب صادق نے پیسے نہیں دیئے تو میں جاوید سے کیا کہوں گا‘‘ یہ سن کر طاہر نے ایک دم کہا ’’شارق ایسی غلطی مت کرنا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘شارق نے اچانک سوال کیا۔
’’شارق ! طارق نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ تم جانتے ہو جاوید اچھا لڑکا نہیں وہ آوارہ مزاج لڑکا ہے۔ تمہارے پیسے تو مل جائیں گے مگر غریب صادق کو پریشانی اُٹھانی پڑے گی اور تم بھی پریشان ہوجاؤگے۔ ذرا سوچو!اگر جاوید نے تم سے ایک معمولی سے احسان کی قیمت مانگی تو کیا ہوگا؟‘‘
مگر شارق نے طاہر کی بات پر توجہ نہیں دی۔ تھوڑی دیر بعد ۔ جاوید آگیا تو شارق نے جاوید کے سامنے اپنی بات رکھی۔اس پر جاوید نے کہا’’کل تمہارے پیسے مل جائیں گے۔‘‘
اور پھر دوسرے دن صادق نے شارق کی رقم لوٹادی مگر اس کے بعد کئی دن تک کالج نہیں آیا ۔ اور آیا بھی تو چہرہ کچھ اداس ، مرجھایا ہواتھا۔وہ خاموش آیا اور سیٹ پر بیٹھ گیا۔ وہ کئی دن تک ایسے ہی اداس رہا۔ اس سے شارق کو بھی کچھ احساس ہوا۔ اس نے کئی بار سوچا صادق اس کا دوست ہے۔ اس کا فرض ہے کہ اپنے دوست کی پریشانی پر اس سے معلوم تو کرے۔ مگر وہ ہمت نہ کرسکا۔
وقت گزرتا رہا مگر شارق کے دل میں ایک خلش ہوگئی تھی اس لئے کہ صادق نہ صرف کلاس میں خاموش رہنے لگا تھا بلکہ اس نے شارق سے ملنا جلنا ہی کم کردیا تھا۔صادق کے ساتھ ہی طاہر بھی اس سے کھچا کھچا رہنے لگاتھا۔ اب اسے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اس کی ذرا سی غلطی اور جلد بازی نے اُسے دواچھے دوستوں سے محروم کردیا تھا۔ دوسری جانب جاوید کی مدد اس کے لئے ایک عذاب بن چکی تھی۔ کیونکہ جاوید قرض کے نام پر شارق سے کئی بارپیسے لے چکا تھا۔
اس دن شارق پھر پریشان تھا۔ اس لئے کہ جاوید نے آج پھر اس سے کچھ پیسوں کا مطالبہ کیاتھا۔ شارق سوچ رہاتھا کہ جاوید نے اسے صادق سے اس کے سوروپیہ دلائے تھے۔وہ اس احسان کے بدلے میں اس سے ڈیڑھ سو(۱۵۰) روپے قرض کے بہانے لے چکا ہے۔ وہ قرض جس کی وصولیابی ممکن ہی نہیں تھی۔ اب وہ اسے اور پیسے کہاں سے دے۔ وہ تو اپنی جیب خرچ کے بجائے ساری پونجی تو جاوید کو دے چکا ہے۔شارق ایک انجانے خوف سے کانپ رہا تھا۔ اس لئے کہ جاوید نے دھمکی دی تھی کہ اگر تم نے پیسے نہیں دیئے تو اچھا نہیں ہوگا۔ میں نے تمہاری ڈوبی ہوئی رقم دلائی تھی۔
شارق کے کانوں میں جاوید کے الفاظ گردش کررہے تھے۔ میں نے تمہاری ڈوبی ہوئی رقم واپس دلائی تھی۔ مگر اسے یوں لگ رہاتھا اس کی ڈوبی ہوئی رقم تو مل گئی مگر وہ خود ایسے پانی میں ڈوب گیا تھا جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ ہی نظر نہیں آرہا تھا۔ اس کے دوست طاہر کے الفاظ اس کانوں میں باز گشت کررہے تھے۔’’بُرے لوگوں کی مدد سے فائدہ نہیں بڑا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔‘‘ شارق کی آنکھوں میں آنسوں آگئے تھے۔ اس کی نظروں میں غریب صادق کا معصوم چہرہ گھوم رہا تھا۔ اداس پریشان۔ بے ساختہ اس کی منھ نکل گیا۔ اللہ تو مجھے معاف کردے۔‘‘ندامت کے آنسو اس کے گالوں سے پھل کر دامن میں جذب ہورہے تھے۔