Showing posts with label استفسارات عامرعثمانی. Show all posts
Showing posts with label استفسارات عامرعثمانی. Show all posts

Friday, March 22, 2013

قربانی۔


قربانی۔
سوال۸؂:۔از محمد عبدالکریم ۔اونگ آبادد کن ۔
اگست ۶۲ ؁ء کے تجلی میں ’’تفہیم الحدیث ‘‘ کے ذیل میں یہ ۔۔۔۔۔کر کہ اسلام میں انسانوں ہی کے ساتھ نہیں جانوروں تک کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی گئی ہے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر تو جانوروں کو ذح کر کر کے کھانا نہایت بے رحمانہ فعل ہوا اور قصاب حضرات تو بڑی ہی ستم رانی کے مرتکب ہیں ۔ کیا رسول و کے زمانے میں بھی یہ سلسلہ رائج تھا؟ 
(سوال غیر ضروری طویل تھا ۔ مختصر کردیاگیا ہے تاہم جواب میں ہم جملہ شبہات کا لحاظ رکھیں گے ۔)
الجواب:۔ معلوم ہوتا ہے آنجناب نہ تو دینی لٹریچر کا مطالعہ فرماتے ہیں نہ قرآن ہی کو کبھی ترجمے کے ساتھ پڑھا ہے ورنہ سطحی شبہ آپ کے ذہن میں نہ ابھرتا ۔ خوب سمجھ لیجئے کہ اچھائی اور برائی ، ظلم اور عدل کی حقیقت کو سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور اسے جاننا بھی چاہئے کہ وہی تو ہر شئے کا خالق و مالک ہے ۔ کوئی معاملہ اچھا ہے یا برا ، طلم پر مبنی ہے یا انصاف پر۔ اس کا فیصلہ ہم اپنے فہم و قیاس کے ذریعہ اس وقت کریں گے جب اللہ اور اس کے رسول ؐ کی طرف سے اس معاملہ میں کوئی واضح ہدایت نہ ملی ہو۔ لیکن اگر یہ ہدایت موجود ہے تو پھر ہمارا صرف یہ کام ہے کہ اسی ہدایت کے آگے اپنی زبان اور سرہی کو نہیں دل اور دماغ کو بھی نیاز مندانہ جھکادیں ۔
جانوروں کو ذبح کر کے غزا بنانا اللہ اور رسول ؐ کی صریح ہدایات کے مطابق عین عدل ہے ظلم ہرگز نہیں ۔ آپ کو نہیں معلوم کہ ہمارے حضورؐ نے حجۃ الوداع میں ایک ہی دن سو(۱۰۰) قربانیاں کی تھیں جن میں سے ۶۳ تو خود اپنے دست مبارک سے کی تھیں ۔ 
یہ تو جواب تھا مسلمانوں والا یعنی سمعنا واطعنا 
عقلی جواب یہ ہے کہ جن جانوروں کی قربانی اللہنے جائز رکھی ہے انکا مقصدِ پیدائش ہی یہ ہے کہ انسان ان سے فائدہ اٹھائیں ۔ سواری کا فائدہ ہو یا ہل میں جوتنے کا ۔ دودہ حاصل کرنے کا ہو یا غذا بنانے کا ۔ یہ عین مقصدِ پیدائش کے مطابق ہے ۔ لہٰذا ظلم کا سوال ہی پیدا نہین ہوتا ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ عورت کو بچہ جننے سے قبل شدید درد زہ سے گذرنا پڑتاہے ۔ اسیبھی نعوذ باللہ خدا کا ظلم کہناپڑے گا اگر فیصلہ سطحی مطالعہ پررکھا جائے لیکن یہ یقیناًظلم نہیں ہے کیوں کہ طبعی شے ہے ۔ نظام فطرت کا جزوِ لازم ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ سب سے بڑا انصاف والا ایک ایسی تکلیف کو لازمۂ حیات بنادے جس پر ظلم کا اطلاق ہوسکے ۔
بس اسی سے سمجھ لیجئے کہ حلال جانوروں کی قربانی اگر چہ صورۃً ظلم نظر آتی ہے لیکن حقیقتاً وہ قدرت کے نظام تکوینی کا ایک جزو اور ان جانوروں کے مقصدِ تخلیق کاایک تقاجا ہے ۔ اسے ظلم تصور کرنے والے نازک مزاجوں کو پھر یہ بھیچاہئے کہ عورتوں کیپاس نہ پھٹکیں کیوں کہ قرب کے نتیجے میں وہ انھیں دردزہ کی شدید اذیت میں مبتلا کرنے کے مجرم بن رہے ہیں ۔
بلکہ گہری نظر سے دیکھئے تو دردزہ والی کیفیت بظاہر ذبح سے زیادہ ظالمانہ ہے کیوں کہ ذبح کا کرب تو منٹ د ومنٹ کا ہوتا ہے مگر درد زہ کی کم سے کم مدت بھی اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے ۔ علاوہ ازیں انسانی احساس ووجدان کرب و اذیت کے قبول کرنے میں حیوانات سے زیادہ کی اور سریع الحس ہیں ۔ لہٰذا کیفیت و کمیت دونوں اعتبار سے ایک عورت دردِ زہ میں ا س سے کہیں زیادہ تکلیف اٹھاتی ہے جتنی ایک جانور صحیح اسلامی طریق پر ذبح کئے جانے میں اٹھاتا ہے ۔
اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ جانوروں کو جیتے جی غیر ضروری اذیت دینا اور بات ہے اور ان کو منشائے قدرت کے مطابق ذبح کر کے کھانابالکل دوسری بات ۔ پہلی بات کے لئے عقل و منطق اور انسانی اخلاق کے اعتبا ر سے کوئی وجہ جواز نہیں جب کہ دوسری کے لئے جواز ہی جوا ز کے وجود موجود ہیں ۔
ویسے یہ ہمیں اعتراف کرنا چاہئے کہ قصابوں کی جہالت و شقاوت اور مسلم معاشرے کی ابتری نے ذبح کے نظام میں بعض ایسی خرابیاں پیدا کردی ہیں جنھیں خود اسلام بھی پسندیدہ نگاہ سے نہیں دیکھتا لیکنان خرابیوں کی وجہ سے نفس ذبح کے جواز ۔ اور بعض حالتوں میں وجوب پر کوئی اثر نہیں پڑتا 

امتیازی الفاظ


امتیازی الفاظ 
سوال۷؂ : (ایضاً)
ہندوستان میں خاندان و نسب کے خطابات امتیاز و برتری کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں ۔ لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ علمائے کرام بھی اپنے ناموں کے ساتھ ایسے خطابات ۔۔۔۔استعمال کرتیہیں جن سے برتری کا اظہار ہوتا ہے ۔ اسلامی ۔۔۔مساوات کے پیش نظر بعض احباب کو اس طرح کے خطابات سے ۔۔۔ ذہنی الجھاؤ ہے شرعی حیثیت سے اس کی کہاں تک اجازت ۔۔۔ صراحت کیساتھ تحریر فرمائیں ۔
الجواب:۔ اصل ناموں پر اضافہ کئے ہوئے الفاظ دو قسم کے ہوسکتے ہیں ۔ ایک وہ جن سے تعارف مقصو د ہو ۔ دوسرے وہجن سے مدح و ستائش کا ارادہ کیا جائے ۔ پہلی قسم کی مچالیہ ہے جیسے سلمان فارسی ،ابوذر غفاری ،صہیب رومی ،بلال حبشی ،معین الدین چشتی ، عبدالقادری جیلانی، عامر عثمانی ، ابو الاعلیٰ مودودی وغیرہ ان ناموں میں اصل پر جو ضافہ ہے وہ کسی مقام یا خاندان یا گروہ کی طرف نسبت کی شکل میں ہے جو صرف تمیز و تعارف کا فائدہ دیتا ہے خود ستائی ، تفوق پسندی اور استکبار سے اس کا کوئی تعلق نہیں اس طرح کے تمیز و تعارف کی اجازت خود باری تعالیٰ نے دی ہے۔
یا ایھاالناس انا خلقنٰکم من ذکرو انثیٰ و جعلنٰکم شعوبا و قبائل لتعارفوا (الحجرات)۔(اے لوگو ہم نے تمھیں بنایا ایک مرد اور ایک عورت سے او ر رکھیں تمہاری ذاتیں اور قبیلے تاکہ آپس کی پہچان ہو) ۔
متعدد صحابہؓ کے ناموں کا وطن یا خاندان کے ساتھ منسوب ہوتا اور حضورؐ کا اسے پسندیدہ قرار نہ دینا بجائے خود کافی شافی دلیل ہے اس بات کی کہ یہ انتساب و اعلان برتری کا مظہر نہیں نہ مساوات کا مخالف ہے ۔
دوسری قسم کی مثال ہ ہے جیسے علامہ، مولانا ، حکیم الامت ، شیخ الاسلام ، محبوب الملت وغیرہ۔ یہ خطابات عموماً عوام کی طرف سے دئے جاتے ہیں ۔ ان کے استعمال میں دوسرے لوگوں کے لئے تو کوئی گناہ نہین بشرطیکہ انھیں خواہ مخواہ گھڑ لیا گیا ہو، البتہ خود صاحب خطب کو انھین اپنے نام کے ساتھ استعمال کرنا جائز نہیں ہے کیوں کہ یہ صریحاً خود ستائی ہوگی ۔ واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہ احکم ۔

کھانے پینے کی چیز و ں پر پھونکیں مارنا


کھانے پینے کی چیز و ں پر پھونکیں مارنا
سوال۶؂ :۔از: نظام الدین : شب پور۔ ہوڑہ۔ 
تعویذ گنڈے ، پانی تیل یا کسی دوسرے کھانے کی چیزوں پر پھونک مارنا برائے شفا یابی یا برکت کیساہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ۔ خصوصاً بعد نماز مغرب مسجد کے دروازوں پر پانی پھونکے یا لرکوں کو پھونک ڈالنے کے لئے ایک کثیر مجمع ہو جاتا ہے ۔ اس باب میں ہمیں کیا کرنا چاہئے ۔
الجواب :۔ بعض احادیث مین ملتا ہے کہ حضور ﷺ نے خاص خاص مواقع پر کچھ پڑھ کر کھانے پینے کیبعض چیزوں پر دم کیا ہے ۔ اس کے تیجے میں غیر معمولی بربت کا معجزہ ظہور میں آیا۔ اس سے دم کرنے کا جوزا تو بظاہر نکلتا ہے لیکن یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس طریق کو بطورسنت معمول بہابنا لینا چاہئے ۔حضور ؐ کو متعدد معجزے عطا کئے گئے اور ان میں سے معجزہ بھی تھا کہ آپ کے لعاب وہن سے امراض کو شفا ہوگئی اور آپ کے بعض الفاظ سے کھانے پینے کی چیزوں میں بے انتہا برکت و اضافے کا مظاہرہ ہوا۔ یہ اگر حضورؐ ہی کی خصوصیت نہ ہوتی تو ہم دیکھتے کہ صحابہؓ نے بھی عموما و کثرت کے ساتھ دم کرنے کے طریق کو اختیار کیا ہوتا کیوں کہ صحابہؓ سے بڑھ کر سنتِ نبوی کی پیروی کرنے والا کون ہوسکتا ہے مگر آثار صحابہ میں دم کرنے کا عمل عموم کے ساتھ تو کجا خصوص و شذوذ کے ساتھ بھی نہایت تلاش و تفحص کے بعد ہی مل سکتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ فعل بطور سنت عمومیت کے ساتھ اختیار کرنے کا نہیں ویسے یہ دعویٰ بہر حال غلط ہوگا کہ آیاتِ الہٰیہ پڑھ کر دم کرنے سے کسی نفع و بر کت کی امید ہوہی نہیں سکتی۔ واللہ اعلم با لصواب ۔

مولانا مودودی اور جماعت اسلامی وغیرہ


مولانا مودودی اور جماعت اسلامی وغیرہ
سوال ۵؂۔ازَ مولانا گلام رسول ساکن میرے شاہ (پاکستان)
(۱) مولانا مودودی کی ذات کے بارے میں آپ کاکیا خیال ہے۔ وہ علم و عمل کا پیکر ہے یا محض تحریری ید طولیٰ رکھنے کی وجہ سے لوگوں کو اندھی عقیدت میں مبتلا کررکھا ہے ؟ (۲)تحریک اسلامی کیبارے میںآپ کی کیا رائے کہ سیاسی یا مذہبی حیثیت سے علماء کرام کی جانب سے اس تحریک میں جو خامیاں اور غلطیاں واضح کی جارہی ہیں وہ کس حد تک صحیح ہیں ؟
(۳)کیا آپ دار العلوم دیو بند کے خلاف جو مضامین لکھتے رہتے ہیں یا’’ مسجد سے میخانے تک ‘‘کے زیر عنوان جو مضامین شائع ہوتے ہیں وہ اس بات کی تو غمازی نہیں کرتے کہ آپ نے یہ سارا مسئلہ خاندانی چپقلشوں کی وجہ سے تو نہیں چھیڑ رکھا ۔ ہمارے اکثر حلقہ میں یہ بھی خیال کیا جاتا ہے ۔
الجواب:۔(۱)مولانا مودودی کی نجی زندگی سے ہمیں تفصیلی واقفیت نہیں ہے لیکن اتنی واقفیت ضرور ہے کہ ان کے اقوال و اعمال میں نفاق و تخالف نہینہے ۔ کسی سخت سے سخت دشمن نے بھی آج تک یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ مولانا موصوف کی بے عملی اور منافقت کو ثابت کرسکتا ہے ۔مولانا کسی کنج عزلت میں نہیں رہتے ان کے شب و روز کا مطالعہکرنے والے بے شمارافراد ہیں ۔ اگر ان میں سے کوئی مولانا پر اعمالِ شرعیہ میں غفلت وتساہل کا الزام نہیں رکھتا تو آخر اس کا کیا جواز ہے کہ ہم بیٹھے بٹھائے ایک سوال کھڑا کریں اور عیاش قسم کے ذہنوں کو چنیں چناں کا موقع دیں ۔
اندھی عقیدت جہلاء میں تو چل جاتی ہے لیکن اس جماعت کا امیر جس میں پڑھے لکھے لوگ ہی شریک ہیں ، زیادہ دنوں تک اپنے ساتھیوں کو مصنوعی زہد و تقویٰ کے جال میں نہیں پھانسے رکھ سکتا ۔
(۲)کسی فرد یا جماعت کی خامیوں کی نشاندہی اگر متانت علم و انصاف کے تقاضوں کو ملحوط رکھتے ہوئے کی جائے جب تو اس پر غور کر کے یہ فیصلہ دیا جاسکتا ہے کہ کونسی خامی کس درجے میں واقعۃً موجود ہے اور کونسی خامی خود نشاندہی کرنے والوں کے غلط اندازِ نظر کی زائیدہ ہے۔
لیکن جہاں حال یہ ہو کہ مخالفتوں نے بازار ی شکل ختیار کر رکھی ہو، علماء اپنے مقام کو فراموش کر کے معاندینکی سطح پر اتر آئے ہوں ، لغو و لاطائل اعتراضات و اتہامات کی گرم بازاری ہو اور چہل مرکب نے طافان بد تمیزی اٹھارکھا ہو وہاں کون یہ فیصلہ بھی دے دے تو سننے اور دیانت کے ساتھ غور کرنے والے ایسے معترضین کے انبوہ میں کہاں سے آئیں گے جن کا پیشہ ہی یہ ہو کر رہ گیا ہو کہ جماعت اسلامی کو ہر قیمت پر ذلیل و رسوا کیا جائے۔
ہماریپاس سو(۱۰۰) سے زائد اخبارات و رسائل آتے ہیں اور کتابوں کا مطالعہ بھی بقدر فرصت جاری رہتا ہی ہے ہم اپنے خدا کو حاضر و ناظر جان کر اور حساب آخرت کا پورا احساس رکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ کوئی ایک بھی اعتراض ایسا آج تک ہماری نظر سے نہیں گذرا جس کی رو سے جماعتِ اسلامی کی مخالفت کارِ خیر قرار دی جاسکے ۔زیادہ تر اعتراض تو ایسے اذہان کی تراوش ہیں جنھیں نفس امارہ اور ابلیس کی سازش نے کج فکری ، کینہ پروری اور جہل مرکب کا گنجینہ بنا کر رکھدیا ہے۔ کچھ اعتراض ایسے ہیں جو معترضین کی قلتِ فہم پر مبنی ہیں ۔ کچھ ایسے ہیں جو بنیاداً ہی نہیں تفصیلاً بھی درست ہیں ، لیکن ان کی بنیاد پر جماعت اسلامی کو ضال و مضل قرار دینا ، اس کی مخالفت کرنا اور اسیبنج و بن سے اکھیر پینکنے کے جذبے کینمائز فرمانا بجائے خود گمراہی اور کوتاہ اندیشی ہے ۔ اصلاح کا طریقہ یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ عمارت کا اگر ایک ستون کج یا ایک دیوار کمزور ہے تو پوری عمارت ہی کو اکھاڑ کر پھینک دیا جائے۔ آدمی کی ایک انگلی میں زخم ہوتو اس کا مرہم ڈھوند نے کیبجائے خود بچارے آدمی ہی کوذبح کردینے کا مشورہ دیاجائے۔
آپ صاحب علم ہیں اگر آپ کے سامنے واقعۃً کچھ ایسی خامیاں جماعت اسلامی کی آئی ہوں جنھیں امر واقعہ کے طور پر تسلیم کیا جاسکے تو براہ کرم کھل کر انھین منکشف فرمائیں ہم ان کاخیر مقد م کر یں گے اوراپنے ناقص علم و فہم کے مطابق اظہار خیال سے بھی نہیں چوکیں گے۔
(۳)ہرشخص آزاد ہے جو چاہے سوچے اور جیسا چاہے فیصلہ دے ۔ دل ایسی چیز تو ہے نہیں جو کسی کے آگے چیز کر رکھ دی جائے ۔ ہم تو صرف اتنا ہی عض کرسکتے ہیں کہ خاندانی چپقلشوں سے کسی بھی قسم کی دلچسپی ہمارے مزاج و طبیعت سے اتنی بعید ہے کہ شاید آسمان بھی زمین سے اتنا بعید نہ ہو۔ یہ بات کبھی کبھاریہ سؤطن رکھنے والے کرم فرما ہی یاد دلادیتے ہیں کہہمارے اور کسی اور کے خاندان میں کبھیکوئی کشمکش اور چپقلش بھی رہی ہے ۔ ورنہ علام الغیوب جانتا ہے کہ یہاں تو ذہن کے کسی بعید ترین گوشے میں بھی اس مرحوم چپقلش کا کوئی زندہ تصور پایا ہی نہیں جاتا ۔ نفسیات اگر کوئی چیز ہے تو اسی ایک بات سے ہمارے ذہن و مزاج کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کچھ روز ہوئے پاکستان کے ایک پروفیسر صاحب نے ’تجلیات عثمانی‘‘ کے نام سے ہمارے حقیقی چچا مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ پر ایک ضخیم کتاب شائع کی تھی ۔ اس کتاب میں جس شد و مد اور جوش و خروش کے ساتھ علامہ عثمانیؒ کے اوصافِ حمیدہ کا ذکر و بیان ہوا ہے اس کا بدیہی تقا ضا تھا کہ اگر خاندانی عصبیت کا معمولی سا جذبہ بھی ہمارے اندر ہوتا تو اس کتاب کو ’’مکتبہ تجلی ‘‘ کے ذریعے خوب خوب اشاعت دیتے لیکن تجلی کا فائل اتھاکر دیکھ لیجئے کہیں اتفاق سے ہی اس کا معمولی سا اشتہار نظر آجائے گا۔ 
دوسری بات یہ بھی سن لیجئے کہ اگر خاندانی چپقلش سے ہمیں دلچسپی ہوتی تو سب سے پہلے ہم اس ’’سوانح قاسمی ‘‘ پر مفصل تنقید کرتے جو تاریخ حقائق کے لحاط سے بد ویانتی کا شاہکار ہے جس میں خاندانِ عثمانی کو خصوصاً نظر انداز کرنے اور واقعات کو مسخ کرکے تمام امتیازات کسی اور خاندان کو عطا کرنے کا وہ فن استعمال کیا گیا ہے کہ صداقتیں منہ دیکھتی رہگئیں ہیں لیکن قارئین تجلی گواہ ہیں کہ اس بکھیڑے میں بھی ہم نہیں پڑے۔
تیسری بات یہبھی ملحوظ رکھنے کے قابل ہے کہ ہمارے والدِ محترم مولانا مطلوب الرحمن رحمۃاللہ علیہ ایک معروف مرشد تھے ۔ ان کے ہزاروں مرید وہندو پاک میں پائے جاتے ہین ۔ہمرے ذہن و مزاج کا معمولی سابھی جوڑ خاندانی عصبیت کے اتھ ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ تجلی کے صفحات والد مرحوم کے اذکارِ مسلسل سے خالی رہتے ۔ خصوصاً جب کہ دیو بند کے ایک خاندان نے یہ اسوہ بھی سامنے رکھ دیا ہے کہ سعادت مند بیٹا باپ کی زندگی ہی میں باپ کو سقراطِ زماں اور طبیب دوراں بنادے سکتا ہے تو ہمارے لئے کیا دشوار تھا کہ تجلیجیسے مقبول (بفضلہ تعالیٰ و با حسانہٖ ) پر چے کو باپ اور چچا اور دادے (فضل الرحمن جو بانئ دار العلوم کی حیثیت رکھتے تھے) کی تصویر کشی اور شہرت دہی کے لئے استعمال کریں ۔ مگر ہم سے کچھنہ ہوا۔ ہم پر تو فی الحقیقت خاندانی عصبیت کا سوءِ ظن پر عکس نہند نام زنگی کا فور کا مصداق ہے ۔ سچا اعتراض اگر کوئی ہوسکتا ہے تو یہ ہوسکتا ہے ۔۔۔کہ ہم خادانی عصبیت کے معاملہ میں ناخلفاور مغفل رہے ہیں۔
الحاسل علمائے دیو بند پر نقد و تعریض کو خاندانی چپقلش سے جوڑنا اتنا ہی مطابق واقعہ ہے جتنا مولانا مودودی کو خارجی کہنایا ان کی طر ف اسلامی تعزیر ات کو ظالمانہ قرار دینے کا انتساب کرنا یا حضرت عثمانؓ کے بارے میں یہ کہنا کہ انہوں نے سارا خزانہ اپنے عزیز و اقربا کو بانٹ دیا ۔ ونعوذ باللہ من شرورانفسنا۔

انعامی باؤنڈز


انعامی باؤنڈز
سوال۳؂:(ایضاً)
ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں نے کئی سال سے’’قومی انعامی باؤنڈ‘‘کے نام سے ایک سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ اس وقت صرف پاکستان اسکیم کے بارے میں معلومات کرتی ہے۔
شاید آپ کو بھی معلوم ہو ‘حکومت نے یہ طریقہ کیا ہے کہ نوٹ سے مشابہ پاؤنڈ ز تیار کرائے ہیں جن پر ان کی متعینہ قیمت درج ہوتیہے اس طرح یہ پاؤند ز اسی مقررہ قیمت کے کرنسی نوٹ کے مساوی ہوتے ہیں جو ان پر درج ہے ۔ جو شخص یہ بونڈ خریڈ تا ہے وہ اس کا مجاز رکھتا ہے کہ روپئے کی ضروت پڑنے پر وہ جب بھی جہاں سے چاہے اسے کیش کراسکتا ہے ۔ زرِ مبادلہ میں اسے اتنے ہی روپئے مل جائیں گے جتنے کا اس نے یہ خریدا تھا ۔حکومت کی مقرر کردہ معیادوں پر سال میں چ ار مرتبہ تمام فروخت شدہ بونڈوں کی قرعہ اندازی ہوتی ہے اور تعداد مقررہ کے مطابق قرعہ اندازی مین نکلنے والے بونڈوں کے نمبروں کے بوند جس کے پاس بھی ہوں وہ اسے دکھا کر اپنا ناعام وصول کرسکتا ہے ۔ ایک بار انعام نہ نکلنے کے بعدیہ بونڈ بے کار نہیں ہوتے بلکہ بعد کی قرعہ اندازی میں بھی شریکہوتے ہیں اور اگر انعام پانے والا شخص چاہے تو ایک یا دو بار انعام حاصل کرنے کے باوجود بغیر کسی سودی لین دین کے انھین کسی بینک میں یا نجی طور پر فروخت کر کے اپنی اصل قیمتِ خرید وصول کرلے۔مختصر یہ کہ کوئی شخص خواہ انعام حاصل کرے یا نہ کرے اس کی اصل رقم بہر حال محفوظ رہتی ہے اور وہ جب بھی چاہے ایک پیسہ بھی سود کاٹے یا دیتے بغیر اسے وصول کرسکتا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوت ہے کہ ان بونڈوں کی خرید و فروخت جائز ہے یا ناجائز ۔ اگر ناجائز ہے تو اس کی کیا وجہ ہے؟ 
الجواب:۔اس پر پہلے بھی تجلی مین اظہار کیال کیا جاچکا ہے ، لیکن اب تک کسی ایسے سبب کا علم نہیں ہوا جس کی بنیاد پر ان باؤنڈوں کی خرید وفروخت کو حرام قرار دیا جائے ۔ اس معاملے کی جو ہری مشابہت نہ سود سے ہے نہ قمار س نہ بیع فاسد کا کوئی ایسا عنصر اس میں پایا جاہے جس کی تاویل نہ ہوسکے ۔ لہٰذا سبب حرمت سے آگاہ ہوئے بغیر تو ہم اسے جائز ہی کہیں گے ۔ سنا ہے کہ بعض حضرات جواز کے قائل نہیں ۔ معلوم نہیں ان کے دلائل کی ہیں۔
فال اور استخارہ 
سوال :۔ (ایضاً)
شریعت میں استخارہ کے کیا کیاحیثیت ہے کیا ہر شخص استخارہ کرنے کا مجاز ہے ؟ استخارہ کس طرح کرنا چاہئے اور کس قسم کے معاملات ہیں ؟بعض لوگ ہرمعاملہ میں استخارہ کرانے قائل ہوتے ہیں اور خاص طورپر شادی بیاہ کے معاملات میں خواہ شادی کرنے والے راضی ہوں لیکن وہ لوگ بغیر استخارہ کرائے بات کرنے پر راضی نہیں ہوتے اور بعد میں کہہ دیتے ہیں کہ استخارہ بہت خراب آیا ہے وغیرہ ۔ کیا اس طرح ہر بات پر چاہے جس سے استخارہ کرالینا درست ہے؟
الجواب:۔ہمیں اس بات میا8 صرف اتنا معلوم ہے کہ قرآن وغیرہ سے فال نکالنا بے بنیاد ہے اور بعض حالتوں میں اس کی حرمت کا قول کیا جائیگا۔رہا استخارہ تو ایسے امور میں جن کا کرنا نہ کرنا شرعاً میاج ہو اس کا جواز ہے ۔ گوکہ اس سے حاصل شدہ فیصلیکی حیثیت تکمین وظن سے زیادہ نہیں ۔ترکیب کا ہمیں علم نہیں کسی اور صاحبِ علم سے دریافت کی جائے۔

قانون کا فلسفہ


قانون کا فلسفہ
جولوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ کسی حرام شے کے حلاال ہوجانے کے لئے ب اتنی ہی بات کافی ہے جس علتکی وجہ سے حرمت کا حکم دیاگیا تھا وہ علت عملاً موجود ہوتو ایسا خیال کرنا دنیا اور دین دونوں کے فلسف�ۂقانون سے ناواقفیت پرمبنی ہوگا دنیاوی قوانین کی مثال دیکھئے کہ بغیر لائسنس کے پستول رکھنا جرم ہے ۔ علت اس جرم کی اس کے سوا کیا ہے کہ لائسنس کی شرط نہ ہونے کی صورت میں یہ مہلک ہتھیار تمام ان لوگوں کے بھی قبضے میں پہنچ جائے گا جن کے کردار کاکوئی علم حکومت کو نہیں اور جن سے ہر وقت یہ اندیشہ ہے کہ وہ اسے جائز طور پر استعمال کرڈالیں گے۔
اب فرض کیجئے ایک شخص بغیر لائسنس کا پستول رکھے کے جرم میں ماخوذ ہوتا ہے لیکن اس نے ابھی تک اس پستول کو ناجائز طور پر استعمال نہیں کیا ہے تو کیا قانون کا فیصلہ یہ ہوگا کہ اسے کوئی سزا دی جائے کیوں کہ اس کے معاملہ میں وہ علت عملاً نہیں پائی گئی جسکی بنیاد پر پستول رکھنا جرم قرار دیا گیا تھا اور کیا جج یہ کہے گا کہ اسے مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ اس نے پستول کا استعمال ہی نہیں کیا۔
سب کومعلوم ہے کہ قانون کا فیصلہ یہ نہیں ہوگا اس لئے نہیں ہوگا کہ دراصل جرم قرار دینے کی بنیاد خطرے کا عملی جامہ پہن لینانہیں بلکہ بجائے خود اس خطرے کا پایاجانا ہے ۔
اسیطرح شراب کی حرمت اگر چہ بظاہر نشے ہی پر قائم ہے لیکن فی الاصل نشہ پیدا کرنے کی صلاحیت کا پایاجانا سبب حقیقی ہے نہ کہ اس نشہ کا عملی جامہ پہن لیناجو شخص ایک بوند استعمال کرلیتا ہے اس کے بارے مین یہ باور کرنے کی کوئی ضمانت نہیں کہ چند بوندیں اور بھی استعمال نہیں کرے گا ۔ یہی امکان اور اندیشہ ہے جسے دنیا وی قوانین میں بھی ملحوظ رکھاگیا ہے اور دینی قوانین میں بھی۔ ایک غیر سند یافتہ ڈاکٹر اسی وقت مجرم نہیں تھیرایا جائے گا جب کہ وہ اپنے اناڑی پن سیکسی مریض کو ہلاک کردے بلکہ سے اس صورت میں بھی قانون مجرم ہی قرار دیگا جب کہ کوئی ضرر اس سے کسی مریض کو نہ پہنچ ہو بلکہ فائدہ ہی فائدہ پہنچ رہا ہو۔حالاں کہ غیر سند یافتہ لوگوں کو پریکٹس کی ممانعت اسی بنیاد پر ہوتی ہے کہ ان کے اناریپن سے صحتِ عامہ کو خطرہ ہے لیکن اس خطرے کا عملی لباس پہن لینا ضروری نہیں لہٰذا شراب کی حرمت کے لئے بھی قطعاً ضروری نہیں کہ اس کی وہی مقدار حرم ہو جو عملاً نشہ پیدا کردے۔
شرعی تمثیلی میں زنا کی مثال لیجئے ۔ ظاہر ہے زنا کی حرمت کے لئے بھی کوئی نہ کوئی علت و سبب ہے ۔ آپ کوئی بھی علت ۔یا متعدد علتیں تجویز کریں مگر بعض صورتیں زنا کی ایسے ضرور نکل سکتی ہیں جن میں تجویز کردہ علتوں میں سے ایک بھی علت نہ پائی جاتی ہو تو کیا ان صورتوں میں آپ زنا کو جائز قرار دیں گے؟۔۔۔مان لیجئے ایک ایسی بیوہ ہے جسے آپریشن کے ذریعے اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم کردیاگیا ہے ۔ اب ایک شخص اس سے نہایت محفوظ و مخفیمقام پر زنا کرتا ہے تو دیکھ لیجئے کہ کوئی بھی وہ علت نہیں پائی گئی جسے مادہ پرستانہ نقطۂ نظر ے حرمتِ زنا کی علت قرار دیا جائے۔ لیکن زنا پھر بھی حرام پائے گا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض افعال اپنی سرشت اور وضیع ہی میں قبیح ہوتے ہیں اور ان کی حرمت ا بات پر موقوف نہیں ہوتی کہ ہم نے عقل و منطق کے ذریعہ جن گونا گوں نقصانات کو ان کے لئے اسباب حرمتسمجھا ہے ان میں سے کوئی سبب ظہور میں آہی آجائے ۔ جن شاذ صورتوں میں کوئی بھی سبب موجود نظر نہ آئے وہ بھی ممنوع قرار پائیں گے۔
شراب بھی زنا کی طرح قبیح بالذات ہے ۔ اس سے خمیر اور سرشت ہی میں نشہ آور ی ہے لہٰذا حرمت کا فیصلہ دینے کے لئے اس کا انتظار نہیں کیا جائے گا کہ نشہ ظہور ہی میں آجائے ایسا کیسے نہ ہو جب کہ قانون کا ازلی و ابدی فلسفہ ہی یہ ہے کہ جو فعل ممنو ع ہوگا اس کے طبعی ذرائع پر بھی حکم ممانعت لگایاجائیگا اور ممانعت کی نرمی یا شدت اس پر منحصر ہے کہ اسل جرم کس درجے کا جرم ہے ۔ اگر بھیانک قسم کا جرم ہے تو اس کے وسائل و اسباب کی ممانعت میں بھی شدت و وسعت برتی جائیگی ۔ شراب ، قمار ، زنا ،سود شریعت میں بدترین قسم کے جرائم ہیں ۔چنانچہ سود ہی کو حرام نہیں قرار دیاگیا بلکہ اللہ کے رسولؐ بے بعض ایسے معاملات کو بھی فاسد قرار دیا جن میں سود کی مشبہت تھی ۔ اسی بنیاد پر قانون شرعی میں یہ طے ہے کہ ماہرین قانون کے نزدیک جس عقد (معاملے) میں سود کی مشابہت جوہری اعتبار سے متحقق ہوجائے وہ حرام وباطل قرار پائیگا۔اور اسی طرھ شراب پینے ہی کو نہیں اس کے بنانے کو بیچنے کو ، س کی درآمد بر آمد کو ، اس کیلئے جگہ کراے پر دینے کو ممنوع ٹھیرایا اور اسی طرھ مردوزن کے اختلاط ، بوس و کنار اور حد سے متجاوز بے تکلفی کو جرم قراردیا۔
الحاصل جو لوگ صحیح طور پر یہجان لیں کہ شراب نوشی کا سد بابا کس شدت واصرر کے ساتھ اسلام کو مطلوب ہے ۔ انھیں اس نکتہ پر مطمئن ہونے میں ہرگز تامل نہیں ہوسکتا کہ شراب کا ایک قطرہ بھی حرام ہے اور ایسے ٹانک اور دوائیں مسلمان کے لئے’’نجاست ‘ ‘کا درجہ رکھتی ہیں جن میں شراب آمیز کی گئی ہو۔

شراب ملی ہوئی دوائیں


شراب ملی ہوئی دوائیں
سوال۲؂
از شاہد اقبال ۔ دہلی۔
آج کل عام طور سے انگریزی دوائین بہت استعمال کی جاتی ہیں ۔ ان میں بعض دواءٰن ایسی ہوتی ہیں جن میں شراب کاجز ملاہوتا ہے ۔ مثلاً ایک دو اآتی ہے جس کا نام واٹر بری کمپاؤنڈ ہے ۔ یہ شربت کی شکل کی ہوتی ہے اور نزلہ کیلئے اکسیر ہے ۔ لیکن اس کے ڈبے پر لکھا ہوتا ہیکہ اس میں شراب کا جز بھی ملا ہوا ہے تواب ایسی صورت میں اس دوا کا استعمال جائز ہے یا نہیں جب کہ س کے پینے سے ذرہ برابر بھی نشہ کا اثر نہیں ہوتا؟ 
الجواب:۔ مختصر جواب تو یہ ہے کہ کسی بھی ایسیمکسچر یا مشروب کا پینا جائز نہیں ہے جس میں شرب کی آمیزش کا یقین یا گمان غالب ہو ۔ شراب کیحرام ہونے کی علت تو بے شک نشہ ہی ہے لیکن دلائل قویہسے یہ اصول طے پاگیا ہے کہ جس شے کی معتدبہ مقدار نشر لانے والی ہو اس کی قلیل مقدار بھی جرام ہوگی خواہ وہ قلیل مقداربجائے خود نشہ طاری کرنے کی قوت نہ رکھتی ہو۔ مااسکو کثیرہ فقلیلہ حرام (ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ بیہقی) ۔
ماضی میں تو یہ ایک صاف سا مسئلہ تھا جس میں بحث و بدل کی کوئی گنجائش نہیں تھی لیکن موجود ہ زمانے میں مغربی طرز فکر کے غلبہ وتسلط اور احوال و کوائف کے تغیر نے بعض اور مسائل کی طرح اسے بھی قدرے الجھا دیا ہے لہٰذا ان حضرات کے لئے جو دین سے بغاوت کا بھی ارادہ نہیں رکھتے مگر احکامِ شرعیہ کے ارے میں ذہنی تسکین کے بھی طالب ہیں ہم قدرے تفصیل کی راہ اختیار کریں ۔
اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ شراب کی حرمت کا سبب اس کا نشہ آور ہونا اگر چہ ظاہر و باہر ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ صرف اسی شخص کے لئے حرام ہوگی جس پر اسے پی کر طشہ طارہ ہوجائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ شراب میں بالذات نشہ پیدا کرنے کی سلاحیت موجود ہے اور اسے تیار ہی کیا جات ہے نشہ آور مشروب کی حیثیت سے ۔ لہٰذا اس کا صرف اک قطرہ بھی کسی نہ کسی درجے میں اس علت کا حامل ہے جس پر حرمت منحصر ہے یعنی نشہ پیدا کرنے کی صلاحیت تو حرمت کے لئے ایک قطرہ بھی کافی ہوگا جب تک کہ کسی مصنوعی یا قدرتی عمل سے اس کی حقیقت ہی تبدیل نہ ہو جائے۔
حقیقت تبدیل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کیمیاوی تحلیل یا پکانے اور جلانے کے کسی طریق سے اس کے تمام یا بعض اجزاء میں جوہری تغیر واقع ہوجائییا اس کا کوئی ایسا جز و مکمل ور پر تحلیل ہوجائے جس کے بغیر باقی اجزاء نشہ پیدا کرنے کی سلاحیت سے عاریہوں ۔ ایسی صورت میں حرمت کا حکم باقی نہ رہے گا۔ جیسے کہ سر کی کسی مقدار میں بھی حرمت نہیں اور جیسے کہ کچا گوشت پکانے کے بعد حلال وہ طاہر ہوجاتا ہے حالانخۃ جو لہو بجائے خود حرام تھا وہ اس سے علیحدہ نہیں کیا گیا بلکہ پکنے کے دوران اس کے بعض عناصر بھاپ بن کر اڑگئے اور بعض اپنی جوہری ترتیب ختم کر کے پارچوں میں جذب ہوگئے ۔ یا جیسے دریا میں بول و براز کی آمیزش اس کے پانی کو ناپاک نہیں کرتی کیوں کہ مقداری تناسب کا فرقِ عظیم کیمیاوی تحلیل کا قدرتی سبب بن جاتا ہے۔ اور نجاست کے وہ اوصاف کا لعدم ہوجاتے ہیں جن کے وجود سے یہ نجاست عبارت تھی۔
اس تفصیل کی روشنی میں ہروہ مکسچر اور مشروب بالیقین حرام ٹھیرتا ہے جس میں شراب، شراب ہی کی حیثیت سے آمیز کی گئی ہو اور اجزا کا تنساب اس درجہ کانہ ہ کہ شراب کے اجزاو عناصر کا لعدم ہوکر رہجائیں ۔ واٹر بری کمپاؤں ڈ کے بارے میں جب کہ خود بنانے والوں نے وضاحت کردی ہے کہ اس شراب کا جز و موجود ہے تو پھر اس میں کسی شبہ کیگنجائش نہیں رہتی کہ شراب کو اس کے فارمولے میں ایک جزوِ مستقل کی حیثیت حاصل رہتی ہے اور تناسب کے اعتبار سے بھی اس کی مقدار کافی ہے ورنہ اس کی آمیزش کی صراحت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ 
لیکن ان دواؤں کی حرمت کا فیصلہ دینا آسان نہ ہوگا جن کے بارے میں ہمیں یقین تو کیا گمانِ غالب بھی نہ ہو کہ اس میں شراب آمیز کی گئی ہے ۔مشہور عام طور پر یہی ہے کہ اکثر ڈاکٹر ی دواؤں میں شراب کی ملاوٹ ضروری ہوتی ہے۔ لیکن یہ شہرت حرمت کے لئے کافی نہیں ۔خصوصاً اس دور میں تو دواؤں کے پیکنگ پر فارمولا (نسخہ) بھی درج ہوتا ہے اس کو پڑھ کر معلوم کیا جاسکتا ہے کہ شراب شامل ہے یا نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شطرنج :۔


شطرنج :۔
سوال۱۰؂:۔از ۔رئیس احمد احمدآباد۔
میں جنات ہوں تجلی کے صفحات قیمتی ہین اور شطرنج جیسی لغو چیزکے بارے میں بحث کرنا آپ پسند نہیں فرمائیں گے ۔ لیکن یقیین کیجئے یہ بحچ بہت لوگوں کے لئے مفید ہوگی ۔ شطرنج کل بھیمقبول تھی اور آج بھی متروک نہیں ہے ۔ اچھے خاصے وقیع لوگ بھی اسے کھیلتے اور وقت ضائع کرتے ہین ۔ مجھے اس کی حر مت میں کوئی شک نہین ہے ۔ کیوں کہ یہ یقیناًلہو و لعب میں داخل اور لہو و لعب کی ممانعت کسی مسلمان پر مخفی نہین لیکن ایک بحث کے دوران بعض دوستوں نے کہا کہ بعج اماموں کے نزدیک شطرنج جائز ہے ۔ اس کی کیا حقیقت ہے ؟ میری طبیعت تو کسی طرح نہیں مانتی کہ ایسی ملعون کے مطابق تفصیل سے اس مسئلہ کے ہر پہلو کو مشرح فریادیں تو فائد�ۂ عام کا باعث ہوگا ۔ جزاکم اللہ خیر الجزأ۔
الجواب:۔شطرنج یوں تو صریحاً لہو ولعب میں داخل ہے اور لہو و لعب جتنے بھی ہیں اصولی طور پر مکروہات و فضولیات کی فہرست میں آتے ہیں ۔ اس طرح شطرنج کا نا محمود ہونا اپنی جگہ مسلم ہوا۔ 
لیکن تمام ہی لہو و لعب پر فقہ یکساں حکم نا فذ نہیں کرتی ۔ کرنا بھی نہیں چاہئے ۔ ہماری زندگی میں بے شمار ایسے اشغال و اعما ل ہیں جن کے غیر ضروری ہونے میں کوئی شک نہیں اور ہرغیر ضروری ہونے مین کوئی شک نہیں اور ہر غیر ضروری فعل لہو و لعب ہی کی نوعیت رکھتا ہے ۔ تو وہ شریعت جس نے تنگیوں کو فراخیوں اور دشوار یوں کو آسانیوں میں بدلا ہے ایسی سخت گیر کیسے ہوسکتی ہے کہ ہ غیر ضروری کو حرام قرار دے دے اور زندگی سے تفریح کا عنصر بالکل کارج کردے جو شریعت تمام عالم کے لئے آئی ہو اس میں یک رخا اجتہاد کبھی مفید نہ ہوگا ۔ ضرورت ہے کہ سطحی اندازِ فکر کی جگہ گہرا اور ہمہ گیر اندازِ فکر اختیار کیا جائے اور احتیاط و اعتدال کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔
شطرنج کیا ہے ؟۔۔۔ ایک ایسا کھیل جو وقت خوری میں اپنا جواب نہیں رکھتا۔ اس کا انہماک کچھ نشہ کی سی کیفیت رکھتاہے ۔ اور س کے کھلاڑ ی افیمیوں کی طرح اس میں گم ہوجاتے ہیں ۔ مگر کیا یہ چیز اس کی شرعی حرمت کے لئے بھی کافی ہے ؟ ۔۔۔ اس سوال کا جواب اثبات میں دینا بہت مشکل ہے ۔ وقت ضائع کرنا کتنا ہی برا سہی ، لیکن شریعت نے اسے حرام نہیں ٹھہرا یا بشرطیکہ انسان اپنے فرائض و واجبت سے غافل نہ ہو۔ اگر اضاعتِ وقت مطلقاً حرام ہوتو پھر کوئی بھیکھیل اور مشغل�ۂ تفریح جائز نہیں ہوسکتا ۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ 
پھر کونسی چیز ہے جو شطرنج کو ملعون قرار دینے پر اہل علم کو متفق کرسکتی ہے ۔ کیا وہ جواہے ؟ کیا اس پرمالی ہا جیت کی بازیکھیلیجاتی ہے ؟۔۔۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کی حرمتِ تطعی میں دو (۲)راسے کی گنجائش نہیں تھی مگر جہاں تک ہمارا علم ہیوہ آلۂ قمار بازی نہیں ہے ۔ آج بھی اور ماضی میں بھی وہ عام طور پر تفریحاً کھیلی جاتی رہی ہے ۔ ہم نے نہیں سنا کہ اس کی ہارجیت خیالی حدودسے گذر کر روپے پیسے تک پہنچی ہو ۔ اس پر جوا کھیلنا نہ تاریخی طور پر ثابت ہے ، نہ آج ہمیں نظر آتا ہے کہ اسے قمار بازی کے طور پر کھیلا جاتا ہو پھر بھی اگر کوئی اس کی ہار جیت پر کسی رقم کی ہار جیت مقرر کر لے تو یہ ایس ہی ہوگا جیسے ہاکی ، کرکٹ ، گلی ڈنڈا ، یا کشتی کی ہار جیت پر رقم کی بازی لگالی جائے ۔ یہ کھیل جوے بازی کے کھیل نہیں ہیں ۔ ان کا جواز شریعت میں قطعاً متفق علیہ ہے ۔ الا یہ کہ کوئی عارض ان کے جواز کو حرمت میں بدلد ے ۔ تو جس وت ان پر رقم کی بازی لگے گی اس وقت یہ حرام ہوں گے ۔۔ مطلقاً حرام نہیں ہوں گے ۔ اسی طرح شطرنج پر رقم کی بازی لگالی جائے تو اس کی حرمت یقینی ہے ، لیکن نہ لگائی جائے تو اس کی حرمت و ملعونیت پر گفتگو کی خاصی گنجاش ہے ۔
ائمہ و فقہاء نے اس کے بارے میں اختلا ف کیاہے جس کی ضرو ری تفضیل یہ ہے :۔ 
امام مالک ؒ اس کی اباحت وجواز کے قائل ہیں ۔امام شافعی کے س کے متعلق دو(۲) قول پائے جاتے ہیں ۔ ایک یہ کہ جائز ہے ، دوسرا یہ کہ مکروہ ہے ۔ مگر یہ کراہٹ تحریمی نہیں طنز یہی ہے ۔ گو یا دوسرے قول کی بنیاد پر بھی اس میں ھرمت کی گندگی شامل نہیں ہوتی ، بلکہ صرف نا محمود یت اور لغویت آتی ہے جس سے دامن بچانا اچھے مسلمانوں کا طرۂ امتیاز ہونا چاہئے ۔
احناف مین دو (۲)گروہ ہیں ۔ ایک اسے حرام کہتا ہے ۔ دوسرا جائز قرار دیتا ہے ۔ جواز کے لئے شرط یہ ہے کہ اس پر رقم کی باز ی نہ لگے۔ نیز نمازیں قضانہ کی جائین اور فحش سے بچا جائے۔
علماء و فقہاء کے کچھ فرموداتمع حوالہ یہ ہیں :۔ فتاویٰ مجمع البرکات میں ہے :۔ 
’’شطرنج کا کھیل علماء کے مابین فقہی اعتبار سے مختلف فیہ ہے ۔ کچھ اسے جائز قرار دیتے ہیں ، کیوں کہ اس سے جنگ میں مدد ملتی ہے اور حریف کی پوزیشن معلوم ہوجاتی ہے ۔ لیکن جواز تین (۳) شرطوں سے مشروط ہے ۔ اول قمار نہ ہو، تاخیر نہ کی جائے سوئم گال گلوج اور فحش کلامی کی نوبت نہ آئے اگر ان میں سے کوئیشرط معدوم ہوگی تو جواز مرتفع ہوجائے گا اور کھیلنے والا مرد ود الشہادۃ قرار پائے گا۔‘‘
در مختار میں ہے:۔
’’اس شخص کی شہادۃ مردود ہوگی جو شطرنج میں قمار کھیلے یا نماز ین قضا کرے یا اس پر بکثرت قسمیں کھائے یا عام گذر گاہوں پر کھیلے یا دائمی طور پر کھیلے ۔‘‘
شارح وہبانیہ لکھتے ہیں :۔ 
’’قاضی شرق و غربؒ سے منقول ہے شطرنج کھیلنے میں کچھ حرج نہیں ہے ۔‘‘
تنویر الابصار میں ہے :۔
’’چو سر اور شطرنج کھیلنا مکروہ تحریمی ہے۔‘‘ 
امام غزالی خلاصے میں تو مکروہ لکھتے ہیں ، لیکن احیاء العلوم میں جائز قرار دیتے ہیں ، لیکن دوام اور کثرت پھر بھی سخت مکروہ ہے ۔
امام بیہقیؒ نے شعب الایمان مین ایک حدیث بھی روایت کی ہے کہ لایلعب بالشطرنج الاخاطئ (شطرنج خطا کار ہی کھیلتا ہے )لیکن اول تو اس کی سند میں گفتگو ہے دوسرے یہ فقہی فیصلہ دینے میں صریح نہیں ۔ خطا کار تو وہ شخص یقیناًہے ہی جو مفید اور ثواب دینے والے کاموں کے عوض کھیل کود میں وقت گنواتا ہے ، لیکن یہ خطا شریعت میں علی الاطلاق حرمت کے دائریمیں نہیں آتی ۔ اس اصول پر تو وہ تمام کا م حرام ہوجائین گے جو وقت کو کھاتے ہیں اور ثواب کچھ نہیں دیتے حالاں کہ ایسا ہرگز نہین ہے ۔ تفریح کیخاطر ایسے اوقات ضائع کردیناجن میں کوئی فریضہ ضائع نہ ہو رہا ہو شرعی جواز رکھتا ہے ۔ اور جواز شاید اسی لئے ہوکہ تفریح بھی بجائے خود ایک ضرورت ہے اور اسلام کاقانون ضرورت کی حد بندی میں اتنا سخت گیر نہیں ہے جتنا بعض یا بس مزاج اور تقشف پسند حضرات سمجھتے ہیں ۔
کچھ علماء و فقہا کے اقوال ہم نے نقل کردئے ۔ ان میں غور و فکر اور شریعت کے احکام میں تفحص کے بعد جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ شطرنج ایک ایسا کھیل ہے جو نکو کاروں کے شایانِ شان نہیں ۔ کام کے آدمیوں کو اس سے دور ہی رہنا چاہئے ۔ اسے کھیلنا وقت کا ایک برا مصرف ہے ۔
لیکن کوئی شخص نمازیں ضائع کئے بغیر شائستگی کے ساتھ کبھی کبھار اسے کھیل لیتا ہے تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ فعلِ حرام کامرتکب ہورہا ہے ۔ 
عجیب لطیفہ ہے ۔ بعض لوگوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ شطرنج کو تو وہ شدت کے ساتھ حرام قرار دیتے ہیں اور اس کے کھیلنے والے سے بغض کی حد تک نفرت واستکراہ کا مظاہرہ فرماتے ہیں ، لیکن کرکٹ جب سے مقبول عام ہوئی ہے یہ اس مین خاصی دلچسپی لے رہے ہیں ۔ میچوں کے ایام میں ریڈیو سے لو لگائے انھیں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور کبھی کوئی لفظِ استکراہ کرکٹ یا اس کے کھلاڑیوں کے لئے ان کی زبانِ مبارک سے نہیں سنا ۔ کیا کرکٹ ان کی نگاہ میں بلا کراہت جائز ہے جب کہ اس کے میچ کا آئینی پروگرام نمازوں کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ حالاں کہ شطرنج اپنی بے پناہ وقت خوری کے باوجود اتنی گنجائش بہر حال رکھتی ہے کہ آدمی نماز باجماعت کا وقت نکال لے۔ یا ایسے اوقات منتخب کرے جن میں ترکِ جماعت کا اندیشہ نہ ہو۔
خیر یہ تو ضمنی بات تھی ۔ اصل جواب کا خلاصہ یہ نکلا کہ شطرنج کھیلنا جائز ہے حرام نہیں ، لیکن اس کا بکثرت شغل ناجائز ہے ، اور جو شخص کبھی کبھا ر شغل کرے اسے بھی نماز باجماعت کا خیال رکھنا چہئے۔نیز شائستگی کو ہاتھ سے نہیں دینا چاہئے ۔ شارع عام پر کھیلنا یا جاہلون کیسی فحش کلامیوں کے ساتھ کھیلنا اس شغل کو حرمت کے دائرے میں کھینچ لاتا ہے ۔
رہا حنفی مقلدین کا معاملہ تو یہ معلوم ہوچکا کہ خود بعض احناف بھی جواز کے قائل ہیں ۔ لہذٰا جواز کا عقیدہ رکھنے والا غیر مقلدین بھی نہیں کہلائے گا ۔ واللہ اعلم با لصواب۔

حضور ؐ کا نکاح :۔


حضور ؐ کا نکاح :۔
سوال ۹؂ 
حضور نبی ﷺ کا نکاح کس نے پڑھا تھا۔ ابوطالبؓ نے پڑھا تو کیا ابو طالبؓ ایمان لائے تھے ؟ اگر نہیں تو کیا حضورؐ نے نکاح کی تجدید فرمائی تھی یا اس کی ضرورت نہ تھی ؟ نیز یہ بھی ارشاد فرماویں کہ حضور ؐ کے نکاح میں خطبہ وغیرہ کیا پڑھا گیا تھا؟
الجواب:۔بے شک سر کارِ دو عالم ﷺ کا پہلا نکاح حضرت خدیجہؓ بنت خویلد سے رؤ سائے مضر اور نبی ہاشم کی موجود گی میں ابو طالبؓ ہی کے زیر نگرانی ہوا تھا اور بڑانفیس و بلیغ خطبہ انہوں نے ارشاد کیا تھا جس کا ترجمہ یہ ہے:۔
’’تمام تعریف اس خدا ہی کے لئے ہے جس نے ہمیں ابراہیمؑ کی اولاد اور اسماعیل ؑ کی ذریات میں پیدا کیا۔ ہمیں معدو مضر کے بے میل او طاہر جوہر سے نکالا ۔ اپنے گھر کا رکھوالا اور اپنے حرم کا پیشوابنایا ایسا عمدہ گھر ہمیں عنایت فرمایا کہ لوگ ادھر اُدھرسے اس کی زیارت کرنے آتے ہیں ۔ ایسا حرم عطا کیا کہ جو بھی وہاں آجائے مامون ہوجائے اور ہمیں عامۃ الناس کی سرداری دی ۔ اما بعدیہ میرا برادر زندہ محمد ﷺبن عبد اللہ ہے یہ ایک جوان ہے کہ قریش کے کسی بھی شخص اے اس کا مقابلہ کیجئے یہ فائق رہے گا۔ ہں روپیہ پیسہ اسکے پاس کم ہے مگر روپیہ پیسہ تو ڈھلتی چاؤں اور متبدل ہونے والی شئے ہے ۔۔۔ محمد وہ شخص ہے جس کے بارے میں تم سب اچھی طرح جانتیہو کہ اس کی مجھ سے کیا رشتہ داری ہے وہ خدیجہؓ بنت خویلد سے رشت�ۂ ازدواج چاہتا ہے اور میرے مال میں سے بیس اونٹ بطور مہر مقرر کرتا ہے اور قسم ہے خدا کی اس کا مستقبل عظیم ۔۔۔۔لیل ہے۔‘‘ 
اس کے بعد ورقہ بن نوفل نے بھی جو ایک بڑے عالم ہونے کے علاوہ حضرت خدیجہ کے چچا زاد بھائی تھے ایک خطبہ دیا ۔ جس کا ترجمہ یہ ہے:۔
’’تمام تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جس نے ہمیں ایسا ہی بنایا جیسا اے ابو طالب آپ نے واضح کیا ۔ اور ہمیں وہ تمام امتیازات عطا کئے جنھیں آپ نے گنوایا پس ہم لوگ تمام عرب کے سربراہ اور سردار ہیں اور آپ لوگ جملہ فضائل کے حامل ہیں ۔ کوئیگروہ آپ کے فضائلکامنکر نہیں اور کوئی شخص آپکے فخر و شرف کو تسلیم کئے بغیر نہیں رہسکتا ۔ بے شک ہم لوگوں نے مکمل رضاو رغبت کے ساتھ آپ میں ملنا اور شام ہونا پسند کیا ۔ پس اے قریش! گواہ رہنا کہ خدیجہ ؓ بنت خویلد کو میں نے محمد ﷺ بن عبداللہ کے نکاح میں دے دیا چار سو مثقال کے عوض۔‘‘
یہ دونوں خطبے آپ کے سامنے ہیں ۔ کیا یہ منہ سے نہیں بور رہے کہ ہم کس کار گہ فکر میں ڈھلکے نکلے ہیں ۔ یہ بحث تو ایک طرف رکھئے کہ کسی مسلمان جوڑے کے ایجاب و قبول کی وکالت اگرکوئی غیر مسلم کردے تو نکاح ہوتا ہے یا نہیں ۔ یہاں اس کا محل ہی نہیں ۔ اس وقت تک نہ حضور ؐ رسول تھے نہ نزولِ دین کا آغاز ہوا تھا ۔ ابو طالبؓ اورورقہ بن نوفل کیبارے میں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ یہ مسلم ہیں یا غیر مسلم ۔ مومن ہیں یا کافر ۔ انہوں نے خطبوں میں جو کچھ کہا وہ بعد میں نازلہونے والے دین کے معیار سے بھی فر و شرک کی چھوت سے پاک اور واہی عقائد کی نجاست سے غیر ملوچ ہے ۔ ان میں وہی بہترین اسلامی ذہن بول رہا ہے جس سے زیادہ کا تصور قبل ازنزولِ قرآن نہین ہوسکتا تھا پھر کس لئے رسولِ خدا کے اس پہلے نکاح کی صحت و عدم صحت کو ابو طالب کیایمان لانے نہ لانے کی بحث پر موقوف رکھا جائے ۔ جیسا کہ کچھ دن ہوئے تفھیم البخاری کے ذیل میں ہم عرض کر چکے ہیں ۔ ابو طالب آئینی اعتبار سے مسلمان نہیں مانے جاتے ، لیکن اپنے جملہ اوصاف حمیدہ کی روشنی میں وہ ہمارے دلی ادب و احترام کے مستحق ہیں اور ان کی ہستی بڑی محبوب معلوم ہوتی ہے ۔ جب یہ یادآتا ہے ۔ کہ رسولِ خداؐ کی پشت پناہی کے سلسلہ میں ان کا کردار کیا رہا ہے ہمارے خیال میں ابو طالب کا کیا ہوا نکاح بالکل ماکل و ناقد تھا ۔ وہ بعد میں اسلام نہیں لائیتب بھی اس کی تجدید ضروری نہیں تھی ۔ ثبوت اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ حضور ؐ نے تجدیدنہیں فرمائی ۔
ایک اور نظیرپیش نظر رکھئے ۔ ام المؤمنین حضرت حبیبہؓ سے حضور ؐ نے غائبانہ نکاح کیا ہے اور نکاح کرنے والا تھا شاہ نجاشی ؔ ۔ خطبہ بھی اسی نے پڑھا تھا۔ نجاشی کے لئے کچھ بھی کہاجائے ‘ لیکن یہ نہیں کہاجاسکتا کہ وہ اسلام لے آیاتھا۔ اس پہلو سے اس کی اور ابو طالب کی پوزیشن میں کوئی فرق نہیں ۔سیرت نگاروں کا سوادِاعظم اس پر متفق ہے کہ یہ نکاح حبشہ ہی میں ہوا ہے۔ لیکن بعض محدثین مثلاً زہریؔ اورقتادہؔ وغیرہ کی اس روایت کو اگر لائقِ لحاظ مان لیا جائے کہ حضور ؐ کا عقدحضرت ام حبیبہؓ سے حضرت عثما نؓ نے مدینے میں کیا تو اسے تجدید نکاں پر مخمول کرسکتے ہیں ۔ لیکن یہ ’’تجدید‘‘ اس لئے نہیں سمجھی جائیگی کہ پہلا نکاح کرنے والا’’نجاشی‘‘ مسلمان نہیں تھا ، بلکہ اس لئے سمجھی جائے گی کہ نکاح غائبانہ ہوا تھا اور حضور ؐ نے قوم کی توثیق وآگاہی کی خاطر اسے دو بارہ اپنی موجود گی میں منعقد کرانا موزوں خیال کیا۔ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوت ہے کہ غائبانہ نکاح کو موقعہ آنے پر تجدید کی شکل دے دینا احسن ہے ۔لیکن یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نجاشی یا ابو طالب کے کئے ہوئے کاح ان کے اسلام قبول نہ کرنے کے باعث محتاج تجدید رہے ۔

درود کا مفہوم


درود کا مفہوم
سوال۸؂ :از ۔ عبد الرشید (باجڑہ گڑھی )
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نبی کی بلکہ ہر شخص کی پوری قوم کو اس کی آل کہا گیا ہے ۔ اہل تشیع کی تو بات ہی اور ہے خود ہمارے یہں اس کو عجیب گورکھ دھند انادیا گیا ہے ۔ مثلا ہمارے یہاں جو درود شریف مروج ہے ۔ ’’اللھم صل علیٰ محمد و علیٰ آلہٖ و اصحابہٖ و سلم۔‘‘اس سے معلم ہوتا ہے کہ آل اور اصھاب علیحدہ علیحدہ ہیں، مہر بانی فرما کر الجھن کو دور کریں کہ کیا مذکورہ شخصیتیں دو ہیں ؟اور اگر نہیں تو بھی اس درود شریف کا کیا مفہوم ہے ؟
الجواب:۔
آنجناب کی تشفی کرنے سے قبل ہم کچھ تشفی ان حضرات کی بھی کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے ان چند ماہ میں نہایت طنز و طعن کے ساتھ دلخراش الفاظ مین ہمیں لکھا ہے کہ تم نے آل کا مفہوم سمجھا نے میں خیانت کی ہے اور آ ل تو بالیقین اہل خانہ ہی کو کہتے ہیں ۔
رنج ہوتا ہیکہ اہل علم کی نفسانیت اور اشتعال پذیرائی نے عوام کو بھی ذہنی تشدد میں مبتلا کردیا اور ان کا المناک حال یہ ہے کہ جہاں کسی نے ان کے کسی محبوب عقیدہ کے خلاف کچھ لکھا بس وہ آپے سے باہر ہوگئے اور اخلاق و شائستگی میں قبوری شریعت والے ہند عین ہی س سے آگے ہیں مگر ماضی قریب میں کھلا کہ وہ سنی احباب تو ان سے بھی کئی قدم آگے ہیں جن کے نظام فکر کو تشیع کی دیمک لگی ہوتی ہے ۔ ہوسکتاہے ریسرچ کی جائے تو ثابت ہوکہ تشیع اور قبوری تصوف کے مابین بھی کوئی ربطِ خاص موجود ہے اور یہ شیعت زدہ سنی زیادہ تر وہی ہیں جنھیں مردہ پر ستی اور قبر بازی کا چسکا لگا ہوا ہے ۔
بہر حال حقیقت کچھ ہو لوگوں نے بڑے تند و تلخ خطوط ہمیں لکھے ہیں اور ان سب کا مرکزی خیال یہ ہے کہ درود میں لفظ آل کو عام کر کے تم اہلِ بیت سیکینۂ بغض کا ثبوت دے رہے ہو۔ تم چاہتیہو کہ صلوٰۃ الہیٰ سے وہی پاکیزہ بندے محروم رہ جائیں جنھیں سرکارِ دوعالم ؐ کی قرابت داری کا بے مثال امتیاز حاصل ہے ۔ 
افسوس ان علم�أ سؤ کے بگاڑے ہوئے کجکلاہوں سے اس کی کیا توقع ہوسکتی تھی کہ یہ پورے قرآن پر نظر ڈال کر ثابت کرتے کہ آل ہر ہر گہ اہل بیت اور اقربا ہی کے لئے آیا ہے ۔ یہ بیچارے تو یہ سامنے کی حقیقت بھی نہ پاسکے کہ آل سے تمام امتِ مسلمہ یا تمام بندگانِ نکوکار مرادلے لینے سے اہل بیت رضوان اللہ ‘ ہم کہاں خارج از دعا ہوئے جاتے ہیں ۔ وہ توصریح طور پر اصحاب میں شامل ہیں ۔اللہ تعالیٰ انھین عقل و علم کے بحران سے نجات دے۔ ان کی زیادہ پر واہ ہمیں نہیں ہے ، لیکن اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ان کی تفہیم پر بھی کچھ کاغذ سیاہ کرنے ہوں گے ۔ امید تو ان سے بہت کم ہے کہ شرافت دیانت کے ساتھ توجہ کر سکیں یہ تو وہ بد دماغ دبلید الذہن لوگ ہیں کہ ہم رسول اللہ ؐ کو بشر کہہ دی تو انھین ابکائیاں آنے لگیں ۔ ہم غیب کو خدا کیلئے خاص قرار دیں تو یہ وہابی وہابی پکار اٹھیں ۔ ہم قبروں کی مشر کانہ بدعات و خرافات کو معصیت ٹھہرائیں تو یہ بغلیں بجا بجا کے ہمیں بد عقیدہ مشہور کردیں ۔ ایسے جامد ، کج فکر او ہٹ دھرم لوگوں سے عدل و سعات کی کیا توقع ہوسکتی ہے مگر خدا بھلا کرے کہنے والے کاجس نے کہا ہےؒ ۔ ؂
مانیں نہ مانیں آپ کو یہ اختیار ہے 
ہم نیک و بد حضور کو سمجھا ئے جائیں گے 
اگر تعصبات سیبالا تر ہو کر قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آل کا لفظ زیادہ تر گھرانے ہی کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور گھرانے کا مصداق بالبچے اور قرابت دار ہی ہیں ، لیکن بعض مقامات پر یہ مفہوم نہیں لیا گیا ، بلکہ اس کا مصداق وہ تمام لوگ ٹھہرے جو خون کے تعلق سے تو چاہے قرابت دار نہ ہوں اور ایک ہی گھرانہ نہ کہلا سکیں ، لیکن مشرب و مسلک ، عقیدے ، عمل اور سیرت و کردار کے کسی خاس رخ پر بہت نمایا توافق و یکسانیت رکھتے ہوں ۔ اس کی مثال ابھی ہم دیں گے۔
ایسی صور ت میں کسی کا یہ دعویٰ کرنا کہ جہاں کہیں بھی آل آیاہے اس کے معنی اہل بیت ہی ہیں بالکل درست نہیں ہے جب تک کہ قریبے سے معلومنہ ہوجائے کہ دوسرے معنی لینے نا ممکن ہیں ۔ پھر اس دعوے ہی تک بات نہیں ، بلکہ یہ دعویٰ بعض فاسد عقائد کے اثبات کی کاطرکیا جاتا ہے اور ان عقائد کی لپیت مین کتنے ہی مسلم الثبوت عقائد خاک بسر ہوجاتے ہیں یہ افسوس ناک صورتِ حال ہو تو عدل و توسط پسند کرنے والوں کو یہ کہنا ہی پڑے گا کہ جب قرآن نے آل کو خونی رشتوں تک محدود نہیں کیا بلکہ وسیع معنوں میں بھی استعمال کیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم بھی ۔۔۔۔ایسے مقامات پرجہاں وسیع معنوں میں استعمال کرنا عقل و قیاس کے خلاف نہ ہو اسے گھرانے اور اہل بیت تک محدود نہ کریں ۔ ایسا کہنا باطل عقائد کی راہ روکنے کے لئے مستحسن بھی ہوگا اورمعقول بھی ۔ اسی لئے ہم اس کہنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے کہ درود میں آل سے مراد امت کے وہ تمام لوگ ہیں جو محمد ﷺ کی شریعت کے پیرواں سے محبت کرنے والے ، ان کے سیرت و کردار کو اعلیٰ نمونہ سمجھنے والے اور طاعت و نکو کاری پر مائل ہونے والے ہیں ۔
****
لفظ آل کے مفہوم کی وسعت پر قرآنی مثال ملاحظہ فرمائیے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
’’اِذْ نجینٰکم من آل فرعونیسومونکم سوۃَ العذابِ یذبحون ابناء کم و یستحیون نساء کم ۔ ‘‘ تمام معتبر تفاسیر اتھا کر دیکھ لیجئے یہ نہیں ملے گا کہ نبی اسرائیل پر مظالم ترنے والے فرعون سے خاندانی رشتہ داریاں رکھتے تھے ۔ بلکہ ظالمین کی فہرست بڑی وسیع پائیں گے اس میں فرعون کے عزیز و اقرباء بھی ملیں گے اور مصر کے حکمران طبقے کے وہ کثیر افاد بھی جو فرعون کے رشتہ دار نہیں تھے ان سب کو آل فرعون کے لقب سے اسی لئے ملقب کیا گیا کہ ظالمانہ مزاج، متکبرانہ سیرت و کردر ، برے عادات و خصائل ، جباری قہاری کفران وطغیان اور جورو بربریت میں وہ فرعون کے ہم مشرب تھے ۔ فرعون کے بے رحمانہ احکام کے نفذ میں اس کے دست و بازو تھے ۔ اردو محاورے مین کہہ سکتے ہیں کہوہ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے تھے ۔ ان کی باہمی رشتہ داریوں سے قرآنی بیان کو کوئی سروکار نہیں ، بلکہ ان کی شقاوت و بے رحمی کی طرف اس کا روئے سخن ہے اور فرعونی عادات و خصائل کے تعلق سے ہی وہ آل فرعون کہلائے ہیں ۔پھر بار تعالیٰ فرمات ہے :۔
واِذْ فرقْنا بِکُمُ البَحْرَ فَاَنْجَیْنٰکُمْ و اَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ ۔تو تفسیریں بھی دیکھئے اور عقل سے بھی سوچئے کہ بنی اسرائیل کا تعاقب کرنے والا تمام لشکر کیا فرعون کیبھائی بھتیجوں اور سالے بہنوئیوں پر ہی مشتمل تھا یا اس میں ایسے کثیر افرا بھی رہے ہوں گے جن کا کوئی نسبی رشتہ فرعون سے نہیں تھا ۔ عقل ، نقل ، قیاس ہر اعتبار سے معلوم ہو گا کہ پورا لشکر فرعون کے قرابت داروں تک محدود نہیں ہوسکتا ۔کوئی شخص فرعون کے رشتہ داروں کو مور و ملخ جیسا تو سع بھی عطا کردے تببھی یہ تاریخ کی اتل حقیقت سے بھتی نہین کئے جاتے ہ ۔ بنی اسرائیل کا پیچھا کرنے والا طاغوتی لشکر یقیناً محض اونچے افیسروں کا مجموعہ نہ ہوگا۔ بلکہ معمولی آفیسر اور سولجر بھی اس مین کافی شامل ہوں گے ۔ پھر یہ سب ٖرق کر دئے گئے اور اللہ انھین آل فرعون سے ملقب ۔ کررہا ہے ۔ تو کیا یہ ثابت نہیں ہوا کہ آل کا اطلاق ہمیشہ اہل خاندان ہی پر نہیں ہوتا ، بلکہ کسی خاص وصف میں مشترک گروہ اور کسی خاص رخ پر چلنے والی جماعت پر بھی ہوتا ہے ۔
****
اب خود آنجناب اپنی الجھن کیبارے مین سن لیں کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔منطق بجائے روز مرہ اور محاورت کی میزان اٹھایئے ۔ آپ بسا اوقات اس انداز سے دعا مانگتے ہیں :۔
’’اے اللہ ! مجھ پر اور میرے اہل و عیال پر اپنا فضل فرما ۔ ان کی صحتوں میں برکت اور رزق میں فراوانی عطا کر۔ ان کی مشکلات کو ختم کرکے ؤسانیو کا دروازہ کھو ل دے ۔ اور اسے اللہ میرے بیٹے طلحہ ؔ کی بیماری دور فرمادے۔ اور میرے بھانجے لطیفؔ کو روزگار عطار فرما اور میرے بھتیجے نعیم ؔ کو مقدمہ میں کامیاب کردے !‘‘
۔۔۔۔۔ کیا آپ کا بیٹا ، بھانجا اور بھتیجا سب ہی اہل و عیال میں شامل نہ تھے اور پہلے عام فقروں میں آپ کی دعا ان کو شامل نہ ہوچکی تھی ؟ ظاہر ہے کہ یہ سب شامل تھے اور وہ سب مقاصد بھی دعائے مجمل میں آگئے تھے جنھیں بعد میں تشریح کے ساتھ شامل دعا کیا گیا لیک آپ کو چونکہ خصوصی تعلق ان اعزاء کے ساتھ تھا۔ اسلئے فطرتاً خصوصیتکے ساتھ ان کا نام لیا اور التجا ئے عام کے بعد التجائے خاص کیَ تخصیص بعد التعمیم ایک معروف اسلوب ہے ۔ منصوص دعاؤں میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں مثلاً ترمذی وغیرہ مین ایک دعا منقول ہے ۔
’’اللھم انی اعومن منکرات الا خلق والاعمال والاھوا ء والا دواء‘‘ (ترجمہ : اے اللہ میں آجپ کی پناہ چاہتا ہوں ناپسنددیدہ اخلاق و اعمال سے اور نفسیاتی خواہشات و امراض سے ۔)
کوئی سی بھی برائی لے لیجئے اس ایک جامع جملے میں یقیناًآگئی ہے اور اتنی ہی دعا تمام ذمائم و منکرات سے پناہ طلبی کے لئے بالکل کافی تھی ، لیکن دعا اتنے ہی پر ختم نہیں ہوگئی بلکہ آگے خاص کر ’’خیانت ‘‘ سے بھی پناہ مانگی گئی ہے ۔ تو کیا یہ کہا جاسکے گا کہ خیانت ضرور ناپسندیدہہ اعمال و اخلاق سے جدا گانہ کوئی شے ہوگی ورنہ تمام ہی منکرات سے پناہ مانگ چکنے کے بعد اس کے خصوصی ذکر کی کیا وجہ تھی کتنی جامع دعا ہے :۔
’’ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار‘‘
کونسی آسائش ایسی ہے جس کی طلب اور کون سی تکلیف ایسی ہے جس سے بچاؤ کی التجا اس بلیغ و فصیح مختصر دعا میں موجود نہیں ہے ، لیکن پھ بھی قرآن و سنت ہمیں بہت سی اور بھی مفصل اور خاص دعاؤں کی ترغیب دیتے ہیں اور انسانی فطرت بھی متقاضی ہوتی ہے کہ وقتاً فوقتاً تسمیہ و تخصیص کے ساتھ دعائین کی جاتی رہیں ۔
بس یہی صورتِ حال درود میں سمجھ لیجئے ۔ سب سے پہلے اس ہستی معظم پر نزول رحمت کی استد عا کی گئی جو ہمارے تعلق خاطر کی سب سے زیادہ مستحق اور رحمتِ خداوندی کی سب سے بڑھ کر شایاں ہے ۔ پھر فی الجملہ تمام امت کا یا کم سے کم اس گروہ مومنین کا نام لیا گیا جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے لائے ہوئے دین پر چلنے میں کوشاں رہا ہے اور رہے گا اس کے بعد شدت تعلق اور شکر گذاری کے اقتضا میں ان اصحاب کا خصوصی تذکرہ ضروری ہوا جو رسول اللہ کے بعد مسلمانون کے خصوصاً اور تمام عالمِ انسانیت کے عموماً سب سے بڑے محسن ہیں ۔ جن کی محبت حبِ نبی ؐ کی دلیل اور جن کا تشکر شکر گذار بندوں کا دلی تقاضا ہے ۔ جو قصرِ امت کے ستون اور جسدِ ملت کے فس نا طقہ ہیں ۔ اہل بیت رضوان اللہ علیہم پر خدا کی ہزار ہزار رحمتیں ہوں وہ سب ان میں بدرجہ اولیٰ شامل ہیں اور اگر عدم بلوغ کے باعث بعض افراد کی صحابیت میں کسی اصول پر ست کو کلام ہو تب بھی اس کی حقیقت اصطلاح سے زیادہ کچھ نہیں اور اہلِ بیت آل کے دائرے میں بہر صورت جلوہ افروز ہیں ۔ درود میں تو اہل بیت ونوں ہی صورتوں میں تکرار کے ساتھ شامل ہیں چاہے آل کے معنی گھرانے کے لئے جائیں چاہے متبعین و متوسلین کے ۔
امید ہے ان تصریھات سے آپکی الجھن دور ہوگئی ہوگی ۔ نہ ہوئی ہوتو چلئے آپ آل کو گھرانے تک محدود کر لیجئے۔ ہمیں اس میں بھی کوئی گرانی نہیں ۔محبوب سبحانی صلی الہ علیہ و سلم کے فوراً بعد ہم ان کی اولاد اور ان کی ازواجِ مطہرات کے لئے اللہ سے طلبِ رحمت کریں تو یہ گراں کیوں ہو۔ جن سے حضور ؐ نے محبت کی ان سے تو محبت کرنا تمام امت پر لازم ہے ۔ یہ لزوم فقہی نہ سہی ، قانونی نہ سہی طبعی اور نفسیاتی ضرور ہے ۔ بے شک ہم اہلیت کے چاہنے والوں میں ہیں ۔ لیک آل کے مفہوم و مراد کی بحث تو دراصل اس وقت کھڑی ہوتی ہے جب بعض کج فکرے مخصوص مقاصد کے لئے آل کو محدود کر دیتے ہین ان مقاصد سے ہم کبھی اتفاق نہیں کرسکتے ۔ کیوں کہ اہلِ بیت کے لئے چاہئے کتنی ہی انفرادی فضیلیتں کوئی ثابت کردے ، لیکن مجموعی اوصاف کے وزن و قیمت کے اعتبار سے فضیلت حضور ؐ کے بعد سب پرابو بکر صدیقؓ ہی کو رہے گی اور ان کے بعد علیٰ الترتیب تینوں خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم کو ۔ حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ جیسی بے مثال مائین کہاں نصیب ہوتی ہے ۔ شمس و قمر کی درخشاں نیاں ان کے نقوش قدم کی تابانیوں پر قربان ۔ بیٹے ماں سے زیادہ کسے چاہیں گے ۔ مگر مشیت ایزدی اور فیصلۂ باری کے آگے پوری کائنات سر نگوں ہے ۔ اسی نے فیصلہ کردیا کہ محمد عربی ﷺ کے بعد سب سے بڑا انسان ابو قحافہ کا بیٹا ابو بکر ہے تو پھر تمام دعوے خاموش ، تمام جذبات گنگ اور تمام دلائل سپر انداز ہوئے۔ حقائق ہمارے جذبوں کے پابند نہیں وہ اتل ہیں ۔ ناقابل شکست ہیں ۔ سبحانہٗ ما اعظم شانہٗ و ھو العلی الکبیر۔

دوراز کار:۔


دوراز کار:۔
سوال۷؂؛۔(ایضاً)
سید نا یوسف علیہ السلام جس وقت زلیخاؔ سے ملے تو کیا وہ بوڑھی تھی ؟ اور کیا وہ بد صورت تھی ؟ نیز اس کی شادی سیدنا یوسف علیہ السلام سے ہوگئی تھی ؟ اور کیا وہ ایمان لے آئی تھی یا کافر ہ ہی انتقال کرگئی تھی ۔ کیا ان مذکورہ سوالا ت کا کسی حدیث صحیح سے پتہ چلتا ہے ؟ کیا یہ بھی صحیح ہے کہ عوج بن عنق اتنا لمبا تھا کہ سمندر میں اس کے صرف ٹخنے ڈوبتے تھے اور مچھلیاں سورج کی ٹکیا سے بھونتا تھا ؟ مجھے قویٰ امید ہیکہ جناب والا مجھے محروم نہ فرمائیں گے ۔ اور قصص الانبی�أ کے پہلے باب پر بھی کچھ تبصرہ فرمائیں گے ۔
الجواب:۔معلوم نہین اس طرح کے سوالات پیدا کیوں ہوتے ہیں اور ان کا حاصل کیا نکلے گا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ میں جو اجزا بیان کے مستحق تھے انھیں قرآن نے بیان کردیا اور باقی کو چھوڑ دیا۔ حدیث بھی اس بارے میں کوئی سیر حاصل تفصیل نہین بتاتی ۔ بہت سی روایات شہرہ پاگئی ہیں جو اکثر و بیشتر موضوع ہیں ۔ ان کا سراسرائیلیات سے ملتا ہے ۔
آپ ذرا غور کرتے تو اس لغو سوا ل کی گنجائش ہی نہ پاتے کہ کیا زلیخا بوڑھی اور بدصورت تھی ؟ بوڑھی اور بدصورت عورت کے دستِ ہوس کو تو آج بھی ایک عام جوان نفرت و استکراہ کے ساتھ جھٹک سکتا ہے ۔ پیغمبر ہی نے کیا کمال کیا جس مقصد سے قصہ یوسفؑ کے اس خاص حصے کو تشریح کے ساتھ بیان کیا ہے اسے آپ نے سمجھا ہی نہیں ۔ مقصد صاف طورپر یہ بتانا ہے کہ اللہ کے مخصوص بندے کیسے کیسے نازک مواقع پر بھی صراطِ مستقیم سے نہیں بھٹکتے ایک طرف یوسف علیہ السلام پر صحت مند شباب کا نکھار ۔ دوسری طرف حسن و شباب کی کشش انگیزیوں کا مرقع ۔۔۔زلیخا انجذاب و سپردگی کے طوفانی جذبے میں سرشار دیکھنے والا کوئی نہیں ۔ خلوت اور شبستان کا نشاط افروز بستر ۔۔۔ یہی سب کچھ تھا جس نے حضرت یو سفؑ کی صسلابت کردار اور ضبطِ نفس کی قوت پر عظمت کی مہریں ثبت کردیں ۔ یہی سب کچھ تھا جس کی آہنی گرفت سے پاک و صاف بچ کر نکلجانا حضرت یوسفؑ کی پیغمبری انہ تقدیس کا بے مثال منظر سامنے لاتا ہے اور نازک تر مراحل میں جادۂ مستقیم پر قائم رہتے کا سبق دیتا ہے ۔ پیغمبرانہ عصمت مآبی کی شان ہی کیا رہے گی اگر زلیخا کو مجسم�ۂ حسن و شباب کی بجائے بوڑھی اور بد شکل مان لیا جائے ۔
بعد میں حضرت یوسف ؑ کی شادی زلیخا سے ہوئییا نہیں ۔ اس کا ہمیں علم نہین عقل و قیاس کہتیہیں نہیں ہوئی ہوگی ۔ لیکن ایک ایسے معاملہ میں عقل وقیاس کے گھوڑے دوڑا نے کی ضرورت ہی کیا ہے جس کا علم اورجہل دونوں برابر ہیں ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ زلیخا مومن مری یا کافر۔ ہماری بلا سے اس کا جو بھی حال رہا ہو ۔ اگر ایمان لائی ہوگی تو وہ ہم مسلمانوں کی اس دعا میں شامل ہے جو عام طور پر جملہ مومنیں کے لئے کی جاتی ہے اور اگر نہ لائی ہوگی تو جہنم بہر حال بہت برا ٹھکانا ہے ۔
عوج بن عنق کی لمبائی اپنے والا کوئی فیتہ ابھی تک ایجاد نہیں ہوا۔ نہ کبھی ہوگا جس طور نہ عرض کو محض و ہم و ترنگ نے جنم دیا ہو اس کی پیمائش کوئی کیوں کر کرے ۔ عوج بن عنق اگر واقعی کوئی ذی روح گذرا ہو اور اس نے سورج کی ٹکیا(؟) سے مچھلیاں بھون لی ہوں تو اس میں نہ سورف کا کچھ نقصان ہے نہ مچھلیوں کا ۔ مچھلیاں سورج سے بھونی جاءٰں یا چولھے کی آگ سے نتیجہ ایک ہی ہے ۔ پھر یہ جناب کو فکر و تشویش کیوں ؟
اچھا ہو کہ کام کی کتابوں کا مطالعہ فرمائیں اور لایعنی باتوں میں سر نہ کھپائیں ۔

لایعنی:۔


لایعنی:۔
سوال ۶؂: از۔محمد ظہیر دیو بندی۔
قصص الانبیاء (اردو ) میں لکھا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے نور محمد یﷺ پیدا کیا وہ نور محمد بارہ ہزار برس تک علم تجردی میں خدا کی عبدت میں مشغول رہا پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی چار قسم کر کے ایک سے عرش پید اکیا دوسری سے قلم ۔ تیسری سے بہشت ۔ چوتھی سے عالمِ ارواح اور ساری مخلوق اور پھر ان چار میں سے چار قسم نکال کر ۳سے عقل ، شرم ،عشق اور ایک سے میرے تئیں پیدا کیا ‘‘۔ کیا یہ سب صحیح ہے ؟ کسی حدیث صحیح سے اس کا ثبوت ملتا ہے اور کیا’’ لولاک لما خلقت الا فلاک‘‘ حدیث صحیح ہے ؟ اور انا من نوراللہ الخ بھی حدیث صحیح ہے ؟ کیا یہ بھی کسی حدیث صحیح سے ثابت ہیکہ زمین ایک گائے کہ سینگ پر قائم ہے اور جب اس کا سینگ دکھ جاتا ہے تو دوسرے سینگ پر لے لیتی ہے جوز لزلہ کی صورت میں ظاہر ہوتاہے یا فرشتہ ہاتھو ں پر لئے کھرا ہے کیا یہ صحیح ہے ؟ براہِ مہربانی آپ اپنی معلومات سے مطلع فرمایئے کہ زمین آخر کس چیز پر قائم ہے احادث صحیح اس کے بارے مین کیا کہتی ہے ۔ نیز موجودہ دور کے سائنسداں کیا کہتے ہیں کہ زمین کس چیز پر قائم ہے ۔ بڑی ہی مہربانی ہوگی اگر آپ قصص الانبی�أ کا پہلا باب ’’کائنات اور نورمحمدی ﷺ کی پیدائش ‘‘ پورا ملا حظہ فرمالیں اور پورے باب پر تبصرہ فرماویں ۔ مجھے تو یہ سب باتیں خارج از عقل معلوم ہوتی ہیں میں آج کل قصص الانبی�أ مطبوعہ کتنجانہ کا دیو بند کا مطالعہ کررہاہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی صداقت میں بہت شک مجھے امید ہے کہ آں محترم بذریعہ تجلی اس شک کو رفع کرنے کی سعی فرمائیں گے۔
الجواب:۔ کا دن ہوئے ہم نے قصص الانبی�أ کے کچھ اوراق کا مطالعہ کیا تھا اور بیچ بیچ میں سے متعد د مقامات پر نظر ڈالی تھی ۔ اس سرسری جائزے نے ہمیں اس نتیجے پر پہنچایا کہ یہ ان غیر معتمد کتابوں میں سے ہے جس کا مطالعہ وقت کے زباں اور خیالات کے انتشار سے زیادہ کوئی فائدہ نہیں دیتا ۔ اس میں نہ صرف ضعیف و منقطع روایات کی بہتات ہے ، بلکہ کتنی ہی روایات تو ا س نوع کی ہیں کہ انھیں فن کی ترازو می تولے بغیر ہی ایک مسلیم الطبع آدمی اساطیر الاولین کا نام دے سکتا ہے ۔ اس کتاب کا اندازِ بیان بھی ایسا غیر ثقہ ہے کہ عامیاور کندقسم کے لوگ ہی اس سے لطف اندوس ہوسکتے ہیں ‘ ورنہ ج شخص کے اندر شئی لطیف کی رمق بھی ہے وہ بلا کبیدگی اس کا مطالعہ نہ کرسکے گا۔تجلی کے صفحات میں ایک دو بار ضمناً اور مختصر اس کا ذکر آیا ہے تفصیلی ذکر و نقد کی یہ مستحق بھی نہیں ہے ۔
لولا ک لما کے بارے میں گذشتہ ہی شمارے میں میں کچھ عرض کیا جاچکا ہے ۔ اسے پڑھ لیجئے ۔ اگر یہ کافی نہو تو اس سے زیادہ کی امید فی الوقت ہم سے نہ کیجئے ۔ رہا گائے کے سینگ پر دنیا کے قائم ہونے کا معاملہ تو یہ خیال محض تو ہماوت ہفوات میں سے ہے اس کے لئے کوئی علمی و عقلی بنیاد موجود نہیں ہے ۔ حدیث سے اس طرح کی لغو باتیں ثابت ہونے کا اندیشہ وہی کرسکتا ہے جسے علم حدیث سے کوئی مس نہ ہو۔ خوب سمجھ لیجئے اللہ کے سچے بنی کے ارشادات مبارکہ اس طرح کی ہفوات سے بلند و برتر ہین اور ایسی فضول بوتوں پر مشتمل دوایات کو رد کرنے کے لئے روالوں گی تنقید میں وقت ضائع کے منہ پر مار دینا چاہئے ۔
حضور ؐ نے اس کی کوئی اطلاع نہیں دی کہ زمین کس چیز پر قائم ہے ۔ نہ اس طرح کی اطلاعیں دینے حضور ؐ مبعوث ہوئے تھے ۔ سائنس دانوں کی کنج کاوی نے اس باب میں جو اطلع بہم پہنچائی ہے وہ یہ ہے کہ یہ زمین اور چاند سورج وغیرہ جذب و کشش کے ایک مہتم بالشان اور محیر العقول نظام کے تحت بیکراں فضا کی پہنائیوں میں اپنے اپنے وظیف�ۂ حیات کو انتہائی صحت اور ضبط و انتظام کے ساتھ پورا کرنے میں مصروف ہیں ۔ زمین کسی ٹھوس چیز پر ٹکی ہوئی نہیں ہے ، بلکہ فضا میں حرکت کناں ہے ۔ اس کی دو طرح کی حرکتیں سائنس نے دریافت کی ہیں ۔ ایک اپنے محور پر مدور شکل میں اور ایک آگے کو بڑھتی ہوئی مستطیل انداز کی ۔ جس طرح ایک لٹو گھومتا ہوا ۔۔۔۔۔۔ ہوا سی شکل میں زمین دوہری جنبش و حرکت کے ساتھ نظم کا ئناب میں اپنا مقصدِ حیات پورا کررہی ہے۔ 
سائنس کے بے شمار نظریات اٹل ہیں ۔ انھیں ہم دریافت کا نام دیتے ہیں ۔ ان کی تردید ممکن نہیں ہے، لیکن بے شمار نظریات غیر یقینی ہیں ۔ ان کا تعلق دریافت سے نہیں ، بلکہ سائنس ہی بسااوقات ان کی تکذیب کر کے نئے نظریات پیش کرتی رہتی ہے ۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ زمین اور جرام فلکی کے نظام اور ان کے باہمی تعلق اور ان کی حرکت جنبش کے بارے میں جو کچھ سائنس کہتی ہے وہ دوسری قسم میں داخل ہے ۔ ہوسکتا ہے مزید تحقیق و تجسس کے بعد اب تک کے قائم کردہ اندازوں اور فارمولوں میں ترمیم و تنسیخ کی ضرورت پیش آئے ۔ 
لیکن جب تک یہ ترمیم و تنسیخ سامنے نہیں آتی ہمارے لئے اس مفر نہیں ہے کہ سائنس کے د عاوی کو تسلیم کرلیں یا کم سے کم خاموشی اختیار کریں ۔ مذہب نے ہمیں کوئی ایسی اطلاع نہیں دی ہے جو ان سائنسی دعاوی کے منافی ہو۔ 
قصص الانبی�أ جیسی غیر معتبر کتابوں کا مطالعہ کبھی نہ کیجئے ورنہ حدیث رسولؐ کے بارے میں ریب و تذبذب کا دروازہ کھل جائے گا۔ ہمارے بعض بزرگوں نے اپنی حد سے زیادہ معصومیت کے باعث بے شمار اسرائیلی اور دیو بالائی روایات کو حدیث سمجھ کے سینے سے لگا لیا ہے ۔ اس کے نتیجے میں احادیثِ صحیحہ کی صداقت و عظمت بھی ماثر ہوئی ۔ یہ جواب دید نیا بہت آسان ہے کہ اہلِ فن نے کھرے کھوٹے کی تمیز کا معیار مقرر کردیا ہے ۔ اور محققین نے موضوعات کے مجموعے بھی مدون فرمادئے ہیں اس لئے نفسِ حدیث سے بدگمان ہونے کا کوئی موقع نہیں ، لیکن اس تلخ حقیقت سے آنکھیں کیسے بند کی جاسکتی ہیں کہ بے شمار ناقابل اعتبار روایاتآج بھی ہمارے بعض حلقوں میں سریایۂ جاں سمجھی جارہی ہیں اور یہ حلقے جہل�أ کے نہیں بلکہ ایسے علماء کے ہیں ج کے اسماء گرامی کے ساتھ دو دو سطر کے بھاری بھر کم انقلاب لکھے جاتے ہیں ۔
نورمحمدیﷺ اور ’’امین کا قیام‘‘ تو خیر نظری مسائل ہیں جن کا کوئی جوڑ عملی مسائل سے نہیں ملتا، لیکن قیامت تو آئی ہوئی ہے کہ وہ ضعیف و سقیم روایات بھی بریلوی مکتبِ فکر کے بزرگوں کی آنکھوں کا نور اور دلِ کا سرور بنی ہوئی ہیں جن کے غیر واضح مفاہیم کو وہی و کج فکری کی خراد پر چڑھا کر اللہ کے آخری پیغمبر کو حاضر و ناظر اور عالم الغیب وغیرہ بنادیا جاتاہے ۔ العیاذ باللہ۔قبوری شریعت کا پوراقصرِ نشاط ایسی ہی روایات کی اساس پہ قائم ہے اور قبوری علماء اسی پر بس نہیں کرتے کہ ان روایات کے صریح مطالب سے واسطہ رکھیں ، بلکہ تک بندی اور کج بحثی کے ذریعہ ان کی تہہ سے وہ وہ کوڑی لاتے ہیں کہ عقل سلیم دنگ رہ جاتی ہے ۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنے مرغوب خیالات و تصورات کو عینِ حق ثابت کر دیں اور شرک و بدعت کا جوروگ ان کے دل و دماغ کو لگا ہوا ہے اس کے لئے قولِ رسولؐ سے سند مل جائے۔
اللہ تعالیٰ فکر و نظر کی نا مسلمانی سے ہر مسلما کو محفوط رکھے اور متشا بہات میں پڑ کر دین و دنیا غارت کرنے کی بجائے محکمات کے منبع اور غیر مشتبہ افکار و اعمال سے لو لگانے کی توفیقِ نیک عطا فرمائے۔

یہ نام نہاد دیوبندی


یہ نام نہاد دیوبندی 
سوال۵؂: از:۔ عبد الوحید ۔ ضلع بہر ائچ
الحمد للہ ناچیز نے جب سے ہوش سنبھالا ہے علمائے دیوبند کا معتقد رہا ہے ۔ شرک و بدعت ، میلہ و اعراس کے متعلق جو نظر یہ علمائے دیو بند کا ہے ناچیز بھی اس سے بالکل متفق ہے یہ سمجھ کر کہ یہی نظر یہ اسلام کا ہے ۔ کچھ عرصہ سے مولانا ابو الو فا صاحب شاہ جہان پوری اور مولانا محمد قاسم صاب ناظم جمعیۃالعلماء یو‘پی وعظ کے سلسلے سے عرس کے موقع پر درگاہ سید سالار مسعود غازی ؒ پر تشریف لاتے ہیں اور درگاہ میں جو عام لنگر جاری ہوتا ہے اسی میں سے کھاتے ہیں اور ایک صد روپیہ نظرنہ وصول کرتے ہیں رقم جو نذرانے کے طور پرلیتے ہیں اور جس سے لنگر پکتا ہے وہ سب چڑھا وے کی آمدنی ہوتی ہے جس کو ہم سب درست نہیں سمجھتے ہیں ۔ امسال عرس کے موعقہ پر تو کمال ہی ہوگیا وہ یہ کہ مزار پو مولانا محمد قاسم صاحب خود چڑھا وا چڑھوا رہے تھے ، مولانا کا یہ رویہ دیکھ کر بہت سے لوگ جو مزارات پر چڑھا واچڑھانے اور چڑھی ہوئی چیزوں کو اپنے استعمال میں لانے کوبرا سمجھنے لگے تھے اب تذبذب میں پڑگئے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ جب ایک دیو بندی عالم مزار پر چڑھا وا چڑھوا تا ہے اور چڑھی ہوئی رقم میں سے نذرانہ لیتا ہے تو ہمیں چڑھاوا چڑھا نے اور چڑھی ہوئی چیزوں کو استعمال کرنے میں کیا حرج ہے ۔ یہ بھی واضح ہو کہ مزار پر چڑھی ہوئی چادر بھی مذکورہ بالا مولوی صاحبان برابر لے جاتے ہیں ۔
براہِ مہر بانی آپ اپنے رسالہ تجلی کے ذریعہ اس کی شرعی حیثیت سے روشناس فرمایئے تاکہ میرا اور ان تمام لوگوں کا شک و شبہ دو ر ہوسکے جو مولانا مووف کے رویہ کے بعد پید ہوگیا ہے ؟
الجواب:۔ محترم دوست! جس طرح بریلوی علماء کے ذہن و فکر کی مٹی شیطان نے پلیدکی ہے اسی طرح وہ ظالم علمائے دیوبند کے کے پیچھے بھی لگا ہوا ہے ۔ اور چاہتا ہے کہ ان کا خانہ خراب کردے کچھ دنوں پہلے علمائے دیو بند کی قوت عمل زیادہ جاندار تھی ، وہ زہد و تقویٰ کو دانتوں سے پکڑ ے اس مسافر کی سی زندگی گذاررہے تھے جسے راستے کی دلفریبیوں سے سروکار نہیں ہوتا ،بلکہ اپنی منزل کی دھنلگی رہتی ہے ۔ لیکن پھر زمانے کی ہوا نے ان کے تنفس کو بھی مسموم کیا اور شیطان کی مسلسل و سیسہ کاریوں نے انھین بھی شرک و بدعت سے مفاہمت کی راہ پر لگادیا ۔ پہلے پہلے یہ مفاہمت درپردہ تھی کم کم تھی ۔ پھر یہ پرَ پرُ زے نکالتی گئی ۔ پھیلتی بڑھتی گئی اور اب آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ رکن حدوں کو پھلانگ کر کہاں تک جاپہنچی ہے ۔
مولانا ابوالوفا اور مولانا محمد قاسم ۔۔۔واقعۃً دیوبندی کتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں یا نہیں ؟ اس میں ہمیں شک ہے ۔ لیکن اگر واقعۃً ان کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ دیوبندی مسلک کے آدمی ہیں اور دوسرے لوگ بھی انھیں دیو بندی ہی مسلک کا ترجمان سمجھتے ہیں تو اچھی طرح سن لیجئے کہ دیو بند یت کسی نسلی یا وطنی خصوصیت کا نام نہیں جو ایک بار چپکنے کے بعد مرتے دم تک چھٹنے ہی کا نام نہ لے ۔ قبوری بدعتوں کی حوصلہ افزائی ، عرسوں میں شرکت اور نذر و نیاز کے مذموم جھمیلوں سے تعلق خاطر کا گھنا ؤ نا نظارہ دیکھنے کے بعد ہر عاقل و بالغ بلاتامل کہہ سکتا ہے کہ اگر یہ لوگ پہلے ’’دیو بندی ‘تھے تو اب نہیں رہے ۔دیو بند جس طرز فکر کا نام ہے اس میں ان بدعات کی کوئی گنجائش نہیں کوئی شخص دیو بند یت کا دعویدار ہوتیہوئے بھی اس طرزِ فکر کا عملی مظاہرہ کرتا ہے تو دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں ۔ یا تو وہ صریحاً دھوکادے رہا ہے یا وہ ابن الوقت ہے کہ گنگا گئے تو گنگارام اور جمنا گئے تو جمنا داس۔
جو لوگ مذکورہ دونوں علماء کا ر ودی دیکھ کر تذبذب میں پڑگئے ہیں ان سے پوچھئے کہ کیا وہ بے شمار مسلمانوں کو فسق و معصیت میں مبتلا دیکھ کر نفسِ اسلام ہی کے بارے میں تذبذب کا شکار ہوگئے ہیں ۔۔ اگر نہیں تو پھر دو علماء کی متذکرہ حرکات سے انھین ان عقائد کے بارے میں کیوں تذبذب لاحق ہوا جو دیو بند یوں کے اپنے گھڑے ہوئے نہیں ، بلکہ قرآن و سنت کے پاکیزہ سر چشمے سے نکلے ہوئے ہیں ۔
یاد رکھئے ۔ قبروں کے عرس، چڑھاوے اور دیگر مروجہ طور طریق بدعت و معصیت ہی رہیں گے چاہے سہارا دیو بند مل کر بھی ڈھنڈورا پیٹے کہ یہ چیزیں جائز ہیں ۔ مسلمانوں کا شراب پینا ‘ سود لینا ‘ گالی بکنا اگر یہ معنی نہیں رکھتا کہ اسلام میں یہ چیزیں جائز ہوگئی ہیں تو کسی نام نہاد دیو بندی عالم کا قبوری شریعت اور مردہ پرستی کی سر پرستی کرنا یہ معنی کیوں کر رکھ سکتا ہے کہ یہ بدعات و خرافات دیو بندی مسلک میں رو اقرار پا گئی ہیں ۔
متذکرہ دونوں علماء کے ذاتی اوصاف و احوال سے ہمیں واقفیت نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ ہوسکتا ہے یہ حضرات اربابِ زہد و تقویٰ میں سے ہوں اور علم و فہم کے اعتبار سے بھی ممتا ز درجہ رکھتے ہوں ، لیکن یہ بہر حال یاد رکھئے کہ شیطان کے مکر وفن کی زد سے کوئی باہر نہیں ہے وہ اچھے اچھے صالحین کو ادنیٰ تر منافع اور حقیر ترین مصالح کے پیچھے دوڑا دیتا ہے ۔ ابن الوقتی کا سبق دینا تو اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور ساتھ ہی وہ فقہی رعایتوں اور حیلوں کا ایک تھیلا بھی آگے بڑھا دیتا ہے کہ لو اس میں تمہارے فعل و عمل کی تصویب و تائید کے لئے گھڑے گھڑائے دلائل کا بہت سا ذخیرہ موجودہے ، جو منہ آئے اسے دلائل کی مارد دوا اور اپنی ابن الوقتی کو عین حکمت و دور اندیشی ثابت کر کے معترضین کو ’’وہابی‘ ‘قرار دے ڈالو۔ 
عرس بازی ، لنگر بازی اور قبوری نذر و نیاز کی ہر بازی ہر حال میں بدعت ہی رہے گی ، چاہے دو دیوبندی نہیں ، بلکہ سارا دیو بند شریعت قبویکے آستانے پر گھٹنے ٹیک دے ۔ دین ہم دیو بندیوں کے فکر و عمل کا نام نہیں ہے ۔ دین تو اللہ اور رسول کے فرامین و ہدایان کا نام ہے۔ وہ اٹل ہیں غیر متبدل ہیں ‘ لافانی ہیں ۔ ان قبوری میلوں اور من گھڑت ہنگاموں اور بے اصل اجتماعوں کا کوئی جواز اللہ کے دین مبین میں نہیں ہیجنھیں آج مسلمانوں کے بہت برے انبوہ نے عین ثواب جان کر حرز جان بنالیا ہے ۔ زوال آمادہ قوموں کا اس طرح کی گمراہوں میں سر گرداں ہونا یک تاریخی کلیہ ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکت ۔ تھیٹر ، سینما ، کلب گھر اور شراب خانے اتنے خطر ناک مقامات نہین ہیں جتنے اولیأ اللہ کے مزارات بن کے رہ گے ہیں ۔ اول الذکر کی قباحت وشناخت کو ہر مسلمان جانتا ہے او بد قسمتی سے اگر ان تک پہنچ بھی جاتا ہے تو اس جہل مرکب میں گرفتار ہیں ہوتا کہ میں کوئی فعلِ خیر انجام دے رہا ہوں ، بلکہ یہی سمجھتا رہتا ہے کہ گناہ کررہا ہوں ۔ لیکن مزارات کے میلے تو وہ سسین دلدل بن کے رہ گئے ہیں کہ صراطِ مستقیم سے ہٹے ہوئے لوگ اس میں گلے گلے دھنس جانے کے بعد بھی یہی سمجھتے رہتے ہیں ہم روح القدر کے پروں پر سوا ر ہیں اور ثواب و برکت کے بے حساب خزانے آخرتمیں ہمارا انتظار کررہے ہیں ۔
حالاں کہ خدا محفوط رکھے شرک ہی وہ سب سے ملعون معصیت سے جس کی معافی کا کوئی امکان ہی نہیں ، اگر جہنم اور محاسبۂ آخرت پر یقین کی طرح یقین ہوتا تو ہر صاحب ایمان کو اس پر خطر گھای سے کوسوں دور بھاگنا چہئے تھا جہاں شرک کی زہریلی ہوا کا معمولی سابھی اندیشہ ہو، مگر ہو یہ رہا ہے کہ کج فکر ، کم نظر اور بے پوا علماء کی ایک فوج عوام کو غول درغول ان قبوری ہنگامہ آرائیوں کی طرف ہنگامے لئے جارہی ہے جہاں خدائی کے تمام اوصاف مردہ بزرگوں کے ہاتھ میں دیدئے گئیہیں اور عقیدہ تو حید محض کھلونے کے طور پر ذہن و قلبکی محرابوں میں سجا کر رکھ دیاگیا ہے ۔
یہ رو۔۔۔ یہ طوفانِ ضلالت۔۔۔ یہ طغیانِ جہل ابھی اور آگے بڑھے گا ۔ اس کیلئے ہر آج گذشتہ کل سے زیادہ ساز گار ہے ۔ اس کے خروش کو تیز تر کرنے ولے عناصر بدلتے ہی جارہے ہیں ۔
ہم سے جہاں تک ہوسکتا ہے فریضہ ابلاح ادا کئے جارہے ہیں ، لیکن تنکوں سے طوفان کے منہ نہیں پھرا کرتے کسی کاجی چاہے تو ہماری معروجات پر دھیان دے لے ۔ نہ چاہے تو اسے اختیار ہے ۔ واللہ یھدی من یشاء الیٰ صراط مستقیم۔ 

ایک حیرت ناک صورتِ حال :۔


ایک حیرت ناک صورتِ حال :۔
سوال ۴؂
عجیب بات ہے کہ جو لوگ صرف نام کے مسلمان ہیں جن کا مزہب محض نمازِ عید تک محدود ہے اور پوری زندگی غیر اسلامی طریقے پر گذارتے ہیں وہ تو مزے کر رہے ہیں ۔ ان کے پاس مال ، اولاد ،آرام سبھی کچھ ہے ، آسائش ہے ، عزت ہے ۔ مگر جو لوگ احکام خداوندی کی پیروی میں لگے ہوئے ہیں اور واقعۃًمومنوں کی سی زندگی گذارنے میں کوشاں ہیں ان کا عالم یہ ہے کہ فراغت و آسائش تو درکنار ضروریات ِ زندگی گذارتے ہیں اور مصیبت و افلاس کا شکار رہتے ہیں ۔
الجواب:۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو قاعدہ کلیہ آپ نے بیان فرمایا وہی واقعات کی روشنی میں صحیح ثابت نہیں ہوتا ۔ معاشرے میں بے شمار مسلمان آپ کو ایسے ملیں گے جو پکے دنیا دار اور بد عمل ہونے کے باوجود خوش حالی و آسائش کی زندگی نہیں گذاررہے بلکہ نوع بہ نوع آلام و افکار کا شکار ہیں ۔ اور بہت مسلمان ایسے ملیں گے جو بفضلہ تعالیٰ نیکوکار ہیں ، پابندِ شریعت ہیں مگر خوشحالی و آرام کی زندگی گذاررہیہیں ۔ قصہ دراصل یہ ہے کہ نام کے مسلمانوں کی تعداد تو بہت ہے ۔ اور اچھے مسلمانوں کی گنتی بہت کم ۔ فرض کیجئے ایک لاکھ بھیڑوں کے ریوڑ میں بیس ہزار بھیڑیں بیمار ہوجائیں تو ان کی بیاری اتنی نمایا نہیں ہوگی جتنی ایک ہزار کے ریوڑ میں ڈیڑ سو بھیڑوں کی بیماری ۔ حالاں کہ مریض بھیڑوں کا فیصد اوسظ پہلے ریوڑ میں زیادہ ہے اور دوسرے مین کم ۔ اسی طرح نام کے مسلمانوں میں اگر چہ کشتگانِ آلام و آفات کا تناسب مقالۃً کم نہیں ہے لیکن وہ کم اس لئے معلوم ہوتا ہیکہ مجموعی تعداد و افر ہے اور اچھے مسلمانوں میں یہ تناسب اگر چہ کم ہے ، لیکن زیادہ نمایا محسوس ہوتا ہے کیوں کہ مجموعی تعدا ہی تھوڑی ہے ۔
ایک بڑا مغالطہ یہ ہے کہ ہم رنج و راحت کو صرف ظاہری طمطراق اور مال و دولت کے پیمانوں سے ناپنے کے عادی ہوگئے ہیں ۔ ہماری نگہ میں وہ شخص جس کے پاس موٹر ہے ، کوٹھی ہے ، قیمتی ملبوسات اور سامانِ آسائش کی بہتات ہے اس شخص کے مقابلہ میں یقینی طور پر زیادہ راحت و آسائش میں ہے جسکے پاس یہ سب سامان نہیں ہے بلہ موٹا جھوٹا کھا پہن کر اپنی اور اپنے اہل و عیال کی گذر بسر کررہا ہے ۔ حالانکہ فی الحقیقت یہ فیصلہ ہر حال میں درست نہیں ہوتا ۔ رنج و راحت کا تعلق دلوں کی کیفیات سے ہے ۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ اول الذکر قسم کے لوگ فراوانیِ اسبات کے باوجود اتنی زیادہ مطمئن و مسرور زندگی نہیں گذارتے جتنی ثانی الذکر قسم کے لوگ گزار جاتے ہیں ۔ ایک مزدور دن بھر محنت کرنے کے بعد بال بچوں کے درمیان بیٹھا ہوا اگر باسی دال روٹ ہنس ہنس کر کھا رہا ہے اور اس کے بچوں کے جس موں پر بہت گھٹیا کپڑے ہیں تو یقین کیجئے اکثر حالات میں وہ اس موٹر نشین سے زیادہ مسرور و مطمئن ہوتا ہے جو جاہ ودولت کی دوڑ میں اپنے کسی ہم پیشہ حریف سے پیچھے رہ گیا ہے۔اور آگے بڑھنے کی ادھڑی بن میں گرفتار ہے ۔ نئی تہذیب کے مظاہر نے ہمیں ہت دھوکے میں ڈالا ہے ۔ رات بھر کھلنے والے ایک کلب میں جگ مگ کرتا ہوا ما چول ‘ رقص و سرود‘ لذیذ مشروبات ‘ خوش پوش مردوزن ‘ قہقہے اور عیش و طرب کے مظاہر ہمیں یقین دلاتے ہین کہ یہ جنت ہے اور یہاں دادِ عیش دینے عوالا ہر فرد بہترین لذت و راحت کی زندگی گذار رہا ہے ، لیکن ان ’’اہلِ جنت‘‘ کی پوست کندہ زندگی کا غائر مطالعہ اگر کوئی کر سکے تو اسے پتہ چلے گا کہ ان میں کی اکثریت حد درجہ غیر متوازن حالات کا ہدف ہے ، نوع بہ نوع مسائل نشتر بن کر اس کے لیجے میں اترے ہوئے ہیں ۔ حقیقی احساسِ راحت و انبساط سے اس کے زہن و قلب محروم ہیں ، کتنے ہی کانٹے اس کے رگِ احساس میں پے بہ پے کھٹکتے رہتیہیں ، نوع بہ نوع ذہنی کلفتوں کے مارے لوگ ایک ظاہر فریب ماحول میں اس شرابی کی طرح آتے ہیں جونشہ کے ذریعے غم و آلام کی تلخی فراموش کردینا چاہتا ہے اور ان سے کہیں زیادہ مسرور مطمئن وہ غریب اور ’’غیر مہذب ‘‘ افراد ہیں جن کی زندگی بظاہر تو کشمکشِ حیات ہی میں کٹ رہی ہے ، لیکن گھریلو ماحول میں وہ چند سانس حقیقی اطمینان و مسرت کے بھی لے ہی لیتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ کی فرض کردہ صورتِ حال کو واقعہ ہی تسلیم کرلیا جاے تب بھیکوئی الجھن ایسی نہیں سامنے آتی جس کی عقدہ کشائی ممکن نہ ہو۔ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہمیں ان نعمتوں اور عذابوں پر پورا ایمان ہونا چاہئے جن کا ذکر قرآن و سنت میں آیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ آخرت کی معمولی نعمتیں بھی دنیا کی بہترین نعمتوں سے کہیں اعلیٰ اور آخرت کا معمولی عذاب بھی دنیا کی شدید ترین مصیبتوں سے کہیں شدید ہے ۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنے نافرمان بندوں کو کچھدنوں دنیا کی معمولی نعمتوں کے بارے میں ڈھیل دے دے ۔اور پھر آخرت کے سخت عذاب سے دو چار کردے تو ان کی حالت قابل رشک ہے یا ان فرمانبردار بندوں کو قابل رشل سمجھنا چاہئے جو دنیا کی قلیل المد زندگی تو تکلیف سے گذر جائیں ، لیکن آخرت کی بہترین نعمتوں سے بہرہ ور ہوں اور ان طویل ایام میں چین کا سانس لیں ، جن کا ایک ایک لمحہ بعض حالتوں میں سالوں کی وسعت رکھتا ہے ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص دنیا ہی کی زندگی کو سب کچھ یا بہت کچھ سمجھ کر اسلامی مسائل پر گفتگو کرے گا اور آخرت کو نظر انداز کردے گا یا محض ضمنی حیثیت دے ڈالے گا وہ ضرور سفسطے اور غلط فہمی میں گرفتار ہوگا ۔ آخرت اور اس کی زندگی کو فی الحقیقت وہی اہمیت دی جائے جو اسلام دیتا ہے تو ہرا لجھن اور مالطے کا استیصال ہوجائے گا ۔ اور کچھ نہیں تو اسے آزمائش ہی سمجھ لیجئے کہ نکو کاروں کو قدم قدم پر مصائب و آلام کا سامنا ہو اور دین و اخلاق کا دامن تھامے رہنا مشکل ہوجائے ۔ آخر آزمائش تو سختیوں ہی کا نام ہے ۔ انعام و اکرام کا وہی مستحق ہوگا جا سخت مراحل کو صبر و استقامت سے طے کر جائے گا اور پیش پا افتادہ لذات و نعم پر اپنے دین و ایمان کی قربانی دینے کی بجائے ان دیر میں حاصل ہونے والی لذتوں اور نعمتوں پر نظر رکھے گا جو امتحان میں پورا اترنے پر ہی نصیب ہونے والی ہیں ۔

پیشۂ وکالت :۔


پیشۂ وکالت :۔
سوال ۳؂: از محمد یحییٰ ۔حیدرآباد ۔دکن۔
ایک ایسے ملک میں جہاں کی حکومت غیر اسلامی و لادینی ہو کیا قانون کی تعلیم حاصل کر کے وکالت کا پیشہ کرنا جائز ہے ؟
الجواب:۔ جہاں تک نظری پہلو کا تعلق ہیہم پیشۂ وکالت کو اس قید کے ساتھ جائز سمجھتے ہیں کہ صرف ان قوانین کی وکالت کی جائے جو اسلام کی تردید اور کفر و شرک کی تصدیق کرنے الے نہ ہوں اور وکیل ان تمام نا جائز ہتھکنڈوں سے بچارہے جو فی زمانہ لازمۂوکالت ہوکر رہ گئے ہیں ۔
کسی غیر اسلامی حکومت کے تمام ہی قوانین اسلام شکن نہیں ہوتے ۔ کسی قانون کا اسلامی نہ ہونا اور بات ہے لیکن اسلام شکن ہونا بالکل اور۔ اسلام شکن قوانین کی وکالت تو فسقِ جلی ہے ۔ اگر وکیل اس فعل کو برا سمجھتے ہوئے کررہا ہے اورکفرِ صریح ہے اگر وہ اسے برا بھی نہیں سمجھتا ۔ 
لیکن یہ محض نظر سطح کی گفتگو تھی ۔ عملی اعتبار سے بہت مشکل ہوگیا ہے کہ آج کا وکیل نوع بہ نوع ذمائم و قبائح سے ملوث ہوئے بغیر اپنا کام چلا سکے ۔ماحول اس قدر بگڑ چکا ہے کہ شاذ و نادر لوگ سلامت روی کا عزم لے کر اس میدان میں آتے ہیں وہ بھی زیادہ دیر اس عزم کو نہیں نبھاسکتے اور دو ہی راہیں ان کے آگے رہ جاتی ہیں ۔ یا تواپنے نیک تصورات کا بستہ بغل میں دبائے اس میدان سے بھاگ جائیں یا پھر ایمان و اخلاق کی قدروں کو بالائے طاق رکھ کر ماحول کے تمام برے تقاضو ں کو اپنا لیں ۔
اس عام صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ پیشۂ وکالت سے دور بھاگنا ہی ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو زندہ ضمیری کی زندگی گذارنا چاہتیہیں اور مرنے کے بعد محاسبے پر یقین رکھتے ہیں ۔ واللہ اعلم۔

احتیاط الظہر


احتیاط الظہر
سوال ۲؂:۔ از مولوی سیف الرحمن ۔ ضلع جہلم ۔ مغربی پاکستان ۔
آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان و ہندوستان میں حضرات احناف اپنے فقہاء کے مسلک کے مطابق شہروں اور چھوٹے بڑے قصبات میں نماز جمعہ کی رسم تو ادا کرتے چلے آرہے ہیں اور ساتھ ہی نمز کے بعد احتیاط الظہر بھی ادا کرنی ضروری سمجھتے ہیں ۔ اس خیال پر کہ امام کی عدم موجودگی جمعہ کی ضروری شرط ’’مسلمان امام کا ہونا ‘‘ ضروری ہے چونکہ مفقود ہے اس لئے احتیاطً نمازِ ظہر ادا کرلینی چاہئے ۔ کیا پاکستان میں جو حکومت مسلمانوں نے قائم کی ہے اس میں بھی احتیاط الظہر کی ادائیگی ضروری ہے ؟ جبکہ مسلمانوں کی حکومت میں اسلامی قونین کا اجرا نہیں ۔نیز یہ بھی واضح فرمائیں کہ وجود امام کی شرط کا قول حضرت امام اعظم ؒ کا ہے یا بعد کے فقہا ء کا اضافہہے ۔ اس مسئلہ پر جو بھی فقہی اور تاریخی مواد آپ کے مطالعہ میں آئے مدلل تحریر فرمائیں ۔ بعض جگہ تو نماز جمعہ کے بعد احتیاط الظہر باقاعدہ اقامت کے بعد با جماعت ادا کی جاتی ہے ۔ اس کا کیا حکم ہے ؟ ہر جگہ احتیاط الظہر کے تارک کو وہابی کے لقب سے ملقب کیا جاتاہے ۔کیا فی الحقیقت یہ ایسا ہی مسئلہ ہے جو کہ سنی اور وہابی کی علامت ہے ؟

الجواب:۔
یہ کہنا قطعاً خلافِ واقعہ ہے کہ حضرات احناف ادائے گیِ جمعہ کے بعد احتیاط الظہر بھی ادا کرنی ضروری سمجھتے ہیں ۔ آپ کو غلط فہمی شایس اس لئے ہوئی کہ جن لوگوں کو آپ نے احتیاط الظہر کا پابند دیکھا وہ خود کو حنفی کہتے ہیں اس لئے آپ نے قیاس کیا کہ واقعی تمام احناف کے نزدیک احتیاط الظہر ضروری ہے ، لیکن خوب سمجھ لیجئے کہ احتیاط الظہر نہ فقہ حنفی میں کوئی حقیقت رکھتی ہے نہ فقہ شافعی میں ۔ بلکہ یہ ایک بدعت ہے جسے لوگوں نے خواہ مخواہ گھڑ لیا ہے اور حقیقت کے ساتھ اس کو جوڑ لگا کر امام اعظم ؒ کی فقہکو بدنام کرتے ہیں ۔ آپ جے جو بتایا کہ احتیاط الظہرکے تارک کو وہابی کا لقب دیا جاتا ہے تو اس سے بھی ثابت ہوا کہ یہ انھی کا ریگروں کی حرکت ہے جو قبوری شریعت کی تمام بدعتوں میں گلے گلے اترے ہوئے ہیں مگر خود کو اہل سنت اور حنفی کہتے کہتے ان کے منہ خشک ہوئے جاتے ہیں ۔ یہ وہی لوگ ہیں کہ اصحاب علم و قعل کی گرفت سے بچنے کے لئے انہوں نے ’’وہابی ‘‘ کی پھبتی گھڑلی ہے ۔ ان کی مثال اس معاملہ میں روسیوں جیسی ہے کہ جہاں وہ کسی کے خلاف ہوئے اسے رجعت پسند اور بوژوا اور سامراج کا یجنٹ قرار دیا۔خوب سمجھ لیجئے جو شخص مسائل پر سنجیدہ علمی و عقلی گفتگو کر نے کے بجائے اپنے سے اختلاف رکھنے والوں کو ’’وہابی ‘‘ کہہ کر جان بچا بھاگتا ہے اس کے دل و دماغ کو قبوری شریعت کا مالی خولیا ہوچکا ہے اور علمی متانت کی اس سے کوئی توقع نہیں کی جاسکتی ۔
آپ پاکستان کی بات کرتے ہیں جہاں بفضلہ تعالیٰ مسلمانوں کی حکومت ہے ۔ ہم تو ہندوستان کے بارے میں کہتے ہیں کہ آج بھی جب کہ یہاں ہندو اکثریت مقتدر ہے اور گذشتہ کل بھی جب یہاں انگریز کا راج تھا احتیاط الظہر کی کوئی حقیقت نہیں تھی نہ آج ہے ۔ 
جن حنفی علما نے اولاً اسے ایجاد کیا ان کی نیت پر ہمیں کوئی شبہ نہیں ، لیکن یہ بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ ان کی یہ ایجاد غیر ضروری احتیاط پر مبنی تھی ۔ اور حنفی زاویۂ فکر جس شے کا نام ہے اس کے دائرے میں اس کے لئے کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی ۔
آخر یہ وہابیت کی زڑلگانے والے ہمیں علمی سطح پر سمجھائیں تو کہ احتیاط الظہر کیا چیز ہے ۔ کیوں ایک ایسی نماز ایجا کی گئی ہے جس کے لئے حدیث آچار صحابہ ،اقوالائمہ اور فرموداتِ مجتہدین میں کوئی حکم ، کوئی ترغیب کوئی نظی نہیں ملتی ۔
اگر یہ کہتے ہیں کہ مذہب حنفیہ میں امام یا اس کا نائب شروطِ جمعہ میں سے ہے اور یہ امام یا نائب ان کے نزدیک مسلمان ہونا بھی ضروری ہے تو پھر کسلئے یہ ہندوستان میں نمازِ جمعہ ادا کرتے رہے ہیں ۔ دیانت کی بات تو یہ تھی کہ جمعہ کا قصہ ہی ختم کرتے اور بقیہ چھ دنوں کی طرح جمعہ کے دن بھی ظہر ہی کی جماعتیں ہواکرتیں ۔یہ کیا بات ہوئی کہ حنفی ہونے کے باوجود وہ جمعہ بھی قائم کرتے رہے اور عبادت سے روحِ یقین نکالنے کے لئے احتیاط الظہر کا بھی قضیہ کھڑا کیا۔
کھلی بات ہے کہ انہوں نے قیام جمعہ میں حنفی مسلک کو چھوڑا اور ان ائمہ کا مسلک اختیار کیا جو امام کو شروطِ جمعہ میں داخل نہیں کرتے ۔اگر یہ وطیرہ ان کے نزدیک درست تھا تو پھر شک میں نہیں پڑنا چاہئے تھا کہ جمعہ ہوا یا نہیں ۔ غالباً وہ شک میں اسلئے پڑے کہ جن دوسرے ائمہ کا مسلک انہوں نے اختیار کیا تھا ان کے نزدیک شہر میں متعدد جگہ جمعہ درست نہیں ہے ۔ جس نے پہلے جمعہ ادا کرلیا اس کا ادا ہوا باقیوں کا ادا نہ ہوا۔اور ان پر ظہر کی نماز باقی رہی ۔اب شہروں میں یہ ٹھیک ٹھیک پتہ چلانا تو دشوار ہے کہ کس کا جمعہ پہلے ہوا ‘ لہذا انہوں نے احتیاط الظہر کی راہ نکالی کہ اگر جمعہ نہ ہوا ہو تو ظہر ہی ادا ہوجا ئے ۔ یہ بظاہر مستحسن فعل تھا ، لیکن اس میں وہی قباحت موجود تھی جو ظاہر ہوکر رہی یعنی احتیاط الظہر ایک نمازِ مستقل بن گئی اور ہر ہفتے ایک دن ایسا آنے لگا کہ جس میں پانچ کی بجائے چھ فرض نمازیں پڑھی جانیلگیں ۔ یہ دین میں اضافہ نہیں تو اضافہ کس چیز کا نام ہے۔
اب سن لیجئے کہ جن علمأ کے ذریعہ یہ معلوم ہوا کہ امام یا اس کے نائب کا وجود جمعہ کے لئے شرط ہے ۔ انھیں علمأ سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ امام یا اس کا نائب نہ ہوتو مسلمان اپنا امامِ جمعہ مقرر کر کے نماز پڑھ لیں ۔ اب بتایئے ، کیا شک رہا جمعہ کی ادائیگی میں ۔ کیا ہند و پاک سبھی سجہ مسلمان اپنا ایک امامِ جمعہ مقرر کر کے جمعہ ادا نہیں کرتے ؟ اگر خواہ مخواہ یہ کہا جاے کہ مذکورہ علمأ کا ہم یہ دوسرا قول نہیں مانتے تو پھر ان کا یہ پہلا ہی قول کیوں مان لیاجائے کہ جمعہ کے لئے ’’امام‘‘ (خلیفہ) شرط ہے ۔ یہ قول بھی رد کردیجئے ۔ جمعہ پھر بھی غیر مشکوک طور پر ادا ہوا ۔
صاف سی بات ہے کہ اگر مدعیانِ حنفیت کے نزدیک ’’امام‘‘ کا وجود واقعی شرطِ جمعہ ہے اور یہ امام م�ؤمن بھی ہونا چاہئے ۔ تو پھر ہندوستان جیسے جگہوں میں انگریز یا اہل ہنود کے غلبۂ و اقتدار کی صورت میں جمعہ پڑھنا ہی نہ چاہئے ، کیوں کہ جب شرط موجود نہیں تو یہ دور کعتیں محض نفل ہوں گی ۔ہر ساتویں روز نفلوں کو جماعت کثیرہ کے ساتھ ادا کرنا کس امام نے بتایا ہے ؟ کیوں نہ ظہر ہی کی جماعت کی جائے اور جمعہ کو خلیف�ۂ مؤمن کے ظہور تک تہہ کر کے رکھ دیا جائے۔
ہم سے پوچھتے تو کتب حنفیہ میں جس خلیفہ و امام کو شرط جمعہ قرار دیا جاتا ہے اس کا مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے ۔ مسلک حنفی کی ترجمانی کرنے ولای جامع الرموز میں ہے :۔ ’’لفظ خلیفہ وامام کے اطلاق سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام شرط نہیں ہے ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ خلیفہ و امام کی شرط اس صورت میں ہے جب کہ اس سے اجازت لینا ممکن ہو رورنہ سلطان شرط نہیں ہے حتیٰ کہ اگر سب کسی شخص کے بارے میں متفق ہوجائیں اوراس کے پیچھے نماز پڑھ لیں تو نماز ہوجائے گی ۔جیسا کہ جلالی میں ہے ‘‘
رؔ دالمحتار میں مبسوط سے نقل کیاگیا ہے ۔’’اگر والی کافر ہوں تو بھی مسلمانوں کو نماز جمعہ جائز ہے ۔‘‘
اگر مسلمان خلیفہو امام ہی جوازِ جمعہ کی شر ط ہوتو اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہوگا کہ فرضیت جمعہ جغرافی اعتبار سے انتہائی محدود ہوجائے حالاں کہ جمعہ کی فرجیت دوسری ہی فرض نمازوں کی طرح نصوصِ صریح سے ثابت ہے اور کسی آیت یا حدیث سے واضھ نہیں ہوتا کہ اس کا انعقاد بس مسلمان ہی کی ممالک میں ہونا چاہئے ۔
یہ گفتگو تو ہندوستان جیسے ملک کے تعلق سے تھی ۔ لیکن پاکستان میں بھی جو لوگ ادائے گیِ جمعہ میں متردد ہیں اور احتیاط الظہر با جماعت تک کی نوبت پہنچائے ہوئے ہیں انھیں انہ صرف یہ کہ فہم مسائل سے عاری سمجھنا چاہئے بلکہ وہ اس لائق ہیں کہ وہاں کی مسلمان حکومت اس سے باز پرس کرے ۔ پاکستان میں اول تو احکام کفر رائج نہیں ہیں ۔۱؂ (۱؂)ابھی ۔۔۔۔۔کمیشن کی جس پورٹ کو پاکستان میں آئینی شکل دی گئی ہے اسے ہم شریعت میں در انداز ی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)مسلمانوں کو اپنے دینی امور میں خاصی آزادی ہے اور حکومت اسلام کی برتری اور حقانیت کی کھلم کھلا قائل ہے وہاں کے والی و حکام بلاریب مسلمان ہیں ۔ ان کی موجودگی میں ادائیگیِ جمعہ شمہ برابر بھی مشکوک نہیں جو احتیاط الظہر کی نچ لگائی جائے ‘‘ لیکن اگر کچھ نادان یہ گمان کرے ہیں کہ وہاں بعض خلافِ اسلام قوانین موجو دہیں اور نئے انداز کا جمہوری نظام رائج ہے اس لئے وہاں کے والی و حکام کا وجود ادائے گی جمعہ کے لئے کافی نہیں تو اسے صاف صاف بتانا چاہئے کہ جن احناف نے والی و امام کو شروطِ جمعہ میں داخل کیا ہے انہوں نے یہ قید کہاں لگائی ہے کہ یہ والی و امام اسی وقت شرطں جمعہ کو پورا کرسکتے ہین جب کہ انہوں نے خلافتا8 راشدہ کا نظام قائم اور خالص قرآنی دستور نانذ کیا ہو۔
کیا مسخرہ پن ہے ۔ مملکت مسلمان ۔ عمال و خھام مسلمان ، مگر بے یقینی اور تذبذب کے مارے لوگ احتیاط الظہر کی بدعت پہ جمے ہوئے ہیں وہاں کے حکام کو ان متشککین سے پوچھنا چاہئے کہ کیا تم ہمیں کافر سمجھتے ہو مسلمان نہیں مانتے ؟ اگر مسلمان مانتے ہو تو پھر کیوں جمعہ کی ادائے گی میں متردد ہو اور کس بنیاد پر احتیاط الظہر کا قضیہ کھڑا کرتے ہو۔
خوب سمجھ لیجئے اعمال کی روح یقین و طمانیت ہے ۔ شک بیچ میں آگیا تو خشوع و خضوع غارت ہوا ۔ اگر مقصود کج بحثی نہیں بلکہ اللہ کی عبادت ہے تو ایک بار پوری طرھ سوچ سمجھ لیجئے کہ جہاں آپ ہیں وہاں نمازِ جمدہ ہوسکتی ہے یا نہیں ۔ اگر فیصلہ یہ ہو کہ نہین ہوسکتی تو جمعہ کا دکھا وا ختم کردیجئے اور محض ظہر پڑھا کیجئے ۔ اور اگر فیصلہ اس کے خلاف ہوتا پھر پورے وثوق و ایمان کے ساتھ جمعہ ادا کیجئے۔ احتیاط الظہر کا شوشہ مت چھوڑیئے ۔ان لوگوں کو نمازِ جمعہ کے لئے کیا رغبت اور شوق اور ذوق ہوسکتا ہے جنھیں سر ے سے اسی میں تردد ہوکہ یہ فریضہ ادا بھی ہوتا ہے یا نہیں ۔
ہمارے علم کی حد تک جمعہ کے لئے امام یا نائب کی شرط امام اعظم ؒ سے منقول نہیں بعد کے علمائے احناف نے ظاہر فرمائی ہے ۔ لیکن س کی بنیادی وجہ اختلاف و نزاع کا دروازہ بند کرنا تھا ۔ اب جب کہ ہم مسلماں بلا لڑے جھگڑے کسی ایک مسلمان کو امامِ جمعہ بنا کر نماز پڑھ لیتے ہیں تووہ وجہ ہی ختم ہوئیجس کیلئے شرط کا اضافہ کیا گیا تھا۔
’’وہابی الی بات سے ظاہر ہی ہوگیا کہ تذکرہ ان کا ریگروں کا ہے جو اپنی ہر بدعت و گمرا ہی کا جواز و ہابیت کی چلتی ہوئی پھبتی کے ذریعہنکالتے ہیں ۔ یہ لوگ حنفیتو برائے نام ہیں دراصلاپنے تو ہمات کے غلام ہیں ۔ ورنہ اسی احتیاط الظہر کے مسئلہ پر وہ احناف کی متد اول کتابیں اٹھا کر دیکھ لیتے تو حقیقت واضح ہوجاتی ۔ ان کتابوں میں ہے کہ نماز احتیاطی ہر گز درست نہیں کسی طرح جائز نہیں ۔ بحرالرائقؔ میں اس سے روکا گیا ہے ۔ تاتار خانیہ میں کہاگیا ہے کہ احتیاطی نماز تو نہ عقلا درست ہے نہ نقلاً نہ کشفاًنہ الہاماً ۔اور یہ بھی بعض علمائے احناف نے کہا ہے کہ ادائے گی جمعہ میں تردد (جس کے نتیجے میں احتیاط الظہر کا قصہہ کھڑا ہوں وسوس�ۂ شیطانی ہے ۔ بحرؔ الرائق میں کہا گیا ہے کہ ’’نماز جمعہ کے بعد احتیاط الظہر کا فتویٰ دینا ہر گز درست نہیں ہے کیوں کہ اس سے عوام کے دل میں جمعہ کے لئے بے رغبتی پید اہوگی اور انھیں خیال ہگا کہ جمعہ فرج نہیں ہے اور ظہر کافی ہے ۔توجسے جمعہ کی فرضیت میں شک ہو اس کے کفر مین کیا شک ہے ۔‘‘
اسی نوع کی تنبیہات فتح القدیر اور عرفانی شرح سلطانی میں بھی ملتی ہیں ۔ اسکندریہ اور فضولِ عمادی میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ چاہے تمام شرائط معدوم ہوں تب بھیجمعہ کی فرضیت ساقط نہیں ہوتی ۔
جب یہ حال فرضیت جمعہ کا ہو تو ان شک پسندوں کے بارے میں جو اچھے خاصے اجتماع کے ساتھ امام کے پیچھے نماز جمعہ ادا کر کے بھی ادائے گی جمعہ میں مشکوک ہیں اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہیکہ انھیں ریب و بے یقینی کی بیماری ہوگئی ہے ۔
جن علمائیاحناف نے احتیاط الطہر کو ایک مستحسن فعل سمجھا جماعت سے پڑھنا تو ان کا بھی مسلک نہیں ۔ وہ فرادی فرادیٰ پڑھنے کا اذن دیتے ہیں ، لیکن بدعت پسند دماغ نچلا بیٹھنے والا کہاں اس نے ایک قدم بڑھ کر جماعت بھی شروع کردی اور اب جو اس نا رو ا حرکت پر ٹوکے وہ ’’وہابی ‘‘!۔۔۔۔۔۔۔۔۔نعوذباللہ من شرور انفسنا۔