Friday, March 22, 2013

لایعنی:۔


لایعنی:۔
سوال ۶؂: از۔محمد ظہیر دیو بندی۔
قصص الانبیاء (اردو ) میں لکھا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے نور محمد یﷺ پیدا کیا وہ نور محمد بارہ ہزار برس تک علم تجردی میں خدا کی عبدت میں مشغول رہا پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی چار قسم کر کے ایک سے عرش پید اکیا دوسری سے قلم ۔ تیسری سے بہشت ۔ چوتھی سے عالمِ ارواح اور ساری مخلوق اور پھر ان چار میں سے چار قسم نکال کر ۳سے عقل ، شرم ،عشق اور ایک سے میرے تئیں پیدا کیا ‘‘۔ کیا یہ سب صحیح ہے ؟ کسی حدیث صحیح سے اس کا ثبوت ملتا ہے اور کیا’’ لولاک لما خلقت الا فلاک‘‘ حدیث صحیح ہے ؟ اور انا من نوراللہ الخ بھی حدیث صحیح ہے ؟ کیا یہ بھی کسی حدیث صحیح سے ثابت ہیکہ زمین ایک گائے کہ سینگ پر قائم ہے اور جب اس کا سینگ دکھ جاتا ہے تو دوسرے سینگ پر لے لیتی ہے جوز لزلہ کی صورت میں ظاہر ہوتاہے یا فرشتہ ہاتھو ں پر لئے کھرا ہے کیا یہ صحیح ہے ؟ براہِ مہربانی آپ اپنی معلومات سے مطلع فرمایئے کہ زمین آخر کس چیز پر قائم ہے احادث صحیح اس کے بارے مین کیا کہتی ہے ۔ نیز موجودہ دور کے سائنسداں کیا کہتے ہیں کہ زمین کس چیز پر قائم ہے ۔ بڑی ہی مہربانی ہوگی اگر آپ قصص الانبی�أ کا پہلا باب ’’کائنات اور نورمحمدی ﷺ کی پیدائش ‘‘ پورا ملا حظہ فرمالیں اور پورے باب پر تبصرہ فرماویں ۔ مجھے تو یہ سب باتیں خارج از عقل معلوم ہوتی ہیں میں آج کل قصص الانبی�أ مطبوعہ کتنجانہ کا دیو بند کا مطالعہ کررہاہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی صداقت میں بہت شک مجھے امید ہے کہ آں محترم بذریعہ تجلی اس شک کو رفع کرنے کی سعی فرمائیں گے۔
الجواب:۔ کا دن ہوئے ہم نے قصص الانبی�أ کے کچھ اوراق کا مطالعہ کیا تھا اور بیچ بیچ میں سے متعد د مقامات پر نظر ڈالی تھی ۔ اس سرسری جائزے نے ہمیں اس نتیجے پر پہنچایا کہ یہ ان غیر معتمد کتابوں میں سے ہے جس کا مطالعہ وقت کے زباں اور خیالات کے انتشار سے زیادہ کوئی فائدہ نہیں دیتا ۔ اس میں نہ صرف ضعیف و منقطع روایات کی بہتات ہے ، بلکہ کتنی ہی روایات تو ا س نوع کی ہیں کہ انھیں فن کی ترازو می تولے بغیر ہی ایک مسلیم الطبع آدمی اساطیر الاولین کا نام دے سکتا ہے ۔ اس کتاب کا اندازِ بیان بھی ایسا غیر ثقہ ہے کہ عامیاور کندقسم کے لوگ ہی اس سے لطف اندوس ہوسکتے ہیں ‘ ورنہ ج شخص کے اندر شئی لطیف کی رمق بھی ہے وہ بلا کبیدگی اس کا مطالعہ نہ کرسکے گا۔تجلی کے صفحات میں ایک دو بار ضمناً اور مختصر اس کا ذکر آیا ہے تفصیلی ذکر و نقد کی یہ مستحق بھی نہیں ہے ۔
لولا ک لما کے بارے میں گذشتہ ہی شمارے میں میں کچھ عرض کیا جاچکا ہے ۔ اسے پڑھ لیجئے ۔ اگر یہ کافی نہو تو اس سے زیادہ کی امید فی الوقت ہم سے نہ کیجئے ۔ رہا گائے کے سینگ پر دنیا کے قائم ہونے کا معاملہ تو یہ خیال محض تو ہماوت ہفوات میں سے ہے اس کے لئے کوئی علمی و عقلی بنیاد موجود نہیں ہے ۔ حدیث سے اس طرح کی لغو باتیں ثابت ہونے کا اندیشہ وہی کرسکتا ہے جسے علم حدیث سے کوئی مس نہ ہو۔ خوب سمجھ لیجئے اللہ کے سچے بنی کے ارشادات مبارکہ اس طرح کی ہفوات سے بلند و برتر ہین اور ایسی فضول بوتوں پر مشتمل دوایات کو رد کرنے کے لئے روالوں گی تنقید میں وقت ضائع کے منہ پر مار دینا چاہئے ۔
حضور ؐ نے اس کی کوئی اطلاع نہیں دی کہ زمین کس چیز پر قائم ہے ۔ نہ اس طرح کی اطلاعیں دینے حضور ؐ مبعوث ہوئے تھے ۔ سائنس دانوں کی کنج کاوی نے اس باب میں جو اطلع بہم پہنچائی ہے وہ یہ ہے کہ یہ زمین اور چاند سورج وغیرہ جذب و کشش کے ایک مہتم بالشان اور محیر العقول نظام کے تحت بیکراں فضا کی پہنائیوں میں اپنے اپنے وظیف�ۂ حیات کو انتہائی صحت اور ضبط و انتظام کے ساتھ پورا کرنے میں مصروف ہیں ۔ زمین کسی ٹھوس چیز پر ٹکی ہوئی نہیں ہے ، بلکہ فضا میں حرکت کناں ہے ۔ اس کی دو طرح کی حرکتیں سائنس نے دریافت کی ہیں ۔ ایک اپنے محور پر مدور شکل میں اور ایک آگے کو بڑھتی ہوئی مستطیل انداز کی ۔ جس طرح ایک لٹو گھومتا ہوا ۔۔۔۔۔۔ ہوا سی شکل میں زمین دوہری جنبش و حرکت کے ساتھ نظم کا ئناب میں اپنا مقصدِ حیات پورا کررہی ہے۔ 
سائنس کے بے شمار نظریات اٹل ہیں ۔ انھیں ہم دریافت کا نام دیتے ہیں ۔ ان کی تردید ممکن نہیں ہے، لیکن بے شمار نظریات غیر یقینی ہیں ۔ ان کا تعلق دریافت سے نہیں ، بلکہ سائنس ہی بسااوقات ان کی تکذیب کر کے نئے نظریات پیش کرتی رہتی ہے ۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ زمین اور جرام فلکی کے نظام اور ان کے باہمی تعلق اور ان کی حرکت جنبش کے بارے میں جو کچھ سائنس کہتی ہے وہ دوسری قسم میں داخل ہے ۔ ہوسکتا ہے مزید تحقیق و تجسس کے بعد اب تک کے قائم کردہ اندازوں اور فارمولوں میں ترمیم و تنسیخ کی ضرورت پیش آئے ۔ 
لیکن جب تک یہ ترمیم و تنسیخ سامنے نہیں آتی ہمارے لئے اس مفر نہیں ہے کہ سائنس کے د عاوی کو تسلیم کرلیں یا کم سے کم خاموشی اختیار کریں ۔ مذہب نے ہمیں کوئی ایسی اطلاع نہیں دی ہے جو ان سائنسی دعاوی کے منافی ہو۔ 
قصص الانبی�أ جیسی غیر معتبر کتابوں کا مطالعہ کبھی نہ کیجئے ورنہ حدیث رسولؐ کے بارے میں ریب و تذبذب کا دروازہ کھل جائے گا۔ ہمارے بعض بزرگوں نے اپنی حد سے زیادہ معصومیت کے باعث بے شمار اسرائیلی اور دیو بالائی روایات کو حدیث سمجھ کے سینے سے لگا لیا ہے ۔ اس کے نتیجے میں احادیثِ صحیحہ کی صداقت و عظمت بھی ماثر ہوئی ۔ یہ جواب دید نیا بہت آسان ہے کہ اہلِ فن نے کھرے کھوٹے کی تمیز کا معیار مقرر کردیا ہے ۔ اور محققین نے موضوعات کے مجموعے بھی مدون فرمادئے ہیں اس لئے نفسِ حدیث سے بدگمان ہونے کا کوئی موقع نہیں ، لیکن اس تلخ حقیقت سے آنکھیں کیسے بند کی جاسکتی ہیں کہ بے شمار ناقابل اعتبار روایاتآج بھی ہمارے بعض حلقوں میں سریایۂ جاں سمجھی جارہی ہیں اور یہ حلقے جہل�أ کے نہیں بلکہ ایسے علماء کے ہیں ج کے اسماء گرامی کے ساتھ دو دو سطر کے بھاری بھر کم انقلاب لکھے جاتے ہیں ۔
نورمحمدیﷺ اور ’’امین کا قیام‘‘ تو خیر نظری مسائل ہیں جن کا کوئی جوڑ عملی مسائل سے نہیں ملتا، لیکن قیامت تو آئی ہوئی ہے کہ وہ ضعیف و سقیم روایات بھی بریلوی مکتبِ فکر کے بزرگوں کی آنکھوں کا نور اور دلِ کا سرور بنی ہوئی ہیں جن کے غیر واضح مفاہیم کو وہی و کج فکری کی خراد پر چڑھا کر اللہ کے آخری پیغمبر کو حاضر و ناظر اور عالم الغیب وغیرہ بنادیا جاتاہے ۔ العیاذ باللہ۔قبوری شریعت کا پوراقصرِ نشاط ایسی ہی روایات کی اساس پہ قائم ہے اور قبوری علماء اسی پر بس نہیں کرتے کہ ان روایات کے صریح مطالب سے واسطہ رکھیں ، بلکہ تک بندی اور کج بحثی کے ذریعہ ان کی تہہ سے وہ وہ کوڑی لاتے ہیں کہ عقل سلیم دنگ رہ جاتی ہے ۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنے مرغوب خیالات و تصورات کو عینِ حق ثابت کر دیں اور شرک و بدعت کا جوروگ ان کے دل و دماغ کو لگا ہوا ہے اس کے لئے قولِ رسولؐ سے سند مل جائے۔
اللہ تعالیٰ فکر و نظر کی نا مسلمانی سے ہر مسلما کو محفوط رکھے اور متشا بہات میں پڑ کر دین و دنیا غارت کرنے کی بجائے محکمات کے منبع اور غیر مشتبہ افکار و اعمال سے لو لگانے کی توفیقِ نیک عطا فرمائے۔

No comments:

Post a Comment