Wednesday, March 27, 2013

اسلام پسندادیب



اسلام پسندادیب
محمد رفیع الدین مجاہدؔ 
میں اسلام پسند ادیب ہوں ۔لکھتا ہوں، خوب لکھتا ہوں اور خوب چھپتا بھی ہوں۔بچّے جن میں اسکول کے طلبہ ہوتے ہیں اور کالج کے طلبہ بھی میرے پاس آتے رہتے ہیں۔ کبھی تقریر لکھوا کر لے جاتے ہیں تو کبھی مضمون کے لئے بے حد اصرار کرتے ہیں۔ وہ اس وقت آتے جس وقت ان کی اسکول یا کالج میں کوئی فنکشن یا پھر سیرت النبیؐ پر جلسہ ہوتا ہے۔ دوتین ردز قبل آتے ہیں مگر جلد سے جلد کوئی تقریر یا مضمون لکھ کردینے کی فرمائش کرتے ہیں۔ صبح آئیں گے تو کہیں گے ’’بس شام تک لکھ کر دیجئے۔ بڑا احسان ہوگا۔‘‘معمول کے مطابق میں غصّہ ہوجاتا ہوں۔
تمہیں اب ہوش آرہا ہے؟ ایک ہفتہ قبل آنا چاہیے تھا! وقت پر سب گڑبڑہوجاتی ہے۔ اتنی جلدی میں تمہیں کچھ لکھ کر جو معیاری بھی ہو اور تمہیں انعام و اعزاز کا حق دار بھی بنادے،کیسے اور کیوں کر لکھ کردے سکتا ہوں؟ میرا دماغ کوئی کمپیوٹر تو ہے نہیں اور نہ ہی میری انگلیاں ٹائپ رائٹر کی طرح کام کرتی ہیں!‘‘لیکن وہ بھی معمول کے مطابق ممنانے لگتے ہیں اور پھر میری تعریفیں شروع کر دیتے ہیں۔’’آپ تو یوں ہیں۔۔۔تیوں ہیں۔۔۔فلاں ہیں۔ اور آپ ۔۔۔’’بس۔۔۔!‘‘میں انہیں ڈانٹ دیتا ہوں۔ ’’فضول تعریفیں نہ کرو۔ میں لکھ دوں گا۔وہ خوش ہوجاتے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح میں اپنی شرط رکھتا ہوں کہ تقریر یامضمون میں تمہیں جو کچھ لکھ کردوں گا اس کی فوٹو کاپی مجھے فوراً لاکردینی ہوگی۔ وہ اس لئے کہ جب کبھی اس تقریر یا مضمون کی مجھے ضرورت محسوس ہوتو دوبارہ الفاظ یاد کرنے نہ پڑیں۔ آخر ایک مرتبہ کا لکھا لکھنے والا بھلا کب تک یادرکھے گا؟ اس کا دماغ کمپیوٹرنہیں کہ جب چاہا اور جو چاہا فوراً اگلوالیا۔ نقل کی ضرورت دو طرح سے پڑسکتی ہے۔ ایک اگر مہینے یاسال بھر کے بعد اس تقریر کو کسی اور نے مانگا تو فوراً اسے دے سکوں ۔ دوسرے اسے کسی اخبار یارسالہ میں بہ غرض اشاعت بھیج سکوں۔ کیوں کہ مضمون نویسی کے مقابلے میں یا تقریری مقابلے میں بھلے ہی میرے لکھے کو فرسٹ پرائز مل جائے۔ مگر چوں کہ میں ادیب ہوں اس لئے جب تک میرا لکھا چھپ نہیں جاتا، مجھے سچی خوشی نصیب نہیں ہوتی۔ اسے میری مجبوری کہہ لیجئے یا مجھ جیسے تمام ادیبوں کی۔
میں مانگنے والے کے معیار کوملحوظ رکھتے ہوئے تقریر یا مضمون کا معیار مقرر کرتا ہوں اور صرف انہی کو دیتا ہوں جو باصلاحیت ہوں اور کچھ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ ورنہ جنہیں یاد ہی نہ ہواور جو یاد کرکے بھی حرکات وسکنات کا مظاہرہ نہ کرسکیں اور نہایت بونے ثابت ہوں۔ اُنہیں میں ٹال دیتا ہوں۔ ایسی بات نہیں کہ میرا لکھا فرسٹ، سیکنڈ، تھرڈ یا امتیازی انعام حاصل نہیں کرتا ہے بلکہ زیادہ تر فرسٹ پرائز ہی حاصل کرتا ہے میرا لکھا ہوا ضائع نہیں جاتا، خدا کا شکر ہے۔ میں آٹھویں تا دسویں اور گیارہویں تا سینئر کالج کے بچوں اور لڑکوں کو ہی اکثر تقریر یا مضمون لکھ کردیتاہوں۔ پرائمری کے بچوں کو بالکل نہیں دیتا کہ پھر انہیں کون یاد کرائے گا؟ پانچویں تا ساتویں کلاس کے بچوں کو کبھی کبھار ہی کچھ لکھ کردیتا ہوں۔ مختصراً یہ کہ جو میری فصیح وبلیغ اردو اور معیاری زبان وبیان کو سمجھنے اور سمجھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں اُنہی کو میں کچھ لکھ کر دیتا ہوں اور اُن سے کچھ لیتا ہوں۔ اصل کاپی کی ایک نقل کاپی!
مجھے یاد آتا ہے کہ دسویں کے ایک لڑکے کو میں نے تقریر لکھ کردی تھی۔ اس نے پوری کوچنگ کلاسیز کے مقابلے میں فرسٹ پرائز حاصل کیاتھا۔ وہی تقریر دوسرے سال ایک لڑکی کو دی تو اس نے کمال کردیا۔ شہری سطح پر فرسٹ پرائز حاصل کیا۔ اسی طرح بہت سارے مواقع آتے رہتے ہیں۔
چند روز قبل ہی کی تو بات ہے۔ میرا بھانجا، جو نویں کلاس میں پڑھتا ہے بھاگا بھاگا میرے پاس آیااور مجھے شیلڈ، سرٹیفکٹ اور دوسری انعامی چیزیں دکھانے لگا۔ وہ بہت خوش تھا۔ اسے پہلا انعام ملاتھا۔ شہری سطح پر سیرت النبیؐ پر جلسہ ہوا تھا اور سبھی کے دو دو بچے اس میں شریک ہوئے تھے۔اسی جلسہ میں دسویں اور بارہویں میں میرٹ اور فرسٹ آنے والے طلبہ کا اعزاز بھی کیا گیا تھا۔ اچھاخاصا بڑا جلسہ ہوا تھا۔ میرے بھانجے کو وہ تقریر میں نے ہی لکھ کردی تھی اور حرکات وسکنات کے ساتھاسے تھوڑا بہت تیار بھی کیا تھا کہ یہ گھر کا بچّہ تھا اور پھر گویا میری ناک کا بھی سوال تھا۔ اس کی تقریر کا عنوان تھا اسلامی دہشت گردی کا پروپگینڈہ اور حضرت محمدؐ کی دعوت۔
جلسہ کی نوعیت منتظمین نے مجھے پہلے ہی بتا دی تھی۔ صدارت شہر کے مفتی کررہے تھے۔ اور مہمانانِ خصوصی کی شکل میں شہر کے مشہور ومعروف ہندی اخبار کے مقامی ایڈیٹر تھے۔ لہٰذامیں نے اس تقریر کو سادہ وسلیس زبان میں منتقل کردیا تھا اور جابہ جا ہندی زبان کا بھی استعمال کیا تھا۔ مفتی صاحب مہاپور اور ایڈیٹر صاحب نے اپنی اپنی تقاریر میں اس تقریر کا خصوصی نوٹس لیا تھا اور حالاتِ حاضرہ پر اس تقریر کی افادیت کو اجاگر کیا تھا۔ حیرت اس وقت ہوئی جب دوسرے دن کے اسی ہندی اخبار میں میری لکھی تقریر کی بنیاد پر خبر شائع ہوئی تھی۔ جب کہ چند نکات پر اعتراض کے تحت مختصراً بحث بھی کی گئی تھی۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مجھے خوش ہونا چاہیے جب کہ میں تو متفکر ہونے لگا ہوں۔ اس لئے کہ میری شناخت ایک اسلام پسند ادیب کی حیثیت سے ہے میری تحریروں کی اشاعت ان پر ملنے والے اعزازات اور میری تحریر کردہ نگارشات پر طلبہ کو ملنے والے اعزازات میرے اندر خود ستائی اور خود نمائی کا جذبہ پیدا کررہے ہیں۔ میرے اندر احساس برتری پنپ رہا ہے۔ میرے لکھئے ہوئے کو بے شک انعامات واعزازت مل رہے ہیں مگر روزِ محشر مجھے اس پر انعام نہ مل سکا تو اگر مجھ سے پوچھا گیاکہ نبیؐ کی سیرت پر تو خوب لکھتا تھا اور اس پر انعامات بھی ملتے تھے۔ لیکن عمل کتنا کرتا تھا؟ تو میں کیا جواب دوں گا؟ اگر مجھ سے پوچھا گیا کہ:
ان تحریروں کا مقصد کیا تھا۔ نام نمود، شہرت اور عزت کا حصول یا اللہ کے بندوں کی اصلاح، دعوت وتبلیغ، دوسروں کی مدد؟ تو میں کیا جواب دوں گا؟ میں اسی لئے متفکر ہوں اور بہت دیر سے سوچ رہا ہوں۔

No comments:

Post a Comment