Monday, March 18, 2013

احمد کمال پروازی






 احمد کمال پروازی

اندھیری رات کا لمبا سفر تو بعد میں  ہے 
یہ جگمگاتا ہوا شہر کاٹتا ہے  ابھی
تمہارے  ساتھ گزارے  ہوئے  مہینوں  سے 
تمہیں  نکالتے  رہنے  کا سلسلہ ہے  ابھی
بچوں  کے  ساتھ کھیلے  ہوئے  دن گزر گئے 
کچھ روز پہلے  دوسرا مہمان گھر میں  تھا
ایسے  بہترین اور با معنیٰ اشعار کے  خالق جناب احمد کمال پروازی ہیں۔ کمالؔ  با کمال آدمی ہیں۔ ان کی شاعری ایک طرف غزل کے  روایتی موضوعات کی طرف اشارہ کرتی ہے، تو دوسری طرف محبت، خلوص، ایثار، اور وفاداری جیسے  جذبات کے  فقدان کا مرثیہ پڑھتی ہے۔ یہ وہ جذبات ہیں  جو معاشرے  کے  لیے  بہت ضروری ہیں۔ آج کے  ترقی یافتہ دور میں  یہ تمام چیزیں  ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ خلوص کا اتہ پتہ نہ رہا۔ اس حوالے  سے  وہ فرماتے  ہیں ؂
ابھی تو تیرے  عزیزوں  کا رول باقی ہے 
جو بچ گیا وہ تیرے  مہربان لے  لیں  گے 
کسی ذلیل کے  ہاتھوں  سے  بچ بھی جائے  تو کیا
شریف لوگ ترا سائبان لے  لیں  گے 
میں  تو کہتا ہوں  کہ عزت کی دعائیں  مانگو
جب یہ فیشن ہے  کہ ہر چیز خریدی جائے 
ڈر لگ رہا ہے  یہ بھی کوئی سانحہ نہ ہو
پہلے  تو اتنا تیز اجالا ہوا نہ تھا
احمد کمال پروازی نے  بہت سے  موضوعات کو پہلی بار چھوا ہے۔ انہوں  نے  بے  شمار موضوعات کو غزلایا ہے، جسے  کسی اور شاعر نے  غزل میں  موضوع سخن نہیں  بنایا۔ غربت اور غریبی کے  چہرے  کو جس زاویے  سے  انہوں  نے  برتا غالباً کسی اور شاعر نے  اس نظر سے  غربت کو دیکھنے  کی جرأت نہ کی۔ مثال کے  طور پر دو شعر ؂
غریبوں  کی طرح تم پھیل جاؤ
ہزاروں  سال تک زندہ رہو گے 
کمالؔ  آؤ چلو گندی بستیاں  دیکھیں 
دھواں  گھروں  سے  نکلتا ہوا مزہ دے  گا
غزل کے  لفظوں  میں  چاشنی، حسن، بانکپن، تازگی پیدا کرنے  کے  گر سے  وہ خوب واقف ہیں، وہ بڑے  سادہ الفاظ استعمال کرتے  ہیں۔ یہی وجہ ہے  کہ ان کی شاعری سروں  کے  اوپر سے  نہیں  گزرتی بلکہ دل کے  دریچوں  میں  داخل ہوتی ہے۔ باد صبا کی طرح خوشگوار احساس پیدا کرتی ہے۔ وہ بہت کم کہتے  ہیں، لفظ لفظ ناپ تول کر رکھتے  ہیں، الفاظ کے  انتخاب نے  انہیں  رسوا نہیں  کیا بلکہ اونچا بہت اونچا کیا۔ حتیٰ کہ وہ مختلف لب و لہجہ کے  شاعر کے  طور پر جانے  پہچانے  جاتے  ہیں۔ پروفیسر عتیق اللہ ان کی شاعری کے  حوالے  سے  کہتے  ہیں : ’’کمال کی شاعری اپنی ترکیب میں  مختلف پن کا شدید احساس دلاتی ہے ‘‘
احمد کمال نے  ہمارے  دور کے  تصادم کو بڑی شدت سے  محسوس کیا ہے، ویسے  بھی شاعر وہ شخص کہلاتا ہے  جو احساس کی شدت کا حامل ہوتا ہے۔ زندگی کی سفاک اور دردناک  تصاویر کو انہوں  نے  اپنی شاعری کے  فریم پر منعکس کیا ہے۔ انہوں  نے  اظہار حقیقت کے  باوجود غزل کے  لہجے  کی خوبصورتی بر قرار رکھی ہے۔ یقیناً یہ بہت بڑی بات ہے ؂
یہ بستی اک دشت کربلاء ہے 
ٹھہر جاؤ میں  پانی لا رہا ہوں 
خدا کے  فضل سے  سونا اگل رہی ہے  زمین
مگر کسان تو اب بھی کسان جیسا ہے 
بہت خوشحال رکھا ہے  اے  رسم زندگی تو نے 
بھروسہ تجھ پہ لیکن کم سے  کم ہوتا تو سب ہوتا
خیالات، جذبات، احساسات تو سب میں  ہوتے  ہیں، مگر سلیقے  سے  ان خیالات کے  اظہار کا فن بہت کم لوگوں  کو ودیعت ہوتا ہے۔ اظہار کا وہ سلیقہ جو قاری اور سامع پر یکساں  اثر ڈالے، احمد کمال پروازی کا امتیاز ہے۔ کہی اور انکہی کے  درمیان ان کی شاعری سفر کرتی ہے۔ ان کا یہ وصف خصوصی مجھے  بہت متاثر کرتا ہے  اور اچھا لگتا ہے۔ شہر دلّی سو مرتبہ لوٹا گیا، تباہ اور برباد ہونا اس شہر کی ایک روایت ہے، ’دل‘ جس طرح حرکت کرتا ہے  اور ایک حالت پر برقرار نہیں  رہتا، یہی حالت شہر دلّی کی ہے، دلّی کو کمالؔ  نے  بطور استعارہ استعمال کیا ہے۔ دو اشعار میں  دلّی کے  بکھرنے  کو مجسم شکل میں  ڈھال دیا ہے ؂
دلّی دربار نکھرنے  کے  لیے  ہوتا ہے 
شاہ مسند سے  اترنے  کے  لیے  ہوتا ہے 
اب دلوں  کو بھی مزاحاً دلّی ہونا چاہیے 
اپنی بستی کو دھوئیں  کا عادی ہونا چاہیے 
احمد کمال پروازی کا پہلا شعری مجموعہ 1988 میں  منظر عام پر آیا۔ ناقدین اور اردو ادب کے  شیدائی اس مختلف شعری مجموعے  ’’مختلف‘‘ کی طرف  متوجہ ہوئے، اگرچہ یہ مجموعہ کمیت کے  لحاظ سے  بہت مختصر ہے، مگر کیفیت میں  ’’مختلف‘‘ کی کیفیت ضخیم سے  ضخیم ترین شعری دیوان سے  کم نہیں  ہے۔ دوسرا شعری مجموعہ بہت دیر سے  یعنی 2005 میں  ’’برقرار‘‘ کے  نام سے  منظر عام پر آیا۔ اگر چہ ان دونوں  مجموعوں  میں  طویل زمانی بُعد ہے  مگر کیفیتی بُعد بالکل نہیں۔ وہ اپنی شناخت بنانے  اور اپنے  مخصوص اسلوب کو پوری طرح برقرار رکھنے  میں  کامیاب ہوئے  ہیں۔ 
مجھے  امید ہی نہیں  یقین ہے  کہ احمد کمال پروازی عرصے  تک یاد رکھے  جائیں  گے، انہوں  نے  موضوعاتی لحاظ سے  ہماری روایتی غزل میں  ایسے  اضافے  کیے  ہیں  جنہیں  بھلایا نہیں  جا سکتا، اردو زبان کے  تئیں  ان کے  عشق اور محبت کے  غماز شعر پر اپنے  مختصر مضمون کا اختتام کرتا ہوں۔ ؂
ہم اپنا کام کرتے  ہی چلے  جائیں  گے  محفل سے 
پھر اس کے  بعد اردو کی حفاظت تم کو کرنی ہے 
٭٭٭


No comments:

Post a Comment