Showing posts with label شطرنج :۔. Show all posts
Showing posts with label شطرنج :۔. Show all posts

Friday, March 22, 2013

شطرنج :۔


شطرنج :۔
سوال۱۰؂:۔از ۔رئیس احمد احمدآباد۔
میں جنات ہوں تجلی کے صفحات قیمتی ہین اور شطرنج جیسی لغو چیزکے بارے میں بحث کرنا آپ پسند نہیں فرمائیں گے ۔ لیکن یقیین کیجئے یہ بحچ بہت لوگوں کے لئے مفید ہوگی ۔ شطرنج کل بھیمقبول تھی اور آج بھی متروک نہیں ہے ۔ اچھے خاصے وقیع لوگ بھی اسے کھیلتے اور وقت ضائع کرتے ہین ۔ مجھے اس کی حر مت میں کوئی شک نہین ہے ۔ کیوں کہ یہ یقیناًلہو و لعب میں داخل اور لہو و لعب کی ممانعت کسی مسلمان پر مخفی نہین لیکن ایک بحث کے دوران بعض دوستوں نے کہا کہ بعج اماموں کے نزدیک شطرنج جائز ہے ۔ اس کی کیا حقیقت ہے ؟ میری طبیعت تو کسی طرح نہیں مانتی کہ ایسی ملعون کے مطابق تفصیل سے اس مسئلہ کے ہر پہلو کو مشرح فریادیں تو فائد�ۂ عام کا باعث ہوگا ۔ جزاکم اللہ خیر الجزأ۔
الجواب:۔شطرنج یوں تو صریحاً لہو ولعب میں داخل ہے اور لہو و لعب جتنے بھی ہیں اصولی طور پر مکروہات و فضولیات کی فہرست میں آتے ہیں ۔ اس طرح شطرنج کا نا محمود ہونا اپنی جگہ مسلم ہوا۔ 
لیکن تمام ہی لہو و لعب پر فقہ یکساں حکم نا فذ نہیں کرتی ۔ کرنا بھی نہیں چاہئے ۔ ہماری زندگی میں بے شمار ایسے اشغال و اعما ل ہیں جن کے غیر ضروری ہونے میں کوئی شک نہیں اور ہرغیر ضروری ہونے مین کوئی شک نہیں اور ہر غیر ضروری فعل لہو و لعب ہی کی نوعیت رکھتا ہے ۔ تو وہ شریعت جس نے تنگیوں کو فراخیوں اور دشوار یوں کو آسانیوں میں بدلا ہے ایسی سخت گیر کیسے ہوسکتی ہے کہ ہ غیر ضروری کو حرام قرار دے دے اور زندگی سے تفریح کا عنصر بالکل کارج کردے جو شریعت تمام عالم کے لئے آئی ہو اس میں یک رخا اجتہاد کبھی مفید نہ ہوگا ۔ ضرورت ہے کہ سطحی اندازِ فکر کی جگہ گہرا اور ہمہ گیر اندازِ فکر اختیار کیا جائے اور احتیاط و اعتدال کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔
شطرنج کیا ہے ؟۔۔۔ ایک ایسا کھیل جو وقت خوری میں اپنا جواب نہیں رکھتا۔ اس کا انہماک کچھ نشہ کی سی کیفیت رکھتاہے ۔ اور س کے کھلاڑ ی افیمیوں کی طرح اس میں گم ہوجاتے ہیں ۔ مگر کیا یہ چیز اس کی شرعی حرمت کے لئے بھی کافی ہے ؟ ۔۔۔ اس سوال کا جواب اثبات میں دینا بہت مشکل ہے ۔ وقت ضائع کرنا کتنا ہی برا سہی ، لیکن شریعت نے اسے حرام نہیں ٹھہرا یا بشرطیکہ انسان اپنے فرائض و واجبت سے غافل نہ ہو۔ اگر اضاعتِ وقت مطلقاً حرام ہوتو پھر کوئی بھیکھیل اور مشغل�ۂ تفریح جائز نہیں ہوسکتا ۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ 
پھر کونسی چیز ہے جو شطرنج کو ملعون قرار دینے پر اہل علم کو متفق کرسکتی ہے ۔ کیا وہ جواہے ؟ کیا اس پرمالی ہا جیت کی بازیکھیلیجاتی ہے ؟۔۔۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کی حرمتِ تطعی میں دو (۲)راسے کی گنجائش نہیں تھی مگر جہاں تک ہمارا علم ہیوہ آلۂ قمار بازی نہیں ہے ۔ آج بھی اور ماضی میں بھی وہ عام طور پر تفریحاً کھیلی جاتی رہی ہے ۔ ہم نے نہیں سنا کہ اس کی ہارجیت خیالی حدودسے گذر کر روپے پیسے تک پہنچی ہو ۔ اس پر جوا کھیلنا نہ تاریخی طور پر ثابت ہے ، نہ آج ہمیں نظر آتا ہے کہ اسے قمار بازی کے طور پر کھیلا جاتا ہو پھر بھی اگر کوئی اس کی ہار جیت پر کسی رقم کی ہار جیت مقرر کر لے تو یہ ایس ہی ہوگا جیسے ہاکی ، کرکٹ ، گلی ڈنڈا ، یا کشتی کی ہار جیت پر رقم کی بازی لگالی جائے ۔ یہ کھیل جوے بازی کے کھیل نہیں ہیں ۔ ان کا جواز شریعت میں قطعاً متفق علیہ ہے ۔ الا یہ کہ کوئی عارض ان کے جواز کو حرمت میں بدلد ے ۔ تو جس وت ان پر رقم کی بازی لگے گی اس وقت یہ حرام ہوں گے ۔۔ مطلقاً حرام نہیں ہوں گے ۔ اسی طرح شطرنج پر رقم کی بازی لگالی جائے تو اس کی حرمت یقینی ہے ، لیکن نہ لگائی جائے تو اس کی حرمت و ملعونیت پر گفتگو کی خاصی گنجاش ہے ۔
ائمہ و فقہاء نے اس کے بارے میں اختلا ف کیاہے جس کی ضرو ری تفضیل یہ ہے :۔ 
امام مالک ؒ اس کی اباحت وجواز کے قائل ہیں ۔امام شافعی کے س کے متعلق دو(۲) قول پائے جاتے ہیں ۔ ایک یہ کہ جائز ہے ، دوسرا یہ کہ مکروہ ہے ۔ مگر یہ کراہٹ تحریمی نہیں طنز یہی ہے ۔ گو یا دوسرے قول کی بنیاد پر بھی اس میں ھرمت کی گندگی شامل نہیں ہوتی ، بلکہ صرف نا محمود یت اور لغویت آتی ہے جس سے دامن بچانا اچھے مسلمانوں کا طرۂ امتیاز ہونا چاہئے ۔
احناف مین دو (۲)گروہ ہیں ۔ ایک اسے حرام کہتا ہے ۔ دوسرا جائز قرار دیتا ہے ۔ جواز کے لئے شرط یہ ہے کہ اس پر رقم کی باز ی نہ لگے۔ نیز نمازیں قضانہ کی جائین اور فحش سے بچا جائے۔
علماء و فقہاء کے کچھ فرموداتمع حوالہ یہ ہیں :۔ فتاویٰ مجمع البرکات میں ہے :۔ 
’’شطرنج کا کھیل علماء کے مابین فقہی اعتبار سے مختلف فیہ ہے ۔ کچھ اسے جائز قرار دیتے ہیں ، کیوں کہ اس سے جنگ میں مدد ملتی ہے اور حریف کی پوزیشن معلوم ہوجاتی ہے ۔ لیکن جواز تین (۳) شرطوں سے مشروط ہے ۔ اول قمار نہ ہو، تاخیر نہ کی جائے سوئم گال گلوج اور فحش کلامی کی نوبت نہ آئے اگر ان میں سے کوئیشرط معدوم ہوگی تو جواز مرتفع ہوجائے گا اور کھیلنے والا مرد ود الشہادۃ قرار پائے گا۔‘‘
در مختار میں ہے:۔
’’اس شخص کی شہادۃ مردود ہوگی جو شطرنج میں قمار کھیلے یا نماز ین قضا کرے یا اس پر بکثرت قسمیں کھائے یا عام گذر گاہوں پر کھیلے یا دائمی طور پر کھیلے ۔‘‘
شارح وہبانیہ لکھتے ہیں :۔ 
’’قاضی شرق و غربؒ سے منقول ہے شطرنج کھیلنے میں کچھ حرج نہیں ہے ۔‘‘
تنویر الابصار میں ہے :۔
’’چو سر اور شطرنج کھیلنا مکروہ تحریمی ہے۔‘‘ 
امام غزالی خلاصے میں تو مکروہ لکھتے ہیں ، لیکن احیاء العلوم میں جائز قرار دیتے ہیں ، لیکن دوام اور کثرت پھر بھی سخت مکروہ ہے ۔
امام بیہقیؒ نے شعب الایمان مین ایک حدیث بھی روایت کی ہے کہ لایلعب بالشطرنج الاخاطئ (شطرنج خطا کار ہی کھیلتا ہے )لیکن اول تو اس کی سند میں گفتگو ہے دوسرے یہ فقہی فیصلہ دینے میں صریح نہیں ۔ خطا کار تو وہ شخص یقیناًہے ہی جو مفید اور ثواب دینے والے کاموں کے عوض کھیل کود میں وقت گنواتا ہے ، لیکن یہ خطا شریعت میں علی الاطلاق حرمت کے دائریمیں نہیں آتی ۔ اس اصول پر تو وہ تمام کا م حرام ہوجائین گے جو وقت کو کھاتے ہیں اور ثواب کچھ نہیں دیتے حالاں کہ ایسا ہرگز نہین ہے ۔ تفریح کیخاطر ایسے اوقات ضائع کردیناجن میں کوئی فریضہ ضائع نہ ہو رہا ہو شرعی جواز رکھتا ہے ۔ اور جواز شاید اسی لئے ہوکہ تفریح بھی بجائے خود ایک ضرورت ہے اور اسلام کاقانون ضرورت کی حد بندی میں اتنا سخت گیر نہیں ہے جتنا بعض یا بس مزاج اور تقشف پسند حضرات سمجھتے ہیں ۔
کچھ علماء و فقہا کے اقوال ہم نے نقل کردئے ۔ ان میں غور و فکر اور شریعت کے احکام میں تفحص کے بعد جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ شطرنج ایک ایسا کھیل ہے جو نکو کاروں کے شایانِ شان نہیں ۔ کام کے آدمیوں کو اس سے دور ہی رہنا چاہئے ۔ اسے کھیلنا وقت کا ایک برا مصرف ہے ۔
لیکن کوئی شخص نمازیں ضائع کئے بغیر شائستگی کے ساتھ کبھی کبھار اسے کھیل لیتا ہے تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ فعلِ حرام کامرتکب ہورہا ہے ۔ 
عجیب لطیفہ ہے ۔ بعض لوگوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ شطرنج کو تو وہ شدت کے ساتھ حرام قرار دیتے ہیں اور اس کے کھیلنے والے سے بغض کی حد تک نفرت واستکراہ کا مظاہرہ فرماتے ہیں ، لیکن کرکٹ جب سے مقبول عام ہوئی ہے یہ اس مین خاصی دلچسپی لے رہے ہیں ۔ میچوں کے ایام میں ریڈیو سے لو لگائے انھیں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور کبھی کوئی لفظِ استکراہ کرکٹ یا اس کے کھلاڑیوں کے لئے ان کی زبانِ مبارک سے نہیں سنا ۔ کیا کرکٹ ان کی نگاہ میں بلا کراہت جائز ہے جب کہ اس کے میچ کا آئینی پروگرام نمازوں کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ حالاں کہ شطرنج اپنی بے پناہ وقت خوری کے باوجود اتنی گنجائش بہر حال رکھتی ہے کہ آدمی نماز باجماعت کا وقت نکال لے۔ یا ایسے اوقات منتخب کرے جن میں ترکِ جماعت کا اندیشہ نہ ہو۔
خیر یہ تو ضمنی بات تھی ۔ اصل جواب کا خلاصہ یہ نکلا کہ شطرنج کھیلنا جائز ہے حرام نہیں ، لیکن اس کا بکثرت شغل ناجائز ہے ، اور جو شخص کبھی کبھا ر شغل کرے اسے بھی نماز باجماعت کا خیال رکھنا چہئے۔نیز شائستگی کو ہاتھ سے نہیں دینا چاہئے ۔ شارع عام پر کھیلنا یا جاہلون کیسی فحش کلامیوں کے ساتھ کھیلنا اس شغل کو حرمت کے دائرے میں کھینچ لاتا ہے ۔
رہا حنفی مقلدین کا معاملہ تو یہ معلوم ہوچکا کہ خود بعض احناف بھی جواز کے قائل ہیں ۔ لہذٰا جواز کا عقیدہ رکھنے والا غیر مقلدین بھی نہیں کہلائے گا ۔ واللہ اعلم با لصواب۔