Showing posts with label یہ کھیت سوکھ گیا .......کامقدمہ. Show all posts
Showing posts with label یہ کھیت سوکھ گیا .......کامقدمہ. Show all posts

Wednesday, March 27, 2013

یہ کھیت سوکھ گیا .......کامقدمہ


یہ کھیت سوکھ گیا .......کامقدمہ

مقدمہ

خواجہ معین الدین 
مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنی کا نام ادبی حلقوں میں بہت احترام سے لیا جاتا ہے،مولانا گم نامی کو پسند کرتے ہیں ،اس لیے شہرت کے کاموں سے بہت دور دور رہتے ہیں ،بہت عرصے بعد مولانا کی ایک کتاب ارض حرم میں پہلا قدم شائع ہوئی تھی جس میں حرمین کے تعلق سے اپنی یادداشوں کو مولانا نے قید تحریر میں لایا تھا ،ماہنامہ راہ اعتدال میں مولانا کے ادبی اور دینی مضامین عموماً شائع ہوتے ہیں ،آپ کی تحریروں میں جو ادبی چاشنی اور حلاوت ہے وہ بہت کم لوگوں کو میسر ہوتی ہے ،زبان وبیان پر آپ کی قدرت فطری بات ہے۔
مولانا اردو کے ساتھ عربی زبان بولنے اور لکھنے پر بھی قادر ہیں ،آپ بولتے ہیں تو لگتا ہے جیسے کوئی عرب بول رہا ہے ،مولانا کے چند دینی مضامین بھی اس کتاب میں شامل کرلیئے گئے ہیں ،تاکہ مردرِ زمانہ کی دست وبرد سے محفوظ ہوجائیں ،آپ نے جن شخصیات کی وفات پر نثری مرثیے تحریر فرمائے ہیں ،انہیں بھی شامل کتاب کیا گیا ہے ،ان میں قابل ذکر فضا ابن فیضی ،ڈاکٹر ازہری ،کاکا عمر ،شیخ بن باز،کاکا شاہد قابل ذکر ہیں ،مولانا کس کی خوبیاں گناتے ہیں تو اس میں مبالغے سے کام نہیں لیتے،جہاں تک ہوسکے ،حق بات کہنے کی پوری کوشش کرتے ہیں ۔
اپنے مضامین کا انوکھا عنوان رکھنا آپ کا امتیاز ہے ،جیسے چند عناوین بطور مثال دیکھیں :
شاہد جاں باز
یہ کھیت سوکھ گیا بادلوں کی بستی میں 
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن۔۔۔۔۔۔
قسمت میں مری کتنے عزیزوں کے ہیں ماتم
اک کارواں کو چھوڑکے رہبر چلا گیا
ساحل سے طوفاں تک
ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی
مولانا بہت نرم مزاج کے مالک ہیں ،آپ نے مشہور زمانہ اخبار ’’مدینہ ‘‘ میں بھی کچھ دن کے لیے کام کیا تھا ،’’مدینہ ‘‘ کے علاوہ دعوت میں بھی چند دن کام کرنے کا آپ کو موقع ملا ،آپ نے عربی زبان کی چند بہترین کتابوں کا اردو ترجمہ بھی کیا ہے ،طہ جابر علوانی کی مشہور کتاب ادب الاختلاف فی الاسلام کا ترجمہ آپ کے قلم کامرہون منت ہے ،یہ کتاب رابطہ عالم الاسلامی سے بار بار شائع ہوئی اور لاکھوں کی تعداد میں تقسیم ہوئی۔
الغز والفکری ایک کتاب ہے اس کا بھی آپ نے ترجمہ فرمایا،آپ نے غلام رسول مہرؔ سے ایک لمبے عرصے تک خط وکتابت کی ،غبار خاطر کی طرز پر آپ نے غلام رسول مہر کی خود نوشت بھی ترتیب دی تھی ،مگر اب اس کا پتہ نہیں کہ کہاں کھوگئی ،آپ طہ حسین کے بڑے مداح تھے ،ان کی تحریروں کو مسلسل پڑھاکرتے تھے ،ان کے اسلوب کو پسند کرتے تھے ،مگر جب سے مصطفی صادق رافعی کی کتابیں پڑھیں ،طہ حسین کی خامیاں نظر آئیں اور طہ حسین کو آپ نے رد کردیا۔
آپ کے اسلوب کی لطافت ونزاکت دیکھنے کے لیے چند مثالیں پیش کرنا چاہوں گا :
(۱) ’’اشخاص واعلام کی خوبیوں ،نیکیوں اور ان کی مخلصانہ خدمات سے متأثر ہوتے ہیں ،تو ان کی سوانح بیان کرنے کے لیے قلم اُٹھاتے ہیں ،انھیں اس کی مطلق پرواہ نہیں ہوتی کہ ان کا ممداح ان کا ہم مسلک ،ہم مشرب،ہم خیال ہے یا بالکل ان سے مختلف ہے ،کرائے پر لکھنے والے اپنے ذاتی تأثر کو باہر رکھ کر گوناگوں افراد کی سوانح عمریاں مکمل کرسکتے ہیں ۔‘‘
شورش کاشمیری کی تصانیف پر اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا نے لکھا ہے :
’’شورش کی پرورش،کیا بچپن کیا جوانی ،بے بسی کے ڈیرے اور کمپرسی کے سائے میں ہوئی ،اپنی تصانیف میں خود ہی ان باتوں کا برملا افراد وظہار کرتے ہیں ،سنگین حالات کی تصویر ایسے الفاظ میں کھینچتے ہیں کہ حساس قاری کے لیے آنسو روکنامشکل ہوجاتا ہے ‘‘
مولانا نے’’ عمرآباد میں علم وادب کی روایت ‘‘ کے بعنوان مضمون نہایت مختصر طور پر جامع الفاظ میں عمرآباد میں علمی روایات اور ادبی روایات پیش کی ہیں ،عمرآباد کے بڑے بڑے علما اور شعرا اور ان کی شاعری پر مختصر طور پر روشنی ڈالی اور ان کے محاسن وامتیازات بیان کیے ہیں 
مولانا کی زبان سادگی وپر کاری کی عمدہ مثال ہے ،تعقیدسے مولانا کو چڑ ہے ،جو کہنا چاہتے ہیں برملا اور صاف طور پر کہتے ہیں ،اس میں کس طرح کے تکلف کوحارج ہونے نہیں دیتے ،وضاحت وصفائی آپ کی تحریروں کی خوبی ہے ،اپنے موضوع سے متعلق کی طرح کی تشنگی نہیں چھوڑتے ،ہر زاوئے سے مکمل ومدلل تحریر کرنا آپ کی خاصیت ہے ۔
’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے ‘‘ علامہ البانی اور ان کے کارناموں پر لکھا گیا مضمون ہے ،اس میں علامہ البانی کے حوالے سے مشہور واقعات بھی موصوف نے پیش کیے ہیں ،علامہ البانی پر موصوف اس لیے صحیح بات لکھ سکتے ہیں کیونکہ موصوف آپ کے شاگردتھے ۔علامہ البانی سے استفادہ کرنے کا شرف مولانا حفیظ الرحمن اعظمی کو ملا ۔
موصوف کی نثر میں اچھی نثر کی تمام خوبیاں اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ جلوہ ریزہیں ،اچھی اور معیاری نثر لکھنا ہر کس کے بس کی بات نہیں ہے ،آپ جیسی شخصیات کا دم اردو ادب کے لیے غنیمت ہے ،مولانا آزاد کی تحریروں سے آپ متأثر ہیں ،تحریر کے بیچ میں عربی واردو اشعار ایسے پروتے ہیں جیسے ایک ہار میں موتیاں پر وئی جاتی ہیں مولانا کے اسلوب کا تبتع کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں ہے ۔
مولانا کی تحریروں کا یہ دوسرا مجموعہ ہے جو شائع ہونے جارہا ہے ،اس کتاب کی اشاعت کے بعد ان شاء اللہ مولانا کا دیگر تحریروں کو بھی کتابی شکل دی جائے گی۔
والسلام
دعاگو
خواجہ معین الدین