Showing posts with label امتیازی الفاظ. Show all posts
Showing posts with label امتیازی الفاظ. Show all posts

Friday, March 22, 2013

امتیازی الفاظ


امتیازی الفاظ 
سوال۷؂ : (ایضاً)
ہندوستان میں خاندان و نسب کے خطابات امتیاز و برتری کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں ۔ لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ علمائے کرام بھی اپنے ناموں کے ساتھ ایسے خطابات ۔۔۔۔استعمال کرتیہیں جن سے برتری کا اظہار ہوتا ہے ۔ اسلامی ۔۔۔مساوات کے پیش نظر بعض احباب کو اس طرح کے خطابات سے ۔۔۔ ذہنی الجھاؤ ہے شرعی حیثیت سے اس کی کہاں تک اجازت ۔۔۔ صراحت کیساتھ تحریر فرمائیں ۔
الجواب:۔ اصل ناموں پر اضافہ کئے ہوئے الفاظ دو قسم کے ہوسکتے ہیں ۔ ایک وہ جن سے تعارف مقصو د ہو ۔ دوسرے وہجن سے مدح و ستائش کا ارادہ کیا جائے ۔ پہلی قسم کی مچالیہ ہے جیسے سلمان فارسی ،ابوذر غفاری ،صہیب رومی ،بلال حبشی ،معین الدین چشتی ، عبدالقادری جیلانی، عامر عثمانی ، ابو الاعلیٰ مودودی وغیرہ ان ناموں میں اصل پر جو ضافہ ہے وہ کسی مقام یا خاندان یا گروہ کی طرف نسبت کی شکل میں ہے جو صرف تمیز و تعارف کا فائدہ دیتا ہے خود ستائی ، تفوق پسندی اور استکبار سے اس کا کوئی تعلق نہیں اس طرح کے تمیز و تعارف کی اجازت خود باری تعالیٰ نے دی ہے۔
یا ایھاالناس انا خلقنٰکم من ذکرو انثیٰ و جعلنٰکم شعوبا و قبائل لتعارفوا (الحجرات)۔(اے لوگو ہم نے تمھیں بنایا ایک مرد اور ایک عورت سے او ر رکھیں تمہاری ذاتیں اور قبیلے تاکہ آپس کی پہچان ہو) ۔
متعدد صحابہؓ کے ناموں کا وطن یا خاندان کے ساتھ منسوب ہوتا اور حضورؐ کا اسے پسندیدہ قرار نہ دینا بجائے خود کافی شافی دلیل ہے اس بات کی کہ یہ انتساب و اعلان برتری کا مظہر نہیں نہ مساوات کا مخالف ہے ۔
دوسری قسم کی مثال ہ ہے جیسے علامہ، مولانا ، حکیم الامت ، شیخ الاسلام ، محبوب الملت وغیرہ۔ یہ خطابات عموماً عوام کی طرف سے دئے جاتے ہیں ۔ ان کے استعمال میں دوسرے لوگوں کے لئے تو کوئی گناہ نہین بشرطیکہ انھیں خواہ مخواہ گھڑ لیا گیا ہو، البتہ خود صاحب خطب کو انھین اپنے نام کے ساتھ استعمال کرنا جائز نہیں ہے کیوں کہ یہ صریحاً خود ستائی ہوگی ۔ واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہ احکم ۔