Showing posts with label نورہدایت. Show all posts
Showing posts with label نورہدایت. Show all posts

Saturday, June 15, 2013

درس قرآن از:حافظ حفیظ الرحمن اعظمی عمری


درس قرآن 
از:حافظ حفیظ الرحمن اعظمی عمری
(اساتذہ جامعہ کے تربیتی اجتماع میں ۱۴/مارش کو بعد نماز فجر مولانا حافظ حفیظ الرحمن اعظمی مدنی نے درس قرآن دیا تھا ۔ جو موجودہ حالات کے پس منظر میں بڑا ہی فکر انگیز اور سبق آموز تھا ۔ آج کے مظلوم مسلمانوں کی بعض غلط فہمیوں کا ذکر کرتے ہوئے دین و ایمان کے حقیقی تقاضوں کو واضح کیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ راستہ سخت صبر آزما بھی ہے اور ایک طرح کی قربان گاہ بھی ،سچ تو یہ ہے کہ ؂
یہ شہادت گہہ الفت میں میں قدم رکھنا ہے 
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
لیکن ایک مومن صادق کا انجام بہر حال بے حد روشن اور تابناک ہوتا ہے ۔ح۔۱)
’’یا ایھاالذین اٰمنو اذکروانعمۃ اللہ علیکم اذجا ء تکم جنود فارسلنا علیھم ریحاوجنودا لم تروھا ط و کان اللہ بما تعملون بصیراً اذجاء وکم من فوقکم ومن اسفل منکمواذ زاغت الابصار و بلغت القلوب الحناجروتظنون باللہ الظنوناط ھنالک ابتلی المومنون وزلزلو ازلزالا شدیداً۔(الاحذاب۹تا۱۱)‘‘
ترجمہ:اے ایمان والواللہ کا انعام اپنے اوپر یاد کرو جب تم پر بہت سے لشکر چڑھ آئے پھر ہم نے ان پر ایک آندھی بھیجی اور ایسی فوج بھیجی جو تم کو دکھائی نہ دیتی تھی اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھتے تھے ،جبکہ وہ لوگ تم پر آچڑھے تھے اوپر کی طرف سے بھی اور نیچے کی طرف سے بھی جب کہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے اور تم لوگ اللہ کے ساتھ طرح طرح سے گمان کررہے تھے اس موقع پر مسلمانوں کا امتحان لیا گیا اور سخت زلزلہ میں ڈالے گئے ۔
یہ سورۂ احزاب کی کچھ آیتیں ہیں اور یہ اہل علم اور علمائے دین کی مجلس ہے اور اس اجلاس کا مقصد چونکہ تذکیر ہے تو میں بجائے اس کے کہ آیت کے علمی نکات بیان کروں اس میں تذکیر کا جو پہلو ہے صرف اسے نمایاں کرنے کی کوشش کروں گا ۔ انشاء اللہ تعالیٰ
آج ہر پڑھے لکھے مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی وہ تمام باتیں یاد ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دینے کے سلسلہ میں بطور وعدہ کئے ہیں اور ہر مسلمان شاکی ہیکہ اللہ نے محض وعدے کئے ہیں کہ مسلمان کو وہ دوں گا لیکن ملتا کچھ بھی نہیں ہے ۔ مسلمان کو یہ شکوہ تو ہے ، لیکن وہ اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ اللہ نے یہ سب چیزیں کب دینے کا وعدہ کیا ہے اور اس کے لئے کونسا وقت مقرر کیا ہے اور یہ سب وعدے حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کو کیا کیا قربانیاں دینی ہیں ۔ اس بات کو وہ بھول جاتے ہیں ۔
سورۂ احزاب کی یہ جوآیتیں پڑھی گئیں وہ ایسی ہی قربانیوں کے واقعات کو یاد دلاتی ہیں غزوات تو بہت ہیں ۔سیرت کی کتابوں میں ہم پڑھتے ہیں اور حدیث میں بھی ہم پڑھتے ہیں ۔ خود قرآن شریف کے اندر ہم دیکھتے ہیں ۔ غزوۂ بدر،غزوۂ احد، غزوۂ احزاب، غزوۂ حنین ، صلح حدیبیہ ، فتح مکہ ، ان سب کے واقعات تفصیل کے ساتھ بھی اور کہیں اشارہ کے اندر موجود ہیں لیکن یہ جو آیتیں پڑھی گئی ہیں سورہ احزاب کی ، ان میں غزوہ احزاب کی بڑی تفصیل ہے اور ان کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح کھینچا ہے اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ بار باردہرایا جائے گا ، کیوں کہ احزاب مختلف گروہ ،روئے زمین پر جتنی بھی قومیں تھیں اور جتنے بھی مذاہب تھے یہ سب اسلام کے خلاف صف آرا ہوگئے تو آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایسی ہی مناظر ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں ’’الکفرملۃ واحدۃ ‘‘ کے تحت جبکہ اسلام کے خلاف کوئی بھی باتہوتی ہے ، ساری دنیا متحد ہوجاتی ہے ،کوئی سازش کے اندر شریک رہتا ہے ۔ کوئی مقابلہ کے اندر شریک رہتا ہے ، کوئی منصوبہ بندی کے اندر شریک رہتا ہے غرض ہر ایک کا تعاون اس کے اندر شامل ہوتا ہے ۔ ایسا ہی ایک واقعہ غزو�ۂ احزاب کا ہے ۔ قرآن کے الفاظ سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے ۔پوری زمین تنگ ہوگئی تھی مسلمانوں کے لئے ، آسمان دشمن ،زمین دشمن ،زمین پر رہنے والا ہر شخص دشمن اور سب کی ایک خواہش اور ایک ہی کوشش کہ کس طرح ان مسلمانوں کو نیست ونابود کردیا جائے اس لئے وہ سب پورے منصوبہ کے ساتھ گھیر رہے تھے ۔ مسلمانوں کو ’’اذجاء واکم من فوقکم ومن اسفل منکم واذزاغت الابصار و بلغت القلوب الحناجر و تظنون باللہ الظنونا‘‘ یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ اس نے انتہائی مختصر الفاظ میں اس وقت کی جو صورت حال تھی اس کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر طرف سے دشمن ہی دشمن ،آگے سے ، پیچھے سے ،اوپر سے ، نیچے سے اور جب دشمنوں پر تمہاری نظر پڑی ،تمہاری نگاہیں ٹھہری رہ گئیں ۔ ’’اذراغت الابصار وبلغت القلوب الحناجر‘‘ اور کلیجے منہ کو آگئے ’’وتظنون باللہ الظنونا‘‘ کمزور ایمان والوں کا عقیدہ ڈگمگانے لگا اور اللہ سے بد گمان ہونے والے بد گمان ہوگئے اور تھا بھی ایسا ہی موقعہ ’’ھنالک ابتلیالمومنون‘‘ ایسی آزمائش کہ ہلا کر رکھ دئے گئے ’’زلزلو اذلاذالا شدیدا‘‘ اور کتنے ہی کمزور عقیدے کے لوگوں کی زبان سے یہ نکل آیا ’’ماوعدنا اللہ ورسولہ الاغرورا‘‘ نعوذباللہ اللہ نے ہمیں دھوکہ دیا ۔ رسولؐ نے ہمیں دھوکہ دیا اور بری طرح لاکے ہمیں پھنسا دیا ۔ اس قسم کے الفاظ ان کی زبانوں سے نکل گئے ،آپ اندازہ لگایئے کیسا منظر ہوگا ۔دشمن ہر طرف سے اور اتنی تعداد میں کہ مقابلہ نا ممکن ہوگیا ۔ نبی کریم ؐ نے اللہ کے حکم کے مطابق ’’وشاورھم فی الامر‘‘ وامرھم شوری بینھم‘‘ صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا تو آپ ؐ کے جانثار صحابہ میں حضرت سلمان فارسیؓ جن کی عمر بھی زیادہ تھی ،تجربہ بھی زیادہ تھا ۔ مشاہدہ بھی طویل تھا ۔ انہوں نے آپ کو یہ مشورہ دیا ’’جب دشمن کی تعداد اتنی زیادہ ہے اور وہ ہر طرف سے آرہا ہے تو بچاؤ کا ایک ہی راستہ ہے کہ مدینہ کے اطراف خندق کھودی جائے اور دشمن کو روک دیا جائے ۔ خندق کے اس پار سلمان فارسیؓ ایک تجربہ کار صحابی تھے ، بہت دور سے آئے تھے ۔بہت سے مذاہب کا انہوں نے مطالعہ کیا ، اور اس کے بعد انہیں چین اور سکون ملا تو اسلام کے سائے میں آپ اپنے کو پردیسی نہ محسوس کریں ۔ اس لئے نبی کریمؐ نے فرمایا ہم میں سے ، ہمارے خاندان اور ہمارے گھر والوں میں سے ہیں ۔ اب خندق کھودنے کا کام شروع ہوا ۔ مدینے کے اطراف دو پہاڑوں کے بیچ میں ، خندق کھود نے کا کام جاری ہے۔ دن رات کام ہورہا ہے ، لوگ اپنی روز مرہ کی مزدوری اور محنت کو چھوڑ چکے ہیں ۔ حالاں کہ انہیں غلہ ان کی مزدوری اور محنت سے ملا کرتا تھا ۔ اب سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے دن رات وہ مصروف ہیں ۔ جب وہ کام پہ نہیں جائیں گے تو انہیں کھانا بھی نہیں مل سکے گا ۔ بھوکے ہیں ،پیاسے ہیں ، تکلیف اور پریشانی کے اندر مبتلا ہیں لیکن وہ اس کام میں مصروف ہیں ، بھوک کی شدت کا حال سیرت کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے ،روایت اور تفسیروں کے اندر بھی موجود ہے اور جب بھوک ناقابل برداشت ہوگئی تو کچھ لوگ نبی کریم ؐ کے پاس پہنچے اور اپنے پیٹ دکھائے کہا کہ بھوک کی شدت کی وجہ سے اٹھا بیٹھا نہیں جاتا ، جھکنا مشکل ہوگیا ہے ۔دیکھئے ہم اپنے پیٹ پر پتھر باندھ رکھے ہیں ، سب کو دیکھا نبی کریم ؐ نے ،اس کے بعد آپ ؐ نے جواب زبانی دینے کے بجائے اپنے شکم مبارک سے چادر ہٹائی۔ صحابہؓ نے دیکھا کہ آپ کے شکم مبار پر دو پتھر بندھے ہوئے ہیں ۔ اب کسی کو کچھ کہنے سننے کی مجال نہیں تھی ، سب واپس ہوگئے ۔ نبی کریم ؐ انہیں اس دنیا سے دے بھی کیا سکتے تھے ۔ آپ ؐ نے ان کی حالت زار کو دیکھ کر فرمایا ’’اللھم لاعیش الاٰخرۃ۔فاغفرالانصار والمھاجرہ۔ یہ لوگ ہیں جنہوں نے سب کچھ قربان کر کے دین کو اختیار کیا ۔ اس دنیا میں انہیں کیا آرام ملے گا بس ان لوگوں کو تو آخرت ہی میں آرام مل سکتا ہے وہیں چین و سکون سے رہ سکتے ہیں ۔فاغفرالانصاروالمھاجرہ۔اے پروردگار ان تمام مہاجرین اور ان تمام انصار کو معاف فرما اور انہیں جنت نصیب فرماتا کہ کم سے کم وہاں عیش و آرام سے رہیں اس دنیا سے یہ لوگ کچھ لینے کے لئے نہیں آئے ہیں بلکہ دینے کے لئے آئے ہیں ان کی ساری زندگی قربانی سے عبارت ہے ۔ ان لوگوں نے نہ صرف اپنا پرانا دین چھوڑا بلکہ اپنا وطن بھی چھوڑا ،گھر بار بھی چھوڑا ،اپنے کاروبار بھی چھوڑے کتنے لوگ تھے جو اپنے اہل و عیال کو بھی چھوڑ دئے ۔
یہ صحیح ہے کہ ابتدائی دور میں مشرف بہ اسلام ہونیوالے لوگوں میں سے ایک بڑی تعداد غریبوں کی تھی ، مسکینوں کی تھی لیکن سبھی ایسے نہیں تھے ۔ کچھ ایسے بھی تھے جو اپنے طور پر بڑے خوشحال تھے جن کے پاس دنیا کی بہت سی نعمتیں تھیں ، لذتیں تھیں ، عیش و ؤرام کا ہر سامان موجود تھا ۔ حضرت صہیب رومیؓ کا واقعہ تو آپ سنتے ہی ہیں ، ایک بڑے تاجر تھے ۔ لیکن ہجرت کے وقت جب جانے لگے تو ان کا مال تجارت اور ان کی جمع پونجی سب کفار نے چھین لی اور اپنا فرمان سنا دیا کہ تم کو جانا ہوتو تنہا جاؤ ۔ ان چیزوں کو لے کر تم نہیں جاسکتے ۔ پر سب کچھ انہوں نے چھوڑ دیا ۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک شخصیت حضرت مصعب بن عمیرؓ کی تھی یہ بھی بڑے خوشحال ،خوش لباس ،خوش پوشاک تھے ہمیشہ عطر کی خوشبو میں بسے رہتے تھے ۔روایتوں میں آتا ہے کہ جس گلی سے گزرتے گھر کی عورتیں جان لیتیں کہ مصعب بن عمیرؓ جارہے ہیں ، اسلام کو سینے سے لگایا تو گھر والوں نے ان کو ہر نعمت سے محروم کردیا دولت سے ، نعمت سے ، ہر چیز سے محروم کردیا ۔ اب ساری پرانیشان و شوکت رخصت ہوچکی ہے لیکن علم کے اندر ان کا اپنا ایک مقام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب مدینہ میں اسلام پھیلنے لگا تو ان کو اسلام سکھانے کے لئے نبی کریم ؐ نے مدینہ بھیجا ،شکل و شباہت میں بھی یہ نبی کریم ؐ سے قریب تر تھے ۔ جنگ احد کے موقع پر مسلمانوں کا جھنڈا انھیں کے ہاتھوں میں تھا ، اور یہ شہید ہوئے تو مشہور ایسا ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و لم شہید ہوگئے ۔ تدفین کا جب موقع آیا تو ان کے کفن کے لئے بھی کچھ نہیں تھا ۔ ایسی شخصیت جو مکہ کے اندر خوشحال اور خوش پوشاک کی حیثیت سے مشہور تھی ۔ ان کی تدفین کا وقت آتا ہے تو ان کے دفنا نے کے لئے خاص کفن نہیں بلکہ ان کے جسم پرجو ایک پرانی چادر یا کمبل رہتی تھی وہی ہے اب کفن کے لئے۷ ، وہی مختصر پرانی چادر ہے جو ان کے سراپا سے چھوٹی پڑتی ہے ۔ سر کی طرف کھینچتے ہیں تو پیر نظر آتا ہے اور پیر کی طرف کھینچتے ہیں تو سر نظر آتا ہے ۔ صحابہ کرامؓ نے نبی کریم ؐ کی طرف دیکھا تو آپ ؐ نے فرمایا چادر سے سر کو ڈھانک دو اور پیر پر گھانس ڈالدو ۔ ؂
اسی کی راہ میں سب کچھ لٹا دیا ہم نے 
یہاں تو وہ بھی نہیں جو کفن کے کام آئے 
معلوم ہوا کہ سبھی لوگ مسکین اور غریب نہیں تھے ۔ بڑے خوشحال لوگ بھی تھے ۔حق جب ان پر واضح ہوا تو ان کے پاس جو کچھ تھا سب قربان کردیا اور قربانی کر کے اسلام کے آغوش میں آئے ۔ تو نبی کریمؐ فرماتے ہیں ۔ ’اللھم لاعیش الاعیش الاخرۃ‘‘کہ یہ لوگ آخرت کے آام ہی کے لئے آئے ہیں ۔ اے اللہ تو انہیں معاف فرما، ان کی لغزشوں کو معاف فرما اور آخرت کا جو انعام ہے کم سے کم وہ انعام تو انہیں عطا فرما ، چونکہ اس دنیا کے اندر نبی کریم ؐ انہیں سرف ایک عقیدہ دینے کے لئے آئے تھے ۔ایسا عقیدہ جو انہیں سر بلند کرسکتا تھا کیوں کہ انسان اس عقیدے کے بغیر بہت ذلیل تھے ۔ اللہ نے انسان کو احسن تقویم میں بنا کر سب سے اوپر رکھا ہے یہ سر غیر اللہ کے سامنے نہیں جھکنا چاہئے ۔ یہ جھکے گا تو صرف اسی خالق کے آگے جھکے گا ۔ یہی اسلام کی تعلیم ہے لیکن جب انسان اس تعلیم کو نہیں جانتا تھا ، نہیں سمجھتا تھا تو اس ’’سر‘‘ کی قدر و قیمت سے واقف نہیں تھا تو یہ سروہ ہر کنکر کے آگے جھکا تا تھا ، ہر پتھر کے آگے وہ اپنے سر کو جھکاتا تھا اور جتنی بھی چیزیں انہیں نفع پہونچا سکتی تھیں یا نقصان پہنچا سکتی ان تمام چیزوں کے آگے وہ اپنے سر کو جھکا تا تھا ، اس سر کی کوئی حقیقت نہیں تھی ’’لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم oثم رددنہ اسفل سافلین‘‘ اللہ تعالیٰ نے تو اس کے سراپا کو ایسا بنا یا کہ انسان کا سر کبھی نہ جھکے ۔ آپ دیکھئے دنیا کی اور مخلوق میں اور انسان کے اندر یہی فرق ہے ۔ دنیا کی اور مخلوق جب کھانا دیکھتی ہے ،روٹی دیکھتی ہے ،گھاس ،پانی دیکھتی ہے تو اس کا سر خود بخود جھک جاتا ہے ۔ ان تمام چیزوں کو اٹھانے اور کھانے کے لئے ۔ لیکن انسان کی طرف کھانا پانی سب اٹھ کے آتے ہیں ۔ اس کا سر کھانے کے لئے نہیں جھکے گا ، اس کا سر روٹی کے لئے نہیں جھکے گا ،’’لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم‘‘ لیکن یہی انسان مادہ پرستی کے آگے جھک جائے گا روحانیت سے عاری ہوکر مادیت میں لگ جائے گا ، تو اب اسی روٹی کی خاطر حلال حرام میں کسی چیز کی تمیز اس کے اندر نہیں رہے گی ۔ یہ جتنے بھی ناجائز طریقے ہیں دولت کے حصول کے ،رشوت ،چوری ، دھوکہ ، فریب ان تمام چیزوں کو اختیار کرے گا ۔ ’’ثم رددنہ اسفل سافلین‘‘صحابہ کی آزمائشیں آپ ؐ کی آنکھوں کے سامنے ہوتی تھیں اور آپ کو خیالا بھی شاید دل میں گزر تا ہوگا کہ یہ لوگ آرام ، راحت اور چین کے ساتھ رہتے تھے لیکن جب میں نے ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی اور انہوں نے اسے قبول کیا ۔ یہ ساری مصیبتیں اس کے بعد ہی ان پر ٹوٹ پڑیں ۔ آپ ؐ کی آنکھوں کے سامنے یہ سارے مناظر گزرتے تھے ۔ کمزور عورتیں تھیں ان کے مالک اور ان کے آقا بہت ہی شرمناک ایذائیں دیا کرتے تھے ۔ برچھیاں چبھویا کرتے تھے ۔ حضرت بلالؓ کے ساتھ جو ہوتا تھا ،حضرت سمیہؓ اور حضرت یاسرؓ، کے ساتھ جو ہوا یہ سب نبی کریم ؐ دیکھتے اور آپ سوائے اس کے کہ یہ فرماتے ’’صبوایا آل یا سوموعدکم الجنۃ‘‘ کہ میں نے جو عقیدہ تمہیں دیا ہے ۔ جس عقیدہ کو تم نے قبول کیا ہے اس عقیدہ کے ذریعہ تم کو آخرت میں جنت ملے گی ۔دنیا والے اس عقیدہ کی قدر و قیمت سے واقف نہیں ہیں ۔ حالاں کہ یہ انسان کو اس کا صحیح مقام عطا کرتا ہے ، اور اسے سر بلند کرتا ہے ، لیکن پھر بھی دنیا کے لوگ جس چیز کو نہیں جانتے ،وہ اس کے دشمن ہوتے ہیں ، اسے ستاتے اور پریشان کرتے ہیں ، تم صبر کے ساتھ ، ثابت قدمی کے ساتھ رہو ، ’’موعد کم الجنۃ‘‘ اللہ تعالیٰ تمہیں جنت میں بہت اونچا اور بہت بڑا مقام عطا فرمائے گا ۔
غرض یہ صحابہ کرامؓ جنہوں نے اسلام کو گلے لگا لیا ، اس قرآن کی تعلیم کو قبول کیا اور اس قرآن کے مطابق اپنی زندگیوں کو شروع کیا ۔ ۱۵سال تک ان کی زندگیوں میں کیا گزری مت پوچھئے ۔پندرہ سال کی صبر آزما زندگی کے بعد سورۃ الحج میں انہیں اجازت دی گئی ’’اذن للذین یقاتلو ن بانھم ظلمواوان اللہ علٰی نصرھم لقدیر الذین اخرجوامن دیا ھم بغیر حق الاان یقولو اربنا اللہ ‘‘ کہا گیا کہ ۱۵ سال تک جو حق کی خاطر ظلم سہتے رہے اور ظلم سہتے سہتے کتنے لوگوں نے اپنی جانیں دے دیں لیکن پھر بھی ان کے پائے چبات میں لغزش نہیں ہوئی ۔اب ایسے تمام لوگوں کو اللہ کی طرف سے اجازت ہے کہ ظالموں سے اپنے ظلم کا بدلہ لے سکتے ہیں ۔’’ان اللہ علیٰ نصیر ھم لقدیر‘‘ اللہ تعالیٰ ان کی مدد پر پوری طرح قدرت رکھتا ہے ۔ یہ قدرت تو اللہ کو پہلے ہی دن سے تھی لیکن اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ مسلمان کوشش کے ذریعہ ،ہوش کے ذریعہ منصوبہ بندی کے ذریعہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں ۔ ان کا ایمان اندھا ایمان نہیں ہونا چاہئے ۔ بلکہ ان کا ایمان ٹھوس بنیادوں پر ہونا چاہئے تاکہ اسے کوئی چیز گمراہ نہ کرسکے ، کوئی چیز اسے ہلا نہ سکے پھر فرمایا یہ جو ظلم ان پر روارکھے گئے تو ان کا جرم کیا تھا ۔ انہوں نے کوئی قتل نہیں کیا ، انہوں نے ڈاکے نہیں ڈالے ، انہوں نے زمین میں فساد نہیں پھیلایا اگر ان کا جرم تھا تو صرف ایک ہی جرم تھا ۔ وہ یہ کہ یہ لوت اپنے رب کو پہچان گئے ۔’’الذین اخرجوامن دیار ھم الاان یقو لو اربنا اللہ‘‘ انہوں نے یہ کہا ہمارا پیدا کرنے والا اللہ ہے ۔ ان کے صرف یہ کہنے پر ساری قوم دشمن ہوگئی تھی اور انہیں اس قدر پریشان کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔ ہر جنگ اپنی نوعیت کے اندر عجیب و غریب تھی ۔’’جنگ بدر‘‘ اس جنگ کو تورشتوں کی جنگ کہا جاتا ہے ۔ کیوں کہ دونوں طرف تو ایک ہی خاندان کے افراد تھے ۔ ایک طرف باپ ہوتا تو دوسری طرف بیٹا ہوتا ۔ ایک طرف ماموں ہوتا تو دوسری طرف بھانجا ہوتا ، ایک طرف چچا ہوتا تو دوسری طرف بھتیجے ہوتے ، اییسی تھی وہ جنگ لیکن انہوں نے اسلام کی خاطر اس کو قبول کیا اور رشتوں کو قربان کرنے کے لئے تیار ہوگئے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’لاتجرقوما یو منونباللہ و الیوم الاخریوادون من حاداللہ ورسولہ ولو کانو ا اٰباء ھم اوابنا ءھم اواخوانھم او عشیر تھم ‘‘ کہ وہ یہ لوگ ہیں کہ اللہ کے رسول کی خاطر دنیا کے کسی رشتے کو خاطر میں لانے والے نہیں ہیں ۔ چاہے وہ رشتہکیسا ہی عزیز اور کیسا ہی قریب کا کیوں نہ ہو ۔ اس جنگ کو قرآن نے’’ یوم الفرقان‘‘کہا۔
دوسری جنگ ’’جنگ احد ‘‘ ہے اس جنگ میں بنی کریم ؐ کے حکم کے ذرا سی خلاف ورزی سے جیتی ہوئی بازی ہار میں بدل جاتی ہے ۔ اس میں خود بہت بڑا سبق ہے کہ نبی ؐ کے احکام چاہے وہ سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں ہم ان کی گہرائی میں گئے بغیر عمل کریں گے کیوں کہ جنگ احد میں آپ نے تیر اندازوں کو ایک پہاڑ پر جمے رہنے کا حکم فرمایا اور بتادیا کہ فتح ہوکہ شکست آپ لوگ یہیں رہیں گے ’’جبل الرفاۃ ‘‘ سے انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ فتح مکمل ہوچکی ہے کفار کی فوج دوڑ رہی ہے تو وہ اپنے مقام سے اتر آئے پھر کیا تھا ،جیتی ہوئی بازی شکست میں بدل گئی کفار واپس لوٹ کر آئے اس کے بعد پانسہ الٹ گیا ۔ کیا کیا تکلیفیں اور اذیتیں مسلمانوں کو برداشت کرنی پڑیں ، نبی کریم ؐ کے دندان مبارک شہید ہوگئے ۔اور آپ ؐ جو خود پہنے ہوئے تھے اس کے حلقے آپ کی کنپٹیوں میں داخل ہوگئے ۔ آپ ایک گہرے گڈھے گر پڑے ،خون تھا کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا یہ ساری مصیبتیں نبی کریم ؐ کی ذراسی نا فرمانی کی وجہ سے پیش آئیں ۔ ان کی سمجھ میں بات آگئی کہ ہمارا کام ختم ہوگیا ۔ ہمیں جو حکم دیا گیا تھا وہ پورا ہوگیا ، حالانکہ وہ حکم پورا نہیں ہوا تھا ، ذرا سی نافرمانی کی وجہ سے پوری امت کو اور پوری قوم کو کیسی شکست ہوتی ہے اور کیسی ذات ہوتی ہے ، اس کے اندر یہ نکتہ موجود ہے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی کس قدر خلاف و رزیاں ہم سے ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہم اپنے آپ کو نہیں دیکھتے ہیں ، اپنے اعمال کو ہم نہیں دیکھتے ہیں م اپنے عقائد کو ہم نہیں دیکھتے ہیں ، اپنی تاریخ کو ہم نہیں دیکھتے ہیں ، اور اللہ تعالیٰ نے ماضی میں جن قوموں کو نوازا اور بام عروج تک پہنچایا وہ سب کتنی قربانیوں کے بعد ہوا ، یہ سب ہم نہیں دیکھتے ہیں ، ہم اپنی کسی چیز کا جائزہ نہیں لیتے ہیں بلکہ ہر مسلمان آج یہی کہتا ہے کہ اللہ ہمارا ہے ، ہم اللہ کے ہیں ، لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ ہم سے صرف وعدہ کرتا ہے اور دیتا کیوں نہیں ؟ مسلمانو صرف یہی سوال کرتا ہے گویا ہر مسلمان کو آج اللہ تعالیٰ سے یہ شکوہ ہے اور یہ شکایت ہے کہ ہم اللہ کے ماننے والے ہیں اس کے باوجود ہم کیوں رسوا ہیں ؟
’’أحسب الناس ان یترکواان یقولوااٰمنا وھم لایفتنون ولقد فتنا الذین من قبلھم‘‘ یہ سب چیزیں ہم پڑھتے ہیں اور پڑھا تے ہیں اور جانتے بھی ہیں ۔دیکھئے صحابہؓ پورے پندرہ سال تک ظلم سہتے رہے اس راہ میں کتنے لوگ تھے جو اپنی عزیز جانیں گنوابیٹھے ، کیا کیا ان پر گزرا ، ۱۵ سال کوئی معمولی مدت نہیں ہوتی ، اس کے بعد انہیں اجازت دی گئی ۔ اب تاریخ اوراق الٹتی ہے اور ایک نئی تاریخ رقم ہوتی ہے ۔مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے وہ سب کچھ دیا جس کی انہوں نے توقع بھی نہیں کی تھی اب وہ دنیا میں لینے والے نہیں رہے ۔ صرف عقیدہ ہی نہیں صرف ایمان ہی نہیں ،ساری چیزیں ،اخلاق ، تمدن ، تہذیب اور سارے لوگوں کو زندگی کی بھیک دینے والے بھی بن گئے ، جولوگ ان کی زندگیوں کے مالک بن کر انہیں تاتے تھے ، انہیں استعمال کرتے تھے ، جیسے چاہتے تھے ،جہاں چاہتے تھے ،نکال دیتے تھے ، جس چیز سے چاہتے تھے محروم کردیتے تھے ، آخرانہوں نے کیا کچھ نہیں کیا ۔ ان کی مرضی سے ان کو کعبۃ اللہ میں عبادت نہیں کرنے دیتے تھے ، جو سب کے لئے عام تھا ۔ نہ ان کو اعتکاف کی اجازت دی جاتی تھی ، نہ اذان کی آواز بلند کرنے کی اجازت دی جاتی تھی ،اور نہ نماز پڑھنے کی اجازت دی جاتی تھی ۔ لیکن ۲۱ سال کے اندر کا یا ایسی پلٹتی ہے ، تاریخ ایسی بدلتی ہے کہ فتح مکہ کے موقعہ پر وہ سب لوگ کہتے ہیں آج ہمارے ساتھ کچھ بھی سلوک کیا جائے ، ریزہ ریزہ کردیا جائے ، ہماری بوٹی بوٹی نوچ کر پھینک دی جائے ، ہمارا خون بہادیا جائے ۔سب کا حق آپ کو پہنچتا ہے کیوں کہ ہم نے آپ لوگوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’اذھبو اانتم الطلقاء لاتثریب علیکم الیوم یغفراللہ لکم وھو ارحم الراحمینo‘‘
ہماری پوری تاریخ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ سب سے پہلے ہمیں قربانیوں کے لئے تیار ہونا ہوگا ۔اور جب ہم اللہ کی راہ میں قربانیاں دیں گے اور یہی اللہ کا قانون بھی ہے ۔’’ان تنصر واللہ ینصر کم ویثبت اقدامکم‘‘آپ ہر ایک کی زندگی میں یہی دیکھیں گے ۔ حضرت ابراہیم ؑ کی پوری زندگی قربانی سے عبارت ہے ۔ حکم ہورہا ہے ماں باپ کو چھوڑ دیجئے ۔ ،گھر چھوڑدیجئے ،بیوی کو چھوڑ دیجئے ۔بچے کو چھوڑ دیجئے ، بچے کو ذبح کردیجئے اور ہر امتحان میں کامیاب ، ’’واذابتلیٰابراہیمربہ بکلمات فاتمھن‘‘اس کے بعد اعلان ہوتا ہے ’’قال انی جاعلک للناس اماما‘‘اب آپ اس مقام اور اس مرتبہ کو پہنچ گئے ۔ خوددنیا کا بھی یہی دستور ہے کہ آدمی پڑھتا ہے ، امتحان دیتا ہے ،امتحان لکھتا ہے اس کے بعد پڑھانے والا بنتا ہے ت اب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ سے یہی فرمایا یہ کرو یہ کرو اس کے بعد جب ان کو امام بنادیا گیا اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ حضرت ابراہیم ؑ سے اللہ تعالیٰ کچھ نہیں مانگتا بلکہ اب حضرت ابراہیم ؑ مانگتے ہیں اللہ تعالیٰ سے ، مجھے یہ دے ، مجھے وہ دے ، مجھے یہ بنا ، پہلی ہی بار جب آپ سے کہا گیا’’ انی جاعلک للناس اماما‘‘آپ نے فرمایا ’’قال ومن ذریتی‘‘میرے خاندان والوں کو میرے بعد کعبۃ اللہ کا متولی بنا ، پھر دوسری فرمائش ملاحظہ فرمایئے کہ مکہ مکرمہ میں آپ اللہ کا گھر بنا کر کہتے ہیں کہ دنیا کے سارے لوگوں کے دلوں کو اس سے جوڑ دے کہ وہ یہاں کھینچ کر آئیں اور آتے رہیں ۔ کیسی عجیب وغریب دعا ہے اور کیسی حیرت انگیز درخواست ہے لیکن اللہ تعالیٰ اسے بھی قبول کرتا ہے اور آج آپ ان تمام حقیقتوں کو بچشم خود دیکھ سکتے ہیں ،یہی طریقہ ہے اللہ کی مدد حاصل کرنے کا ۔اور اللہ کے جو وعدے ہیں وہ وسچے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا یہی قانون ہے اور اللہ کا قانون دنیا کے کسی دور میں ،دنیا کے کسی ملک میں نہ بدلاہے ، بہ بدلے گا ، آج ہمیں اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہے کہ سب سے پہلے ہم نیک بنیں گے ، پاکیزہ بنیں گے ، اپنے عقائد کی اصلاح کریں گے ، اپنے اعمال اور اپنے اخلاق کو درست کریں گے ،اور اللہ کے جو بھی احکام ہیں ان احکام کے مطابق ہم اللہ کی راہ میں جان کی ، وقت کی ، مال کی ، فکر کی اور محنت کی قربانی دیتے جائیں گے۔ نتیجہ سے بے پرواہ ہوکر دیتے جائیں گے ،لیکن چونکہ وہ خیر الرازقین ہے ،ارحم الرحمین ہے اور سب سے بڑا انعام دینے والا ہے تو وہ اس دنیا کے اندر بھی دے گا ۔ جبکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو اتنا دیا اتنا دیا کہ اکثر صحابہ کرام جو ایک ایک لقمہ کے لئے محتاج تھے ، ان کی سوانح حیات کتابوں کے اندر موجود ہے جن میں بتایا جاتا ہے کہ کس صحابہ کے پاس کتنی زمین تھی ، کتنا سونا تھا ، کتنی لونڈیاں تھیں ، کتنے نوکر چاکر تھے ، اس موضوع کی مستند کتابیں لائبریریوں میں موجود ہیں ۔ اللہ دنیا میں بھی اس کے ماننے والوں کو بھر پور دیتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ پہلے ہمیں اس قربانی کی راہ پر چلنا ہوگا جس پر چل کر ہمارے اسلاف نے وہ تمام چیزیں حاصل کیں ۔
میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں سچا اور پکا مسلمان بنائے اور ہمیں بھی اسلاف کی راہ پر گامزن فرمائے۔آمین۔۔۔
***** 

نورہدایت از: حافظ حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنی


نورہدایت
از: حافظ حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنی
’’وعبا د الرحمن الذین یمشون علی الارض ھو ناً و اذا خاطبھم الجاھلون قالو اسلما۔والذین یبیتون لربھم سجداً وقیا ماً۔ والذین یقولونربنااصرف عناعذاب جہنم ان عذابھاکان غراما۔ انھاسائتمستقراً ومقاما۔والذین اذاانفقوالم یسرفواولم یقترواوکان بین ذالک قواما ۔والذین لایدعون مع اللہ الٰھاً اٰخرولا یقتلون النفس التی حرم اللہالا بالحق ولایزنون ومن یفعل ذالک یلق اثاما۵‘‘
ترجمہ: اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں اور جن ان سے جہالت والے لوگ بات کرتے ہیں تو وہ رفع شرکی بات کہتے ہیں اور جو راتوں کو اپنے رب کے آگے سجدے اور قیام میں لگے رہتے ہیں اور جو دعائیں مانگتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم سے جہنم کے عذاب کو دور رکھئے کیوں کہ اس کا عذاب پوری تباہی ہے بے شک وہ جہنم برا ٹھکانا اور برا مقام ہے اور وہ جب خرچ کرنے لگتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ کرنا ان کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے اور جو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور معبود کی پرستش نہیں کرتے اور جس شخص کو اللہ نے حرام فرمایا ہے اس کو قتل کرتے ہاں مگر حق پر اور زنا نہیں کرتے اور جو کوئی یہ کام کرے گا وہ گناہ میں جاپڑے گا ۔ 
سورۂ نور سے متصل سورہ فرقان ہے ۔ نور کے معنی روشنی کا تھا تو فرقان کے معنی ایسی کسوٹی کا ہے جس کے ذریعہ کھرے اور کھوٹے کی تمیز ، اسلام اور کفر کی تفریق ،حق و باطل کی معرفت سچ اور جھوٹ کی پرکھ ،اصلی اور نقلی کی پہچان ہر صاحب بصیرت کے لئے بڑی آسان ہوجاتی ہے ۔جنگ بدر کو انہی سب مناسبتوں کی وجہ سے ’’یوم الفرقان‘‘ کا نام دیا گیا کیوں کہ وہ بڑا فیصلہ کن معرکہ تھا جس میں کھرے کھوٹے کا بڑا سخت امتحان تھا ۔ سورۂ فرقان چھ رکوعات کی ایک مختصر سورت ہے توحید ورسالت کے بنیادی مضامین کے ساتھ اثبات قیامت کا عقلی اور نقلی دلائل کے ساتھ ایسے واضح الفاظ میں بیان ہے کہ آدمی ذرا ساکان دھرے تو قیامت کا قائل ہوئے بنا رہ نہیں سکتا ۔
سورت کے آخری رکوع میں قیامت کے دن حساب و کتاب میں کامیاب ہونے والوں کے کچھ اوصاف و کمالات کا تذکرہ ہے اور ان اوصاف و کمالات کے متصف لوگوں کو’’ عبادالرحمن‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیا گیا ہے چنانچہ انہی آیتوں سے درس قرآن کی ابتداء ہے ۔
اللہ تعالیٰ انسانوں کو کن اوصاف سے متصف دیکھنا پسند کرتا ہے ان کو نمبر وار ملا حظہ فرمایئے ۔
(۱)زمین پر عاجزی اور انکساری کے ساتھ زندگی بسر کریں ۔(۲)کبروتعلی کے جرائم کو ختم کرنے کے لئے اپنے آپ کو نام کام اور عقیدہ ہرایک میں اللہ کا بندہ اور غلام ثابت کریں ۔ (۳)نادانوں سے دوستی اور دشمنی کرنے کے بجائے دعاسلام تک ہی تعلقا ت رکھیں اور برائی کے خاتمے کے تدابیر سوچتے رہیں۔(۴) راتوں کا ایک حصہ نیند کی قربانی دے کر اور ریا ونمود سے بچا کر اللہ کے آگے ذکر و اذکار اور مناجات میں مصروف رہیں ۔ (۵)جہنم کی ہولناکی کا تصور کرتے ہوئے اس کے عذاب سے بچنے کی دعا کرتے رہیں ۔ (۶)عذاب الہٰی کا مکمل یقین اور اس کی سنگینی کا بھر پور تصور ان کے ذہنوں پر چھایا رہے ۔(۷)خرچ و اخراجات کے سلسلے میں بخل کی رذالت اور اسراف کی حماقت سے اپنے دامن کو بچا کر اعتدال اور توازن کی روش پر قائم رہیں ۔(۸)ہر قسم کے شرک سے اپنے معتقدات کی حفاظت کرتے ہوں (۹)ناحق قتل و خون ریزی کا کوئی ایک قطرہ خون بھی ان کے اپنے دامن کو داغدار نہ کرتا ہو۔(۱۰) زنا اور اس کے لوازمات و مبادیات اور محرکات سے اپنی پاک دامنی کو آلودہ نہ کرتے ہیں ۔
یہ جملہ دس باتیں ہیں جو فضائل ورذائل پر مشتمل ہیں ۔فضائل سے متعلق باتوں پر عمل اور ذائل سے متعلق عادات سے اجتناب ہی انسانوں کو عبادالرحمن کے لقب اور خطاب مشرف اور ممتاز کرتا ہے اور انہی اوصاف سے متصف اشخاص اللہ کے نزدیک اونچے مقام و مرتبے کے مستحق ثواب تو ہیں ہی لیکن خو د دنیا والوں کے پاس بھی ہر ملک میں اور ہر دور میں ایسی ہستیاں بلا شبہ قابل رشک اور لائق احترام تسلیم ہوں گی ۔ قرآن کی تعلیمات تو کسی ایک خاص طبقے کے افراد کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ عالمی پیغام ساری دنیائے انسانیت کی ہدایت ورہنمائی اور اس کی نیک نامی و کامیابی کے لئے ہے۔۔۔
*****