Showing posts with label احمد فراز. Show all posts
Showing posts with label احمد فراز. Show all posts

Monday, March 18, 2013

احمد فراز



احمد فراز

پاکستان سے  فیض احمد فیضؔ  اور قتیل شفائی کے  بعد جو شعراء شہرت کی بلندیوں  تک پہونچ گئے، ان میں  سب سے  بڑا اور اہم مقام احمد فرازؔ  کا ہے۔ فرازؔ  بڑی بڑی باتیں  اور بہت خوبصورت باتیں  مشکل زمینوں  میں  رواں  دواں  انداز بیان میں  کہہ جاتے  ہیں۔ ہمارے  ہندوستان میں  جو بھی قابل ذکر اور بڑا مشاعرہ ہوتا ہے  اور اس میں  پاکستانی شعراء کو مدعو کرنے  کی بات کی جاتی ہے  تو سب سے  پہلے  احمد فرازؔ  کا نام آتا ہے۔ احمد فرازؔ  نے  حسن و خوبصورتی اور ہجر و وصال پر بڑے  خوبصورت اشعار کہے  ہیں۔ الفاظ میں  سادگی اور پرکاری کا حسن نمایاں  ہوتا ہے  کہ جس کی وجہ سے  ہر خاص و عام کی سمجھ میں  آپ کا شعر بہت اچھی طرح آ جاتا ہے  اور احمد فرازؔ  کی تمام حلقوں  میں  مقبولیت کا بھی یہی سبب ہے۔ انہوں  نے  اپنے  فکر اور تخیل سے  ایک نیا پیکر تخلیق کیا ہے  اور یہ پیکر ہندوستان اور پاکستان کے  لوگوں  کے  اذہان و قلوب میں  مشک و عنبر کی خوشبو کی طرح رچ بس گیا ہے۔ انہوں  نے  بہت تھوڑے  عرصے  میں  بڑی شہرت حاصل کی اور ان کے  اشعار کی خوشبو نہ صرف ہندوستان بلکہ اردو کی نئی بستیوں  تک پہونچ چکی ہے، اور آئے  دن آپ لندن، امریکہ وغیرہ کے  مشاعروں  میں  بھی مدعو کیے  جاتے  ہیں۔ آپ کی شاعری کا سب سے  بڑا حسن خود کلامی کی کیفیت ہے، اور یہ کیفیت تجربات و مشاہدات کے  بحر بیکراں  عبور کرنے  سے  ہوتی ہے۔ 
احمد فراز کا خاندانی نام سید احمد شاہ ہے۔ والد کا نام سید محمد شاہ برقؔ  ہے۔ (جو اپنے  وقت کے  نغز گو شاعر تھے۔ )احمد فراز ۱۴ جنوری ۱۹۳۱ء میں  پیدا ہوئے۔ اردو فارسی میں  M.A کی سند حاصل کی۔ فی الحال نیشنل بک فاؤنڈیشن کے  سربراہ ہیں۔ ایک درجن سے  زائد شعری مجموعے  شائع ہو چکے  ہیں۔ ابھی دہلی سے  ’’کلام احمد فرازؔ ‘‘ کے  نام سے  1060صفحات میں  احمد فرازؔ  کے  ۱۳ مجموعے  ایک ساتھ شائع  ہو چکے  ہیں۔ 
بقول ساحلؔ  احمد
’’وہ زندگی کو سرتاپہ محبت بنا دینے  کا جذبہ رکھتے  ہیں۔ ........ان کی نگاہیں  تجربات و مشاہدات سے  کبھی خالی نہیں  رہیں۔ رومان و انقلاب کے  مشترکہ احساس نے  ان کی غزلوں  میں  خود کلامی کی بھی کیفیت پیدا کی ہے۔ اور اکثر مقامات پر وہ میرؔ  کی طرح سخن طراز نظر آتے  ہیں۔ ان کا فن ماضی کی روایت سے  اور عصر حاضر کی جد و جہد سے  منسلک و مربوط ہے۔ ‘‘ 
جناب ساحل احمد کا یہ تجربہ کتنا حقیقت کے  قریب ہے  کہ ’’وہ میرؔ  کی طرح سخن طراز نظر آتے  ہیں ‘‘ میرؔ  کی شاعری میں  جو غم و آلام کی پرچھائیاں  ہیں، درد و کرب کے  سائے  ہیں ، فراق کی سوزش ہے، یقیناً یہ احمد فرازؔ  کی شاعری کا جز بن چکی ہے۔ آپ بالیدہ خیالات کو حسن وبیان کی زیبائش سے  ایسے  آراستہ وپیراستہ کرتے  ہیں  کہ ’’وہ کہیں  اور سنا کرے  کوئی‘‘ رواں دواں  اسلوب سے  قاری لطف اندوز ہوئے  بغیر نہیں  رہ سکتا۔ امن و آشتی کو زیادہ تر اپنی شاعری کا جز بنانا پسند کرتے  ہیں۔ آپ کی غزل کے  یہ شعر ملاحظہ ہوں۔ 
سنا ہے  لوگ اسے  آنکھ بھر کے  دیکھتے  ہیں 
سو اس کے  شہر میں  کچھ دن ٹھہر کے  دیکھتے  ہیں 
سنا ہے  درد کی گاہک ہے  چشم ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے  گزر کے  دیکھتے  ہیں 
سنا ہے  بولے  تو باتوں  سے  پھول جھڑتے  ہیں 
یہ بات ہے  تو چلو بات کر کے  دیکھتے  ہیں 
سنا ہے  حشر میں  اس کی غزال سی آنکھیں 
سنا ہے  اس کو ہرن دشت بھر کے  دیکھتے  ہیں 
بس اک نگاہ میں  لٹتا ہے  قافلہ دل کا
جو رہ روان تمنا ہیں  اسے  ڈر کے  دیکھتے  ہیں 
کسے  نصیب کہ بے  پیرہن اسے  دیکھے 
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے  دیکھتے  ہیں 
اب اس کے  شہر میں ٹھہریں  کہ کوچ کر جائیں 
فرازؔ  آؤ ستارے  سفر کے  دیکھتے  ہیں