Showing posts with label مضامین. Show all posts
Showing posts with label مضامین. Show all posts

Monday, March 18, 2013

کیوں اسیر گیسوئے خم دار قاتل ہو گیا




(۲)

کیوں اسیر گیسوئے خم دار قاتل ہو گیا
ہائے کیا بیٹھے بٹھائے تجھ کو اے دل ہو گیا
کوئی نالاں ، کوئی گریاں ، کوئی بسمل ہو گیا
ا س کے اٹھتے ہی دگرگوں رنگ محفل ہو گیا
انتظار اس گلی کا اس درجہ کیا گلزار میں 
نور آخر اس گلی میں دیدۂ نرگس کا زائل ہو گیا
اس نے تلواریں لگائیں ایسے کچھ انداز سے 
دل کا ہر ارماں فدا اے دست قاتل ہو گیا
قیس مجنوں کا تصور جب بڑھ گیا نجد میں 
ہر بگولہ دشت کا لیلئ محمل ہو گیا 
یہ بھی قیدی ہو گیا آخر کمند زلف کا
لے اسیروں میں ترے آزادؔ شامل ہو گیا

مولانا ابوالکلام آزادؔ




مولانا ابوالکلام آزادؔ

(۱۸۸۸ء-۱۹۵۸ء)

مولانا آزاد یقیناً اپنے دور کے نابغہ تھے۔ بہت کم عمری میں انہوں نے شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا تھا۔ آپ جامع الکمالات شخصیت تھے۔ آپ نے ایک زندگی میں جتنے کارنامے انجام دئے ہیں شاید ہی کوئی دوسرا شخص کئی زندگیاں پا کر بھی اتنے کارنامے انجام نہیں دے سکتا۔ ان کا خاص وصف یہ تھا کہ جس میدان میں بھی قدم رکھتے اپنا لوہا منوا کر دم لیتے۔ 
        والد محترم مولانا خیر الدین (۱۸۳۱۔ ۱۹۰۸)نے انگریزوں کے ظلم و ستم سے بد دل ہو کر مکۂ معظمہ کی طرف ہجرت کی۔ جہاں عرب  بیوی عالیہ مرحومہ کے بطن سے ۱۸۸۸ء میں مولانا ابوالکلام آزادؔ پیدا ہوئے۔ آپ کا تاریخی نام فیروز بخت تھا۔ مولوی خیرالدین نے ۱۸۹۸ء میں ہندوستان کو وطن ثانی بنایا اور کلکتہ میں سکونت اختیار کی۔ مولانا ۱۳سال کی عمر میں درس نظامی اور دیگر کتب متداولہ کی تدریس سے فارغ ہو چکے تھے اور آپ نے اسی عمر میں دینی علوم ،  طب و فلسفہ وغیرہ میں قابل رشک استعداد پیدا کر لی۔ 
مولانا نے ابتداء عمری میں شاعری کی اور کچھ غزلیں کہیں۔ امیر مینائی اور داغ دہلوی سے اصلاح لی۔ ’’ارمغان فرخ ‘‘ممبئی میں مولانا آزاد کی پہلی غزل شائع ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک صاحب کو مولانا آزاد کے شاعر ہونے میں شک تھا۔ چنانچہ ایک موقعے پر انہوں نے مولانا کو ایک طرحی مصرعہ دیا اور کہا کہ اس مصرعے پر اگر تم غزل کہہ دو گے تو میں تمھاری قابلیت کو مان جاؤں گا۔ کچھ ہی دیر میں مولانا نے ایک مرصع غزل حاضر کر دی۔ ان صاحب نے بے اختیار کہا ’’قسم سے صاحبزادے !یقین نہیں ہوتا کہ تم نے ہی غزل کہی ہے ‘‘۔ 
۱۶سال کی عمر سے ہی ان کے مضامین ’’مخزن‘‘ لاہور’’ احسن الأخبار‘‘ کلکتہ اور ’’مرقع عالم ‘‘ہردوئی میں شائع ہونے لگے۔ اور یہیں سے مولانا کے علم و فضل کی خوشبو پورے ہندوستان میں مشک و عنبر کی طرح پھیلتی چلی گئی۔ آپ نے ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ جیسے دو رسالے شائع کئے۔ جو صحافت کی دنیا کے دو جگمگاتے ستارے تھے اور یہ ستارے مسلمانوں کے ذہنوں کو جلا بخشنے کے ساتھ ساتھ آزادیِ ہند میں ان کی صحیح رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیا کرتے تھے۔ 
مولانا نے آزادی کی جد و جہد میں اپنے قلم اور عمل کے ذریعے بھرپور حصہ لیا۔ کبھی اسیر زنداں ہوئے۔ کبھی اخبار کی ضمانت ضبط ہونے پر بھاری جرمانہ ادا کیا۔ لیکن اپنے موقف سے بال برابر بھی نہیں ہٹے۔ اور اپنے نظریات میں ذرا بھی تبدیلی گوارا نہیں کی۔ 
مولانا بڑی خو بصورت نثر لکھتے تھے اتنی خوبصورت اور لاجواب نثر کہ مت پوچھیں ! آپ کی نثر شاعروں کو بھی شرمسار کر دیتی تھی۔ مولانا حسرت موہانی کا یہ شعر مولانا کی نثر کی تابناکیوں کا اندازہ لگانے کے لئے کافی ہے ؂
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظم حسرت میں کچھ مزا نہ رپا
مولانا کو فارسی اور عربی ادب کا اچھا خاصا مطالعہ تھا۔ یہی وجہ ہے وہ اپنی نثر کے دوران عربی و فارسی اشعار ،  قرآنی آیات اور احادیث کے ٹکڑے بے دھڑک استعمال کرتے تھے۔ کبھی اتنی برجستگی اور بے ساختگی سے کہ دل سے واہ واہ نکل جاتی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ گو یا یہ قرآنی آیت ابھی نازل ہوئی ہے۔ ’’غبار خاطر‘‘ ’’تذکرہ ‘‘’’ترجمان القران‘‘ مولانا آزاد کے ایسے نثری شاہ کا رہیں کہ جن کی مثال دنیا آج بھی دینے سے قاصر ہے۔ 
مولانا آزاد کا حوصلہ بحر بحر تھا۔ وہ جس کام کا بھی ارادہ کرتے پنجے جھاڑ  کر اس کے پیچھے لگ جاتے۔ پھر چاہے طوفان آئے ،  آندھی چلے ،  زلزلے آئیں وہ اپنے ارادے سے ذرہ برابر بھی پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے۔ 
مولانا اپنے ہم عصروں میں ممتاز حیثیت کے حامل تھے۔ ان کی شہرت سے ہندوستان کا چپہ چپہ مہک اٹھا۔ ان کی حد سے بڑھی ہوئی شہرت کے سبب ان کے کئے حاسدین پیدا ہو گئے تھے لیکن مولانا آزاد نے اپنے کسی حاسد کو کوئی جواب نہیں دیا۔ 
آپ کا انتقال ۱۹۵۸ء کو ہوا۔ 
***

کچھ اپنے بارے میں






  1. کچھ اپنے  بارے  میں 


ناچیز کا اصلی نام سید ظہیر ہے، ظہیر الدین کے  قلمی نام سے  ادبی دنیا میں  مجھے  جانا جاتا ہے۔ مطالعے  کا ذوق و شوق بچپن سے  تھا۔ اردو زبان سے  محبت گھٹی میں  پڑی ہوئی تھی، مجھے  یاد آ رہا ہے  کہ جب میں  سات سال کا تھا تو انجمن اشاعت اسلام کی اردو کی تیسری پڑھ رہا تھا۔ استاذ ایک صفحہ سبق دیتے  تو میں  تین صفحات سنا آتا۔ رفتہ رفتہ یہی میری عادت بن گئی۔ استاذ بھی میرے  اس شوق سے  بہت خوش تھے، مجھ پر خصوصی توجہ دینے  لگے۔
جب شعور کچھ اور جوان ہوا تو میں  نے  اپنے  گھر میں  کتابوں  کو تلاش کیا، چند کتابیں  میرے  ہاتھ لگیں، جو غالباً یہ تھیں، آداب زندگی، آمنہ کا لال، قصص الانبیاء، پہلی فرصت میں  ان تینوں  کتابوں  کو چاٹ ڈالا۔ کچھ سمجھ میں  آیا کچھ نہیں، یہ میری کتابوں  سے  پہلی دوستی تھی۔ پہلا شعوری معانقہ تھا۔ اس کے  بعد جب بھی میں  نے  کتاب کی طرف نظر دوڑائی اس نے  مجھے  مایوس نہ کیا۔
اس کے  بعد شعور نے  کروٹ لی، کچھ اور بیدار ہوا، میں  دارالعلوم حیدر آباد میں  حفظ کا طالب علم تھا۔ مجھے  غالباً ماہانہ ۵۰ روپیے  ملا کرتے  تھے، جن کا بہترین مصرف میری نظر میں  یہ تھا کہ ان سے  کتابیں  خرید لی جائیں۔ میں  چار مینار جاتا، جو جو کہانی کی کتاب پسند آتی خرید لاتا۔ میں  نے  قصۂ حاتم طائی، الف لیلہ اسی دور میں  پڑھی۔ مکتبۂ جامعہ سے  اپنی پسند کی کتابیں  بھی کبھی کبھار منگوا لیا کرتا تھا۔ ڈوب کر مطالعہ کرتا تھا۔ ہمارے  ساتھیوں  کو میرے  مطالعے  کے  ذوق پر حیرت تھی۔ کیونکہ عموماً حفظ کے  طلباء اردو صحیح سے  دیکھ کر پڑھنا نہیں  جانتے  تھے۔ حفظ کے  طلباء کو اردو سکھانے  کے  لیے  ایک گھنٹہ مختص تھاعبد الوھاب صاحب ہمیں اردو پڑھاتے  تھے۔ وہ نہایت مشکل الفاظ املا کراتے، میں  بغیر کسی دقت کے  صحیح املا کر دیتا۔ جسے  دیکھ کر وہ بہت خوش ہوتے۔ جب امتحان کا وقت آیا تو اردو کا امتحان غالباً مولوی زکریا صاحب نے  لیا تھا۔ انہوں  نے  میری اچھی کارکردگی پر خوش ہو کر غالباً ایک روپیہ انعام کے  طور پر دیا تھا، مجھے  اس انعام کے  حصول پر اتنی خوشی ہوئی کہ مت پوچھیں !
رات میں  سونے  کے  قریب اپنے  دوستوں  کو کہانیاں  سنایا کرتا تھا، جنہیں  وہ بغور سنا کرتے  تھے۔ پیام تعلیم بڑی دلچسپی سے  پڑھا کرتا تھا۔ اس کے  اشعار، لطائف بطور خاص پڑھ کر اپنے  ساتھیوں  کو سنایا کرتا تھا۔
میرے  حفظ کے  استاذ مولانا صلاح الدین صاحب تھے، جو بلاک بیلٹ تھے۔ ہمیں  کراٹے  سکھاتے  تھے۔ میں  نے  اپنی زندگی میں  ان سے  زیادہ مشفق، مہربان،نرم دل، مخلص استاذ کہیں  نہیں  دیکھا۔ فجر کے  فوری بعد میں  سبق سنا دیا کرتا تھا، بعد میں  آرام سے  پارۂ سبق اور آموختہ سناتا۔ خاص دوستوں  میں  سے  سیف اللہ خالد عمری، حافظ عظیم الحق، محمد اعظم اعظمی قاسمی، محمد طلحہ شامل تھے۔ سوائے  اعظم کے  سبھی ایک ہی جماعت کے  طلبہ تھے۔ ایک ہی استاذ سے  پڑھتے  تھے۔ ہم سب نے  ایک ساتھ قرآن ختم کیا، تقریباً ۲۰ دورے  بھی کیے۔ مسابقۂ حفظ قرآن پر گویا ہ،اری حکومت تھی، پہلا، دوسرا، تیسرا انعام ہماری جماعت کو ملنا یقینی تھا۔ دارالعلوم حیدرآباد کی لائبریری المکتبۃ الخالدیۃ سے  میں  نے  از حد استفادہ کیا۔ تاریخ الخلفاء ہو یا تاریخ دارالعلوم، تحریک ریشمی رومال ہو یا تاریخ حرمین، مولانا قاسم نانوتوی، حیات اور ادبی خدمات ہو یا سوانح قاسمی، یہ تمام کتابیں  میں  نے  یہیں  پڑھیں، خطبات کی کتابوں  میں  خطبات دین پوری بڑے  شوق سے  پڑھتا تھا۔ اگر چہ تقریر و خطابت سے  مجھے  دور دور کا بھی واسطہ نہیں  تھا۔
ارتکاز مطالعہ مجھے  یہاں  میسر نہیں  تھا۔ ایک موضوع پر مختلف مصنفین کی لکھی ہوئی کتابیں  پڑھنا اور اپنی معلومات کو وسعت دینا میرے  لیے  یہاں  ممکن نہ تھا۔ کیونکہ یہ کتب خانہ بکھرا ہوا کتب خانہ تھا۔ میرے  مطالعے  کی تسکین کے  لیے  معتد بہ کتابیں  یہاں  موجود نہیں  تھیں۔ ضرورت یہ سمجھی گئی کہ کسی دوسرے  کتب خانے  سے  استفادہ کیا جائے۔ افضل گنج کا کتب خانۂ آصفیہ اپنی بیش بہا کتابوں، نادر مخطوطات کے  لیے  شہرت رکھتا تھا۔ ایک جمعرات کی شام بڑی جماعت کے  ایک ساتھی محمد حامد کے  ساتھ اس لائبریری کا رخ کیا۔ عقل حیران تھی کہ خدایا ! یہ میں  کس جہاں  میں  آ گیا۔ کہ یہاں  قدم قدم پہ علم و ادب کے  موتی بکھرے  پڑے  تھے۔ اندھا کیا چاہے  دو آنکھیں ! بھلا میرے  لیے  اچھی کتابوں  سے  بہتر کیا چیز ہو سکتی تھی!  میں  نے  کتب خانۂ آصفیہ کو لازم پکڑ لیا۔ خوب کتابیں  پڑھیں، ناول پڑھے، افسانوی مجموعے، سیرت پر کتابیں، شاعری کے  مجموعے، تاریخی کتابیں  دل لگا کر مزا لے  لے  کر پڑھیں۔ میرا معمول تھا کہ جمعہ کے  دن صبح سات بجے  غسل سے  فارغ ہو جاتا، پھر سیدھے  کتب خانۂ آصفیہ چلا جاتا، بس کے  ذریعہ جانے  میں  تقریباً ایک گھنٹہ لگ جاتا، ٹھیک آٹھ بجے  میں  لائبریری میں  داخل ہو چکا ہوتا، اپنی پسند کی کتاب لی اور لگے  مطالعہ کرنے ! اس کے  بعد ہوش اس وقت آتا جب جمعہ کی اذان ہوتی، جمعہ کی نماز کے  لیے  جانے  کو جی نہ چاہتا، مگر زبردستی کر کے  قریبی مسجد ’’مسجدِ چمن‘‘ میں  جمعہ پڑھنے  چلا جاتا، نماز کے  بعد واپس آ کر اپنے  پسندیدہ شغل مطالعے  میں  غرق ہو جاتا، غالباً شام پانچ بجے  یہاں  سے  واپس ہوتا، میں  نے  اپنے  دوست کے  نام سے  لائبریری کا ممبر کارڈ بھی بنا رکھا تھا، جس کے  توسط سے  ایک آدھ کتاب کبھی کبھی مدرسے  لے  آتا۔ ایک آدھ دن میں  وہ کتاب ختم ہو جاتی۔
آپ یہ نہ سمجھیں  کہ یہ کسی بڑی جماعت کے  طالب علم کے  شوق ہیں، نہیں  ! بالکل نہیں !یہ ضرب یضرب، نصر ینصر کی گردان کرنے  والے  جماعت اول کے  طالب علم کے  شوق ہیں، غالباً اسی سال بیت بازی کا مقابلہ منعقد ہوا، جس میں  ایک پوائنٹ سے  ہماری ٹیم ہار گئی، جماعت سوم میں  پھر بیت بازی کا مقابلہ ہوا، مجھے  ایک ٹیم کا لیڈر مقرر کیا گیا، پچھلی ہار مجھے  نہیں  بھولی تھی، میں  نے  جم کر تیاری کی، اپنے  ساتھیوں  کو بھی خوب تیار کیا، حتیٰ کہ مقابلے  کا دن آ گیا، الحمد للہ میں  نے  مخالف ٹیم کو شکست فاش دے  دی، بیت بازی کے  اس مقابلے  میں  ہماری ٹیم کو فاتح شمار کیا گیا، اچھے  انعامات سے  نوازا گیا، جو کتابیں  مجھے  اس وقت انعام میں  دی گئیں  تھیں  وہ آج بھی میرے  پاس محفوظ ہیں۔
اس دوران مجھے  جامعہ دارالسلام جانے  کا اتفاق ہوا، (جہاں  میرے  دوست کے۔ خالد سیف اللہ عمری کرنولی پڑھ رہے  تھے ) میں  نے  جب جامعہ کا ماحول دیکھا، وہاں  کی عمارتیں  دیکھیں  تو بے  اختیار میرا دل مچلنے  لگا کہ اگر پڑھنا ہے  تو اسی مدرسے  میں  پڑھنا ہے  ورنہ نہیں ، سالانہ امتحانات ختم ہوئے، میں  نے  اپنے  والد صاحب کے  ہمراہ جامعہ کا رخ کیا۔ جامعہ سے  اگرچہ کہ نا منظوری آئی تھی مگر ہم مایوس نہیں  ہوئے۔ بالآخر بڑی مشکلوں  سے  جماعت چہارم میں  میرا داخلہ ہو گیا۔ وہاں  کی لائبریری پہلی فرصت میں  دیکھ ڈالی، کتابوں  کا انبار دیکھ کر آنکھیں  پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، جماعت چہارم سے  میرے  مطالعے  کا جو سفر شروع ہوا وہ آٹھویں  جماعت پہ ختم ہوا۔
کتاب ہی کے  حوالے  سے  ادباء شعراء سے  رابطہ رہنے  لگا، مختلف اخبارات ورسائل میں  میرے  تبصرے  !تعارفی مضامین شائع ہونے  لگے۔ اس کے  بعد مجھ پر لکھنے  کا جنون سا طاری ہو گیا۔ میں  مسلسل لکھتا رہا، شائع ہوتا، ادباء شعراء اپنی کتابیں  تبصرے !مضمون کی فرمائش کے  ساتھ بھیجنے  لگے، اس طرح شعراء و ادباء سے  میرے  رابطے  استوار ہوئے۔
ادبی دنیا میں  میرا داخلہ ہوا، کچھ نظمیں  پرواز ادب میں  شائع ہوئیں، راشٹریہ سہارا میں  افسانے  شائع ہوئے۔ مگر صحیح بات یہ ہے  کہ میں  تنقید کا آدمی ہوں، مجھے  تنقید لکھنا سب سے  اچھا لگتا ہے، فاروقی کا مداح ہوں، ان کی تنقیدی تحریر جہاں  ملتی ہے  سرمۂ نگاہ بنا لیتا ہوں۔ تنقید کی بات نکل ہی گئی ہے  یہ بات بتاتا چلوں  کہ پاکستان کے  ایک بزرگ مزاح نگار انوار احمد علوی کی کتاب ۱۹۹۹ء میں  ’’جملہ حقوق غیر محفوظ‘‘ کے  نام سے  شائع ہوئی تھی، جس پر میں  نے  کچھ سخن گسترانہ قسم کا تبصرہ لکھ بھیجا، جو سفیر اردو لندن میں  شائع ہوا، ان بزرگ نے  اس کا بالکل برا نہیں  مانا بلکہ اپنی اس کتاب کے  دوسرے  ایڈیشن میں  اسے  شائع کر کے  معتبر کر دیا۔
کتاب کے  بارے  میں  ہر شخص کی کوئی نہ کوئی رائے  ہوتی ہے۔ اچھی یا بری، میری کتاب کے  بارے  میں  اپنی رائے  سے  ضرور آگاہ کیجیے  گا، میں  اس پتے  پر آپ کا منتظر رہوں  گا۔
دعاگو
ظہیر دانشؔ  عمری
25-08-09

ساحر شیوی کی دوہا نگاری (قرآن کے تناظر میں )



ساحر شیوی کی دوہا نگاری
(قرآن کے  تناظر میں )

دوہے  کا مخصوص مزاج، مخصوص آہنگ اور مخصوص انداز ہے۔ دوہا آسانی سے  شاعر کی گرفت میں  آ نہیں  پاتا تا آنکہ شاعر دوہے  کے  مزاج سے  کامل طور پر شناسا نہ ہو جائے، دوہا کہنا سمندر کو کوزے  میں  سمونے  کے  مترادف ہے۔ اردو میں  بہت سے  دوہا نگاروں  نے  اپنی مخصوص شناخت بنائی ہے، جن میں  جمیل الدین عالی، بھگوان داس اعجاز اور ڈاکٹر فراز حامدی نے  مخصوص پہچان بنائی ہے، ڈاکٹر فراز حامدی نے  دوہے  کی بڑی اچھی تعریف کی ہے  اتنی اچھی کہ دوہے  کی اس سے  بہتر تعریف شاید ناممکن ہے۔ 
تیرہ گیارہ ماترہ، بیچ بیچ وشرام
دو مصرعوں  کی شاعری، دوہا جس کا نام
ہند و پاک کے  ممتاز دوہا نگاروں  میں  ساحرؔ  شیوی کا شمار ہوتا ہے، انہیں  منفرد دوہا نگار کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے، ان کے  دوہوں  سے  ان کا مخصوص مزاج اور آہنگ جھلکتا ہے۔ وہ جس میدان کی طرف بھی گئے، کامیابی و کامرانی نے  ان کے  قدم چومے۔ انہوں  نے  ماہیے  لکھے، سین ریوز لکھے، ہائیکو لکھے، افسانے  لکھے، دوہے  لکھے، تعجب کی بات یہ ہے  کہ ہر صنف کو انہوں  نے  کامیابی کے  ساتھ برتا، انہوں  نے  ہر صنف کی اصل روح سمجھی، اور جو بھی لکھا پوری محنت، لگن اور کوشش سے  لکھا۔ 
ساحرؔ  شیوی نے  حمدیہ دوہے  بڑے  اچھے  لکھے  ہیں۔ آسمان و زمین کی ساری مخلوق، ساری کائنات، سارے  جمادات، نباتات، حیوانات اللہ کی کبریائی، اس کی عظمت، اس کی بڑائی بیان کرتی ہیں۔ فرشتے  انسان کی پیدائش سے  قبل ہی اس کی حمد وثنا بیان کرتے  رہے  ہیں۔ تسبح لہ السمٰوات السبع والارض ومن فیہن وان من شیٔ الا یسبح بحمدہ (اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے  ہیں  ساتوں  آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے  درمیان ہیں، اور ہر چیز اس کی تسبیح بیان کر رہی ہے۔ ) اردو زبان کے  بیشتر شعراء نے  حمد و مناجات پر مشتمل کلام عبادت سمجھ کر کہا ہے، حمد میں  با خدا دیوانہ باشد والا معاملہ ہوتا ہے، حمد میں  جتنا زیادہ مبالغہ ہو گا اتنا ہی اسے  مستحسن سمجھا جائے  گا۔ ساحرؔ  شیوی کے  حمد و مناجات پر مشتمل کلام کی اپنی الگ انفرادیت اور خصوصیت ہے، انہوں  نے  بڑے  انوکھے  انداز میں  اپنے  آقا و مولیٰ کی بڑائی بیان کی ہے :
کوئی کہے  رحمن تجھے، کوئی کہے  بھگوان
پوجا تیری جو کرے، ہے  وہ ہی انسان
تیری ذات قدیم ہے  تیری ذات عظیم
بیشک تو رحمن ہے  تجھ سا نہیں  رحیم
یا رب تو رکھنا مری قسمت کو بیدار
مجھ عاصی کو بخش دے  عزت کی دستار
یا رب ہم پر ہے  ترا کتنا بڑا احسان
تو نے  بنایا ہے  ہمیں  اک مومن انسان
اس نے  بن مانگے  دیا مجھ کو سکھ بھنڈار
ساحرؔ  اس کا شکریہ جس کا کل سنسار
بیشک ایسے  لوگ ہیں  جنت کے  مہمان
جو اللہ کی راہ میں  ہوتے  ہیں  قربان
یا رب ہم پر رحم کر بچ جائے  ایمان
انسانوں  کے  بھیس میں  پھرتے  ہیں  شیطان
حمد کے  بعد نعت کا نمبر آتا ہے، نعتیہ کلام کہنا ویسے  مشکل کام ہے، مگر نعتیہ دوہے  کہنا اس سے  مشکل عمل ہے۔ اس میں  با محمد ہوشیار والا معاملہ ہوتا ہے۔ صحابۂ کرام میں  بیشتر شعراء نے  نعت کہی ہے۔ جیسے  حسان بن ثابتؓ نے  کہا ہے :
خلقت مبرأ من کل عیب
کأنک قد خلقت کما تشاءٗ
شیخ سعدیؒ کی یہ رباعی آج بھی نعت کی بہترین مثال کہی جا سکتی ہے :
بلغ العلیٰ بکمالہ،
 کشف الدجیٰ بجمالہٖ
حسنت جمیع خصالہٖ
صلوا علیہ وآلہٖ
آپ علیہ السلام کی شان میں  خالق کونین بھی رطب اللسان ہے : وانک لعلیٰ خلق عظیم (بیشک آپ اخلاق کے  بلند مرتبے  پر فائز ہیں ) نعت کہنا جوئے  شیر لانے  کے  مترادف ہے، ساحرؔ  شیوی نے  بڑی کامیابی کے  ساتھ نعت کہی ہے، موصوف کے  اکثر نعتیہ دوہوں  میں  نبیٔ کریم ﷺ کی اطاعت کا پیغام ملتا ہے۔ من یطع الرسول فقد اطاع اللّٰہ (جس نے  رسولؐ کی اطاعت کی اس نے  اللہ کی اطاعت کی) وما اٰتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا (رسولؐ تمہیں  جو چیز دیں  اسے  لے  لو، اور جس سے  منع کریں  اس سے  رک جاؤ)  ومن یطع اللّٰہ والرسول فأولٰئک مع الذین أنعم اللّٰہ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین (اور جو اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں  گے  وہ لوگ ان کے  ساتھ ہونگے  جن پر اللہ نے  انعام کیا ہے، یعنی انبیاء، اصدقاء، شہداء ور صالحین) ساحرؔ  شیوی کے  وہ دوہے  ملاحظہ کریں  جن میں  اطاعت رسولؐ کے  اشارے  ملتے  ہیں :
آپ ہی رہبر ہیں  مرے، جس رستے  بھی جاؤں 
آپ کی مرضی کے  بنا کیسے  قدم بڑھاؤں 
میں  ہوں  تابع آپ کا آپ مری پہچان
اے  محبوب کبریاء! آپ پہ میں  قربان
اس سے  کوسوں  دور ہے  ہر دکھ ہر آزار
ساحرؔ  طاعت میں  تری رہتا ہے  سرشار
قابل طاعت ہیں  فقط آپ ہی کے  احکام
قرآں  دیتا ہے  ہمیں  صرف یہی پیغام
وانک لتھدی الی صراط مستقیم (بیشک آپ صراط مستقیم کی رہنمائی کرتے  ہیں ) یعنی ہدایتِ ارشاد نبیؐ کے  ہاتھ میں  ہے :
آپ ہی رہبر ہیں  مرے، جس رستے  بھی جاؤں 
آپ کی مرضی کے  بنا کیسے  قدم اٹھاؤں 
عرب قبل اسلام جہالت کی تاریکی میں  ڈوبا ہوا تھا، رسول رحمت ﷺ کے  ورود کے  بعد سارے  اندھیارے  دور ہو گئے، بد بخت نیک بخت بن گئے، بھٹکے  ہوئے  راہ پا گئے، جہنمی جنتی ہو گئے، وما أرسلنٰک الا رحمۃ للعالمین (ہم نے  تو آپ کو تمام جہانوں  کے  حق میں  رحمت بنا کر بھیجا ہے ) اس موضوع پر ساحرؔ  صاحب کے  خیالات دیکھیں :
باطل کے  خیمے  سبھی ہونے  لگے  اجاڑ
جب رحمت کی آ گئی چھل چھل کرتی باڑ
رحمت بن کے  آئے  جب نبیوں  کے  سردار
آپؐ کے  دم سے  بن گیا صحرا بھی گلزار
عالم جن سے  آشنا رحمت جن کی عام
کیسے  بھولے  آدمی ان کا پیارا نام
حمدیہ اور نعتیہ دوہوں  کے  بعد عام دوہوں  کی طرف آتے  ہیں، جن میں  انہوں  نے  مختلف معاشرتی کروب کو ظاہر کیا ہے۔ زندگی میں  خوشی و غم، مصیبت و راحت، سکھ دکھ آتے  رہتے  ہیں۔ روزمرہ زندگی میں  عام انسان کو ان سے  پالا پڑتا ہے۔ زندگی میں  جہاں  مشکلیں  ہیں  وہاں  آسانیاں  بھی ہیں۔ اور جہاں  آسانیاں  ہیں  وہاں  مشکلات بھی ہیں۔ ان مع العسر یسراً فان مع العسر یسراً ؂
عیش ہو یا کہ رنج، نفرت ہو یا پیار
جیون کے  اسٹیج پر سب کچھ ہے  بے  کار
ہم بچپن سے  سنتے  آئے  ہیں  کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے، ان اللّٰہ مع الصابرین  (بیشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے  والوں  کے  ساتھ ہے ) واصبر فان اللّٰہ لا یضیع اجر المحسنین  (اور صبر کیجیے ! بیشک اللہ نیکوکاروں  کا اجر ضائع نہیں  کرتا)
ساحرؔ  صبر و ضبط کو کر کے  اپنی ڈھال
آلودہ ماحول میں  زندہ ہوں  تا حال
اہل زر کی تنگ دلی، تنگ نظری، خود غرضی کی طرف کس لطیف انداز میں  اشارہ کیا ہے۔ ؂
اس سے  یہ امید کیوں  مل جائے  گا پیار
بے  مطلب مزدور سے  کب ملتا ہے  زر دار
ساحرؔ  شیوی صاحب کی ایک حمدیہ دوہا غزل پیش کر رہا ہوں۔ ؂
گر ہے  گل میں  تازگی یا رب تیری شان
مہر و ماہ میں  روشنی یا رب تیری شان
بخشی کلیوں  کو ہنسی یا رب تیری شان
دی بو کو آوارگی یا رب تیری شان
ہم کو بخشی زندگی یا رب تیری شان
دل بھی تیرا جان بھی یا رب تیری شان
بخشی ایسی دلکشی یا رب تیری شان
دھرتی جنت بن گئی یا رب تیری شان
بخشی سب پر برتری یا رب تیری شان
یہ عظمت انسان کی یا رب تیری شان
جب بھی چاہی ڈھونڈ لی یا رب تیری شان
ذرے  ذرے  سے  ملی یا رب تیری شان
ایسی سنگلاخ اور مشکل زمین میں  ایسے  کامیاب اور سلاست بھرے  دوہے  ساحرؔ  شیوی جیسا قادر الکلام شاعر ہی کہہ سکتا ہے۔ بلا شبہ ساحرؔ  شیوی دور حاضر کے  ممتاز شاعر ہیں۔ انہوں  نے  جن اصناف کو بھی چھوا، انہیں  انفرادیت اور اعتبار بخشا ہے۔ مستقبل میں  ادبی تاریخ لکھنے  والا مورخ ساحرؔ  صاحب کے  کلام، ان کے  فن اور کام کو ہرگز ہرگز فراموش نہیں  کر سکتا۔ 
یا رب تجھ سے  ہے  دعا عزت عظمت پائے 
اپنے  دوہوں  کے  سبب ساحرؔ  شہرت پائے 
٭٭٭

جلیل ساز




جلیل ساز

تعارف:

علم و ادب میں  کافی شہرت یافتہ شہر یعنی ناگپور سے  جلیل سازؔ  صاحب کا تعلق ہے، آپ کی غزلیں  میں  نے  جستہ جستہ شاعر (مدیر: افتخار امام صدیقی، ممبئی)میں  دیکھیں، اچھی لگیں، اور دل کو چھو گئیں، اب جب کہ ان کا مکمل مجموعۂ کلام ’’نگاہ‘‘ میرے  سامنے  ہے  تو مجھے  خوشی اور مسرت محسوس ہو رہی ہے۔ شاعری پر گفتگو سے  قبل میں  ان کا تعارف کرا دینا مناسب سمجھتا ہوں، آپ کے  آباء و اجداد ۱۸۵۷؁ء کے  بعد مبارکپور، ضلع مؤ سے  ہجرت کر کے  ناگپور منتقل ہو گئے، والد کا نام تھا حاجی محمد رفیق، جن کی دوسری بیوی سے  تین لڑکے  یعنی جلیل سازؔ ، وکیل پرویز، عبد القدیر اور تین لڑکیاں  تولد ہوئیں، اور جلیل سازؔ  کی تاریخ پیدائش ہے  ۲  فروری ۱۹۳۱؁ء۔ آپ کی تعلیم دسویں  جماعت سے  آگے  نہیں  بڑھی، لیکن آپ کو تجربے  نے  اتنا کچھ سکھا دیا کہ زیادہ سے  زیادہ تعلیم یافتہ انسان بھی آپ کے  سامنے  ہیچ معلوم ہوتا ہے، عبد الصمد اختر، طرفہ قریشی، بھنڈاری اور احسان دانش سے  اپنے  کلام کی اصلاح لیتے  رہے، ۱۹۵۶؁ء میں  فارغ الاصلاح قرار دے  دیے  گئے، اس کے  بعد سے  آج تک مسلسل شاعری کر رہے  ہیں اور اردو کی خدمت میں  لگے  ہوئے  ہیں۔ شاعری کے  ساتھ ساتھ سیاسی مضامین لکھنے  اور سماجی خدمت کرنے  سے  بھی حد درجہ دلچسپی ہے۔ آپ ڈاکٹر ذاکر حسین ڈی۔ ایڈ کالج کے  بانی و صدر ہیں۔ نیز مجیدیہ گرلس ہائی اسکول اینڈ جونیر کالج (مومن پورہ) کے  بھی صدر ہیں۔ ۱۹۶۲؁ء سے  ۱۹۶۷؁ء تک محمد علی سرائے  کے  جوائنٹ سکریٹری رہ چکے  ہیں۔ مدرسۂ یعقوبیہ کے  بھی کئی سال سکریٹری رہ چکے  ہیں۔ جلیل سازؔ  نے  اپنے  تجربات کے  بارے  میں  لکھا ہے :
’’سیاسی وسماجی خدمات کے  دوران مجھ کو جو تجربے  اور مشاہدے  ہوئے  ہیں  میری فکر کا محور قرار پائے۔۔۔۔ میری تعلیم دسویں  سے  آگے  نہ جاسکی۔۔۔ میرے  جوہر کو بزرگوں  نے  نمایاں  کیا۔ بفضل تعالیٰ انگریزی، اردو، ہندی اور فارسی پر بخوبی گرفت ہے۔ میرے  دل میں  جو جذبات ہیں  وہ بھی بزرگوں  کی صحبت میں  رہنے  سے  پیدا ہوئے  ہیں۔ سچائی یہی ہے  کہ بزرگوں  کے  سائے  میں رہ کر انسان جو کچھ سیکھتا ہے  وہ بہت کارآمد ہوتا ہے۔ ‘‘
اخلاق سے  بھر پور شاعری

ہر مذہب (خواہ اس کا تعلق آسمانی مذاہب سے  ہو یا زمینی مذاہب سے ) میں  اچھے  اخلاق کو بے  حد اہمیت دی گئی ہے۔ نبی ا کرم ﷺ نے  عربوں  کے  دل حسن اخلاق کی بدولت جیتے  قرآن کریم نے  اس بات کی گواہی دی ہے  : وانک لعلیٰ خلق عظیم (ترجمہ: یقیناً آپ (یعنی رسول ﷺ)اخلاق کے  بلند ترین منصب پر فائز ہیں ) عروج یافتہ قوم کی نشانی عمدہ اخلاق ہوا کرتے  ہیں۔ کسی قوم کو جب زوال لاحق ہوتا ہے  تو سب سے  پہلے  حسن خلق کی صفت اس سے  چھین لی جاتی ہے، اسی کے  پیش نظر ہمارے  شاعر نے  بڑے  پیارے  اور رس بھرے  شعر کہے  ہیں۔ ملاحظہ کریں :
اخلاق کے  داعی ہم، وحدت کے  پیامی ہم
اس عالم فانی میں  ہیں  نقش دوامی ہم
مرے  خلوص کا ادنیٰ کمال یہ بھی ہے 
ہر ایک شخص لپٹتا ہوا نظر آیا
ہوس سیم و زر ہے  روح کا روگ
دے  مجھے  عافیت کا سرمایہ
ٹھہر جاتی ہے  سچائی جہاں  بھی
نکل آتے  ہیں  رستے  کربلا کے 
ملو تو سازؔ  خلوص اور سادگی سے  ملو
نہیں  پسند یہ بے  جا تکلفات مجھے 
انکے  دل کا آئینہ صاف تھا کدورت سے 
نسل کتنی پیاری تھی وہ کہانیوں  والی
ایسی زندگی سے  تو سازؔ  موت بہتر ہے 
چند سانسیں  اور وہ بھی مہربانیوں  والی
قدم زمیں  پہ جما کے  چلو تو بات بنے 
پھر اپنے  سر کو اٹھا کے  چلو تو بات بنے 
تجلیوں  سے  ہیں  محروم تک کئی گوشے 
وہاں  بھی دیپ جلا کے  چلو تو بات بنے 
سیاہ رات بہت ہے  یہاں  کدورت کی
دلوں  میں  پیار جگا کے  چلو تو بات بنے 
کھلے  بدن کی نمائش کا بڑھ گیا ہے  رواج
نظر کو اپنی جھکا کے  چلو تو بات بنے 
دوسروں  کی جستجو شام و سحر
آدمی خود کی خبر رکھتا نہیں 
اندھیرے  راستے  میں  جس کو روشن کر گیا کوئی
نچھاور اس دیے  کی روشنی پر ساری تنویریں 
ہمارے  عہد کے  رہبر کا سازؔ  اللہ حافظ ہے 
مسیحا خود اگر بیمار ہو تو کیسی تدبیریں 
طنزیہ شاعری

معاشرے  میں  دو قسم کے  افراد ہوتے  ہیں، ایک قسم کے  افراد تو وہ ہیں  جن کا تعلق بے  حسی، بے  ضمیری اور بے  شعوری سے  ہوتا ہے، وہ بڑی سے  بڑی برائی کو بھی معمول کی بات سمجھتے  ہیں  اور اس سے  ان کے  معمول پر کوئی فرق نہیں  پڑتا، دوسر قسم کے  افراد وہ ہیں جو بڑے  ہی حساس، دل دردمند رکھنے  والے  اور سارے  جہاں  کا درد رکھنے  والے  ہوتے  ہیں۔ دنیا میں  کہیں  بھی غلط ہو تو سب سے  پہلے  اس کا اثر ان کے  دل پر ہوتا ہے۔ اور صرف ذمہ داری محسوس کرنا کمال نہیں  ہے  بلکہ اسے  پورا کرنے  کی کوشش کرنا کمال ہے۔ اس احساس کو ظاہر کرنے  کے  لیے  کوئی شاعری کا سہارا لیتا ہے  تو کوئی نثر کا، کوئی تقریر کا سہارا لیتا ہے  تو کوئی تحریر کا، اور ہمارے  شاعر محترم جلیل سازؔ  کا تعلق معاشرے  کی اسی دوسری قسم سے  ہے۔ جی ہاں ! جلیل سازؔ  بڑے  حساس دل انسان ہیں، با ضمیر ہیں، معاشرے  کے  تعلق سے  وہ اپنی ذمہ داری پوری طرح محسوس کرتے  ہیں۔ اور اسے  نبھانے  کی کوشش بھی کرتے  ہیں۔ اور یہ کمال جلیل سازؔ  کے  اشعار سے  بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ جلیل سازؔ  نے  اپنے  حساس ہونے  کا ذکر اپنے  ایک شعر میں  اس طرح کیا ہے۔ 
احباب کا شکوہ کیا، دنیا سے  شکایت کیوں 
اے  ساز ہمیں  اپنے  احساس نے  مارا ہے 
سازؔ  کے  یہاں  ان اشعار کی کثرت ہے، جن میں  معاشرے  کے  برے  اور گندے  عناصر پر طنز، جھوٹی شان و شوکت پر طنز، کھوکھلے  دعووں، انا پرستی، دوسروں  کی تحقیر، اپنوں  کی بے  وفائی، خود غرضی، فحاشی، ننگا پن، بے  حسی، مردہ ضمیری، اپنے  آپ کو سب کچھ سمجھنا، زندگی کی مشکلیں، پریشانیاں، موجودہ ترقی یافتہ دور کی اخلاقی گراوٹ، جنسی انارکی، مال کی اور مالداروں  کی بے  جا تعریف و توصیف، غریبوں کی تحقیر ان تمام جذبوں  اور احساسات پر ان کی شاعری میں  بے  حد طنز پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے  کہ بار بار ہمیں  ان کی شاعری کے  ان کے  احساسات کے  صحیح ہونے  کی تصدیق کرنی پڑتی ہے، ان کے  مفروضات کو ماننا پڑتا ہے، وہ بار بار ہمیں  اپنے  زمین پر ہونے  کا احساس دلاتے  ہیں، یہ احساس اس وقت اور شدت اختیار کر لیتا ہے  جب وہ اپنے  اقارب کے  عقارب ہونے  کا تذکرہ کرتے  ہیں، انسانوں  کے  حیوان بننے  کا ذکر چھیڑتے  ہیں۔ 
سازؔ  نے  یہ طنزیہ اسلوب کہیں  شدت کے  ساتھ برتا ہے، تو کہیں  تمثیلی پیرایہ اختیار کیا ہے، کہیں  اشاروں  کنایوں  سے  کام لیا ہے  تو کہیں  تفصیلی انداز اختیار کیا ہے، سازؔ  کے  چند اشعار بطور نمونہ پیش کرنا چا ہوں  گا:
وہ سایہ بن کے  مرے  ساتھ ساتھ رہتا تھا
بڑھا اندھیرا تو ہٹتا ہوا نظر آیا
کل کے  قصے  نہ سنا آج حقیقت ہے  یہی
کون دنیا میں  وفاؤں  کا صلہ دیتا ہے 
ہے  زخم زخم بدن اور جی رہا ہوں  میں 
رہیں  گے  یاد عزیزوں  کے  التفات مجھے 
جہاں  میں  بھوک سے  نہیں  کوئی عظیم اے  سازؔ 
خدا کو بھول گئے  لوگ روٹیاں  پا کر
کھلے  بدن کی نمائش کا بڑھ گیا ہے  رواج
نظر کو اپنی جھکا کے  چلو تو بات بنے 
یاد آ کے  رہ جاتے  ہیں  اے  سازؔ  سلوک احباب
وقت کے  ساتھ سبھی زخم تو بھر جاتے  ہیں 
دوسروں  کی جستجو شام و سحر
آدمی خود کی خبر رکھتا نہیں 
ہم نے  بھی دنیا سے  سیکھا یارو بچ کر چلنا
ہم مشرب کو ساتھ میں  رکھا، کم ظرفوں  کو ٹالا
سادھو، گیانی، شکشک، نیتا، پاکھنڈی سب لوگ
مالک کیسے  مکاروں  سے  پڑ گیا اپنا پالا
اپنی کرتوتوں  کا جلوہ دیکھ رہی ہے  دنیا
پہلے  کی راتیں  کالی تھیں  اور اب کا دن کالا
ہر ایک آنکھ میں  نفرت ہے  کس سے  چاہ ملے 
سلگ رہی ہے  دشائیں، کہاں  پناہ ملے 
سب اپنے  اپنے  مفادات کے  محافظ ہیں 
یہ حال ہے  تو کہاں  کوئی خیر خواہ ملے 
طریق اپنا جدا ہے  دوستو اہل طریقت سے 
دکھاوے  کی عبادت اور دعا ہم سے  نہیں  ہو گی
عبادت کے  عوض آسائشِ فردوس حاصل ہو
کبھی اے  سازؔ  ایسی التجا ہم سے  نہیں  ہو گی
پھونک دے  گا مرا بھائی مری ساری کائنات
مٹھیوں  میں  ایٹمی ذرات لے  کر آئے  گا
سازؔ  ہے  مجھ کو یقیں  بیٹا مرا پردیس سے 
خوب سارے  سونے  چاندی ساتھ لے  کر آئے  گا
ہمارے  دوست بڑوں  کی خوشامدوں  میں  رہے 
کبھی کبھی تو غریبوں  کی دعا لے  لیتے 
اب تو یہ سمجھنا بھی دوستو! ہوا مشکل
کون ہے  مرا دشمن؟ کون ہے  مرا بھائی؟
عزم و حوصلے  کی شاعری

اس ناطے  سے  جب ہم سازؔ  کی شاعری پر نظر ڈالتے  ہیں  تو ہم کو مایوسی نہیں  ہوتی۔ عزم، حوصلہ اور ہمت کے  موضوع پر بہت سے  شعراء نے  شعر کہے  ہیں، مثال کے  طور پر:
عزم کامل ہو تو کشتی لب ساحل ہو گی
حوصلہ چاہیے  طوفان سے  ٹکرانے  کا
حزیمتوں  کے  راستے  بڑے  ہی پرخطر سہی
جو حوصلے  بلند ہوں  نشیب کیا فراز کیا
محترم جلیل سازؔ  کے  چند عزم و حوصلہ سے  بھرپور شعر ہیں، ان کا بانکپن، انداز بیان اور اسلوب ہی اور ہے۔ آپ کے  اشعار سے  ایک طرح کی تحریک اور ولولہ محسوس ہوتا ہے۔ نا امیدی اور یاس کی حالت میں  معمولی سا امید کا جگنو بھی انسان کو کامیاب و کامران کرنے  کے  لیے  کافی ہے۔ حوصلہ بڑھانا، یہ معمولی چیز نہیں  ہے، اللہ تعالیٰ نے  قرآن کریم میں  مومنوں  کو مخاطب کرتے  ہوئے  کہا کہ اللہ کی رحمت سے  مایوس نہ ہونا، اور ایک مقام پر کہا کہ اللہ کی رحمت سے  کافر ہی مایوس ہوتے  ہیں۔ گویا مایوسی کفر اور امید ایمان ہے۔ غالباً اسی کو مد نظر رکھ کر سازؔ  صاحب نے  اپنے  احساسات کو اشعار کا لباس پہنایا:
بلندیوں  پر پہنچنا نہیں  محال اے  سازؔ 
جو حوصلہ ہو تو دل میں  اٹھان کتنی ہے 
مرے  شعور کی تابندگی کو اپنا کر
جو ہو سکے  تو نئے  صبح و شام پیدا کر
سیاہ رات بہت ہے  یہاں  کدورت کی
دلوں  میں  پیار جگا کے  چلو تو بات بنے 
تجلیوں  سے  ہیں  محروم تک کئی گوشے 
وہاں  بھی دیپ جلا کے  چلو تو بات بنے 
جہالت کے  اندھیروں  سے  نکلنا بھی ضروری ہے 
بدل ڈالے  زمانے  کو بدلنا بھی ضروری ہے 
جدید الفاظ کا استعمال

جلیل سازؔ  نے  بہت سے  ایسے  الفاظ سے  اپنی شاعری کو گوندھا ہے  جنہیں  شاید ہی کسی دوسرے  شاعر نے  استعمال کیا ہو، نہ صرف استعمال کیا بلکہ اپنے  استعمال سے  ان الفاظ میں  جان ڈال دی ہے۔ قدرت نے  جلیل سازؔ  کو لفظ کے  استعمال کا بڑا پیارا سلیقہ بخشا ہے۔ اسی سے  کام لے  کر انہوں  نے  لفظ ٹیکس، فوٹو، کیمرہ، خط کو ایک نئے  انداز سے  حسین اسلوب میں  استعمال کیا ہے  کہ یہ لفظ اور حسین بن گئے  ہیں۔ مثال کے  طور پر یہ اشعار دیکھیے :
ہو ٹیکس ادا کیسے  بھلا فاقہ کشی میں 
برسات کا موسم ہے  مکاں  چھین رہے  ہیں 
(ٹیکس)
امیروں  کے  شبستانوں  کا فوٹو چھاپنے  والو!
شکستہ جھونپڑوں  کا حال بھی اخبار میں  لکھنا
(فوٹو)
مری عادت ہے  ہر خط میں  تقاضہ وصل کا کرنا
تری فطرت سہی اس کا جواب انکار میں  لکھنا
(خط)
سوز در سوز دے  گئی دنیا
دکھ نیا روز دے  گئی دنیا
میں  تو ساکت تھا کیمرے  کی طرح
مختلف پوز دے  گئی دنیا
(کیمرہ)
نوحۂ مسلم

مسلمان جنہوں  نے  ہزاروں  سالوں  تک دنیا میں  حکمرانی کی تھی، ساری دنیا کو امن وامان کا درس دیا تھا، آج بے  حد ذلیل و خوار ہیں، اس کے  اسباب کیا ہیں ؟ اس سے  ہمیں  بحث نہیں  ہے، بلکہ یہ تو ایک فطری چیز تھی، ہر عروج را زوال!، علامہ اقبالؒ نے  اس حوالے  سے  کتنی پیاری بات کہی تھی؛
آ تجھ کو بتاتا ہوں  تقدیر امم کیا ہے 
شمسیر و سناں  اول طاوٗس و رباب آخر
ہر حساس انسان کا دل اس المیے  پر کڑھتا ہے، اور مسلمانوں  کو دوبارہ عروج حاصل ہو اس بات کی دعاء ہر دردمند دل رکھنے  والا انسان کرتا ہے، جلیل سازؔ  نے  متفرق غزلوں  میں  اس حوالے  سے  لکھا ہے  اور بے  حد ڈوب کر دردو کرب کے  ساتھ لکھا ہے، ایسی بات نہیں  ہے  کہ انہوں  نے  رسمی طور پر اس سلسلے  میں  لکھا ہو، وہ خود مسلمان ہیں  اور اس درد کو بخوبی محسوس کر سکتے  ہیں، جلیل سازؔ  کے  اشعار اور ان کے  تیور (مسلمانوں  کے  زوال کے  تعلق سے) دیکھیے  اور ہماری تصدیق کیجیے، جلیل سازؔ  کے  یہ شعر درد کا بحر بے  کراں  ہیں، غم و الم کا بے  کنار سمندر ہیں، لفظ بھرپور کو انہوں  نے  اپنے  احساس سے  تر کر دیا ہے، پھر لفظ لفظ نہیں  رہا بلکہ مجسم احساس بن گیا ہے، اور قاری کے  دل کو اپنی مٹھی میں  لے  کر بھینچے  لگتا ہے، اس کے  دل پر کچوکے  لگاتا ہے، مسلمانوں  کی زبوں  حالی پر خون کے  آنسو رلاتا ہے :
ایک یہ بھی زمانہ ہے  ہم جڑ ہیں  فسادوں  کی
اک دور کہ دنیا میں  تھے  امن کے  حامی ہم
شیرازۂ ملت کو بکھرا ہوا پاتا ہوں 
اے  سازؔ  نہ ہو جائیں  مرہون غلامی ہم
اپنی کوتاہ نصیبی ہے  کہ محکوم ہیں  ہم
ہم کو مالک نے  بنایا تھا حکومت کے  لیے 
جذبات سے  عاری ہم،احساس سے  خالی ہم
وہ دور گیا جب تھے، دنیا میں  مثالی ہم
کل جس کی کفالت میں  تھے  ہاتھ کھلے  اپنے 
اس شخص کی چوکھٹ پر ہیں  آج سوالی ہم
تخریب پسندی کا دیتے  ہو ہمیں  طعنہ
نادانو! رہے  صدیوں  اس باغ کے  مالی ہم
جلیل سازؔ  کی ایک نظم ہے  ’’ تم کیسے  مسلمان ہو‘‘ یہ پوری نظم اسی کیفیت کی آئینہ دار ہے، اس میں  مسلمانوں  کی بزدلی کی طرف شاعر نے  اشارہ کیا ہے  تو ساتھ میں  یہ بھی کہا ہے  کہ اوصاف کریمانہ جو مسلمانوں  کا طرۂ امتیاز ہیں، یہی اوصاف مسلمانوں  کو وراثت میں  ملنے  چاہیے  تھے، مال نہیں ! مگر افسوس کہ ان اوصاف حمیدہ کی قدر مسلمانوں  کو نہیں  ہے، اوصاف حمیدہ و رذیلہ میں  امتیاز کرنے  کی حس سے  بھی وہ محروم کر دیے  گئے  ہیں۔ مسلمانوں  کی خدمت خلق سے  دوری، عزم و ہمت سے  دوری، بے  سمتی مقصدیت کا بحران، ایسی تمام چیزوں  کی طرف اس نظم میں  اشارے  دیے  گئے  ہیں، مثال کے  طور پر چند شعر:
تم عامل قرآں  ہو، تم حافظ قرآں  ہو
تم کیسے  مسلماں  ہو، کس بات پہ نازاں  ہو
جیتے  ہو تو جینے  کے  انداز نرالے  ہیں 
ڈرتے  ہو حوادث سے  طوفاں  سے  ہراساں  ہو
اوصاف بزرگوں  کے  تم میں  نہ رہے  باقی
تم صرف بزرگوں  کی عظمت کے  ثنا خواں  ہو
پردہ ہے  بصارت پر تکیہ ہے  قناعت پر
دعویٰ ہے  کہ عاقل ہو سچ یہ ہے  کہ ناداں  ہو
اعزاز جہانگیری کیا دے  گا خدا تم کو
تم لوگ تو غیروں  کی محکومی پہ نازاں  ہو
دل اور جگر دونوں  اے  سازؔ  ہوں  فولادی
اس قوم کی خدمت کا جس شخص کو ارماں  ہو
استعاراتی شاعری

جلیل سازؔ  نے  استعارہ، تشبیہ اور تمثیل کو اپنی شاعری میں  برتا ہے، ویسے  بھی بلاغت کے  ان فنون کا استعمال ایک اچھے  شاعر کے  لیے  ایک طرح سے  ناگزیر ہو جاتا ہے، اس کا مقصد آپ جانتے  ہیں  کہ قاری کے  دل میں  واضح انداز میں  بات بیٹھ جائے، تأثر میں  اضافہ ہو، بسا اوقات ایسا ہوتا ہے  کہ ایک بات وضاحت کے  ساتھ کھلم کھلا کہنے  سے  وہ بات پیدا نہیں  ہوتی جو کہ استعاراتی زبان میں  کہنے  سے  پیدا ہوتی ہے، جلیل سازؔ  کی شاعری پر نظر ڈالنے  سے  ایک پوری غزل ہی اس انداز کی ہمیں  نظر آتی ہے، بظاہر یہ غزل عام سی غزل معلوم ہوتی ہے، لیکن ذرا سا غور و فکر کرنے  اور تدبر سے  کام لینے  کی صورت میں  معانی کی پرتیں  یکے  بعد دیگرے  ہمارے  سامنے  کھلتی چلی جاتی ہیں، جن کے  علم کے  بعد ایک طرح کی خوشی، مسرت و فرحت حاصل ہوتی ہے۔ جلیل سازؔ  کی اس غزل کا مزہ بھی چکھ لیا جائے :
مہکے  زخم اپنے  نسترن کی طرح
دل کا آنگن ہوا چمن کی طرح
ان کے  نازک لبوں  پہ آئی ہنسی
صبح کی اولیں  کرن کی طرح
صبح چمکی برنگ روئے  حسیں 
رات سمٹی ترے  بدن کی طرح
اک جوالا مکھی ہے  ذہن تپاں 
دل بھی گردش میں  ہے  گگن کی طرح
ہے  خرد کا بھی تار تار لباس
اپنے  بوسیدہ پیرہن کی طرح
سازؔ  شکوہ ہے  اہل فن سے  مجھے 
فن کو برتا گیا نہ فن کی طرح
سیاسی شاعری

موجودہ دور کی سیاست گندگی کا پوٹ ہے، پچھلے  دور میں  یہی سیاست تھی جس سے  بڑے  سے  بڑے  علماء اور لیڈر وابستہ تھے، جنہوں  نے  عوام اور غریبوں  کی خوب خدمت کی، اور سیاست کو عبادت سمجھتے  رہے، مگر آج کے  سیاست داں  سیاست کو بھی کاروبار سمجھتے  ہیں۔ غریبوں  کی خدمت کے  نام پر ووٹ بٹورتے  ہیں، مگر غریبوں  کی خدمت کے  علاوہ سب کچھ کرتے  ہیں، ہمارے  لیڈروں  کے  اسی رویے  پر سازؔ  اس طرح طنز کرتے  ہیں :
جو اقتدار ملا ہے  تو سازؔ  گھر بھر لو
یہ تم سے  کس نے  کہا خدمت عوام کرو
اب سیاست بھی جفا کاروں  کا شیوہ ٹھہری
کون اٹھتا ہے  غریبوں  کی حمایت کے  لیے 
اسی طرح سازؔ  کی ایک نظم ہے  ’’تین کردار‘‘ جس میں  اہل زر، ماسٹر، منتری کے  تین عناوین کے  تحت تین تین شعر پیش کیے  ہیں، منتری کے  عنوان سے  جو شعر ہیں  وہ یقیناً توجہ کے  لائق ہیں، جن میں  پچھلے  دور کے  منتریوں  اور آج کے  منتریوں  کے  درمیان بڑا اچھا اور حقیقت سے  قریب موازنہ پیش کیا گیا ہے، میں  سمجھتا ہوں  کہ اس سے  اچھا موازنہ کسی شاعر نے  نہیں  کیا ہو گا:
ہمارے  دور میں  جو منتری تھے 
وہ بے  شک لائق صد سروری تھے 
تمہارے  دور میں  جو منتری ہیں 
لٹیرے  ہیں  کہاں  کے  سنتری ہیں 
کہ ان کی آہنی الماریوں  میں 
ہے  جتنا سونا چاندی اور نوٹیں 
گھوٹالوں  اور حوالوں  سے  بھری ہیں 
اس طرح کے  اور بھی متعدد موضوعات کو جلیل سازؔ  نے  بے  حد اچھے  انداز میں بہترین اسلوب میں  اور مناسب الفاظ میں  پیش کیا ہے، موضوعات کی ایک کہکشاں  ہے  جو ان کی شاعری کا مطالعہ کرنے  والے  کو سرور و فرحت بخشتی ہے۔ آگہی کے  نئے  در وا کرتی ہے۔ 
مشاہیر کی نظر میں

ہارون بی۔ اے  (مدیر بے  باک،مالیگاؤں ) نے  لکھا ہے  کہ:
’’جلیل سازؔ  ہمارے  دور کے  شاعر ہیں، ان کی شاعری کی جتنی عمر ہے  تب سے  میں  انہیں  جانتا ہوں، وہ ایک حساس اور خوش فکر شاعر ہی نہیں  بلکہ اچھا سماجی، تعلیمی، سیاسی اور فکری شعور بھی رکھتے  ہیں، جس کی وجہ سے  ان کی علمی، ادبی اور عوامی مقبولیت سے  کسی کافر کو بھی انکار کرنے  کی جرأت نہیں  ہو سکتی، ان کی زندگی اور ان کی شاعری کا ہر ورق آج کے  دانشوروں  اور نقادوں  کے  سامنے  دعوت فکر دیتا نظر آتا ہے۔ زندگی کے  سرد و گرم، آرائشوں  اور جدوجہد کے  درمیان تپا ہوا یہ شاعر اپنی قلبی واردات کو برملا اشعار میں  ڈھال کر زندگی کے  خوشگوار مستقبل کی بشارت دیتا ہوا بھی نظر آتا ہے۔ ‘‘
عبد الاحد سازؔ  کہتے  ہیں  کہ:
’’جلیل سازؔ  کے  تخلیقی سفر کے  مراحل سے  ہماری ادبی برادری ایک عرصۂ دراز سے  واقف ہے۔۔۔ گوناگوں  شخصی مشاہدوں، اطراف و اکناف کے  منتشر تجربوں  اور حالات حاضرہ کے  بکھراؤ کو بخشی ہوئی فہم کے  آپسی تال میل سے  ان کا شعری مواد برآمد ہوتا ہے۔۔۔ جلیل سازؔ  کی غزلوں  میں  بے  ساختگی اور ہوشمندی کا ایک امتزاج پایا جاتا ہے۔ ‘‘
٭٭٭

احمد کمال پروازی






 احمد کمال پروازی

اندھیری رات کا لمبا سفر تو بعد میں  ہے 
یہ جگمگاتا ہوا شہر کاٹتا ہے  ابھی
تمہارے  ساتھ گزارے  ہوئے  مہینوں  سے 
تمہیں  نکالتے  رہنے  کا سلسلہ ہے  ابھی
بچوں  کے  ساتھ کھیلے  ہوئے  دن گزر گئے 
کچھ روز پہلے  دوسرا مہمان گھر میں  تھا
ایسے  بہترین اور با معنیٰ اشعار کے  خالق جناب احمد کمال پروازی ہیں۔ کمالؔ  با کمال آدمی ہیں۔ ان کی شاعری ایک طرف غزل کے  روایتی موضوعات کی طرف اشارہ کرتی ہے، تو دوسری طرف محبت، خلوص، ایثار، اور وفاداری جیسے  جذبات کے  فقدان کا مرثیہ پڑھتی ہے۔ یہ وہ جذبات ہیں  جو معاشرے  کے  لیے  بہت ضروری ہیں۔ آج کے  ترقی یافتہ دور میں  یہ تمام چیزیں  ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ خلوص کا اتہ پتہ نہ رہا۔ اس حوالے  سے  وہ فرماتے  ہیں ؂
ابھی تو تیرے  عزیزوں  کا رول باقی ہے 
جو بچ گیا وہ تیرے  مہربان لے  لیں  گے 
کسی ذلیل کے  ہاتھوں  سے  بچ بھی جائے  تو کیا
شریف لوگ ترا سائبان لے  لیں  گے 
میں  تو کہتا ہوں  کہ عزت کی دعائیں  مانگو
جب یہ فیشن ہے  کہ ہر چیز خریدی جائے 
ڈر لگ رہا ہے  یہ بھی کوئی سانحہ نہ ہو
پہلے  تو اتنا تیز اجالا ہوا نہ تھا
احمد کمال پروازی نے  بہت سے  موضوعات کو پہلی بار چھوا ہے۔ انہوں  نے  بے  شمار موضوعات کو غزلایا ہے، جسے  کسی اور شاعر نے  غزل میں  موضوع سخن نہیں  بنایا۔ غربت اور غریبی کے  چہرے  کو جس زاویے  سے  انہوں  نے  برتا غالباً کسی اور شاعر نے  اس نظر سے  غربت کو دیکھنے  کی جرأت نہ کی۔ مثال کے  طور پر دو شعر ؂
غریبوں  کی طرح تم پھیل جاؤ
ہزاروں  سال تک زندہ رہو گے 
کمالؔ  آؤ چلو گندی بستیاں  دیکھیں 
دھواں  گھروں  سے  نکلتا ہوا مزہ دے  گا
غزل کے  لفظوں  میں  چاشنی، حسن، بانکپن، تازگی پیدا کرنے  کے  گر سے  وہ خوب واقف ہیں، وہ بڑے  سادہ الفاظ استعمال کرتے  ہیں۔ یہی وجہ ہے  کہ ان کی شاعری سروں  کے  اوپر سے  نہیں  گزرتی بلکہ دل کے  دریچوں  میں  داخل ہوتی ہے۔ باد صبا کی طرح خوشگوار احساس پیدا کرتی ہے۔ وہ بہت کم کہتے  ہیں، لفظ لفظ ناپ تول کر رکھتے  ہیں، الفاظ کے  انتخاب نے  انہیں  رسوا نہیں  کیا بلکہ اونچا بہت اونچا کیا۔ حتیٰ کہ وہ مختلف لب و لہجہ کے  شاعر کے  طور پر جانے  پہچانے  جاتے  ہیں۔ پروفیسر عتیق اللہ ان کی شاعری کے  حوالے  سے  کہتے  ہیں : ’’کمال کی شاعری اپنی ترکیب میں  مختلف پن کا شدید احساس دلاتی ہے ‘‘
احمد کمال نے  ہمارے  دور کے  تصادم کو بڑی شدت سے  محسوس کیا ہے، ویسے  بھی شاعر وہ شخص کہلاتا ہے  جو احساس کی شدت کا حامل ہوتا ہے۔ زندگی کی سفاک اور دردناک  تصاویر کو انہوں  نے  اپنی شاعری کے  فریم پر منعکس کیا ہے۔ انہوں  نے  اظہار حقیقت کے  باوجود غزل کے  لہجے  کی خوبصورتی بر قرار رکھی ہے۔ یقیناً یہ بہت بڑی بات ہے ؂
یہ بستی اک دشت کربلاء ہے 
ٹھہر جاؤ میں  پانی لا رہا ہوں 
خدا کے  فضل سے  سونا اگل رہی ہے  زمین
مگر کسان تو اب بھی کسان جیسا ہے 
بہت خوشحال رکھا ہے  اے  رسم زندگی تو نے 
بھروسہ تجھ پہ لیکن کم سے  کم ہوتا تو سب ہوتا
خیالات، جذبات، احساسات تو سب میں  ہوتے  ہیں، مگر سلیقے  سے  ان خیالات کے  اظہار کا فن بہت کم لوگوں  کو ودیعت ہوتا ہے۔ اظہار کا وہ سلیقہ جو قاری اور سامع پر یکساں  اثر ڈالے، احمد کمال پروازی کا امتیاز ہے۔ کہی اور انکہی کے  درمیان ان کی شاعری سفر کرتی ہے۔ ان کا یہ وصف خصوصی مجھے  بہت متاثر کرتا ہے  اور اچھا لگتا ہے۔ شہر دلّی سو مرتبہ لوٹا گیا، تباہ اور برباد ہونا اس شہر کی ایک روایت ہے، ’دل‘ جس طرح حرکت کرتا ہے  اور ایک حالت پر برقرار نہیں  رہتا، یہی حالت شہر دلّی کی ہے، دلّی کو کمالؔ  نے  بطور استعارہ استعمال کیا ہے۔ دو اشعار میں  دلّی کے  بکھرنے  کو مجسم شکل میں  ڈھال دیا ہے ؂
دلّی دربار نکھرنے  کے  لیے  ہوتا ہے 
شاہ مسند سے  اترنے  کے  لیے  ہوتا ہے 
اب دلوں  کو بھی مزاحاً دلّی ہونا چاہیے 
اپنی بستی کو دھوئیں  کا عادی ہونا چاہیے 
احمد کمال پروازی کا پہلا شعری مجموعہ 1988 میں  منظر عام پر آیا۔ ناقدین اور اردو ادب کے  شیدائی اس مختلف شعری مجموعے  ’’مختلف‘‘ کی طرف  متوجہ ہوئے، اگرچہ یہ مجموعہ کمیت کے  لحاظ سے  بہت مختصر ہے، مگر کیفیت میں  ’’مختلف‘‘ کی کیفیت ضخیم سے  ضخیم ترین شعری دیوان سے  کم نہیں  ہے۔ دوسرا شعری مجموعہ بہت دیر سے  یعنی 2005 میں  ’’برقرار‘‘ کے  نام سے  منظر عام پر آیا۔ اگر چہ ان دونوں  مجموعوں  میں  طویل زمانی بُعد ہے  مگر کیفیتی بُعد بالکل نہیں۔ وہ اپنی شناخت بنانے  اور اپنے  مخصوص اسلوب کو پوری طرح برقرار رکھنے  میں  کامیاب ہوئے  ہیں۔ 
مجھے  امید ہی نہیں  یقین ہے  کہ احمد کمال پروازی عرصے  تک یاد رکھے  جائیں  گے، انہوں  نے  موضوعاتی لحاظ سے  ہماری روایتی غزل میں  ایسے  اضافے  کیے  ہیں  جنہیں  بھلایا نہیں  جا سکتا، اردو زبان کے  تئیں  ان کے  عشق اور محبت کے  غماز شعر پر اپنے  مختصر مضمون کا اختتام کرتا ہوں۔ ؂
ہم اپنا کام کرتے  ہی چلے  جائیں  گے  محفل سے 
پھر اس کے  بعد اردو کی حفاظت تم کو کرنی ہے 
٭٭٭


احمد فراز



احمد فراز

پاکستان سے  فیض احمد فیضؔ  اور قتیل شفائی کے  بعد جو شعراء شہرت کی بلندیوں  تک پہونچ گئے، ان میں  سب سے  بڑا اور اہم مقام احمد فرازؔ  کا ہے۔ فرازؔ  بڑی بڑی باتیں  اور بہت خوبصورت باتیں  مشکل زمینوں  میں  رواں  دواں  انداز بیان میں  کہہ جاتے  ہیں۔ ہمارے  ہندوستان میں  جو بھی قابل ذکر اور بڑا مشاعرہ ہوتا ہے  اور اس میں  پاکستانی شعراء کو مدعو کرنے  کی بات کی جاتی ہے  تو سب سے  پہلے  احمد فرازؔ  کا نام آتا ہے۔ احمد فرازؔ  نے  حسن و خوبصورتی اور ہجر و وصال پر بڑے  خوبصورت اشعار کہے  ہیں۔ الفاظ میں  سادگی اور پرکاری کا حسن نمایاں  ہوتا ہے  کہ جس کی وجہ سے  ہر خاص و عام کی سمجھ میں  آپ کا شعر بہت اچھی طرح آ جاتا ہے  اور احمد فرازؔ  کی تمام حلقوں  میں  مقبولیت کا بھی یہی سبب ہے۔ انہوں  نے  اپنے  فکر اور تخیل سے  ایک نیا پیکر تخلیق کیا ہے  اور یہ پیکر ہندوستان اور پاکستان کے  لوگوں  کے  اذہان و قلوب میں  مشک و عنبر کی خوشبو کی طرح رچ بس گیا ہے۔ انہوں  نے  بہت تھوڑے  عرصے  میں  بڑی شہرت حاصل کی اور ان کے  اشعار کی خوشبو نہ صرف ہندوستان بلکہ اردو کی نئی بستیوں  تک پہونچ چکی ہے، اور آئے  دن آپ لندن، امریکہ وغیرہ کے  مشاعروں  میں  بھی مدعو کیے  جاتے  ہیں۔ آپ کی شاعری کا سب سے  بڑا حسن خود کلامی کی کیفیت ہے، اور یہ کیفیت تجربات و مشاہدات کے  بحر بیکراں  عبور کرنے  سے  ہوتی ہے۔ 
احمد فراز کا خاندانی نام سید احمد شاہ ہے۔ والد کا نام سید محمد شاہ برقؔ  ہے۔ (جو اپنے  وقت کے  نغز گو شاعر تھے۔ )احمد فراز ۱۴ جنوری ۱۹۳۱ء میں  پیدا ہوئے۔ اردو فارسی میں  M.A کی سند حاصل کی۔ فی الحال نیشنل بک فاؤنڈیشن کے  سربراہ ہیں۔ ایک درجن سے  زائد شعری مجموعے  شائع ہو چکے  ہیں۔ ابھی دہلی سے  ’’کلام احمد فرازؔ ‘‘ کے  نام سے  1060صفحات میں  احمد فرازؔ  کے  ۱۳ مجموعے  ایک ساتھ شائع  ہو چکے  ہیں۔ 
بقول ساحلؔ  احمد
’’وہ زندگی کو سرتاپہ محبت بنا دینے  کا جذبہ رکھتے  ہیں۔ ........ان کی نگاہیں  تجربات و مشاہدات سے  کبھی خالی نہیں  رہیں۔ رومان و انقلاب کے  مشترکہ احساس نے  ان کی غزلوں  میں  خود کلامی کی بھی کیفیت پیدا کی ہے۔ اور اکثر مقامات پر وہ میرؔ  کی طرح سخن طراز نظر آتے  ہیں۔ ان کا فن ماضی کی روایت سے  اور عصر حاضر کی جد و جہد سے  منسلک و مربوط ہے۔ ‘‘ 
جناب ساحل احمد کا یہ تجربہ کتنا حقیقت کے  قریب ہے  کہ ’’وہ میرؔ  کی طرح سخن طراز نظر آتے  ہیں ‘‘ میرؔ  کی شاعری میں  جو غم و آلام کی پرچھائیاں  ہیں، درد و کرب کے  سائے  ہیں ، فراق کی سوزش ہے، یقیناً یہ احمد فرازؔ  کی شاعری کا جز بن چکی ہے۔ آپ بالیدہ خیالات کو حسن وبیان کی زیبائش سے  ایسے  آراستہ وپیراستہ کرتے  ہیں  کہ ’’وہ کہیں  اور سنا کرے  کوئی‘‘ رواں دواں  اسلوب سے  قاری لطف اندوز ہوئے  بغیر نہیں  رہ سکتا۔ امن و آشتی کو زیادہ تر اپنی شاعری کا جز بنانا پسند کرتے  ہیں۔ آپ کی غزل کے  یہ شعر ملاحظہ ہوں۔ 
سنا ہے  لوگ اسے  آنکھ بھر کے  دیکھتے  ہیں 
سو اس کے  شہر میں  کچھ دن ٹھہر کے  دیکھتے  ہیں 
سنا ہے  درد کی گاہک ہے  چشم ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے  گزر کے  دیکھتے  ہیں 
سنا ہے  بولے  تو باتوں  سے  پھول جھڑتے  ہیں 
یہ بات ہے  تو چلو بات کر کے  دیکھتے  ہیں 
سنا ہے  حشر میں  اس کی غزال سی آنکھیں 
سنا ہے  اس کو ہرن دشت بھر کے  دیکھتے  ہیں 
بس اک نگاہ میں  لٹتا ہے  قافلہ دل کا
جو رہ روان تمنا ہیں  اسے  ڈر کے  دیکھتے  ہیں 
کسے  نصیب کہ بے  پیرہن اسے  دیکھے 
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے  دیکھتے  ہیں 
اب اس کے  شہر میں ٹھہریں  کہ کوچ کر جائیں 
فرازؔ  آؤ ستارے  سفر کے  دیکھتے  ہیں 

مولانا عامر عثمانی



مولانا عامر عثمانی

مولانا عامر عثمانی دیوبند کے  مایہ ناز فرزند تھے۔ دیوبند کے  کتب خانے  سے  انہوں  نے  بہت زیادہ استفادہ کیا۔ وہ حقیقی معنوں  میں  بحر العلوم تھے۔ ۱۹۲۰ء میں  ضلع ہردوئی میں  پیدا ہوئے، پورا نام امین الرحمن تھا، لیکن علمی و ادبی حلقوں  میں  عامر عثمانی کے  نام سے  معروف ہوئے۔ دیوبند سے  سند فراغت حاصل کرنے  کے  بعد متعدد علمی وادبی رسائل میں  لکھنے  لگے۔ بعد میں  اپنا ایک ذاتی رسالہ ’’تجلی‘‘ نکالا، دیوبند کے  طلباء کو یہ رسالہ پڑھنے  کی اجازت نہ تھی، لیکن پھر بھی طلباء چھپ چھپا کر کسی نہ کسی طرح مولانا کے  رسالے  کا مطالعہ کیا کرتے  تھے۔ آپ نے  ثابت کر دیا کہ ادب کے  ذریعہ بھی علم کی خدمت کی جا سکتی ہے۔ آپ کا انداز بیان اتنا جاذب و دلکش تھا کہ مخالفین لاکھ دشمنی وبغض کے  باوجود آپ کی تحریروں  سے  استفادہ کیا کرتے  تھے۔ ’’تجلی‘‘ نے  علمی و ادبی حلقوں  میں  ایک تہلکہ مچا دیا اور جب تک یہ رسالہ باقی رہا اپنی آن بان اور شان کیساتھ باقی رہا۔ ’’تجلی‘‘ نے  بہت جلد اپنا ایک علمی مقام بنا لیا، مولانا شاعری میں  کسی کے  شاگرد نہ تھے، مگر رئیس المتغزلین جگرؔ  مرادآبادی کے  رنگ میں  شعر کہنے  کی ضرور کوشش کرتے  تھے۔ آپ کا وجدان ہی آپ کا رہنما تھا۔ زبان بڑی ٹکسالی اور دھلی دھلائی تھی۔ جو کہنا چاہتے  بغیر کسی تکلف اور جھجھک کے  صاف صاف کہہ جاتے، کہیں  کسی قسم کے  آورد کا بالکل احساس نہیں  ہوتا۔ ’’تجلی‘‘ میں  ایک مستقل مزاحیہ کالم ’’مسجد سے  میخانے  تک‘‘ کے  عنوان سے  شائع ہوتا تھا۔ آپ ملا ابن العرب مکی کے  نام سے  یہ کالم لکھا کرتے  تھے۔ کتنا اچھوتا اور طنز و مزاح سے  بھر پور اندازِ بیان ہوتا تھا!  یہ کالم اتنا مقبول ہوا کہ اسی کو پڑھنے  کے  لیے  لوگ ’’تجلی‘‘ کے  خریدار بننے  لگے  اور معتقدین عامرؔ  عثمانی میں  روز افزوں  اضافہ ہونے  لگا۔ آپ نے  اپنے  اس کالم کے  ذریعہ ثابت کر دیا کہ طنز  و مزاح صرف تفریحی نہیں  ہوتا بلکہ مقصدی بھی ہوتا ہے۔ دین اسلام اور مسلمانوں  میں  جو کمزوریاں  قلت علم کی وجہ سے  پیدا ہو گئی تھیں، ان پر آپ بڑی گہری اور کاری چوٹ کیا کرتے  تھے  اور ’’نہ جائے  رفتن نہ پائے  ماندن‘‘ والا معاملہ ہوتا تھا۔ 
کبھی ایسا ہوتا تھا کہ مولویوں  کی پیٹ پالو ذہنیت پر بھی آپ چوٹ کرنے  سے  باز نہ آتے۔ (حالانکہ آپ بھی مولانا تھے۔

داوٗد نشاط



داوٗد نشاط
تعارف
حضرت داوٗد نشاط ۱۹۲۹ء میں  پیدا ہوئے۔ ۲۰  جولائی ۱۹۹۲ء میں  آپ کا انتقال ہوا۔ حضرت ابرار حسنی گنوری، حضرت طرفہ قریشی بھنڈاروی کے  سامنے  زانوئے  تلمذ تہہ کیا۔ کڈپہ کے  ادیبوں  اور شاعروں  میں  آپ کو ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔ داوٗد نشاط کے  دو بیٹوں  محمود شاہد اور سعید نظرؔ  نے  ان کی ادبی وراثت کو بخوبی سنبھالا اور فی الحال پوری تن دہی سے  ادب کی خدمت میں  لگے  ہوئے  ہیں۔ ۱۹۹۳ء میں  ’’عالم نشاط‘‘ کے  نام سے  آپ کا شعری مجموعہ منظر عام پر آیا۔ 
شاعری 
نشاط کی نعتیں :
رسول ﷺ کی مدح میں  کہا جانے  والا کلام نعت سے  موسوم کیا جاتا ہے۔ لفظ نعت مدح رسول کے  لیے  بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ بہر کیف! داوٗد نشاط کی نعتوں  میں  قرآنی موضوعات کو زیادہ برتا گیا ہے۔ اطاعت رسول کو اطاعت الٰہی کہا گیا ہے۔ اور رسول کی اطاعت سے  ہی اللہ کی اطاعت کی تکمیل ہوتی ہے۔ دونوں  کی فرماں  برداری بیک وقت لازم ہے۔ اسی صورت میں  کامیابی کا حصول ممکن ہے۔ ورنہ کسی ایک کی اطاعت سے  کوئی انسان کبھی بھی کامیاب نہیں  ہو سکتا۔ اس حوالے  سے  نشاطؔ  نے  بڑے  سلیقے  سے  اشعار کہے  ہیں۔ ؂
جس سے  ترا مقصد نہ ہو عیاں 
کس کام کی وہ دولتِ ایماں  ترے  بغیر
میرے  تو ذہن میں  ہی خدا کا نہ تھا وجود
لاتا خدا پہ کیسے  میں  ایماں  ترے  بغیر
سکون و اطمینان رسول ﷺ سے  وابستگی میں  پنہاں  ہے۔ آج انسان چین، امن وسکون کو نہ جانے  کہاں  کہاں  تلاش کر رہا ہے  جب کہ حقیقت میں  امن اطاعت رسول میں  پوشیدہ ہے۔ اس حقیقت کی طرف اشارہ فرماتے  ہیں ؂
کوئی خوشی ہی کر نہ سکی اس کو مطمئن
ہے  آج بھی نشاطؔ  پریشاں  ترے  بغیر
حدیث قرآن کی تفسیر ہے۔ قرآن کریم حدیث کے  بغیر نا مکمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے  اپنی کتاب میں  اجمالی حکم بیان فرمایا تو رسول کریم ﷺ نے  اپنی احادیث میں  اس کی صراحت کی ہے۔ قرآن میں  کلیات کا ذکر ہے  تو احادیث میں  جزئیات کا ذکر ہے۔ کلیات پر عمل جزئیات کے  علم کے  بغیر ممکن نہیں ؂
ترے  سمجھانے  سے  انداز عبادت آ سکے 
نا مکمل ہے  خدا کی بندگی ترے  بغیر
اس کے  ساتھ شاعر کو روضے  میں  حاضری کی خواہش، رسول ﷺ کے  دیدار کی چاہت بے  چین کیے  رہتی ہے۔ رسول ﷺ کے  در پر حاضر ہونے  کی سعادت ہر ایک کے  نصیبے  میں  نہیں  ہوتی، وسائل کی موجودگی کے  باوجود بہت سے  لوگ اس دولت سے  محروم رہتے  ہیں۔ اور بعضے  لوگ وسائل کی عدم موجودگی کے  باوجود اس در پر حاضر ہو جاتے  ہیں، جو خیر البشر کا در ہے، جو اس ذات کا در ہے  جہاں  سے  ساری دنیا میں  ہدایت کے  چراغ روشن ہوئے۔ شاعر طیبہ کی حضوری کی خواہش ان الفاظ میں  بیان کرتا ہے ؂
کرم اتنا مجھ پر احمد مختار ہو جائے 
یہ عاصی بھی کسی دن حاضر دربار ہو جائے 
نیز شاعر کے  دل میں  رسول ﷺ کے  دیدار کی خواہش بھی انگڑائیاں  لینے  لگتی ہے ؂
کسی دن تو بہار آئے  مرے  باغ تمنا میں 
کسی شب تو مرے  سرکار کا دیدار ہو جائے 
داوٗ د نشاطؔ  نے  اپنی نعتوں  میں  خصوصیت کے  ساتھ ایک اور چیز کا ذکر کیا ہے  وہ ہے  بادۂ عرفاں۔ یعنی عرفان کی دولت، عرفان یعنی علم، خود شناسی کا علم، ایسا علم جو خدا کا خاص عطیہ ہے۔ یہ علم اللہ تعالیٰ اپنے  مخصوص بندوں  کو ہی عنایت کرتے  ہیں۔ داوٗد نشاطؔ  نے  جام عرفاں  کو کبھی مرکز انوار، کبھی سبب خمار بتایا ہے۔ نیز آپ نے  یہ بھی فرمایا کہ کائنات کا عرفان رسول ﷺ کے  بغیر ممکن نہیں ؂
عطا ہو مجھ کو ایسا جام عرفاں  ساقیٔ کوثر
کہ جس کے  پیتے  ہی دل مرکز انوار ہو جائے 
حشر تک طاری رہے  یہ کیفیت مرے  حضور
بادۂ عرفاں  سے  دل مرا بہت مخمور ہے 
عرفاں  ترے  بغیر نہ قرآں  ترے  بغیر
بے  سود ہے  حرارت ایماں  ترے  بغیر
مشکل تھا کائنات کا عرفاں  ترے  بغیر
پردے  میں  تھی مشیت یزداں  ترے  بغیر
رسول ﷺ کی ناراضگی شاعر کے  نزدیک سب سے  بڑی سزا ہے ؂
اک مرے  آقا سر محشر خفا مجھ سے  نہ ہوں 
ہر سزا اس کے  سوا یا رب مجھے  منظور ہے 
داوٗد نشاطؔ  کی غزلیں :
داوٗد نشاطؔ  کی غزلوں  کا مطالعہ بتاتا ہے  کہ ان کی غزل درد و غم سے  پر نور ہے، عشق کے  جذبات سے  معمور ہے، کبھی وہ وصل کا ذکر کرتے  ہیں  تو کبھی فصل کا، کبھی احباب کا شکوہ کرتے  ہیں  تو کبھی دنیا کو دار الامتحان قرار دیتے  ہیں۔ کبھی حقائق کی طرف اشارہ کرتے  ہیں  تو کبھی موجودہ انسانوں  سے  انسانیت کے  فقدان کا مرثیہ پڑھتے  ہیں۔ کبھی اپنے  محبوب کے  یاد کرتے  ہیں  تو کبھی غم کا ذکر ان الفاظ میں  کرتے  ہیں  کہ خوشی کے  مقابلے  میں  غم کی قدر و قیمت بڑھ جاتی ہے۔ کسی کے  غم کو اپنا غم سمجھنے  کو ہی انسانیت سمجھتے  ہیں۔ آئیے ! نشاطؔ  کی غزلوں  کے  موتیوں  سے  اپنا دامن بھرتے  ہیں۔ 
خوشی اور غم: 
حضرت زاہد اعظمی نے  فرمایا تھا ؂
زندگی میں  خوشی کی نہ کر جستجو
جستجو تیری ناکام ہو جائے  گی
غم کی دولت نہیں  جبکہ سب کے  لیے 
پھر مسرت ہی کیوں  عام ہو جائے  گی
داوٗد نشاطؔ  کی نظروں  میں  غم ایک ایسا ستارہ ہے  جس کے  بغیر زندگی کا تاریک آسمان روشن نہیں  ہو سکتا، خوشی پل بھر کے  لیے  آتی ہے۔ بالکل چودہویں  کے  چاند کی طرح، پھر نہ جانے  کہاں  غائب ہو جاتی ہے۔ مگر خوشی کا ایک پل بھی کسی کو میسر آ جائے  تو اس کے  کیا کہنے ! انسان شب و روز مسرت کے  حصول کے  لیے  کتنی محنت کرتا ہے، اس کی ساری کوششوں  کا محور حصول مسرت ہے ؂
اس دور میں  تو یہ بھی غنیمت ہے  دوستو!
پل بھر کے  کچھ خوشی بھی کسی کو اگر ملے 
اور ایک شعر میں  غمِ جاناں  کی آرزو اس طرح فرماتے  ہیں ؂
مجھ کو خوشی نہ ملے  اس کا غم نہیں 
یہ آرزو ہے  آپ کا غمِ معتبر ملے 
شجاعت:
بہادری اور بلند حوصلگی کو ہر زمانے  میں  سراہا جاتا ہے۔ یہ ایسا وصف ہے  جو ہر مسلک و مشرب کے  حامی کا پسندیدہ وصف ہے۔ شجاعت شاعر میں  ہو تو اور بھی قابلِ تعریف ہے۔ کیونکہ اکثر و بیشتر شاعر بزدل ہوتے  ہیں، سامنے  کسی کو کچھ کہنے  سے  گھبراتے  ہیں، اگر چہ کہ پیچھے  اپنے  دل کی بھڑاس ضرور نکالتے  ہیں۔ داوٗد نشاطؔ  کا حوصلہ ملاحظہ کیجیے ؂
کیا کیجیے  نشاطؔ  میں  طوفاں  پسند ہوں 
ساحل بھی اب نگاہ میں  ساحل نہیں  رہا
طوفاں  کا رخ سفینے  نے  پھیرا ہے  لاکھ بار
طوفاں  مرے  سفینے  کے  قابل نہیں  رہا
مرد وہ ہے  جو زمانے  میں  تغیر و تبدل کا سبب بنتا ہے، زمانہ ساز شخص ہی کامل انسان ہوتا ہے۔ وہ انسان ذکر کرنے  کے  لائق نہیں  جسے  زمانہ تگنی کا ناچ نچائے۔ ؂
رہا ہوں  ہر زمانے  میں  نشاطؔ  عنوانِ افسانہ
زمانہ مرے  افسانے  کا عنواں  ہو نہیں  سکتا
دور حاضر: 
دور حاضر کی عنایتیں  مت پوچھیے، بشر جن اوصاف کی وجہ سے  بشر ہے  آج اس سے  وہ اوصاف چھین لیے  گئے۔ بلکہ زمانے  نے  ایسا پلٹا کھایا کہ عیوب کو ہنر گردانا جانے  لگا۔ اخلاق کے  معیارات بدل گئے۔ خوش اخلاقی خوش اخلاقی نہ رہی۔ ایسے  تاریک زمانے  کے  حوالے  سے  نشاطؔ  نے  بڑے  پیارے  اور متأثر کن شعر کہے  ہیں۔ نشاطؔ  جب اس حوالے  سے  کہتے  ہیں  تو ان کا طنز نہایت کڑوا ہوتا ہے، موجودہ دور کی کثافتوں  کے  اظہار میں  وہ خود کلامی کا انداز اختیار کرتے  ہیں ؂
عنقاء ہے  زمانے  سے  مساوات و اخوت
اوصاف بشر ڈھونڈنے  نکلے  ہو بشر میں 
رہ رہ کے  اٹھ رہا ہے  ہر سمت کیوں  دھواں 
نفرت کی آگ شہر میں  ہر سو لگی نہ ہو
تا بکے  اڑتا رہے  گا آدمیت کا مذاق
اک تماشا بن کے  یارو زندگی رہ جائے  گی
ہر گام پہ فریب نیا دے  گئی مجھے 
تہذیب نو کی دوست نما دوستی مجھے 
موجودہ روشنی پہ نگاہیں  جو کیں  نشاطؔ 
رگ رگ میں  روشنی کو ملی تیرگی مجھے 
خود اپنی نگا ہوں  سے  گرنے  لگا ہے 
یہ کیا آج حال بشر دیکھتا ہوں 
جہاں  میں  عظمت انساں  کو ڈھونڈنے  والو!
اب آدمی ہے  کہاں  آدمی کا سایہ ہے 
اب یہ ظاہر ہو رہا ہے  صورت حالات سے 
آج کا انسان شاید آخری منزل میں  ہے 
شعر اور شاعری:
نشاطؔ  نے  اپنی شاعری میں  بعض مقامات پر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے  کہ شاعر کے  لیے  کون سی چیزیں  لازم ہیں، پر تأثیر شعر کب وجود میں  آتا ہے  اور شاعری کیا ہے ؟ شعر میں  درد ہی تاثیر کا اصل سبب ہے، درد نہ ہو تو آورد سے  کام لینا پڑتا ہے۔ آمد اور آورد کی شاعری کا فرق آپ اچھی طرح سمجھتے  ہیں۔ آپ کو اس کا بھی علم ہے  کہ دونوں  کی طرح کی شاعری میں  کس کا مرتبہ بلند ہے ؟ فکر سخن کے  لیے  وہ غم کو لازم و ضروری قرار دیتے  ہیں ؂
فکر سخن کے  واسطے  غم چاہیے  نشاطؔ 
جب تک کہ دل میں  درد نہ ہو شاعری نہ ہو
شاعر بے  حد ذہین اور چالاک ہوتا ہے، یہی وجہ ہے  کہ اس کا ذہن اتنی دور تک جا پہونچتا ہے  کہ ایک آدمی ان چیزوں  کے  بارے  میں  سوچ بھی نہیں  سکتا۔ کوئی شخص شاعر کے  ذہن کی وسعت کو پانا چاہے  تو اس کے  لیے  صدیوں  لگ جاتے  ہیں، شاعر کے  اسرار زمانہ کا امیں  ہونا اسی بات پر دلالت کرتا ہے ؂
اسرار زمانہ کا امیں  ہوتا ہے  شاعر
ہر شعر مرا وقت کے  سانچے  میں  ڈھلا ہے 
ایک فنکار نہ جانے  کتنا خون دل، خون جگر جلانے  کے  بعد شعر تخلیق کرنے  میں  کامیاب ہوتا ہے۔ جب تک شاعری میں  خون جگر شامل نہ ہو شاعری حقیقی شاعری نہیں  بن سکتی۔ جب شاعر اپنے  دل کا چراغ روشن کرتا ہے  تو ایک شعر وجود پذیر ہوتا ہے ؂
خون دل سے  فکر و فن کے  جب بھی جلتے  ہیں  چراغ
تب کہیں  ڈھلتا ہے  جا کر شعر اک تاثیر کا
جگرؔ  کا تتبع:
شان تغزل حضرت جگرؔ  مرادآبادی سے  بھلا ادب کا کون سا طالب علم واقف نہ ہو گا۔ سوزوگداز، کیف وسرمستی اور درد ان کی شاعری کے  نمایاں  اوصاف ہیں۔ ایسا لگتا ہے  کہ داوٗد نشاطؔ  جگرؔ  سے  بہت متاثر ہیں، جگرؔ  کی شاعری جگر کے  پار ہوتی ہے، شاید اسی لیے  بے  اختیار داوٗد نشاط نے  جگرؔ  کے  تتبع کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ 
شعروں  میں  نشاطؔ  اپنے  لاؤ گے  وہ رنگ کہاں  سے  
جو رنگ تغزل کا ہے  نغمات جگرؔ  میں 
خود شناسی:
داوٗد نشاطؔ  نے  بہت سی غزلوں  اور مقطعوں  میں  اس بات کی صراحت کی ہے  کہ ان کی شاعری عوام کی پسندیدہ شاعری ہے۔ ان کی شاعری میں  جدید رنگ تغزل ہے، نئے  مضامین ہیں، عصری حسیت ہے، جب یہ تین اوصاف کسی شاعری میں  جمع ہو جائیں تو بھلا ایسے  شخص کی شاعری عوام و خواص میں  کیسے  مقبولیت حاصل نہیں  کرے  گی۔ سرسری طور پر گزرنے  والے  جب نشاطؔ  کے  ان اشعار سے  گزریں  گے  جن اشعار میں  نشاطؔ   نے  اپنی شاعری کی تعریف کی ہے  تو اسے  شاعرانہ تعلّی پر محمول کرنے  سے  گریز نہیں  کریں  گے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے  کہ نشاطؔ  نے  حقیقت پسندی سے  کام لیا ہے، ان کی شاعری کا مطالعہ کرنے  والا ہر انصاف پسند قاری اور نقاد یقیناً ان کی شاعری کی عظمت کا اعتراف کرے  گا۔ 
نشاطؔ  اپنی شاعری کو تجربات کا نچوڑ کہتے  ہیں  اور بہت کچھ جاننے  کا دعویٰ کرتے  ہیں  تو اس کا مطلب یہ نہیں  کہ وہ غرور اور خود پسندی کا شکار ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے  کہ وہ خود شناس ہیں، انہیں  اپنے  وزن کا اندازہ ہے، انہیں  بخوبی علم ہے  کہ اردو ادب میں  ان کا مقام و مرتبہ کیا ہے ؂
کوئی بھی روپ ہو پہچان لوں  گا میں  تجھ کو
میں  کائنات کی ہر چیز سے  شناسا ہوں 
دلوں  میں  اتریں  نہ کیوں  سب مرے  شعر نشاطؔ  
جو بات کہتا ہوں  میں  تجربہ کی کہتا ہوں 
ہے  بادۂ اسرار دو عالم سے  یہ لبریز
خالی مرے  افکار کا مینا نہیں  ہوتا
طرز ماضی سے  کیا غرض ہے  نشاطؔ  
فکر نو ہو تو کوئی شعر ڈھلے 
پھر جھومنے  لگی ہے  مسرت سے  کائنات
میری غزل نشاطؔ  کوئی گا رہا ہے  کیا
جسے  سن کے  جھوم جائیں  سبھی بام و در وطن کے 
مجھے  اے  نشاطؔ  اپنی ذرا وہ غزل سنانا
فضا پہ چھاتا ہے  کیف و سرور کا عالم
نشاطؔ  اپنی غزل جب کہیں  سناتا ہے 
دلوں  سے  ہر کسی کے  داد و تحسین خود نکلتی ہے 
نشاطؔ  خوش نوا جب اپنی غزل سناتا ہے 
مشاہیر کی نظر میں :
ڈاکٹر سلیمان اطہر جاوید کہتے  ہیں  کہ داوٗد نشاطؔ  نے  بھی غزل کو لب اور رخسار اور شمع اور پروانہ تک محدود نہیں  رکھا، بلکہ اس نوعیت کے  اشعار ان کے  ہاں  کم ملتے  ہیں۔ ان کی غزل تو وہ غزل ہے  جس کو ہم نئی غزل سے  قریب پاتے  ہیں، جس میں  عصری مسائل کی گونج ملتی ہے، جس میں  ہم معاشرے  کے  شب و روز، درد و کرب اور زندگی کی دھڑکنوں  کو محسوس کیا جا سکتا ہے، کرب و بلا کو جس سے  آج کا انسان گزر رہا ہے، آج کی الجھنیں، انتشار، خلفشار، نیز اقتصادی، تہذیبی، سیاسی اور اخلاقی بحران کی جلوہ گری کم یا زیادہ نشاطؔ  کی غزلوں  میں  مل ہی جاتی ہے۔ داوٗد نشاطؔ  نے  زندگی کی ناہمواریاں  اجاگر کرنے  میں  کسی تکلف سے  کام نہیں  لیا بلکہ جہاں  تہاں  تو ان کا لہجہ دو ٹوک اور جرأت مندانہ بھی ہو جاتا ہے۔ 
محمود عالم کہتے  ہیں  کہ داوٗد نشاطؔ  کی غزلیں  کلاسیکی انداز کے  ساتھ ساتھ طرز جدید میں  فکر تازہ کی نئی کونپلوں  کو نمایاں  ہونے  کا موقعہ فراہم کرتی ہیں۔ نشاطؔ  کے  کلام میں  حد درجہ معنویت اور غنائیت ہے  اور یہی ان کی مقبولیت کا سبب ہے۔ 
٭٭٭

نازش کڈپوی



نازش کڈپوی
تعارف: 5-2-1936 نازش کڈپوی کی تاریخ پیدائش تھی۔ جن کا اصلی نام کے۔ محبوب علی خان تھا۔ والد کا نام کے۔ احمد علی خان تھا۔ انٹر میڈیٹ تک تعلیم حاصل کی۔ کڈپہ میڈیکل اینڈ ہیلتھ ڈپارٹمنٹ سے  ہیلتھ سپر وائزر کی حیثیت سے  رٹائرڈ ہوئے۔ شعر گوئی کا آغاز ۱۹۶۵ء سے  کیا۔ شاعری میں  حضرت طرفہ قریشی، حضرت شفاؔ  گوالیاری سے  اکتسابِ فن کیا۔ 
۲۰۰۳ء میں  نازش کا مجموعۂ کلام شائع ہوا۔ جس کے  مرتبین یوسف صفی اور محمود شاہد تھے۔ آئیے  نازشؔ  کی شاعری کا تفصیلی مطالعہ کرتے  ہیں۔ 
عشق، عشق ایک ایسی شے  ہے  جس کی عظمت و اہمیت کے  بارے  میں  ہر شاعر نے  کچھ نہ کچھ لکھا ہے۔ عشق وہ روشنی ہے  جس سے  ہر شاعر کا دل منور ہے، عشق وہ آگ ہے  جو خوش قسمت لوگوں  کے  دامن میں  پناہ لیتی ہے، عشق وہ نورانی کیفیت ہے  جو مجاز سے  حقیقت کا سفر لمحوں  میں  طے  کراتی ہے۔ اسی اہمیت کے  پیشِ نظر نازش نے  عشق کے  حوالے  سے  مختلف کیفیات کو اپنی شاعری میں  پرو یا ہے۔ آئیے  کلامِ نازشؔ  کی چند موتیوں  سے  نظروں  میں  روشنی بھرتے  ہیں۔ 
دل کسی پر اے  زاہد سوچ کر نہیں  آتا
یہ خطا ارے  ناداں  جان کر نہیں  ہوتی
منزل عشق کا کچھ فاصلہ کم ہو جائے 
رہنما کاش ترا نقش قدم مل جائے 
مسکراتے  ہوئے  جھیلیں  گے  ترا نقش قدم
ہم کو رکھنا ہے  بہر حال محبت کا بھرم
وہ آگ جس پہ تکیہ تھا الحاد و کفر کا
اے  عشق تو نے  اس کو گلستاں  بنا دیا
اس قدر جلے  ہیں  ہم عشق میں  کہ اب ہم کو
دھوپ دوپہر کی بھی چاند کا اجالا ہے 
ناز کر غم دوراں  ناز کر غم جاناں 
زخم اب مرے  دل کا پھول بننے  والا ہے 
لڑکھڑا رہا تھا وہ زندگی کی را ہوں  پر
ہر قدم پہ نازشؔ  کو آپ نے  سنبھالا ہے 
نازش سے  نہ پوچھ مجھ سے  مری بندگیٔ عشق
سران کا پائے  ناز پہ خم کر چکا ہوں  میں 
محبت کر محبت ہے  عبادت
کسی کی دشمنی تو درد سر ہے 
نازش محبوب کی یاد میں  گزرنے  والے  لمحات کو زیست کا حاصل گردانتے  ہیں۔ دراصل محبوب کی یاد میں  ایک ایسی مٹھاس پوشیدہ ہے  جو وقت گزرنے  کا احساس نہیں  ہونے  دیتی۔ محبوب کی یاد ایک ایسی لذت سے  مملوء ہے  جس کا لفظوں  میں  اظہار کرنا شاید ممکن نہیں۔ نازشؔ  ان میٹھے  لمحات کا ذکر اپنے  مخصوص انداز میں  اس طرح کرتے  ہیں ؂
جو تری یاد سے  خالی ہو ترے  ذکر سے  دور
وہ لمحہ کیوں  نہ جہاں  پر حرام ہو جائے 
حاصلِ عمر حقیقت میں  وہ لمحہ ہو گا
جو تری فکر تری یاد میں  گزرا ہو گا
معشوق کی یاد کو ایک اور مقام پر نازشؔ  نے  ناسور سے  تشبیہ دی ہے۔ ؂
ناسور بن کے  رہ گئی نازشؔ  کسی کی یاد
شعلے  بھڑک رہے  ہیں  دلِ بے  قرار میں 
عشق جب اپنی انتہاء کو پہونچ جاتا ہے  تو آدمی خود کو محبوب تصور کرنے  لگتا ہے، ایسے  عالم میں  سوائے  ذکر معشوق کے  دوسری اشیاء کو آدمی اپنے  اوپر حرام کر لیتا ہے۔ جب محبوب کا نام لبوں  سے  مس کرتا ہے  تو گویا بہار آ جاتی ہے۔ اور جب محبوب کا ذکر نہیں  ہوتا تو خزاں  ہوتی ہے۔ نازشؔ  نے  اس جذبے  کے  اظہار کے  لیے  دوسرے  لفظوں  کا سہارا لیا ہے ؂
تمہارا نام لیا تھا تو چھٹ گئی ظلمت
تمہیں  جو بھول گیا تو روشنی نہ ملی
شراب کی مستی اور لذت سے  زیادہ محبوب کی مستی، محبوب کے  نخرے، ناز و انداز زیادہ کیف آمیز وسرور بخش ہوتے  ہیں۔ محبوب کا التفات کائنات بھر خوشی کے  مماثل ہے۔ ان کی بے  وفائی اور اداسی غم کا دریا ہے ؂
بجھتے  ہوئے  چراغ بھی محفل میں  جل اٹھے 
جب مسکرا کے  آپ گلے  مجھ سے  کیا ملے 
جس سمت دیکھتا ہوں  نظر آ رہے  ہیں  وہ
اے  بے  خودیِ شوق اب اپنا پتہ ملے 
وہ جب بھی بات کرتے  ہیں  تو منہ سے  پھول جھڑتے  ہیں 
وہ جب گیسو جھٹکتے  ہیں  تو دن میں  رات ہوتی ہے 
حضرت میرؔ  (۱۱۳۷ء؁-۱۲۲۵ء؁) نے  فرمایا تھا ؂
میرؔ  ان نیم باز آنکھوں  میں 
ساری مستی شراب کی سی ہے 
اسی مفہوم کو حضرت نازشؔ  نے  اپنے  مخصوص انداز میں  اس طرح بیان فرمایا ہے ؂
میں  کوئی رند نہیں  پھر بھی آ رہا ہے  سرور
تمہاری آنکھوں  سے  یہ کیسی شراب ڈھلتی ہے 
غم اور آنسو سے  نازشؔ  کا بہت گہرا رشتہ ہے۔ غم کو وہ عظیم دولت تصور کرتے  ہیں۔ ظاہر ہے  غم جس کا سرمایۂ حیات ہو، آنسوؤں  سے  اس کا بڑا گہرا رشتہ ہو گا۔ نازشؔ  نے  آنسوؤں  کا ذکر کثرت سے  کیا ہے۔ آنسو غم و الم کے  اظہار کا ذریعہ ہیں۔ نازشؔ  نے  عاشق کے  آنسوؤں  کا تذکرہ بڑے  گداز کے  ساتھ درد بھرے  انداز میں  کیا ہے۔ اشکوں  کو نازشؔ  نے  کبھی آگ سے، کبھی ستارے  اور کبھی چراغ سے  تشبیہ دی ہے۔ اور کبھی اشکوں  کو اپنی کل کائنات بتایا ہے۔ ؂
دونوں  عالم کی ضیاء آئے  گی کھنچ کر نازشؔ 
اشک جو آنکھ سے  ٹپکا وہ ستارہ ہو گا
چین ملتا ہے  غم کے  ماروں  کو
درد جب آنسوؤں  میں  ڈھلتا ہے 
راہ تاریک ہے  بھٹکیں  نہ مسافر نازشؔ 
اس کو اشکوں  کے  چراغوں  سے  سنوارا جائے 
آنکھوں  میں  اشک پاؤں  میں  چھالے  جگر میں  داغ
نازشؔ  مرے  لیے  تو وہی کائنات ہے 
اوروں  کی طرح دیکھو ہمارا یہ غم نہیں 
اک ایک اشک اپنا سمندر سے  کم نہیں 
نازش ہمارے  اشکوں  میں  ڈوبی ہے  کائنات
پھر بھی غمِ حیات کا ساغر نہیں  بھرا
حفیظؔ  میرٹھی کا ایک شعر ہے ؂
شیشہ ٹوٹے  غل مچ جائے 
دل ٹوٹے  آواز نہ آئے 
اس مضمون کو الگ لفظیات سے  نازشؔ نے  اس طرح سنوارا ہے ؂
لو کانپ اٹھی شمع کے  بجھنے  سے  پیشتر
دل کا دیا بجھا تو دھواں  تک اٹھا نہیں 
انسانیت! آج دنیا کسی چیز کی شدید محتاج ہے  تو وہ ہے  انسانیت۔  خلوص، مروت، مہر و وفا ایسے  جذبے  ہیں  جو آدمیت کے  لوازمات میں  شمار ہوتے  ہیں۔ آدمیت کے  دشمن جذبات کی آج فراوانی ہے۔ لہو ستا ہے، پانی مہنگا ہے۔ خون خرابہ، شور شرابہ اور برائیوں  کا ایسا  بھنور ہے  جس میں  آدمی پھنستا ہی چلا جا رہا ہے۔ ایسے  بھیانک اور خطرناک دور میں  کوئی انسانیت کی بات کرتا ہے  تو ساری دنیا اس کی طرف لپکتی ہے۔ نازشؔ  نے  اس حوالے  سے  بڑے  اچھے  شعر کہے  ہیں۔ ان کے  نزدیک ایک آدمی کا مرتبہ چاند ستاروں  سے  بلند ہے۔ ؂ 
مہ و نجوم کی دنیا جو مل گئی تو کیا
مزا تو جب ہے  کہ نازشؔ  وہ آدمی سے  ملیں 
یہ بات سب سے  بڑی ہے  زمانے  کی
خلوص آج بھی لازم ہے  آدمی کے  لیے 
بغض و فریب آج کمالات ہو گئے 
یہ کیسے  آدمی کے  خیالات ہو گئے 
اک دوسرے  کو دیکھ کے  کیچڑ اچھالنا
نازشؔ  یہ دوستوں  کے  خیالات ہو گئے 
شہرِ وفا کے  لوگوں  کی فطرت کو کیا ہوا
تھوڑی سی دشمنی سے  فسادات ہو گئے 
میں  چاہتا ہوں  فریقین میں  بڑھے  الفت
کدورتوں  کا زمانہ تمام ہو جائے 
کچھ شر پسند لوگوں  نے  بستی جلائی تھی
اشکوں  سے  اپنے  آگ بجھانے  لگے  تھے  ہم
کسی کے  وقت پہ جو شخص کام آتا ہے 
مری نظر میں  وہ انساں  نہیں  فرشتہ ہے 
سحاب  قزلباش نے  دل جلانے  کی بات کی تھی ؂
بجھ رہے  ہیں  چراغ دیر و حرم
دل جلاؤ کہ روشنی کم ہے 
نازشؔ  اپنی شاعری سے  زمانے  میں  اجالا بکھیرنا چاہتے  ہیں ؂
نازشؔ  میں  چاہتا ہوں  اجالا ہو ہر طرف
دل ہم نے  جلایا تو اجالا یہ ہوا ہے 
زندگی کے  مختلف روپ ہیں۔ کسی کے  لیے  زندگی پھلوں  کی سیج ہے، تو کسی کے  لیے  کانٹوں  کا میدان۔ زندگی کے  بارے  میں  مختلف دانشوروں  نے  مختلف آراء کا ذکر کیا ہے۔ مگر زندگی کیا ہے ؟ آج تک کوئی اس کی حقیقت کو نہیں  پہونچ سکا۔ مسعودہ حیات (دہلی) نے  زندگی کے  حوالے  سے  بڑا پیارا شعر کہا ہے ؂
زندگی کی حقیقت بھی کیا چیز ہے،
ہر نظر کا الگ ہے  بیاں  دوستو!
ہے  کسی کے  لیے  یہ فقط رنگ و بو
 اور کسی کے  لیے  امتحاں  دوستو!
لیکن جناب نازشؔ  زندگی کو مسلسل سزا تصور کرتے  ہیں ؂
اب اس سے  بڑھ کے  قیامت ہی کیا ہے  میرے  لیے 
یہ زندگی تو مسلسل سزا ہے  میرے  لیے 
آگے  چل کر حق سے  وہ ایسی زندگی طلب کرتے  ہیں  جو اس کی خوشنودی اور رضا میں  صرف ہو، ایسی حیات سے  وہ پناہ مانگتے  ہیں  جس میں  حق شناسی نہ ہو، حق کی آگہی نہ ہو، رب کی رضا نہ ہو ۔ ؂
اس زندگی کی مجھ کو ضرورت نہیں  کوئی
جس میں  رضائے  حق نہ ہو، حق آگہی نہ ہو
حق پرستی سب سے  غیر سود مند شیوہ ہے۔ حق گو انسان کے  دوست نہ ہونے  کے  برابر ہوتے  ہیں۔ حق پرستی بہت بڑی چیز ہے۔ سچ کہنے  کا حوسلہ اپنے  اندر پیدا کرنا آسان کام نہیں۔ نازشؔ  نے  حق پرستی کے  حوالے  سے  زمانے  پر بڑا گہرا طنز کیا ہے۔ ؂
زمانہ سخت مخالف ہے  حق پرستوں  کا
یہ بات سچ ہے  کہ اب جھوٹ بولیے  یارو!
آواز حق بلند کرنے  کے  لیے  اللہ کی مد کی ضرورت ہے، نازشؔ  آواز حق کو ایک اعجاز تصور کرتے  ہیں ؂
ساری دنیا گوش بر آواز ہے 
حق کی ہر آواز اک اعجاز ہے 
مشاہیر کی آراء
(۱) ’’ نازشؔ  کڈپوی سوچ سمجھ کر شعر کہتے  ہیں۔ ان کی شاعری دل کی کم دماغ کی شاعری زیادہ ہے۔ وہ خود بھی غور وفکر سے  کام لیتے  ہیں  اور قاری کو بھی دعوتِ فکر دیتے  ہیں۔ انہوں  نے  روایت کے  احترام کے  ساتھ ساتھ اجتہاد سے  بھی کام لیا ہے۔ زبان وبیان پر ان کی گرفت مضبوط ہے  اور ان کا اسلوب تازہ کار۔ نازشؔ  کی غزلوں  کی ایک اور خوبی تغزل ہے۔ ان کا تغزل محض شاعرانہ روایتی یا رسمی نہیں  ہے، نئے  رنگ اور آہنگ کا حامل ہے۔ مصرعوں  کا دروبست ہی کچھ ایسا ہوتا ہے  کہ اک سماں  بندھ جاتا ہے ‘‘ (پروفیسر سلیمان اطہر جاوید)
(۲) ’’نازشؔ  انقلاب کا شاعر ہے۔ امید اور حوصلے  کا علمبردار، اور پھر جذبۂ خودی کا۔ صحت اگر ساتھ دیتی تو ان کا یہ کلام حسنِ کمال کی اور بھی بلندیوں  کو چھو سکتا، اگر چہ کہ جو کچھ نازشؔ  نے  کہا ہے  وہ بہت خوب ہے، بہت خوب ہے، لازوال ہے۔ ‘‘
(پروفیسر انور اللہ انورؔ )
(۳) ’’نازشؔ  کی شاعری انسان دوستی سے  لبریز ہے، قابلِ تحسین بات یہ ہے  کہ نازش عملی زندگی میں  بھی انسان وست واقع ہوئے  ہیں۔ اس بات کا اقرار دوست ہی نہیں  دشمن بھی کرتے  ہیں۔ ‘‘ (محمود شاہد)
(۴) ’’نازشؔ  ایک اچھے  اور پر گو غزل کے  شاعر ہیں۔ آپ کی تمام غزلیں  سادہ مگر معنیٰ سے  پر ہیں۔ ہر غزل کا مطلع اک شان، اک اٹھان لیے  ہوئے  ہے۔ اور اسی طرح آپ کی غزلوں  کا ہر مقطع آپ کی شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ آپ کے  اسلوب بیان میں  ایک تاثر،کیفیت، وجدان اور روحانیت ہے  جو سامع اور قاری کے  دل کو چھو لیتی ہے۔ ‘‘ (عبید صدیقی)
(۵) ’’ نازشؔ  دوراں  کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے  کہ یہ کتاب حواس پر چھا جانے  والی ہے۔ اس کتاب کی غزلیں  شعریت کا دامن تھامے  ہوئے  ہیں۔ جس کی تائید عقل و منطق و ذوق و وجدان سے  ہوتی ہے۔ اس سے  طبع سامع کا خلجان دور ہوتا ہے۔۔۔۔ الفاظ کے  دروبست کے  معاملے  میں  نازشؔ  صاحب احتیاط سے  کام لیتے  ہیں۔ اسے  آپ لفظوں  کا تقویٰ کہیں  یا معنی کا فتویٰ، نازشؔ  صاحب نے  غزل کو نیم وحشی نہیں  سلجھا، ان کی غزل ریاضی کیش ہے۔ ‘‘ (ڈاکٹر ساغرؔ  جیدی)
٭٭٭