Monday, March 18, 2013

کیوں اسیر گیسوئے خم دار قاتل ہو گیا




(۲)

کیوں اسیر گیسوئے خم دار قاتل ہو گیا
ہائے کیا بیٹھے بٹھائے تجھ کو اے دل ہو گیا
کوئی نالاں ، کوئی گریاں ، کوئی بسمل ہو گیا
ا س کے اٹھتے ہی دگرگوں رنگ محفل ہو گیا
انتظار اس گلی کا اس درجہ کیا گلزار میں 
نور آخر اس گلی میں دیدۂ نرگس کا زائل ہو گیا
اس نے تلواریں لگائیں ایسے کچھ انداز سے 
دل کا ہر ارماں فدا اے دست قاتل ہو گیا
قیس مجنوں کا تصور جب بڑھ گیا نجد میں 
ہر بگولہ دشت کا لیلئ محمل ہو گیا 
یہ بھی قیدی ہو گیا آخر کمند زلف کا
لے اسیروں میں ترے آزادؔ شامل ہو گیا

No comments:

Post a Comment