Friday, March 22, 2013

پیشۂ وکالت :۔


پیشۂ وکالت :۔
سوال ۳؂: از محمد یحییٰ ۔حیدرآباد ۔دکن۔
ایک ایسے ملک میں جہاں کی حکومت غیر اسلامی و لادینی ہو کیا قانون کی تعلیم حاصل کر کے وکالت کا پیشہ کرنا جائز ہے ؟
الجواب:۔ جہاں تک نظری پہلو کا تعلق ہیہم پیشۂ وکالت کو اس قید کے ساتھ جائز سمجھتے ہیں کہ صرف ان قوانین کی وکالت کی جائے جو اسلام کی تردید اور کفر و شرک کی تصدیق کرنے الے نہ ہوں اور وکیل ان تمام نا جائز ہتھکنڈوں سے بچارہے جو فی زمانہ لازمۂوکالت ہوکر رہ گئے ہیں ۔
کسی غیر اسلامی حکومت کے تمام ہی قوانین اسلام شکن نہیں ہوتے ۔ کسی قانون کا اسلامی نہ ہونا اور بات ہے لیکن اسلام شکن ہونا بالکل اور۔ اسلام شکن قوانین کی وکالت تو فسقِ جلی ہے ۔ اگر وکیل اس فعل کو برا سمجھتے ہوئے کررہا ہے اورکفرِ صریح ہے اگر وہ اسے برا بھی نہیں سمجھتا ۔ 
لیکن یہ محض نظر سطح کی گفتگو تھی ۔ عملی اعتبار سے بہت مشکل ہوگیا ہے کہ آج کا وکیل نوع بہ نوع ذمائم و قبائح سے ملوث ہوئے بغیر اپنا کام چلا سکے ۔ماحول اس قدر بگڑ چکا ہے کہ شاذ و نادر لوگ سلامت روی کا عزم لے کر اس میدان میں آتے ہیں وہ بھی زیادہ دیر اس عزم کو نہیں نبھاسکتے اور دو ہی راہیں ان کے آگے رہ جاتی ہیں ۔ یا تواپنے نیک تصورات کا بستہ بغل میں دبائے اس میدان سے بھاگ جائیں یا پھر ایمان و اخلاق کی قدروں کو بالائے طاق رکھ کر ماحول کے تمام برے تقاضو ں کو اپنا لیں ۔
اس عام صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ پیشۂ وکالت سے دور بھاگنا ہی ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو زندہ ضمیری کی زندگی گذارنا چاہتیہیں اور مرنے کے بعد محاسبے پر یقین رکھتے ہیں ۔ واللہ اعلم۔

No comments:

Post a Comment