Friday, March 22, 2013

ایک حیرت ناک صورتِ حال :۔


ایک حیرت ناک صورتِ حال :۔
سوال ۴؂
عجیب بات ہے کہ جو لوگ صرف نام کے مسلمان ہیں جن کا مزہب محض نمازِ عید تک محدود ہے اور پوری زندگی غیر اسلامی طریقے پر گذارتے ہیں وہ تو مزے کر رہے ہیں ۔ ان کے پاس مال ، اولاد ،آرام سبھی کچھ ہے ، آسائش ہے ، عزت ہے ۔ مگر جو لوگ احکام خداوندی کی پیروی میں لگے ہوئے ہیں اور واقعۃًمومنوں کی سی زندگی گذارنے میں کوشاں ہیں ان کا عالم یہ ہے کہ فراغت و آسائش تو درکنار ضروریات ِ زندگی گذارتے ہیں اور مصیبت و افلاس کا شکار رہتے ہیں ۔
الجواب:۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو قاعدہ کلیہ آپ نے بیان فرمایا وہی واقعات کی روشنی میں صحیح ثابت نہیں ہوتا ۔ معاشرے میں بے شمار مسلمان آپ کو ایسے ملیں گے جو پکے دنیا دار اور بد عمل ہونے کے باوجود خوش حالی و آسائش کی زندگی نہیں گذاررہے بلکہ نوع بہ نوع آلام و افکار کا شکار ہیں ۔ اور بہت مسلمان ایسے ملیں گے جو بفضلہ تعالیٰ نیکوکار ہیں ، پابندِ شریعت ہیں مگر خوشحالی و آرام کی زندگی گذاررہیہیں ۔ قصہ دراصل یہ ہے کہ نام کے مسلمانوں کی تعداد تو بہت ہے ۔ اور اچھے مسلمانوں کی گنتی بہت کم ۔ فرض کیجئے ایک لاکھ بھیڑوں کے ریوڑ میں بیس ہزار بھیڑیں بیمار ہوجائیں تو ان کی بیاری اتنی نمایا نہیں ہوگی جتنی ایک ہزار کے ریوڑ میں ڈیڑ سو بھیڑوں کی بیماری ۔ حالاں کہ مریض بھیڑوں کا فیصد اوسظ پہلے ریوڑ میں زیادہ ہے اور دوسرے مین کم ۔ اسی طرح نام کے مسلمانوں میں اگر چہ کشتگانِ آلام و آفات کا تناسب مقالۃً کم نہیں ہے لیکن وہ کم اس لئے معلوم ہوتا ہیکہ مجموعی تعداد و افر ہے اور اچھے مسلمانوں میں یہ تناسب اگر چہ کم ہے ، لیکن زیادہ نمایا محسوس ہوتا ہے کیوں کہ مجموعی تعدا ہی تھوڑی ہے ۔
ایک بڑا مغالطہ یہ ہے کہ ہم رنج و راحت کو صرف ظاہری طمطراق اور مال و دولت کے پیمانوں سے ناپنے کے عادی ہوگئے ہیں ۔ ہماری نگہ میں وہ شخص جس کے پاس موٹر ہے ، کوٹھی ہے ، قیمتی ملبوسات اور سامانِ آسائش کی بہتات ہے اس شخص کے مقابلہ میں یقینی طور پر زیادہ راحت و آسائش میں ہے جسکے پاس یہ سب سامان نہیں ہے بلہ موٹا جھوٹا کھا پہن کر اپنی اور اپنے اہل و عیال کی گذر بسر کررہا ہے ۔ حالانکہ فی الحقیقت یہ فیصلہ ہر حال میں درست نہیں ہوتا ۔ رنج و راحت کا تعلق دلوں کی کیفیات سے ہے ۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ اول الذکر قسم کے لوگ فراوانیِ اسبات کے باوجود اتنی زیادہ مطمئن و مسرور زندگی نہیں گذارتے جتنی ثانی الذکر قسم کے لوگ گزار جاتے ہیں ۔ ایک مزدور دن بھر محنت کرنے کے بعد بال بچوں کے درمیان بیٹھا ہوا اگر باسی دال روٹ ہنس ہنس کر کھا رہا ہے اور اس کے بچوں کے جس موں پر بہت گھٹیا کپڑے ہیں تو یقین کیجئے اکثر حالات میں وہ اس موٹر نشین سے زیادہ مسرور و مطمئن ہوتا ہے جو جاہ ودولت کی دوڑ میں اپنے کسی ہم پیشہ حریف سے پیچھے رہ گیا ہے۔اور آگے بڑھنے کی ادھڑی بن میں گرفتار ہے ۔ نئی تہذیب کے مظاہر نے ہمیں ہت دھوکے میں ڈالا ہے ۔ رات بھر کھلنے والے ایک کلب میں جگ مگ کرتا ہوا ما چول ‘ رقص و سرود‘ لذیذ مشروبات ‘ خوش پوش مردوزن ‘ قہقہے اور عیش و طرب کے مظاہر ہمیں یقین دلاتے ہین کہ یہ جنت ہے اور یہاں دادِ عیش دینے عوالا ہر فرد بہترین لذت و راحت کی زندگی گذار رہا ہے ، لیکن ان ’’اہلِ جنت‘‘ کی پوست کندہ زندگی کا غائر مطالعہ اگر کوئی کر سکے تو اسے پتہ چلے گا کہ ان میں کی اکثریت حد درجہ غیر متوازن حالات کا ہدف ہے ، نوع بہ نوع مسائل نشتر بن کر اس کے لیجے میں اترے ہوئے ہیں ۔ حقیقی احساسِ راحت و انبساط سے اس کے زہن و قلب محروم ہیں ، کتنے ہی کانٹے اس کے رگِ احساس میں پے بہ پے کھٹکتے رہتیہیں ، نوع بہ نوع ذہنی کلفتوں کے مارے لوگ ایک ظاہر فریب ماحول میں اس شرابی کی طرح آتے ہیں جونشہ کے ذریعے غم و آلام کی تلخی فراموش کردینا چاہتا ہے اور ان سے کہیں زیادہ مسرور مطمئن وہ غریب اور ’’غیر مہذب ‘‘ افراد ہیں جن کی زندگی بظاہر تو کشمکشِ حیات ہی میں کٹ رہی ہے ، لیکن گھریلو ماحول میں وہ چند سانس حقیقی اطمینان و مسرت کے بھی لے ہی لیتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ کی فرض کردہ صورتِ حال کو واقعہ ہی تسلیم کرلیا جاے تب بھیکوئی الجھن ایسی نہیں سامنے آتی جس کی عقدہ کشائی ممکن نہ ہو۔ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہمیں ان نعمتوں اور عذابوں پر پورا ایمان ہونا چاہئے جن کا ذکر قرآن و سنت میں آیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ آخرت کی معمولی نعمتیں بھی دنیا کی بہترین نعمتوں سے کہیں اعلیٰ اور آخرت کا معمولی عذاب بھی دنیا کی شدید ترین مصیبتوں سے کہیں شدید ہے ۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنے نافرمان بندوں کو کچھدنوں دنیا کی معمولی نعمتوں کے بارے میں ڈھیل دے دے ۔اور پھر آخرت کے سخت عذاب سے دو چار کردے تو ان کی حالت قابل رشک ہے یا ان فرمانبردار بندوں کو قابل رشل سمجھنا چاہئے جو دنیا کی قلیل المد زندگی تو تکلیف سے گذر جائیں ، لیکن آخرت کی بہترین نعمتوں سے بہرہ ور ہوں اور ان طویل ایام میں چین کا سانس لیں ، جن کا ایک ایک لمحہ بعض حالتوں میں سالوں کی وسعت رکھتا ہے ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص دنیا ہی کی زندگی کو سب کچھ یا بہت کچھ سمجھ کر اسلامی مسائل پر گفتگو کرے گا اور آخرت کو نظر انداز کردے گا یا محض ضمنی حیثیت دے ڈالے گا وہ ضرور سفسطے اور غلط فہمی میں گرفتار ہوگا ۔ آخرت اور اس کی زندگی کو فی الحقیقت وہی اہمیت دی جائے جو اسلام دیتا ہے تو ہرا لجھن اور مالطے کا استیصال ہوجائے گا ۔ اور کچھ نہیں تو اسے آزمائش ہی سمجھ لیجئے کہ نکو کاروں کو قدم قدم پر مصائب و آلام کا سامنا ہو اور دین و اخلاق کا دامن تھامے رہنا مشکل ہوجائے ۔ آخر آزمائش تو سختیوں ہی کا نام ہے ۔ انعام و اکرام کا وہی مستحق ہوگا جا سخت مراحل کو صبر و استقامت سے طے کر جائے گا اور پیش پا افتادہ لذات و نعم پر اپنے دین و ایمان کی قربانی دینے کی بجائے ان دیر میں حاصل ہونے والی لذتوں اور نعمتوں پر نظر رکھے گا جو امتحان میں پورا اترنے پر ہی نصیب ہونے والی ہیں ۔

No comments:

Post a Comment