Monday, March 18, 2013

مولانا الطاف حسین حالیؔ




مولانا الطاف حسین حالیؔ 

(۱۸۳۷ء۔ ۱۹۱۴)

شیفتہ اور غالب کے شاگرد مولانا الطاف حسین حالی ۱۸۳۷ء میں بمقام پانی پت پیدا ہوئے۔ سلسلہ نسب حضر ت عبد اللہ انصاری سے جا ملتا ہے۔ والد کا نام خواجہ ایزد بخش تھا۔ ۔ ۱۸۵۷ء میں تعلیم کی غرض سے دہلی تشریف لائے۔ مرزا غالب کی شہرت پہلے سے سن رکھی تھی دل میں غالب کی شاگردی اختیار کرنے خواہش بھی انگڑائیاں لے رہی تھی۔ چنانچہ غالب کی شاگردی اختیار کر لی۔ غالب سے ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ چھوٹی ملاقاتیں طویل ملاقاتوں کی شکل اختیار کرنے لگیں۔ حالی نے ایک مرتبہ اصلاح کی غرض سے کلام دکھایا تھا تو غالب نے کہا تھا:  ’’اگرچہ میں کسی کو فکر سخن کی صلاح نہیں دیا کرتا لیکن تمھاری نسبت میرا یہ خیال ہے کہ اگر تم شعر نہیں کہو گے تو اپنی طبیعت پر ظلم کرو گے ‘‘۔ 
۱۹۰۴ء میں شمس العلماء کا خطاب آپ کو عطا کیا گیا۔ ان کا دل اصلاح معاشرہ کی طرف مائل تھا،  مسلمانوں کی گرتی ہوئی حالت کو دیکھ کر کڑھتا تھا۔ وہ سوچتے تھے مسلمانوں کی اس گرتی ہوئی حالت میں بہتری کیسے پیدا کی جا سکتی ہے۔ مسلمانوں میں بیداری کیسے لائی جا سکتی ہے۔ یہی وہ جذبہ تھا جس نے ان کو مسدس حالیؔ المعروف بہ مدو جزر اسلام لکھنے پر مائل کیا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اصلاحی  اور مذہبی شاعری ہی اصل شاعری ہے۔ بے مقصد شاعری کسی کام کی نہیں۔ وہ سمجھ چکے تھے کہ ادب کی اصل مقصدیت ہے۔ مقصدیت کے بغیر ادب کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بے مقصد ادب بے کار ادب ہے گویا چند بے جان الفاظ کا مجموعہ۔ 
اپنے کلام کے ساتھ انہوں نے جو مقدمہ لکھا ہے وہ الگ سے کتابی شکل میں شائع ہو چکا ہے۔ جس کا عنوان ہے ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ یہ کتاب اردو تنقید کی پہلی باقاعدہ کتاب تسلیم کی جا چکی ہے۔ مولانا نے اس کتاب میں جو اصول پیش کئے ہیں ان کی آج بھی وہی اہمیت ہے جو پہلے تھی۔ ان کی ملازمت ہی ایسی تھی کہ اچھی خاصی انگریزی کی کتابیں ان کے مطالعے میں آتی چلی گئیں۔ اور اپنے اس مطالعے سے انہوں نے اچھا کام لیا۔ 
مولانا بڑے ہی سادہ مزاج خوش خلق اور اپنے چھوٹوں سے محبت کرنے والے تھے۔ وہ اپنے ملنے جلنے والوں کا خاص خیال رکھتے تھے۔ مولوی عبد الحق نے لکھا ہے :
’’مولانا کی سیرت میں دو ممتاز خصوصیتیں تھیں۔ ایک سادگی دوسری درد دل۔ اور یہی شان ان کے کلام میں ہے۔ ان کی سیرت اور ان کا کلام ایک ہے۔ یا یوں سمجھئے وہ ایک دوسرے کا عکس ہیں۔ مجھے اپنے زمانے کے بعض نامور اصحاب اور اپنی قوم کے اکثر بڑے بڑے شخصیتوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے۔ لیکن مولانا حالی جیسے پاک سیرت اور خصائل کا بزرگ ابھی تک مجھے نہیں ملا‘‘
   (چند ہم عصر۔ از:مولوی عبد الحق،  صفحہ:۱۶۱۔ ایڈیشن:۱۹۵۹ء )
مولانا حالی نے بہت سی تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ جیسے :یادگار غالبؔ ، حیات جاوید، ؔ ،  مسدس حالی ؔ ،  دیوان حالیؔ ،  شکوۂ ہند مناظرۂ تعصب و انصاف، رحم انصاف، برکھا رت،  نشاط امید اور حب وطن۔ 
یادگار غالب بڑے اونچے مرتبے کی کتاب ہے۔ جو پہلی مرتبہ نامی پریس کانپور سے  ۱۸۷۹ ء میں شائع ہوئی۔ اس کا دوسرا ایڈیشن  محمڈن کالج بکڈپو نے حالی ؔ کی  اجازت سے مکتبۂ فیض عام لکھنو سے شائع کیا۔ یہ کتاب ان کی غالب سے حد درجہ عقیدت کی غماز ہے۔ اس کتاب میں حالی نے غالب کے فن شعر پر غالب ہو نے کے ثابت کرنے میں صرف کیا۔ مالک رام نے یادگار غالب (۱۹۹۷ء)کے مقدمے میں اس بات کی اشارہ کیا ہے :
’’حقیقت یہ ہے کہ حالی نے یہ کتاب غالب کی سوانح عمری کے لئے نہیں لکھی تھی۔ ان کے نزدیک یہ ثانوی بات تھی۔ اصل میں وہ غالب کی شعری و ادبی حیثیت اور اس میدان میں ان کی بلند پائیگی ثابت کرنا چاہتے تھے ‘‘
            (یادگار غالب،  (مقدمہ از:مالک رام)مطبوعہ:ستمبر۱۹۹۷)
حالی سر سید احمد خان کی تحریک سے بے حد متاثر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سر سید کی حیات ’’حیات جاوید ‘‘کے نام سے لکھی۔ حالی سر سید سے اس لئے متاثر تھے کہ دونوں کے خیالات ایک تھے دونوں اپنی قوم کو ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔ ابھر تا ہوا اور دنیا سے اپنا آپا منواتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔ ایسے وقت میں حالی سر سید کی سرگرمیوں سے متاثر ہوئے تو یہ کوئی تعجب خیز امر نہیں ہے۔ 
مولانا حالیؔ  نے ابتداء میں روایتی طرز کی غزلیں کہی ہیں۔ مگر آگے چل کران کا قلم اصلا ح قوم کی طرف مائل ہو گیا۔ شعری و نثری پیرایۂ بیان میں انہوں نے اچھی خاصی مہارت حاصل کی۔ اور اپنے دور میں شاعری کی بدولت اچھے خاصے معروف ہوئے۔ ۱۹۱۴ ء میں آپ کا انتقال ہوا۔ 

No comments:

Post a Comment