(۴)
دل کو درد آشنا کیا تو نے
درد دل کو دوا کیا تو نے
طبع انساں کودی سرشت وفا
خاک کو کیمیا کیا تو نے
ناؤ بھرکر جہاں ڈبوئی تھی
عقل کو ناخدا کیا تو نے
جب ہو ا ملک و مال رہزن ہوش
بادشہ کو گدا کیا تو نے
جب ملی کامِ جاں کو لذَّت درد
درد کو بے دوا کیا تو نے
عشق کو تاب انتظار نہ تھی
غرفہ اک دل میں وا کیا تو نے
حرم آباد اور دیر خراب
جو کیا سب بجا کیا تو نے
سخت افسر دہ طبع تھی احباب
ہم کو جادو نوا کیا تو نے
پھر جو دیکھا تو کچھ نہ تھا یارب
کون پوچھے کہ کیا کیا تو نے
حالی ؔ اٹھّا ہلا کے محفل کو
آخر اپنا کہا کیا تو نے
No comments:
Post a Comment