Friday, March 22, 2013

مولاناعامرعثمانی

صفات عامر عثمانی
حسن احمد صدیقی
ظرافت: ظرافت و مزاح ان کی فطرت میں داخل تھا ۔انھیں زندگی میں بہت کم رنجیدہ و مغموم دیکھا گیا ہے۔ہر وقت ہنستے ہی رہتے ۔ ان کی گفتگو مرصع تو نہیں ہوتی تھی لیکن اتنی دلچسپ ضرور ہوتی تھی کہ سننے الا اس میں کھوجائے ۔خشک اور غمگین ہونٹوں پر تبسم کی چاندنی بکھیر دینا ان کے لئے کچھ مشکل نہ تھا ۔ آپ جس کو چاہا ہنسنے پر مجبور کردیا ۔ان کی شگفتہ مزاجی ہر عام و خاص مجلس میں انھیں ’’ہیرو‘‘ بنادیتی ۔ دیو بند میں ادبی اور شعری نشستیں ہوتیں۔ کثیر تعداد میں شعراء سامعین شریک ہوتے اورایسا محسوس ہوتا کہ یہاں عامر عثمانی کے سوا کوئی موجود ہی نہیں ہے۔
دوران گفتگو ار دوران خاموشی میں ہلکے پھلکے مزاحہ فقرے ۔۔کو شاید وہ ضروری سمجھتے تھے ضروری سمجھتے تو انھیں کسی محفل میں تو ۔۔دیکھا جاتا ۔ میں نے جن ادبی اور علمی محفلوں میں شرکت کی وہاں یہی دیکھا کہ فضا جب کسی وجہ سے بوجھل ہوئی ، عامر عثمانی ۔۔۔اٹھے اور مجمع بادل ناخواستہ بھی ہنسنے پر مجبور ہوگیا ۔
ایک ادبی نشست میں دار العلوم کے ایک طالب علم اپنی ۔۔۔ہدیہ ناظرین کررہے تھے ۔ اسی نشست میں ایک کٹر قسم کے ۔۔آدمی بھی جلوہ افروز ہیں ۔ غزل کے اشعار کچھ دعائیہ انداز کے ۔۔ان دیو بندی صاحب نے شعروں پر داد و تحسین کے ڈونگرے لٹانے کے بجائے بآواز بلند ہر شعر پر آمین آمین کہن شروع کردیا ۔ 
عامر عثمانی صاحب انھیں حیرت سے دیکھتے رہے ۔ پھر زیر لب بولے:
آج معلوم ہوا کہ آپ بھی آمین بالجہرکے قائل ہیں ۔
ایک مرتبہ میں نے اپنی ایک غزل بغرض اصلاح مرحوم کو دی ۔ انھوں نے اس کی ضروری مرمت کرنے کے بعد کہا ۔ غزل خاصی ہے لیکن میری رائے یہ ہے کہ تم شعر و شاعری کے چکر میں مت پڑو ورنہ یہ چہرے پر جتنی کتنی رونق ہے سب غائب ہوجائے گی ۔ 
ایک بر میری چھوٹی بہن سے کہنے لگے ۔
منیا! میں نے سنا تھا کہ جہیز میں تمہیں اونٹ کا بچہ بھی دیا گیا ہے ۔
ایک مرتبہ ایک صاحب دور دراز سے ان سے ملنے کے لئے آئے ۔ انھوں نے مولانا کو دیکھ کر بڑے اچنبھے کے ساتھ کہا ۔ آپ عامر عثمانی ہیں ۔ کیوں آپ کو شک کیوں ہے ؟ ظاہر ہے کہ یہ آواز مرحوم کی تھی ۔ ان صاحب نے فرمایا کہ میں نے سنا تھا عامر عثمانی صاحب کے داڑھی نہیں ہے ،اور آپ کے تو اتنی طویل داڑھی ہے ۔
یہ سن کر مرحوم مسکرائے اور بولے 
ہلا کر اطمینان کر لو ، ورنہ کہنے والے تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جو داڑھی تم دیکھ کر آئے ہو وہ مصنوعی تھی ۔ 
اس قسم کے ہزاروں فقرے میرے ذہن کے ٹیپ ریکارڈ میں محفوظ ہیں ۔ جو مرحوم کی شگفتہ مزاجی اور ظرافت کی شہادت دیتے ہیں ۔ میں ان سب فقروں کو فی الوقت کاغذ پر سمیٹنا نہیں چاہتا فی الحال تو ان کی ظرافت کا یقین دلانے کے لئے میں نے یہ چند فقرے نقل کردئے ہیں ۔ زندگی نے کبھی مہلت دی تو میں کچھ اور واقعات قلم بند کر کے قارئین تجلی کی خدمت میں پیش کروں گا ۔
ظرافت اور شگفتہ مزاجی چونکہ ان کی ذات کا جزوِ لاینفک تھی اس لئے وہ آخیر عمر تک قائم رہی ۔ موت کے بستر پر بھی انھوں نے بعض حرکتیں ایسی کی تھیں کہ جو سراپائے لطیفہ تھیں اور جنھیں ایک حساس آدمی کبھی نہیں بھلا سکتا ۔
صورتِ حال یہ تھی کہ تقاہت و کمزوری کی زیادتی نے انھیں بالکل نڈھال کر دیا تھا ۔مرض بھی ضعف اور کمزوری کی طرح غیر معمولی تھا ۔ یہ سورت حال دیکھ کر ڈاکٹروں کو اس بات کی تاکید کرنی پڑی کہ آپ کم سے کم بولیں گے ۔ قارئین سے یہ کہنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ دل کے مرض میں زیادہ بولنا خطرہ کا باعث ہوا کرتا ہے ۔ڈاکٹروں کی فہم و تشخیص کے مطابق مرض دل ہی کا تھا لہذا انھوں نے حتی الامکان زبان بند کرنے کی تاکید کی ۔ اور یہ تائید بالکل بجا تھی ۔ لیکن معاملہ کچھ ایسا تھا کہ مرحوم حتیٰ الامکان باتیں کرنے کی جدو جہد میں لگے ہوئے تھے ۔ گھر والوں نے سمجھایا کہ ڈاکٹروں نے زیادہ بولنے کو منع کیا ہے ۔ لہذا خدا کے لئے آپ چپ رہئے ۔ ڈاکٹروں کی منطق ان کے سمجھ میں نہیں آئی ۔وہ جھلائے اور انھوں نے صاف کہہ دیا کہ وہ بولیں گے اور زیادہ سے زیادہ بولیں گے ۔ ان کی یہ بے جا جھلا ہٹ دیکھ کر گھر والے بھی گڑ بڑاگئے اور انھوں نے نرمی اور ہمدردی کو طلاق رجعی دینے کے بعد کہا ۔ اب آپ نہیں بولیں گے اور بالکل نہیں بولیں گے ۔ اگر آپ نے زبان کھولی تو آپ کو کمرہ میں تنہا چھوڑ کر دروازہ بند کرلیا جائے گا ۔
وہ ذہین تھے ۔ ان کے لئے یہ سمجھنا کچھ دشوار نہیں تھا کہ اب پورا گھر بغاوت پر آمادہہے ۔ انہوں نے مسلحت اسی میں سمجھی کہ زبان پر خاموشی کا قفل چڑھالیا جائے ۔ وہ یکلٰخت دہم ہوگئے اور اسی دن انھوں نے ایک کاغذ کے پرزے پر یوں لکھا :۔
’’میں گونگا ہوں عامر عثمانی
اس کے بعد جب کوئی ان کی عیادت کے لئے حاضر ہوتا تو وہ اسے کاغذ کا پرزہ دکھادیتے ۔ گویا کہ اب زبان ہلانی بھی بند کردی ۔ اب خدا ہی جانے یہ عین فرمانبرداری تھی یا خاموشی انتقام۔
اسی دنشام کو ایک پرچہ پریوں لکھا۔۔۔۔۔۔
حسن میاں کو بلاؤ۔
گھر والوں نے آواز لگائی اور حسن میاں آگئے۔۔۔۔۔۔
حسن کو دیکھ کر انھوں نے پھر قلم کو حرکت دی اور نتیجتاً کاغذپر یہ الفاظ بکھر گئے ۔
’’حقہ لاؤ۔
حسن نے کہا دل کے مرض میں تمبا کو نوشی زہر کاکام کرتی ہے ۔ یہ سن کر بگڑ گئے ۔زبان پھر فرمانبرداری کی قید سے آزاد ہوگئی ۔بولے کون بے و قوف کہتا ہے ۔
حسن نے سٹ پٹاکر کہا ۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں ۔
بو لے ڈاکٹر اقبال سے بڑا کوئی ڈاکٹر دنیا میں موجود نہیں ہے ۔اور ڈاکٹر اقبال نے حالت سنجیدگی میں فرمایا تھا ۔۔۔کہ زہر بھی کرتا ہے کارتریاقی ۔
اور ۔۔۔اور بس۔
وقت گذر گیا یادیں باقی رہ گئیں ۔ اور یہ یادیں زندگی بھر ہمارا تعاقب کرتی رہیں گی ۔
***
سادگی 
سادگی کی مختلف پہلو ہوسکتے ہیں ۔ ایک پہلو یہ بھی ہے ۔
ایک دن کسی طالب علم کی طرح چلے جارہے تھے اور بغل میں بخاری شریف دبی ہوئی تھی ۔ میں نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ۔ کہاں تشریف لے جارہے ہیں؟
جواب دیا ۔۔۔مولانا شریف الحسن صاحب کے پاس جارہا ہوں ۔ایک حدیث کے بارے میں تحقیق کرنی ہے ۔
سادگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے :۔
ایک بار انھیں ایک مزدور کے ساتھ اس طرح جاتے ہوئے دیکھا گیا کہ مزدور کے کاندھے پر ان کا ہاتھ تھا ۔اور دوسرے ہاتھ میں ایک تھیلہ تھا ۔ یہ تھیلہ ان کا نہیں بلکہ مزدور کا تھااور اس میں اس کا یہ سامان تھا آری،ہتھوڑی ، بسولہ وغیرہ ۔قارئین یہ تو سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ یہ مزدور کوئی بڑھئی تھا ۔ اتنااور سن لیجئے کہ یہ مزدور مولانا کے گھر میں مزدوری کے طور کچھ کام کررہا تھا اور دیوبند کا ایک انتہائی غریب اور مفلس آدمی تھا ۔اس کے کپڑوں پر جگہ جگہ پھٹن اور پیوند کی شکل میں غربتوافلاس کی جیتی جاگتی نشانیاں موجود تھیں ۔۔۔ اورمولانا عامر عثمانی عثمانی جیسا عظیم المرتبت انسان اس کے ساتھ اس انداز میں چل رہا تھا جیسے دونوں ایک ہی سطح آور ایک ہی درجہ کے انسان ہوں ،جیسے ان میں کوئی ممتاز نہ ہو۔ 
سادگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے ۔اپنے لئے ہمیشہ ایسا کپڑا خرید کر لاتے جو کم سے کم داموں میں مل جاتا ۔ انتہائی سستا اور سیدھا سادا لباس انھیں مرغوب تھا ۔اچھے اور عمدہ کپڑے سے یک گونہ نفرت تھی ۔ لیکن ان لوگوں سے کبھی نفرت نہیں کی جو اچھا اور قیمتی کپڑا پہننے کے عادی ہوں ۔
ان کی طبیعت میں بخل نہیں تھا، ورنہ یہ سمجھ لیا جاتا کہ قیمتی کپڑا خرید تے وقت دم گھٹتا ہوگا ، عید و بقر عید کے موقعہ پر اور دوسری تقریبات کے لئے مشتر کہ کپڑا آتا ۔پورے گھر کے لئے عمدہ سے عمدہ اور قیمتی سے قیمتی کپڑا خرید کر لاتے اور اپنے لئے وہی معمولی اور گھٹیا ۔
سادگی کے کچھ پہلو یہ بھی ہیں ۔۔۔ سفر و حضرمیں کیا کرتے تھے۔ اپنا ہر کام خود انجام دے لیتے ۔ کپڑوں پر پیوند لگا لیتے ۔ اپنے کمرے میں جھاڑو دے لیتے ۔ بازار سے سودا خرید لاتے ۔ سواری بہت ہی ضرورت کے وقت کرتے ۔ ورنہ عموما پیدل چلتے نظر آتے ۔
ایک مرتبہ مزدوروں ے ساتھ لگ کر گھر کی دیواروں پر روغن تک کرتے دیکھا گیا ۔ علاوہ ازیں میں نے کئی بار انھیں ایسے معمولی کام کرتے دیکھا جنھیں میں نہیں کرسکتا ، حالاں کہ علم فہم، عزت،شہرت اور مرتبہ کے اعتبار سے میری ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ۔ مجھ جیسے لوگ جن چھوٹے کاموں کی انجام دہی میں عار اور ہتک محسوس کرتے انھوں نے ان کاموں کی انجام دہی میں کبھی عار اور ہتک محسوس نہیں کی ۔اور کبھی نہیں دیکھا کہ وہ کسی چھوٹے کام کے لئے مزدور کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہوں ۔
سخاوت
گلی گلی میں ان کی سخاوت کے پرچے تھے ۔ یہ تو سبھی جانتے تھے کہ محتاجوں اور بے کسوں کی مدد کرناان کی عادت ثانیہ تھی لیکن اس بات سے کوئی واقف نہ تھا کہ بعض امدادیں انھوں نے ایسی بھی د ی ہیں کہ دائیں ہاتھ سے مدد کرنے کے بعد بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہوسکی ۔ ان کی وفات کے بعد کئی رازوں سے پردہ اٹھا ۔ کئی ایسی حقیقیتیں سامنے آئیں جو خوابوں اور افسانوں سے زیادہ خوبصورت تھیں اور جو ان حقائق و وقعات کی تصدیق کر رہی تھیں جنھیں میں نے صرف کتابوں میں پڑھا تھا ۔۔۔ عمل کی دنیا میں مشاہدہ نہیں ہوسکا تھا ۔
انتقال کے بعد ایک بیوہ کی زبان سے معلوم ہوا کہ اتنی رقم ہر سال مجھے دیا کرتے تھے اور یہ رقم مقررہ تاریخ کو از خود مجھے پہنچا دیا کرتے تھے ۔
ایک دوکاندار کی زبانی معلوم ہوا کہ فلاں فلاں مکان پر ہر ماہ اتنا آٹا اور اتنا دوسرا سامان میری دکان سے جاتا کرتا تھا ۔
دارالعلوم کے کتنے ہی طلباء کا وظیفہ مقرر تھا ۔ ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو یہ وظیفہ ادا کردیا جاتااور کسی تیسرے آدمی کو خبر نہ ہو پاتی وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو سخاوت بعد میں کرتے ہیں اور حاتم طائی کا خطاب پہلے مل جاتا ہے ۔ انھیں زندگی میں سخی ہونے کے باوجود جو دو کرم کاپتلا کبھی نہیں سمجھا گیا ۔البتہ ان کی وفات کے بعد کچھ نادر رازوں سے پردہ ہٹ جانے کی وجہ سے اب دنیا میں انھیں جواد کہے تو کوئی مبالغہ نہیں ہے ۔
دارالعلوم کے بعض طلباء اور شہر کی بعض بیواؤں کا وظیفہ ابھی تک برقرار ہے ۔اقتصادی حالات نے اگر چہ ہماری کمرتوڑدی ہے لیکن انشائا للہ ہم ان وظیفوں کا سلسلہ منقطع نہیں کریں گے جو مرحوم کے جاری کردہ ہیں ۔
ایک زمانہ میں ان کے مکان کی حیثیت بیت المال کی سی تھی ۔ لوگ اپنی ضرورت کا اظہار کرتے اور انھیں کبھی قرض کی صورت میں کبھی اور کسی صورت میں کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا۔اس زمانے میں لوگوں نے انھیں بڑے فریب دئے ۔ ہزاروں فریب کھانے کے بعد انھوں نے اپنی روش بد لدی اور اس کے بعد ان کا گھر مسلم فنڈ میں متبدل ہوگیا ۔ اب صورت یہ تھی کہ کوئی چیز رہن رکھ جاؤ اور قرض لے جاؤ ۔ بیسیوں چیزیں ہر وقت ان کے بکس میں نظر آتی تھیں ۔ یہ چیز یں بطور رہن ان کے پاس موجود رہتیں ۔ مرتہن جب بھی قرض ادا کردیتا مرہونہ چیز اس کے حوالہ کردی جاتی ۔ سخاوت سے متعلق کچھ واقعات ایک صاحب قلم نے ایک مضمون میں سمیٹ دئے ہیں یہ مضمون انشا ء اللہ نمبر کی اگلی قسط میں جلوہ گر ہوگا ۔ میں اس موضوع پر اس سے زیادہ کچھ نہیں لکھتا ۔
بڑاپن
علم و فہمکو گواہ بنا کر یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ جو شخص دوسروں کی خطاؤں کو نظر انداز کردے اور اپنی خطاؤں کی ہر وقت معافی مانگنے کے لئے تیار رہے وہ بلند ہے عظیم ہے ۔رفیع المرتبت ہے ۔ ان کا عالم یہ تھا کہ دسروں کی غلطیوں کو نظر اندازی کرنے اور اگر خود سے کوئی غلطی سر زد ہوجاتی تو آئیں بائیں شائیں اور اگر مگر کرنے کے بجائے جھٹ سے اپنی کوتاہیوں کی معافی طلب کرلیتے ۔ دوسروں سے گستاخی سرزد ہوجاتی تو اسے نسیاً منسیا کردیتے ۔ میں کئی بار انھیں چھوٹے لوگوں سے معذرت اور معافی طلب کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔
ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ مجھے آواز دی (ان دنوں میں ان کے مکان کے نچلے حصہ میں رہا کرتا تھا ۔اور اس وقت ان کے اور میرے درمیان وہ نازک رشتہ قائم نہیں ہوا تھا ۔ جو بعد میں ان کی لخت جگر کے توسط سے قائم ہوا) میں فوراً ان کی آواز پر لبیک نہ کہہ سکا اور مجھے ان تک پہنچنے میں ذراسی تاخیر ہوگئی یہ تاخیربلا وجہ نہیں تھی ۔دراصل جب انھوں نے آواز دی تو میں مغرب کی نماز پڑھ رہا تھا ۔ نماز پوری کر کے اور پہنچا تو دس منٹ کا عرصہ بیت چکا تھا ۔ یہ دس منٹ انھیں بہت گراں گذرے ،اس کی ایک وجہ ان کا ایک ارجنٹ کام تھا جو ۔سرعت و عجلت کا متقاضی تھا ۔ ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس سے پہلے جب کبھی انھوں نے یاد فرمایا میں ایک منٹ گنوائے بغیر ان کی خدمت میں پہنچ گیا ۔ بہر حال وجہ کچھ بھی رہی ہو انھیں دس منٹ کی تاخیر بڑی گراں گذری اور وہ مجھے دیکھتے ہی برس پڑے ۔شاید یہ پہلااور آخریاتفاق تھا کہ انھوں نے مجھ سے تلخ لہجہ میں گفتگو کی ۔ میں گردن جھکائے کھڑا رہا اور وہ بولے چلے جارہے تھے ۔ دوبار پکار چکا ہوں ۔ معلوم نہیں کیا کرتے رہتے ہو ۔۔۔ اپنی جگہ سے ہلنا ہی نہیں چاہتے ۔ جاؤ اب مجھے تمہاری ضروری نہیں ۔ ہوگیا کام 
میں چلا آیا ۔۔۔ یہ کہنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ اس وقت میرے دل کو زبردست ٹھیس پہنچی تھی ۔۔۔ قارئین کو تجربہ ہوگا کہ محسن اور مہربان لوگ جب الفاظ کی چھڑی گھماتے ہیں تو احساس کی کائنات تھر تھرااٹھتی ہے اور پلکیں اس پانی سے تربتر ہوجاتی ہیں جو بیک وقت مہمل بھی ہوتا ہے اور ذومعنی بھی ۔ انھوں نے ہمیشہ مجھ پر احسانات کئے تھے ۔ ۔۔مجھے محبت دی تھی ۔ میری خواہشوں کا احترام کیا تھا، اپنے لب و لہجہ کا مٹھاس بخشا تھا ۔ انھوں نے ہمیشہ ہی یہ واضح کیا تھا کہ وہ میرے محسن ہیں کرم فرما ہیں ۔ صاحب شفقت ہیں ۔
ان کے ہونٹوں پر میں اپنے لئے تلخیاں کیسے گوارہ کرلیتا ۔ میرے سینہ میں دھڑکنے والے لو تھڑے پر غم اور اداسی کا کہرا چھا گیا ، لیکن یہ کہرا زیادہ دیر تک باقی نہیں رہ سکا ، اگلے دن نیچے میرے کمرے میں آئے ۔ اور سوز و گداز سے بھرے لہجے میں بولے : 
کیا ہوا ناراض ہوگئے ۔
نہیں تو۔۔۔ غالباً یہی الفاظ میری زبان سے نکلے تھے ۔
تو پھر؟
بھلا پھر کا جواب میرے پاس کیا تھا اور اگر تھا تو ادب و۔۔۔ میری زبان پر ایک پہرے دار کی حیثیت سے بیٹھے ہوئے تھے ۔ اور مجھے خاموش رہنے پر مجبور کر رہے تھے ۔چنانچہ میں چپ ہی رہا ۔
چند لمحوں تک وہ بھی چپ رہے پھر بولے:
کل جو کچھ ہوا اس پر میں شرمندہ ہوں ۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہے ۔ چلو چھوڑو،اٹھو ذرا اصلی گھی لانا ہے ۔ میں ان کے ساتھ چل دیا ۔ اور راستہ طے کرتے ہوئے مجھے یوں لگا جیسے قدرت براہِ راست مجھ سے مخاطب ہو اور کہہ رہی ہو کہ ہم نے دانستہ عامر عثمانی سے ایک غلطی کرائی تھی تاکہ تجھ پر ان کی بلند ی اور عظمت واضح ہو جائے ۔ میں پہلے بھی ان کی عظمت و ترفع کا قائل تھا ۔ اس کے بعد عقیدت میں اور زیادہ شدت پیدا ہوگئی ۔۔۔ اور اس طرح قدرت کا منشاء پورا ہوگیا ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ان کا مجھ پر برس پڑنا اغلاط کی فہرست میں نہیں آتا اس لئے کہ وہ میرے بڑے تھے اور بڑوں کو چھوٹوں پر اتنا حق تو ہونا ہی چاہئے کہ وہ انھیں ڈانٹیں ، متنبہ کریں ،تاہم انھوں نے شرمندگی کا اظہار کیااور شرمندگی کے اس اظہار نے میرے دل میں ان کی رفعت کی جڑیں اور زیادہ گہری کردیں ۔
ایک بار ایسا ہوا کہ ان کے گھر میں تعمیر و چنائی کا کام ہورہا تھا ۔ دسیوں مزدور کام میں لگے ہوئے تھے ۔ اسی دوران ایک دن ان کے کرتے کی جیب میں پانچ سو روپئے غائب ہوگئے ۔ انھیں شبہ ایک مزدور پر ہوا ۔ کچھ قرائن نے ان کے شبہ میں تقویت پیدا کردی اور انھوں نے اس مزدور سے پوچھ تاچھ کی ۔ اس نے شدت کے ساتھ انکار کیا ۔مرحوم نے اس سے زیادہ شدت کے ساتھ کہا ۔ نہیں روپئے تم ہی نے نکالے ہیں ۔
مزدور پیہم انکار کرتا رہا ۔اور و ہ اس بات کا اصرار کرتے رہے کہ نہیں اپنے جرم کا اعتراف کرو۔ چوری تم ہی نے کی ہے ۔
معاملہ ابھی رفع رفع نہیں ہوا تھا کہ ایک صاحب ۔۔ان سے ملنے آگئے۔ ان سے ملنے کے لئے وہ اپنے کمرے میں چلے آئے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ صاحب چلے گئے لیکن ان کے چلے جانے کے بعد مرحوم نے اس مزدور کو اپنے کمرے میں بلایااور اس سے دست بستہ معافی چاہتے ہوئے کہا دوست مجھے معاف کردو میں نے تم پر الزام لگایا ہے اور پھر مزدور کی آنکھوں میں تڑپنے والے بے شمار سوالوں ک جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا ۔
ہوا یہ کہ روپئے کسی طرح جیب سے گر کر نیچے رکھے ہوئے اخباروں مایں دب گئے تھے ۔ اب جو اخباروں کی گڈی اٹھائی تو اس کے نیچے سے روپئے بر آمد ہوگئے ۔
غلطی تو بے شک مرحوم ہی کی تھی کہ انھوں نے مضبوط ثبوت کے بغیر مزدور کو سارق سمجھ لیا تھا ۔لیکن پھر بر ملا انھوں نے اپنی غلطی کی معافی چاہ کر یہ ثابت کردیا تھا کہ وہ فطری طور پر عظیم ہیں ۔ بڑائی اور عظمت ان کے لہو میں تحلیل ہے ۔ آخر وہ یہ بھی تو کرسکتے تھے کہ روپئے مل جانے کے بعد کوسی کو ہوا بھی نہ دیتے اور چپ ہو کر بیٹھ جاتے لیکن وہ ایسا نہیں کرسکے انھوں نے کھلے عام اور کھلے الفاظ میں اپنی غلط فہمی کی دت بستہ معافی طلب کرلی اور اس طرح انھوں نے یہ ثابت کردیا کہ بڑا آدمی اگر اپنی غلطی کا اعتراف کرلے تو اس سے اس کی بڑائی میں کوئی اضمحلال پیدا نہیں ہوتا ۔ بلکہ اس کے بڑے پن میں ایک گوہ اضافہ ہوجاتا ہے ۔ چنانچہ وہ مزدور جو اس واقعہ سے پہلے انھیں صرف ایک بڑا عالم سمجھتا تھا ، اس واقعہ کے بعد ایک بڑا انسان بھی سمجھنے لگا ۔
کئی بار میں انھیں ایسے لوگوں سے معافیاں طلب کرتے دیکھا ہے معاشرہ جنھیں جوئی حیثیت نہیں دیتا اور دنیا جنھیں ذلیل سمجھتی ہے اپنی غلطی مان لینے کی صفت فی زمانہ عنقا اور نادر الوقوع ہوچکی ہے ۔ میں نے کئی بار بڑے بڑے چوٹی کے پر ہیز گاروں کو غلطیوں اور لغزشوں کا شکار ہوتے دیکھا ہے لیکن میری آنکھوں نے یہ منظر کبھی نہیں دیکھاکہ ان پرہیز گاروں نے اپنی غلطیوں اور لغزشوں کا اعتراف کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہو کہ وہ واقعی خدا ترساور پرہیز گار ہیں۔ تصنع ،تکلف،بناوٹ اور عاجزی و انکساری کی ایکٹنگ عام ہے ۔لیکن فی الحقیقت کتنے ایسے لوگ ہیں جو واقعی خود کو چھوٹا حقیر اور ذرہ بے مقدار سمجھتے ہوں۔۔۔؟
مومنانہ اعتماد
بے شک مومن کوے کی طرح چالاک نہیں ہوتا ۔ وہ اکثر دنیا کے بچھائے ہوئے دام فریب میں آجاتا ہے ۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ مومن سچ بولتا ہے ،صداقت کا پرستار ہوتا ہے ۔ جھوٹ سے اسے نفرت ہوتی ہے ۔ وہ اس کذب خفی ار کذب جلی کے پاس بھی جانا نہیں چاہتا جس کو اس کے مذہب نے منافقت کی نشانی قرار دیا ہے ۔
اور نفسیات یہ کہتی ہے کہ جھوٹا آدمی کبھی دووسروں پر اعتماد نہیں کرتا اور سچ بونے والا ہر کاذب کی لن ترانیوں پر بھی ایمان لانے کے لئے تیار رہتا ہے ۔ کاذب و صادق کو پرکھنے کی سب سے بہترین کسوٹی یہی ہے جو شخص دسروں پر بڑی حد تک اعتماد کرتا ہے سمجھ لیجئے کہ وہ خود بھی قابل اعتماد ہے اور جو دوسروں کی دعوں کو ہوائی اور کھوکھلے سمجھتا ہے یقین کر لیجئے کہ اس کے اپنے دعوے بھی ہوائی اور کھوکھلے ہوتے ہیں ۔
مرحوم عامر عثمانی صاحب میں جہاں اور صفتیں تھیں وہاں یہ صفت بھی موجود تھی کہ وہ دوسروں کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے ۔دوسروں پر خصوصاً پرانے۔ یہ سب ان کے حق میں ہمیشہ غیر مفید ہی رہی ۔ یا ر لوگ ان کی اس صفت کو کمزوری پر محمول کرتے ہوئے بہت کچھ ناجائز فائدہ اٹھا لیاکرتے تھے ۔
ایسے ہزاروں واقعات نقل کئے جاسکتے ہیں کہ ان کے مومنانہ اعتماد کا دنیا نے غلط فائدہ اٹھا یا ۔ لیکن کاغذ کی تنگ دامانی تفصیل میں جانے کی اجازت نہیں دیتی بس ایک واقعہ سن لیجئے :
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک طالب علم نے مولانا کے پاس ایک جوڑی کڑوں کی رکھوائی بطور رہن اور بطور قرض دوسو(۲۰۰)روپئے مرحوم سے وصول کر لئے ، مدت گذر گئی وہ طالب علم لوٹ کر ہی نہیں آئے ۔ طویل در طویل انتظار کے بعد بھی ۔۔۔ان طالب علم کی کہیں جھلک نظر نہیں پڑسکی تو مرحوم کو خیال ہوا کہ کہیں وہ مر تو نہیں گئے ۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ ان کے مر۔۔چلنے کی تحقیق کس سے کی جائے ۔ ان کے پاس ان کا مکمل تحریر نہیں تھا ۔ مکمل کیا غیر مکمل پتہ بھی موجود نہیں تھا جس ۔۔۔سہارا لے کر ان کی تلاش کی جاتی ۔ مجبوراً صبر کئے بیٹھے رہے۔ 
ایک دن مرحوم کو خیال ہوا کہ ان کے کڑوں کے بارے میں یہ تحقیق کی جائے کہ وہ کتنے وزن کے ہیں اور بازار میں کتنی قیمت میں فروخت ہوسکتے ہیں ۔فوراً ہی انھوں نے ۔۔خیال کو عملی جامہ پہنایا اور بکس میں سے وہ کڑے نکالے۔۔۔میں سے بعض افراد نے ان کڑوں کا مشاہدہ کرتے ہی پر۔۔آواز میں کہا۔ یہ کڑے سونے کے نہیں رولڈ گولڈ کے ہیں یونی زیادہ سے زیادہ پندرہ روپئے کے ۔
اب مولانا کا یقین دیکھئے ۔بولے:
نہیں ۔یہ ہرگز نہیں ہوسکتا ۔ تم لوگوں کو سونے کی پہچان ہی نہیں ہے ۔ یہ یقینی طور پر سونے کے ہیں ۔
گھر والوں کا دعویٰ وہی تھا کہ خالص رول گولڈ ۔۔مرحوم گھر والوں کے دعوے کی تردید کرتے رہے اور یہی ر۔۔رہے کہ تم لوگ پہچاننے میں غلطی کھارہے ہو ۔ یہ سونے ہی ۔۔ہیں۔
اب گھر والوں نے کہا آخر آپ اتنے یقین کے ۔۔انھیں سونا کیوں قرار دے رہے ہیں ۔ 
مرحوم نے مطمئن لہجہ میں کہا۔ اس لئے کہ یہ کڑے ۔۔دارالعلوم کے طالب علم نے بطور رہن رکھوائے تھے ۔۔۔سو فیصد ی یقین ہے کہ دارالعلوم کا طالب دھوکا نہیں دے سکتا البتہ تمہاری سمجھ ٹھوکر کھاسکتی ہے۔
گھر والوں نے کہا مناظرہ ختم آپ کسی سنار کو دکھایا ،سنار کی سمجھ تو ٹھو کر نہیں کھاسکتی ۔ بات معقول تھی ،انھوں نے بازار میں جاکر ایک سنار کو کڑے دکھائے اور سنار نے ہی کہا جو اہل خانہ کہہ رہے تھے ۔ بے میل اور خالص رول گولڈ ۔۔۔۔سونے کا حبہ بھی شامل نہیں ۔گھرواپس آئے تو اہل خانہ نے پوچھا کہئے کیا رہا۔
۔۔۔ہے تو رول گولڈ ہی لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ اس بے چارے طالب علم کو کسی سنار نے سونا کہہ کر رول گولڈ ۔۔بھیڑ دیا ہو۔ یہ تو کوئی ضروری نہیں کہ فریب کاری طالب علم ۔۔ نے کی ہے۔
قارئین یہ واقعہ پڑھ کر خداجانے کیا رائے قائم کریں ۔۔۔ لیکن میرا یہ دعویٰ ہے کہ یہ مومنانہ اعتماد تھا ۔اور اس کی نظریں مرحوم اسلاف کی زندگیوں میں تو نظر آتی تھیں آج کل کے بزرگوں میں نظر نہیں آتیں ۔اور اگر کچھ نظریں ہیں تو ۔۔برائے نام اور برائے ذکر۔
***

No comments:

Post a Comment