Friday, March 22, 2013

یہ نام نہاد دیوبندی


یہ نام نہاد دیوبندی 
سوال۵؂: از:۔ عبد الوحید ۔ ضلع بہر ائچ
الحمد للہ ناچیز نے جب سے ہوش سنبھالا ہے علمائے دیوبند کا معتقد رہا ہے ۔ شرک و بدعت ، میلہ و اعراس کے متعلق جو نظر یہ علمائے دیو بند کا ہے ناچیز بھی اس سے بالکل متفق ہے یہ سمجھ کر کہ یہی نظر یہ اسلام کا ہے ۔ کچھ عرصہ سے مولانا ابو الو فا صاحب شاہ جہان پوری اور مولانا محمد قاسم صاب ناظم جمعیۃالعلماء یو‘پی وعظ کے سلسلے سے عرس کے موقع پر درگاہ سید سالار مسعود غازی ؒ پر تشریف لاتے ہیں اور درگاہ میں جو عام لنگر جاری ہوتا ہے اسی میں سے کھاتے ہیں اور ایک صد روپیہ نظرنہ وصول کرتے ہیں رقم جو نذرانے کے طور پرلیتے ہیں اور جس سے لنگر پکتا ہے وہ سب چڑھا وے کی آمدنی ہوتی ہے جس کو ہم سب درست نہیں سمجھتے ہیں ۔ امسال عرس کے موعقہ پر تو کمال ہی ہوگیا وہ یہ کہ مزار پو مولانا محمد قاسم صاحب خود چڑھا وا چڑھوا رہے تھے ، مولانا کا یہ رویہ دیکھ کر بہت سے لوگ جو مزارات پر چڑھا واچڑھانے اور چڑھی ہوئی چیزوں کو اپنے استعمال میں لانے کوبرا سمجھنے لگے تھے اب تذبذب میں پڑگئے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ جب ایک دیو بندی عالم مزار پر چڑھا وا چڑھوا تا ہے اور چڑھی ہوئی رقم میں سے نذرانہ لیتا ہے تو ہمیں چڑھاوا چڑھا نے اور چڑھی ہوئی چیزوں کو استعمال کرنے میں کیا حرج ہے ۔ یہ بھی واضح ہو کہ مزار پر چڑھی ہوئی چادر بھی مذکورہ بالا مولوی صاحبان برابر لے جاتے ہیں ۔
براہِ مہر بانی آپ اپنے رسالہ تجلی کے ذریعہ اس کی شرعی حیثیت سے روشناس فرمایئے تاکہ میرا اور ان تمام لوگوں کا شک و شبہ دو ر ہوسکے جو مولانا مووف کے رویہ کے بعد پید ہوگیا ہے ؟
الجواب:۔ محترم دوست! جس طرح بریلوی علماء کے ذہن و فکر کی مٹی شیطان نے پلیدکی ہے اسی طرح وہ ظالم علمائے دیوبند کے کے پیچھے بھی لگا ہوا ہے ۔ اور چاہتا ہے کہ ان کا خانہ خراب کردے کچھ دنوں پہلے علمائے دیو بند کی قوت عمل زیادہ جاندار تھی ، وہ زہد و تقویٰ کو دانتوں سے پکڑ ے اس مسافر کی سی زندگی گذاررہے تھے جسے راستے کی دلفریبیوں سے سروکار نہیں ہوتا ،بلکہ اپنی منزل کی دھنلگی رہتی ہے ۔ لیکن پھر زمانے کی ہوا نے ان کے تنفس کو بھی مسموم کیا اور شیطان کی مسلسل و سیسہ کاریوں نے انھین بھی شرک و بدعت سے مفاہمت کی راہ پر لگادیا ۔ پہلے پہلے یہ مفاہمت درپردہ تھی کم کم تھی ۔ پھر یہ پرَ پرُ زے نکالتی گئی ۔ پھیلتی بڑھتی گئی اور اب آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ رکن حدوں کو پھلانگ کر کہاں تک جاپہنچی ہے ۔
مولانا ابوالوفا اور مولانا محمد قاسم ۔۔۔واقعۃً دیوبندی کتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں یا نہیں ؟ اس میں ہمیں شک ہے ۔ لیکن اگر واقعۃً ان کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ دیوبندی مسلک کے آدمی ہیں اور دوسرے لوگ بھی انھیں دیو بندی ہی مسلک کا ترجمان سمجھتے ہیں تو اچھی طرح سن لیجئے کہ دیو بند یت کسی نسلی یا وطنی خصوصیت کا نام نہیں جو ایک بار چپکنے کے بعد مرتے دم تک چھٹنے ہی کا نام نہ لے ۔ قبوری بدعتوں کی حوصلہ افزائی ، عرسوں میں شرکت اور نذر و نیاز کے مذموم جھمیلوں سے تعلق خاطر کا گھنا ؤ نا نظارہ دیکھنے کے بعد ہر عاقل و بالغ بلاتامل کہہ سکتا ہے کہ اگر یہ لوگ پہلے ’’دیو بندی ‘تھے تو اب نہیں رہے ۔دیو بند جس طرز فکر کا نام ہے اس میں ان بدعات کی کوئی گنجائش نہیں کوئی شخص دیو بند یت کا دعویدار ہوتیہوئے بھی اس طرزِ فکر کا عملی مظاہرہ کرتا ہے تو دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں ۔ یا تو وہ صریحاً دھوکادے رہا ہے یا وہ ابن الوقت ہے کہ گنگا گئے تو گنگارام اور جمنا گئے تو جمنا داس۔
جو لوگ مذکورہ دونوں علماء کا ر ودی دیکھ کر تذبذب میں پڑگئے ہیں ان سے پوچھئے کہ کیا وہ بے شمار مسلمانوں کو فسق و معصیت میں مبتلا دیکھ کر نفسِ اسلام ہی کے بارے میں تذبذب کا شکار ہوگئے ہیں ۔۔ اگر نہیں تو پھر دو علماء کی متذکرہ حرکات سے انھین ان عقائد کے بارے میں کیوں تذبذب لاحق ہوا جو دیو بند یوں کے اپنے گھڑے ہوئے نہیں ، بلکہ قرآن و سنت کے پاکیزہ سر چشمے سے نکلے ہوئے ہیں ۔
یاد رکھئے ۔ قبروں کے عرس، چڑھاوے اور دیگر مروجہ طور طریق بدعت و معصیت ہی رہیں گے چاہے سہارا دیو بند مل کر بھی ڈھنڈورا پیٹے کہ یہ چیزیں جائز ہیں ۔ مسلمانوں کا شراب پینا ‘ سود لینا ‘ گالی بکنا اگر یہ معنی نہیں رکھتا کہ اسلام میں یہ چیزیں جائز ہوگئی ہیں تو کسی نام نہاد دیو بندی عالم کا قبوری شریعت اور مردہ پرستی کی سر پرستی کرنا یہ معنی کیوں کر رکھ سکتا ہے کہ یہ بدعات و خرافات دیو بندی مسلک میں رو اقرار پا گئی ہیں ۔
متذکرہ دونوں علماء کے ذاتی اوصاف و احوال سے ہمیں واقفیت نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ ہوسکتا ہے یہ حضرات اربابِ زہد و تقویٰ میں سے ہوں اور علم و فہم کے اعتبار سے بھی ممتا ز درجہ رکھتے ہوں ، لیکن یہ بہر حال یاد رکھئے کہ شیطان کے مکر وفن کی زد سے کوئی باہر نہیں ہے وہ اچھے اچھے صالحین کو ادنیٰ تر منافع اور حقیر ترین مصالح کے پیچھے دوڑا دیتا ہے ۔ ابن الوقتی کا سبق دینا تو اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور ساتھ ہی وہ فقہی رعایتوں اور حیلوں کا ایک تھیلا بھی آگے بڑھا دیتا ہے کہ لو اس میں تمہارے فعل و عمل کی تصویب و تائید کے لئے گھڑے گھڑائے دلائل کا بہت سا ذخیرہ موجودہے ، جو منہ آئے اسے دلائل کی مارد دوا اور اپنی ابن الوقتی کو عین حکمت و دور اندیشی ثابت کر کے معترضین کو ’’وہابی‘ ‘قرار دے ڈالو۔ 
عرس بازی ، لنگر بازی اور قبوری نذر و نیاز کی ہر بازی ہر حال میں بدعت ہی رہے گی ، چاہے دو دیوبندی نہیں ، بلکہ سارا دیو بند شریعت قبویکے آستانے پر گھٹنے ٹیک دے ۔ دین ہم دیو بندیوں کے فکر و عمل کا نام نہیں ہے ۔ دین تو اللہ اور رسول کے فرامین و ہدایان کا نام ہے۔ وہ اٹل ہیں غیر متبدل ہیں ‘ لافانی ہیں ۔ ان قبوری میلوں اور من گھڑت ہنگاموں اور بے اصل اجتماعوں کا کوئی جواز اللہ کے دین مبین میں نہیں ہیجنھیں آج مسلمانوں کے بہت برے انبوہ نے عین ثواب جان کر حرز جان بنالیا ہے ۔ زوال آمادہ قوموں کا اس طرح کی گمراہوں میں سر گرداں ہونا یک تاریخی کلیہ ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکت ۔ تھیٹر ، سینما ، کلب گھر اور شراب خانے اتنے خطر ناک مقامات نہین ہیں جتنے اولیأ اللہ کے مزارات بن کے رہ گے ہیں ۔ اول الذکر کی قباحت وشناخت کو ہر مسلمان جانتا ہے او بد قسمتی سے اگر ان تک پہنچ بھی جاتا ہے تو اس جہل مرکب میں گرفتار ہیں ہوتا کہ میں کوئی فعلِ خیر انجام دے رہا ہوں ، بلکہ یہی سمجھتا رہتا ہے کہ گناہ کررہا ہوں ۔ لیکن مزارات کے میلے تو وہ سسین دلدل بن کے رہ گئے ہیں کہ صراطِ مستقیم سے ہٹے ہوئے لوگ اس میں گلے گلے دھنس جانے کے بعد بھی یہی سمجھتے رہتے ہیں ہم روح القدر کے پروں پر سوا ر ہیں اور ثواب و برکت کے بے حساب خزانے آخرتمیں ہمارا انتظار کررہے ہیں ۔
حالاں کہ خدا محفوط رکھے شرک ہی وہ سب سے ملعون معصیت سے جس کی معافی کا کوئی امکان ہی نہیں ، اگر جہنم اور محاسبۂ آخرت پر یقین کی طرح یقین ہوتا تو ہر صاحب ایمان کو اس پر خطر گھای سے کوسوں دور بھاگنا چہئے تھا جہاں شرک کی زہریلی ہوا کا معمولی سابھی اندیشہ ہو، مگر ہو یہ رہا ہے کہ کج فکر ، کم نظر اور بے پوا علماء کی ایک فوج عوام کو غول درغول ان قبوری ہنگامہ آرائیوں کی طرف ہنگامے لئے جارہی ہے جہاں خدائی کے تمام اوصاف مردہ بزرگوں کے ہاتھ میں دیدئے گئیہیں اور عقیدہ تو حید محض کھلونے کے طور پر ذہن و قلبکی محرابوں میں سجا کر رکھ دیاگیا ہے ۔
یہ رو۔۔۔ یہ طوفانِ ضلالت۔۔۔ یہ طغیانِ جہل ابھی اور آگے بڑھے گا ۔ اس کیلئے ہر آج گذشتہ کل سے زیادہ ساز گار ہے ۔ اس کے خروش کو تیز تر کرنے ولے عناصر بدلتے ہی جارہے ہیں ۔
ہم سے جہاں تک ہوسکتا ہے فریضہ ابلاح ادا کئے جارہے ہیں ، لیکن تنکوں سے طوفان کے منہ نہیں پھرا کرتے کسی کاجی چاہے تو ہماری معروجات پر دھیان دے لے ۔ نہ چاہے تو اسے اختیار ہے ۔ واللہ یھدی من یشاء الیٰ صراط مستقیم۔ 

No comments:

Post a Comment