Monday, March 18, 2013

محسن ہند قاضی اطہر مبارک پوریؒ




محسن ہند قاضی اطہر مبارک پوریؒ
بہت سے  علماء نے  عربی زبان و ادب میں  خاص دلچسپی دکھائی اور اس کی خدمت کی، قاضی اطہر مبارک پوریؒ کا شمار ایسے  ہی علماء میں  ہوتا ہے۔ آپ کا اصلی نام تو عبد الحفیظ تھا، لیکن آپ اپنے  حقیقی نام سے  زیادہ اپنے  تخلص اطہرؔ  سے  مشہور ہوئے۔ قاضی آپ کے  نام کا جزء اس لیے  بنا کہ آپ کے  افرادِ خاندان لمبے  عرصے  تک منصبِ قضا پر فائز رہے۔ 
نسب نامہ اس طرح ہے : قاضی عبد الحفیظ اطہرؔ  بن محمد حسن بن لعل محمد بن محمد رجب بن محمد رضا بن امام بخش بن علی شہید۔ آپ کا خاندان عوام کی اصلاح اور تمسک بالدین میں  معروف تھا۔ پیدائش ۴! رجب ۱۲۵۹ھ میں  محلہ حیدرآباد، مبارک پور، اعظم گڑھ میں  ہوئی۔ نانا کا نام عبد الحفیظ تھا۔ اس سے  قبل مبارکپور قاسم آباد کے  نام سے  پہچانا جاتا تھا۔ پھر امیر سید مبارک شاہ نے  امیر اطوار ہمایوں  (۹۳۷ھ-۹۶۳ھ) کے  زمانے  میں  اسے  آباد کیا اور اپنا نام دیا۔ نیز امیر مبارک شاہ کے  ساتھ ایک محتاج علمی قافلہ یہاں  منتقل ہوا، اور یہی خاندان نسل بعد نسل دینی معاملات اور منصب قضاء کی نیابت کرتا رہا۔ اس کے  بعد امیر مبارک شاہ ’’رامانک پور ‘‘ واپس ہوئے، اور وہیں  ۲  شوال ۹۶۵ھ میں  انتقال کر گئے۔ آپ کی والدہ کا خاندان بھی علمی خاندان تھا۔ دادا بھی علم و فضل میں  یکتا تھے۔ والدہ پاکیزگی اور تقویٰ میں  معروف تھیں۔ قاضی صاحب کی زندگی پر اس کے  بڑے  خوبصورت اثرات مرتب ہوئے۔ والدہ کا انتقال ۱۳۵۳ھ میں  ہوا۔ اور اس وقت آپ کی عمر ۱۸ سال تھی۔ والدہ کی طرح آپ کی نانی علم و ورع میں  یکتا تھیں۔ انہوں  نے  ساری زندگی اپنے  ہی گھر میں  محلے  کی لڑکیوں  کو قرآن پڑھانے  کے  لئے  وقف کر دی۔ جب وہ اسی سال کی ہوئیں  تو ۲۶  رمضان ۱۳۷۸ھ کو انتقال کر گئیں۔ نانی صاحبہ نے  بھی آپ کی خوب اچھی تربیت کی۔ نانا شیخ احمد حسین رسولپوری (م:۱۳۵۹ھ) اپنے  وقت کے  مشہور عالم تھے۔ نیز ڈھاکہ (موجودہ بنگلہ دیش) ایک مدرسے  کے  لمبے  عرصے  تک صدر المدرسین رہے۔ قاضی صاحب نے  اپنے  نانا اور ان کی کتابوں  سے  بہت زیادہ استفادہ کیا۔ نیز اپنے  ماموں  مولانا محمد یحییٰ (م: ۱۳۷۸ھ) سے  بھی فائدہ اٹھایا۔ اور آپ نے  اس بات کا اعتراف کیا ہے  کہ جو کچھ انہوں  نے  علم حاصل کیا ہے  وہ محض اپنی والدہ کے  خاندان کا فضل تھا۔ 
آپ نے  پڑھنے  کا آغاز قرآن کریم سے  کیا۔ اور قرآن پڑھنا اپنے  والدین سے  سیکھا۔ پھر حساب سیکھنے  کے  لیے  مدرسہ احیاء العلوم میں  منشی اخلاق احمد (م: ۱۴۰۴ھ) کے  پاس گئے۔ پھر کبوتر بازی میں  رغبت کی وجہ سے  اسباق کی حاضری میں  کوتاہی کرنے  لگے۔ جب والد محترم کو اس بات کا علم ہوا تو خوب مار کر استاذ کے  حوالے  کر دیا۔ اس سے  آپ شرمندہ ہوئے  اور اسی وقت سے  سبق اور اساتذہ سے  استفادہ کرنے  کا اہتمام کیا۔ ان اساتذہ کے  نام یہ ہیں :
نعمت اللہ مبارکپوری (م: ۱۳۶۲ھ) آپ کے  پاس فارسی، خط نسخ و خط نستعلیق سیکھی۔ 
مفتی محمد یاسین مبارکپوری (م:۱۴۰۴ھ) جن کے  پاس بہت سی عربی کی کتابیں  پڑھیں۔ 
شکر اللہ مبارکپوری (م: ۱۳۶۱ھ) کے  پاس کتب منطق وفلسفہ پڑھی۔ 
بشیر احمد مبارکپوری (م: ۱۴۰۴ھ) کے  پاس بعض کتب منطق پڑھی ہیں۔ 
محمد عمر مبارکپوری (۱۴۱۵ھ) کے  پاس تفسیر جلالین اور دوسری کتابیں  پڑھیں۔ 
محمد یحییٰ رسولپوری (۱۳۸۷ھ) کے  پاس علم عروض، علم قوافی اور علم ہیئت حاصل کیا۔ جو آپ کے  ماموں  تھے۔ 
قاضی صاحب نہایت ذہین و فطین تھے۔ ابتداء میں  جب ’’نحو میر‘‘ اور ’’علم الصیغہ‘‘ ختم کیا تو جمعے  کا خطبہ سمجھنے  لگے۔ جب ’’مقامات حریری‘‘ پڑھنے  کے  مرحلے  پر پہونچے  تو درسی کتب کسی کی مدد کے  بغیر پڑھنے  لگے۔ درس نظامی کی مروجہ کتب اپنے  گاؤں  مبارکپور کے  مدرسے  احیاء العلوم میں  پڑھیں۔ وہ دائم المطالعہ تھے۔ درسی و غیر درسی کتب سے  حد درجہ شغف رکھتے  تھے۔ اپنے  ساتھیوں  کو زمانۂ طالب علمی میں  ہی پڑھانا شروع کر دیا۔ جامعہ قاسمیہ (شاہی) مرادآباد سے  پڑھ کر (۱۳۵۹ھ!۱۹۴۰ء)کو واپس ہوئے۔ وہاں  درس نظامی کی متعینہ کتب حدیث پڑھیں۔ 
صحیح بخاری، سنن ابو داوٗد، سنن ابن ماجہ، مشہور محدث فخر الدین احمدؒ (۱۳۹۳ھ!۱۹۷۳ء) سے  پڑھیں۔ صحیح ترمذی مولانا محمد میاں ؒ (۱۳۹۵ھ!۱۹۷۵ء) کے  پاس اور صحیح مسلم مولانا محمد اسمٰعیل سنبھلیؒ کے  پاس پڑھیں۔ جامعہ قاسمیہ کو ۱۳۵۴ھ میں  دوبارہ گئے۔ لیکن وہاں  صرف دو ماہ رہے۔ اس دوران ابو تمام کی حماسہ اور زمخشری کی مقامات مولانا محمد میاں  کے  پاس پڑھیں۔ 
آپ نے  طالب علمی کے  زمانے  سے  شعر گوئی شروع کر دی تھی، اور یہ اشعار ’’فرقان‘‘ بریلی(۱۳۵۷ھ)، ’’قائد‘‘ مرادآباد (۱۳۵۷ھ) اور لاہور کے  کے  رسائل جیسے  زمزم، کوثر اور مسلمان میں  چھپنے  لگے۔ ان اشعار سے  آپ کی شہرت علمی حلقوں  تک پہونچ گئی۔ اس کے  ساتھ ساتھ ۲۲۵ اشعار پر مشتمل ایک قصیدہ لکھا جو اصحاب صفہ کے  متعلق تھا۔ اس کے  بعد تصنیف و تالیف اور صحافت کے  میدان میں  ایسا اترے  کہ شاعری ترک کر دی۔ طالب علمی کے  زمانے  سے  ہی مقالے  لکھنا شروع کر دیے۔ پہلا مقالہ ’’مساوات‘‘ کے  عنوان سے  ’’مومن‘‘ بدایوں  (۱۳۵۳ھ) میں  طبع ہوا۔ مدرسہ احیاء العلوم کے  قلمی ماہنامے  کے  مدیر منتخب ہوئے۔ جرائد ورسائل کے  مطالعے  میں  خوب منہمک رہے۔ اور ان سے  خوب استفادہ کیا۔ بعدہٗ غیر منقسم ہندوستان کے  کئی رسائل میں  لکھا، جیسے : ’’پیامِ تعلیم‘‘ دہلی، ’’الجمعیۃ‘‘ دہلی، ’’مومن‘‘ بدایوں، ہفت روزہ ’’العدل‘‘ گوجرانوالہ۔ اس کے  بعد مسلسل ’’قائد‘‘ مرادآباد میں  لکھنے  لگے۔ آپ کے  مقالات بڑے  علمی اور انتہائی معیاری ہوا کرتے  تھے۔ یہی وجہ ہے  کہ ایک مرتبہ ایک رسالے  کے  مدیر نے  آپ کے  نام کے  ساتھ مولانا اور فارغ دارالعلوم دیوبند لکھا تھا۔ (یہ اس وقت کی بات ہے  جب آپ ’’ہدایہ‘‘ اور اس جیسی دوسری کتابوں  کے  طالب علم تھے )اس پر آپ نے  مدیر کے  نام لکھا کہ میں  ابھی طالب علم ہوں۔ پھر آپ کے  مقالے  ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ، ’’برہان‘‘ دہلی، ’’دارالعلوم‘‘ دیوبند، وغیرہ مجلات میں  شائع ہونے  لگے۔ اور ماہنامہ ’’البلاغ‘‘ کے  عرصے  تک مدیر رہے۔ اس طرح مجلہ ’’برہان‘‘ دہلی بھی آپ کی نگرانی میں  نکلتا رہا۔ گویا آپ نے  زندگی کا بڑا حصہ صحافت میں  گزار دیا۔ تقسیم کے  بعد بہرائچ پہونچے  اور مجلہ ’’انصار‘‘ کی ذمہ داریوں  میں  مصروف ہو گئے۔ پھر بمبئی اس زمانے  میں  پہونچے  جب ’’انقلاب‘‘ نیا نیا شروع ہوا تھا۔ پھر مجمع شیخ الہند کے  نگراں  مقرر ہوئے۔ جس نے  آپ کی بعض کتابیں  شائع کی ہیں۔ ان تمام مصروفیات کے  باوجود تصنیف و تالیف، درس وتدریس میں  منہمک رہے۔ 
قاضی صاحب جیسا کہ پہلے  ہم نے  ذکر کیا ہے  کہ ایام طالب علمی میں  ہی اپنے  ہم نشینوں  کو پڑھاتے  تھے۔ تعلیم ختم کر کے  مدرسہ احیاء العلوم میں  خود پڑھانا شروع کیا۔ اس کے  بعد جامعہ اسلامیہ ڈھابیل میں  ادبِ عربی اور تاریخ کے  استاذ مقرر ہوئے۔ نیز بمبئی میں  بھی درس وتدریس کے  فرائض انجام دیے۔ آپ نے  کئی مرتبہ دیوبند کا بھی سفر کیا۔ جب بھی دیوبند جاتے ، کم از کم جاتے  دو ہفتے  قیام کرتے  اور اس دوران دیوبند کے  طلباء بعض کتابیں  پڑھتے  تھے۔ 
تصنیف و تالیف کے  میدان میں  آپ کو بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ عرب تک آپ کی شہرت پہونچ گئی۔ آپ کی چند معروف تصانیف یہ ہیں :
۱۔خیر الزاد فی شرح بانت سعاد(آپ کی پہلی عربی کتاب) غیر مطبوعہ, مرآۃ العربیۃ (غیر مطبوعہ)
۳۔ائمہ اربعہ (جس کا مسودہ ناشر سے  کھو گیا)، ۴۔ الصالحات في سیرۃ بعض الصحابیات (اس کا مسودہ بھی ناشر نے  گم کر دیا)،۵۔ اصحاب الصفہ ۲۲۵ اشعار، اس کا بھی یہی حشر ہوا۔ زمانۂ طالب علمی میں  لکھی گئی یہ آپ کی پہلی کتاب تھی۔ 
۶۔ رجال السند والہند (عربی) مطبوعہ قاہرہ، ۷۔ العقد الثمین في فتوح الہند ومن ورد فیہ من الصحابہ والتابعین (عربی) مطبوعہ قاہرہ، ۸۔شرح وتعلیق جواہر الأصول في علم الحدیث (عربی)، ۹۔الہند في العہد العباسي (عربی)
۱۰۔ عرب وہند عہد رسالت میں  (اردو) اس کتاب کا ترجمہ مصری عالم عبد العزیز عبد الجلیل عزت نے  عربی میں  کیا اور قاہرہ سے  طبع ہوئی۔ ۱۱۔ہندوستان میں  عربوں  کی حکومتیں  (اردو) اس کا ترجمہ بھی مذکورہ عالم نے  کیا اور قاہرہ سے  طبع ہوئی۔ ۱۲۔اسلامی ہند کی عظمت رفتہ ۱۳۔ خلافت راشدہ اور ہندوستان ۱۴۔ خلافت بنو امیہ اور ہندوستان۱۵۔ مآثر ومعارف  ۱۶۔ تعلیمی وتبلیغی سرگرمیاں  عہد سلف میں  ۱۷۔ علیؓ و حسینؓ  ۱۸۔ اسلامی نظام زندگی ۱۹۔  مسلمان  ۲۰۔  طبقات الحجاج  ۲۱۔  حج کے  بعد  ۲۲۔  معارف القرآن  ۲۳۔  افادات حسن بصریؒ ۲۴۔  تذکرہ علمائے  مبارکپور  ۲۵۔  بنات الاسلام  ۲۶۔  خیر القرون کی درسگاہیں   ۲۷۔  تدوین سیر ومغازی  ۲۸۔  قاعدہ بغدادی سے  صحیح بخاری تک  ۲۹۔  دیار یورپ میں  علم و علماء  ۳۰۔  آثار و اخبار  ۳۱۔  اسلامی شادی  ۳۲۔  شرح و تعلیق تاریخ اسماء الثقات لابن شاہین البغدادي ۳۳۔  نشر الدیوان العربی لجدہ من الأم بعد ما جمعہ بعنوان ’’دیوان احمد‘‘
پاکستانی علماء کے  پاس آپ کی شخصیت اور تحقیقات کی بڑی قدر و منزلت ہے۔ اسلامی تہذیب و تاریخ پر آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے  ہوئے   ’’محسنِ ہند‘‘ کا لقب دیا، پاکستان میں  منعقد ہونے  والے  علمی سیمناروں  میں  آپ کو مدعو کیا جاتا تھا۔ اس کے  ساتھ ساتھ آپ کی بعض کتب کو عالم عربی میں  مصدر و مرجع ہونے  کا شرف حاصل ہے۔ قاضی صاحب کو علم حاصل کرنے  کی بہت تڑپ تھی۔ مطالعۂ کتب کا بڑا گہرا شغف تھا۔ جس کی وجہ سے  امہات الکتب اور دوسری کتابوں  کا اتنا بڑا ذخیرہ جمع ہو چکا تھا گویا بہت بڑا کتب خانہ ہو۔ مطبوعات و مخطوطات کی اتنی کثرت ہو گئی تھی گھر تنگ دانی کا شکوہ کرنے  لگا۔ اس کتب خانے  کا فیض تھا کہ آپ نے  بڑی معیاری اور خوبصورت کتابیں  علمی دنیا کے  سامنے  پیش کیں۔ 
آپ کے  ہاں  ابتداء میں  بہت تنگی تھی۔ گزر اوقات بہت مشکل تھی۔ اس لیے  زمانۂ طالب علمی میں  ہی جلد سازی کا کام کرنے  لگے۔ جلد سازی کے  لوازمات اعظم گڑھ جا کر لاتے  تھے۔ وہ بھی پیدل، اس میں  کئی گھنٹے  صرف ہوتے  تھے۔ لیکن اس کی وجہ سے  انہوں  نے  تعلیم ترک نہ کی۔ کتابوں  سے  بہت محبت تھی۔ اس لیے  پیسہ پیسہ جمع کرتے۔ جب اتنے  پیسے  جمع ہو جاتے  کہ کوئی کتاب خرید لی جائے  تو کتاب خرید لیتے۔ زندگی کا بڑا حصہ تنگی و ترشی میں  گزرا۔ لیکن اخیر عمر میں  اللہ تعالیٰ نے  آپ پر رزق کے  دروازے  کشادہ کر دیے۔ حتیٰ کہ آپ کا شمار مبارکپور کے  امراء میں  ہونے  لگا۔ بچپن سے  ہی آنکھیں  کمزور تھیں۔ لیکن ضعفِ بصارت کی وجہ سے  کثرتِ مطالعہ سے  نہیں  رکے۔ اور نہ ہی اس چیز نے  کثرت تصنیف و تالیف سے  روکا۔ آپ سادہ طبیعت، مہمانوں  کی خوب خاطر داری کرنے  والے، پاکی صفائی کو پسند کرنے  والے  تھے۔ اپنے  شہر مبارکپور میں  ایک ادارہ ’’دائرہ حلبیہ‘‘ کے  نام سے  قائم کیا۔ جس نے  آپ کی بہت سی کتب شائع کی ہیں۔ آپ نے  اجتماعی ملی خدمات بھی انجام دی ہیں۔ چنانچہ آپ مہاراشٹرا کی طرف سے  ’’الجمعیۃ‘‘ کے  ناظم تھے، الہیئۃ التعلیم الدیني کے  ناظم بھی تھے۔ نیز قوانین الأموال الشخصیۃ الأسلامیۃ کے  مؤسسین میں  آپ کا شمار ہوتا ہے۔ اخیر عمر میں  ناک میں  ایک زخم ہو گیا۔ جس کا علاج اعظم گڑھ میں  کیا گیا۔ لیکن کثرت سے  خون بہا، جو کمزوری کا سبب بنا۔ اس کی وجہ سے  بخار لاحق ہوا اور ایک عرصے  تک رہا۔ بالآخر اتوار کے  دن رات دس بجے  ۲۷ صفر ۱۴۱۷ھ کو آپ نے  داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ پیر کے  دین بڑے  بڑے  علماء، عمائدین کی موجودگی میں  تدفین عمل میں  آئی۔ اللہ آپ پر لاکھوں  رحمتیں  نازل کرے۔ آمین.
(عربی سے  تلخیص)
٭٭٭

No comments:

Post a Comment