Saturday, March 23, 2013

حیدرآباد کے چند اہم جدیدغزل گو


حیدرآباد کے چند اہم جدیدغزل گو 
ظہیر دانشؔ عمری
حیدرآباد فرخندۂ بنیاد مختلف تہذیبوں کا جامع شہر ہے، جس کا سنگ بنیاد ابراہیم قلی قطب شاہ(1580-1550) کے تیسرے فرزند محمد قلی قطب شاہ(1611-1580) نے رکھا، حیدرآباد کی تعمیر 1000ھ میں چار مینار کی تعمیرسے شروع ہوئی، جس کا اختتام 1007ھ میں ہوا(۱)اردو کے حوالے سے حیدرآبادکو مرکز کی حیثیت پہلے بھی حاصل تھی اورآج بھی ہے، جامعہ عثمانیہ وہ پہلی یونیورسٹی ہے جس میں اردو زبان کو ذریعۂ تعلیم کی حیثیت سے اختیار کیا گیا، یہاں کے حکمرانوں نے جیسی اردو کی سر پرستی کی اس کے لیے اپنے خزانے کھول دئے تواردو کے بیشتر ارباب کمال نے حیدرآباد کا رخ کیا اور ان کی خوب قدرافزائی کی گئی، جن میں سے چند قابل ذکر نام یہ ہیں: داغ دہلوی، امیرمینائی، فانی بدایونی، جوش ملیح آبادی ، صدف جائسی۔
دکنی شاعروں سے لے کر آج تک حیدرآباد کے شعرانے غزل سے جیسی محبت وعشق کا اظہار کیا ہے، غزل کو جس نزاکت کے ساتھ استعمال کیا ہے، اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ذیل کے مضمون میں حیدرآباد اہم ترین جدید غزل کے شاعروں کا تذکرہ مختصر طور پر کیا جاتا ہے۔
جدید غزل کے شاعروں میں خورشید احمدجامی(۱۹۱۰۔۱۹۷۰) کو صفِ اول میں جگہ دی جاسکتی ہے موصوف مشاعروں میں بہت کم شرکت کرتے تھے، البتہ رسائل وجرائد کو اپنا کلام پابندی سے ارسال کیاکرتے تھے، غزل کو نئے استعاروں اور تشبیہات کے ذریعے آپ نے ثروت مند بنایا، آپ کے شعری مجموعے ’’رخسار سحر‘‘ ’’برگ آوار‘‘ ’’یاد کی خوشبو‘‘ ’’قسمت عرض ہند‘‘ آج کل نایاب ہیں، اپنی شاعری کے تعلق سے موصوف نے لکھا ہے: ’’نئے ذہن اور نئے شعور کے سویرے میں ایسی ہی ایک حقیر سی کوشش میری غزلوں میں نظر آئے گی۔ میرے فن نے تجربات کی دھوپ میں جوزخم چنے ہیں ان کو پیار کی خوشبو سے مہکا کر نذرحیات کرتا ہوں‘‘(۲)
تمھارے درد کو سورج کیا ہے نیا اسلوب غزلوں کودیا ہے
کچھ نہیں ان راستوں میں دور تک کھڑا کھڑاتے خشک پتوں کے سوا 
بہت دنوں سے میرے دل کے پاس ہوتی ہے کوئی نگاہ کسی حسرت بیاں کی طرح
کوئی ہلچل ہے نہ آہٹ نہ صداہے کوئی دل کی دہلیز پہ چپ چاپ کھڑا ہے کوئی
مخدوم محی الدین، سکندر علی وجہ، شاذتمکنت اور سلیمان اریب کی شاعری میں جدیدیت کی گہری چھاپ نظر آتی ہے، خواہ شاعری کے موضوعات ہوں یا اسلوب، ان کی شاعری جدت طرازی سے آراستہ ہے، سلیمان اریب (۱۹۲۲۔۱۹۷۰) ترقی پسند تحریک کے روح رواں تھے، اس کے لیے آپ کوکئی مرتبہ زنداں کا قیدی بھی بنایا گیا۔ چاررسائل کے مدیر رہے۔ اخیر میں اپنا رسالہ صبا جاری کیا۔ جو آخری تک نکالتے رہے۔ شاعری کے دو مجموعے ’’پاس گریباں‘‘ ’’کڑوی خوشبو‘‘ شائع ہوچکے ہیں۔
لب پر آہیں، سینے خالی ایسے عاشق عام بہت ہیں
ویسے پینا جرم نہیں ہے لیکن ہم بدنام بہت ہیں
ہم سے آوارہ مزاجی کا بھرم ہے ساقی اپنی پرواز میں جبریل کا دم ہے ساقی
لڑکھڑاتے ہوئے اُٹھے تو فلک تک پہونچے یہ بھی تیری نگہہ لطف وکرم ہے ساقی
سلیمان اریب نے آزاد نظم، نثری نظم، رباعی اور قطعہ میں بھی طبع آزمائی کی۔
’’موسم سنگ‘‘ اور ’’ایک سخن اور‘‘ کے شاعر مضطر مجاز(پ:۱۹۳۵) جدید غزل کے اہم شاعر ہیں آپ نے منظوم ترجمے کی جانب بھی توجہ دی، علامہ اقبال کے فارسی مجموعے طلوع مشرق، پیام مشرق، اارمغان مجاز اور جاوید نامہ کے ترجمے کیے، فی الحال روز نامہ منصف کے ادبی صفحے کی ادارت آپ کے ذمے ہے، منصف کے معتبر ومعیاری ادبی صفحے سے آپ کی ادبی صلاحیتوں کا ہلکا سا اندازہ ہوتا ہے۔ عالم خوند میری، پروفیسر سید وحیدالدین سلیم، ڈاکٹر مغنی تبسم نے آپ کی شعری وترجمہ نگاری کی صلاحیتوں کو تسلیم کیا اور آپ کی توصیف کی، موصوف نے اپنی غزل میں استعارات کے ساتھ ساتھ جدید دور کے مختلف واقعات کو بطور تلمیح اپنی غزل میں برتا ہے، آپ کی غزل میں اسلامی مزاج رکھنے والے بیشتر شعر بھی ہمیں ملتے ہیں۔
اس چمن میں کیا یہی دستورہے پھول کے تم مستحق پتھر کے ہم
میں نگاہ باغباں میں کوئی اور ہوگیاہوں ابھی چاردن ہوئے کہ جلا ہے آشیانہ
رؤف خیر ؔ (پ:۱۹۴۸) نے بکثرت لکھا اور متعدد ادبی رسائل وجرائد میں مسلسل چھپتے رہے۔غزل کے ساتھ ساتھ نظم ،رباعی ہائیکو کے علاوہ بیشتر نئی اصناف سخن میں اپنے تخلیقی جوہر دکھائے،اقرا (۱۹۷۷) ایلاف (۱۹۸۲) شہداب(۱۹۹۱) سخن ملتوی (۲۰۰۴) خیریات(۲۰۱۰) آپ کی شاعری کے صحیفے ہیں، آپ کسی بھی موضوع کو بشرطیکہ وہ اچھوتا اور انوکھا ہو بڑی بے ساختگی کے ساتھ اپنی شاعری کا حصّہ بناتے ہیں، آپ کی غزلوں میں مذہبیات سے متعلق بہت سے شعر مل جاتے ہیں،مسلکاً اہلحدیث ہونے کے سبب اپنی شاعری کو قرآن وسنت کا ترجمان بنانے میں بہت حدتک کامیاب نظر آتے ہیں، اپنی شاعری کے بارے میں رؤف خیر یو ں لکھتے ہیں:
’’میرے اپنے محسوسات، جذبات ، تجربات ومشاہدات دسروں سے کسی نہ کسی سطح پر مختلف ہیں۔یہی میرے ہونے کا جواز ہے۔۔۔میں کوشش یہی کرتا ہوں کہ کوئی ایسی بات نہ کہوں جو کہی ہوئی ہے میری تخلیقات گواہ ہیں کہ خود اپنے آپ کو بھی میں کبھی نہیں دہراتا میں شاعری میں آزری کا نہیں بت شکنی کا قائل ہوں۔ اس کے باوجود زبان وبیان کی تمام تر باریکیوں کا لحاظ رکھنے کی امکان بھر کوشش کرتا ہوں، میں چونکہ زبان وبیان سے کھلواڑ نہیں کرتا اس لیے اہل نظر میرے شعر کو پسند کا درجہ دیتے ہیں‘‘(۳)رؤف خیر کی شخصیت اور ان کے فن پر صبیحہ سلطانہ ایم۔فل کی ڈگری حیدرآبادسنٹرل یونیورسٹی سے حاصل کی ہے۔
اب رتجکے ہیں جیسے لہو میں رچے ہوئے کیا رات تھی کہ ایک کہانی میں کٹ گئی 
کیا بھرے اشجار آخر ہاتھ خالی ہوگئے بس ہوا گزری تھی یونہی ڈالی ڈالی کھیلتے
دوقدم چلتے ہی اب تو پھولنے لگتی ہے سانس ہاتھ پاؤں میں اگر دم ہوتا کچھ بھی کھیلتے
سورج ہے کہ بس نوک پہ سوئی کی کھڑا ہے اب فرصت کم کم بھی میرے بھائی کہاں ہے
خوں چوستے لمحوں سے کہو ہاتھ پساریں احساس کی صورت ابھی زردائی کہاں ہے
وہ شخص بڑے چاؤ سے کچھ پوچھ رہا ہے تو ایسے میں اے لذت گویائی کہاں ہے
رؤف خیر کی ہر غزل کی خاصیت یہی ہے کہ اس میں کم از کم دوتین شعر ضرور ایسے مل جاتے ہیں جو اُن کی شناخت کا وسیلہ بنتے ہیں۔
اسد ثنائی کی شاعری میں خود شناسی وخود اعتمادی کا جو احساس ہے وہ ان کے معاصرین میں کم ہی ملتاہے، اپنے متنوع اسالیب، موضوعات کے سبب اسد کی غزل اور نعت یگانہ محسوس ہوتی ہے۔ آپ کی غزلیات کا مجموعہ شہر جاں کی سرحدیں ۲۰۰۳ میں شائع ہواتھا۔ جس کے بعد نعتوں کا مجموعہ مشک آسماں ۲۰۰۶ء میں شائع ہوا ہے’’ الأنصار‘‘ نامی نہایت خوب صورت، معیاری اور ضخیم سالنامہ شائع کرتے ہیں جو تسلسل کے ساتھ اشاعت پذیر ہورہا ہے، مناظر عاشق ہرگانوی ،جمیل الدین شرفی، سکندر احمد، شہزاد سلیم نے آپ کی غزل ونعت کی کھل کر تعریف کی ہے۔ حیدرآباد کے جدید غزل کے معاصر شعرامیں آپ کانام نمایاں ہے، غزل میں آپ کا کمال فن انتہا کو پہونچتا ہوا محسوس ہوتا ہے بقولِ مناظر عاشق ہرگانوی: ’’اسدثنائی کی نظموں اور غزلوں میں تیقن ملتا ہے۔ جذبے کے لطیف ترین عنصر کی فراونی ملتی ہے اور فکری بلندی کی قوت سے بو قلموں نکات ومسائل میں بے ساختہ پن ملتا ہے ۔کلاسیکت اور جدیدیت کے رجحان کے امتزاج کی پاسداریہ غزلیں اور نظمیں فکر انگیز اور مثبت سوچ رکھتی ہیں‘‘ (۴) راہی فدائی نے آپ کے کی نعت کے حوالے سے لکھا ہے: ’’اسد ثنائی نے غزلوں کے علاو نعتوں میں بھی جدت طرازیاں دکھلائی ہیں‘‘(۵)
درد کے آتش کدے سے اب دھواں اُٹھتا نہیں جسم زندہ ہے مگر احساس مردہ ہوگیا
نئے مزاج نئے راستوں کی خواہش میں جدیدیت کا پیمبر بنا ہنر سے گیا
آنکھ بے خواب ہوگئی ایسی جسم ہو جیسے بے لباس کوئی
عمر بھر جس کا ساتھ میں نے دیا زندگی کیا ہے ! ناسپاس کوئی
رات بھر جاگتا ہے دیوانہ اپنی آنکھوں میں لے کے پیاس کوئی 
اس محفل کے سب سے کم عمر اور آخری شاعر سردار سلیم ہیں۔جنہوں نے بہت ہی کم عمری میں اپنی شاعری کے ذریعے بڑے بڑے نقادوں اور شاعروں کو اپنا معتقد بنالیا ہے، ’’دھیان کی رحل‘‘ ’’راگ بدن‘‘ اور ’’رات رانی‘‘ آپ کے شعری مجموعے ہیں، سردار سلیم کی غزل میں ہلکا سا طنز موجودہ معاشرے پر ملتا ہے، اس کے علاوہ قدیم وجدید موضوعات بھی آپ کے مخصوص اسلوب میں غزلاتے گئے ہیں، آپ کے تیسرے مجموعے’’رات رانی‘‘ کاپیش لفظ مولانا سید جمیل الدین شرفی نے لکھا ہے، نوجوان شاعر کی خوب توصیف کی اور انصاف پسندی سے کام لیا، ورنہ عام طور پر بڑی عمر والے لوگ کم عمروں کی تحقیر کرتے نظر آتے ہیں۔
حضرت جمیل الدین شرفی کا مختصر اقتباس پیش کیا جاتا ہے: ’’سردار سلیم اپنے مجموعہائے شعری سے ثابت کرچکے ہیں کہ وہ اردو زبان وادب میں اضافے اور ترقی کا باعث ہیں، ان کا فن اور زبان کو برتنے کا ڈھنگ خوب سے خوب تر ہے، غزل ہوکہ نظم دوہا ہو کہ گیت ہر صنف میں اپنی پہچان آپ ہیں۔ جدید آزاد لہجے پر بھی عبور کے مالک ہیں، پابند اور روایتی اسلوب میں بھی وہ یکتا ہیں‘‘(۶)
اور خود سردار سلیم کو اس بات کی بڑی شکایت ہے کہ ان کے ہمعصروں میں حیدرآباد میں ان کے علاوہ کوئی ایسا شاعر نہیں ہے، جس سے امیدکی جاسکتی ہے کہ سچی اور اچھی شاعری سے اردو ادب کو مالامال کرے گا، ان کا یہ خیال واحساس کچھ غلط بھی نہیں ہے، بقول سردار سلیم: ’’سچ کہوں تو میرے آس پاس کے ماحول میں شاعری کی بہتات ہے مگرمیں نہ جانے کیوں اسے قحط شعر کا عہد کہنے پر مجبور ہوں۔۔خصوصاًمیرے دیار محبت حیدرآباد میں شاذؔ ، جائی اور مخدومؔ کے بعدآنے والی کھیب میں چند ایک میرے پسندیدہ شاعر ہیں لیکن اس کے بعد والی جس سے میرا تعلق ہے نہایت کمزور اور بے جان ہے‘‘(۷)
؂ اناج پانی وفا آبروراحت یہاں کسی نہ کسی شئے کا کال چلتا رہا
ہوس ہرن کی طرح پھرتی رہی تھیں چوکڑیاں خمیر مست قلندر کی چال چلتا رہا
زباں اب کھلی جبکہ تم جارہے ہو تو پہلی دفعہ آخری بات کرلیں؟
مجھ کو جی بھر کے دیکھ لینے دو گفتگو مت کرو،مگر بیٹھو
دل کو اتنا ہی چین ملتا ہے اس کی محفل میں جس قدر بیٹھو
آج خود کو جواب دینا ہے آج دنیا سے بے خبر بیٹھو
یہ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے اہم ترین جدید غزل گو تھے، جن کا ذکر بہر حال ضروری تھا۔ ان کے علاوہ بھی کچھ اور جدید غزل گو ہوسکتے ہیں۔ جن کے یہاں جدید رجحانات واحساسات کا پتہ چلتاہو لیکن فہرست سازی میرا مقصد اور کام نہیں ہے۔
***
حواشی
(۱) مآثر دکنی سید علی اصغر بلگرامی، ص:۷
(۲) انتخاب کلام جامی، مئی ۱۹۹۶، ص:۵۶
(۳) خیر یات، رؤف خیر، ۲۰۱۰، ص:۵ اور ۶
(۴) شہر جاں کی سرحدیں، اسد ثنائی، ۲۰۰۳، ص :۱۴
(۵) مشک آسماں، اسد ثنائی، ۲۰۰۶،ص:۱۵۷
(۶) رات رانی، سردار سلیم، ۲۰۰۶،ص:۹
(۷) رات رانی، سردار سلیم، ۲۰۰۶،ص:۴
Zaheer danish Umari,8/209-5,Almas pet,Bismilla Nagar,Kadapa 516001(A.P)Cell:9701065617 E-mail:zaheer_dani@yahoo.co

No comments:

Post a Comment