Friday, March 22, 2013

قربانی۔


قربانی۔
سوال۸؂:۔از محمد عبدالکریم ۔اونگ آبادد کن ۔
اگست ۶۲ ؁ء کے تجلی میں ’’تفہیم الحدیث ‘‘ کے ذیل میں یہ ۔۔۔۔۔کر کہ اسلام میں انسانوں ہی کے ساتھ نہیں جانوروں تک کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی گئی ہے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر تو جانوروں کو ذح کر کر کے کھانا نہایت بے رحمانہ فعل ہوا اور قصاب حضرات تو بڑی ہی ستم رانی کے مرتکب ہیں ۔ کیا رسول و کے زمانے میں بھی یہ سلسلہ رائج تھا؟ 
(سوال غیر ضروری طویل تھا ۔ مختصر کردیاگیا ہے تاہم جواب میں ہم جملہ شبہات کا لحاظ رکھیں گے ۔)
الجواب:۔ معلوم ہوتا ہے آنجناب نہ تو دینی لٹریچر کا مطالعہ فرماتے ہیں نہ قرآن ہی کو کبھی ترجمے کے ساتھ پڑھا ہے ورنہ سطحی شبہ آپ کے ذہن میں نہ ابھرتا ۔ خوب سمجھ لیجئے کہ اچھائی اور برائی ، ظلم اور عدل کی حقیقت کو سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور اسے جاننا بھی چاہئے کہ وہی تو ہر شئے کا خالق و مالک ہے ۔ کوئی معاملہ اچھا ہے یا برا ، طلم پر مبنی ہے یا انصاف پر۔ اس کا فیصلہ ہم اپنے فہم و قیاس کے ذریعہ اس وقت کریں گے جب اللہ اور اس کے رسول ؐ کی طرف سے اس معاملہ میں کوئی واضح ہدایت نہ ملی ہو۔ لیکن اگر یہ ہدایت موجود ہے تو پھر ہمارا صرف یہ کام ہے کہ اسی ہدایت کے آگے اپنی زبان اور سرہی کو نہیں دل اور دماغ کو بھی نیاز مندانہ جھکادیں ۔
جانوروں کو ذبح کر کے غزا بنانا اللہ اور رسول ؐ کی صریح ہدایات کے مطابق عین عدل ہے ظلم ہرگز نہیں ۔ آپ کو نہیں معلوم کہ ہمارے حضورؐ نے حجۃ الوداع میں ایک ہی دن سو(۱۰۰) قربانیاں کی تھیں جن میں سے ۶۳ تو خود اپنے دست مبارک سے کی تھیں ۔ 
یہ تو جواب تھا مسلمانوں والا یعنی سمعنا واطعنا 
عقلی جواب یہ ہے کہ جن جانوروں کی قربانی اللہنے جائز رکھی ہے انکا مقصدِ پیدائش ہی یہ ہے کہ انسان ان سے فائدہ اٹھائیں ۔ سواری کا فائدہ ہو یا ہل میں جوتنے کا ۔ دودہ حاصل کرنے کا ہو یا غذا بنانے کا ۔ یہ عین مقصدِ پیدائش کے مطابق ہے ۔ لہٰذا ظلم کا سوال ہی پیدا نہین ہوتا ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ عورت کو بچہ جننے سے قبل شدید درد زہ سے گذرنا پڑتاہے ۔ اسیبھی نعوذ باللہ خدا کا ظلم کہناپڑے گا اگر فیصلہ سطحی مطالعہ پررکھا جائے لیکن یہ یقیناًظلم نہیں ہے کیوں کہ طبعی شے ہے ۔ نظام فطرت کا جزوِ لازم ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ سب سے بڑا انصاف والا ایک ایسی تکلیف کو لازمۂ حیات بنادے جس پر ظلم کا اطلاق ہوسکے ۔
بس اسی سے سمجھ لیجئے کہ حلال جانوروں کی قربانی اگر چہ صورۃً ظلم نظر آتی ہے لیکن حقیقتاً وہ قدرت کے نظام تکوینی کا ایک جزو اور ان جانوروں کے مقصدِ تخلیق کاایک تقاجا ہے ۔ اسے ظلم تصور کرنے والے نازک مزاجوں کو پھر یہ بھیچاہئے کہ عورتوں کیپاس نہ پھٹکیں کیوں کہ قرب کے نتیجے میں وہ انھیں دردزہ کی شدید اذیت میں مبتلا کرنے کے مجرم بن رہے ہیں ۔
بلکہ گہری نظر سے دیکھئے تو دردزہ والی کیفیت بظاہر ذبح سے زیادہ ظالمانہ ہے کیوں کہ ذبح کا کرب تو منٹ د ومنٹ کا ہوتا ہے مگر درد زہ کی کم سے کم مدت بھی اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے ۔ علاوہ ازیں انسانی احساس ووجدان کرب و اذیت کے قبول کرنے میں حیوانات سے زیادہ کی اور سریع الحس ہیں ۔ لہٰذا کیفیت و کمیت دونوں اعتبار سے ایک عورت دردِ زہ میں ا س سے کہیں زیادہ تکلیف اٹھاتی ہے جتنی ایک جانور صحیح اسلامی طریق پر ذبح کئے جانے میں اٹھاتا ہے ۔
اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ جانوروں کو جیتے جی غیر ضروری اذیت دینا اور بات ہے اور ان کو منشائے قدرت کے مطابق ذبح کر کے کھانابالکل دوسری بات ۔ پہلی بات کے لئے عقل و منطق اور انسانی اخلاق کے اعتبا ر سے کوئی وجہ جواز نہیں جب کہ دوسری کے لئے جواز ہی جوا ز کے وجود موجود ہیں ۔
ویسے یہ ہمیں اعتراف کرنا چاہئے کہ قصابوں کی جہالت و شقاوت اور مسلم معاشرے کی ابتری نے ذبح کے نظام میں بعض ایسی خرابیاں پیدا کردی ہیں جنھیں خود اسلام بھی پسندیدہ نگاہ سے نہیں دیکھتا لیکنان خرابیوں کی وجہ سے نفس ذبح کے جواز ۔ اور بعض حالتوں میں وجوب پر کوئی اثر نہیں پڑتا 

No comments:

Post a Comment