- کچھ اپنے بارے میں
ناچیز کا اصلی نام سید ظہیر ہے، ظہیر الدین کے قلمی نام سے ادبی دنیا میں مجھے جانا جاتا ہے۔ مطالعے کا ذوق و شوق بچپن سے تھا۔ اردو زبان سے محبت گھٹی میں پڑی ہوئی تھی، مجھے یاد آ رہا ہے کہ جب میں سات سال کا تھا تو انجمن اشاعت اسلام کی اردو کی تیسری پڑھ رہا تھا۔ استاذ ایک صفحہ سبق دیتے تو میں تین صفحات سنا آتا۔ رفتہ رفتہ یہی میری عادت بن گئی۔ استاذ بھی میرے اس شوق سے بہت خوش تھے، مجھ پر خصوصی توجہ دینے لگے۔
جب شعور کچھ اور جوان ہوا تو میں نے اپنے گھر میں کتابوں کو تلاش کیا، چند کتابیں میرے ہاتھ لگیں، جو غالباً یہ تھیں، آداب زندگی، آمنہ کا لال، قصص الانبیاء، پہلی فرصت میں ان تینوں کتابوں کو چاٹ ڈالا۔ کچھ سمجھ میں آیا کچھ نہیں، یہ میری کتابوں سے پہلی دوستی تھی۔ پہلا شعوری معانقہ تھا۔ اس کے بعد جب بھی میں نے کتاب کی طرف نظر دوڑائی اس نے مجھے مایوس نہ کیا۔
اس کے بعد شعور نے کروٹ لی، کچھ اور بیدار ہوا، میں دارالعلوم حیدر آباد میں حفظ کا طالب علم تھا۔ مجھے غالباً ماہانہ ۵۰ روپیے ملا کرتے تھے، جن کا بہترین مصرف میری نظر میں یہ تھا کہ ان سے کتابیں خرید لی جائیں۔ میں چار مینار جاتا، جو جو کہانی کی کتاب پسند آتی خرید لاتا۔ میں نے قصۂ حاتم طائی، الف لیلہ اسی دور میں پڑھی۔ مکتبۂ جامعہ سے اپنی پسند کی کتابیں بھی کبھی کبھار منگوا لیا کرتا تھا۔ ڈوب کر مطالعہ کرتا تھا۔ ہمارے ساتھیوں کو میرے مطالعے کے ذوق پر حیرت تھی۔ کیونکہ عموماً حفظ کے طلباء اردو صحیح سے دیکھ کر پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ حفظ کے طلباء کو اردو سکھانے کے لیے ایک گھنٹہ مختص تھاعبد الوھاب صاحب ہمیں اردو پڑھاتے تھے۔ وہ نہایت مشکل الفاظ املا کراتے، میں بغیر کسی دقت کے صحیح املا کر دیتا۔ جسے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوتے۔ جب امتحان کا وقت آیا تو اردو کا امتحان غالباً مولوی زکریا صاحب نے لیا تھا۔ انہوں نے میری اچھی کارکردگی پر خوش ہو کر غالباً ایک روپیہ انعام کے طور پر دیا تھا، مجھے اس انعام کے حصول پر اتنی خوشی ہوئی کہ مت پوچھیں !
رات میں سونے کے قریب اپنے دوستوں کو کہانیاں سنایا کرتا تھا، جنہیں وہ بغور سنا کرتے تھے۔ پیام تعلیم بڑی دلچسپی سے پڑھا کرتا تھا۔ اس کے اشعار، لطائف بطور خاص پڑھ کر اپنے ساتھیوں کو سنایا کرتا تھا۔
میرے حفظ کے استاذ مولانا صلاح الدین صاحب تھے، جو بلاک بیلٹ تھے۔ ہمیں کراٹے سکھاتے تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں ان سے زیادہ مشفق، مہربان،نرم دل، مخلص استاذ کہیں نہیں دیکھا۔ فجر کے فوری بعد میں سبق سنا دیا کرتا تھا، بعد میں آرام سے پارۂ سبق اور آموختہ سناتا۔ خاص دوستوں میں سے سیف اللہ خالد عمری، حافظ عظیم الحق، محمد اعظم اعظمی قاسمی، محمد طلحہ شامل تھے۔ سوائے اعظم کے سبھی ایک ہی جماعت کے طلبہ تھے۔ ایک ہی استاذ سے پڑھتے تھے۔ ہم سب نے ایک ساتھ قرآن ختم کیا، تقریباً ۲۰ دورے بھی کیے۔ مسابقۂ حفظ قرآن پر گویا ہ،اری حکومت تھی، پہلا، دوسرا، تیسرا انعام ہماری جماعت کو ملنا یقینی تھا۔ دارالعلوم حیدرآباد کی لائبریری المکتبۃ الخالدیۃ سے میں نے از حد استفادہ کیا۔ تاریخ الخلفاء ہو یا تاریخ دارالعلوم، تحریک ریشمی رومال ہو یا تاریخ حرمین، مولانا قاسم نانوتوی، حیات اور ادبی خدمات ہو یا سوانح قاسمی، یہ تمام کتابیں میں نے یہیں پڑھیں، خطبات کی کتابوں میں خطبات دین پوری بڑے شوق سے پڑھتا تھا۔ اگر چہ تقریر و خطابت سے مجھے دور دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔
ارتکاز مطالعہ مجھے یہاں میسر نہیں تھا۔ ایک موضوع پر مختلف مصنفین کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھنا اور اپنی معلومات کو وسعت دینا میرے لیے یہاں ممکن نہ تھا۔ کیونکہ یہ کتب خانہ بکھرا ہوا کتب خانہ تھا۔ میرے مطالعے کی تسکین کے لیے معتد بہ کتابیں یہاں موجود نہیں تھیں۔ ضرورت یہ سمجھی گئی کہ کسی دوسرے کتب خانے سے استفادہ کیا جائے۔ افضل گنج کا کتب خانۂ آصفیہ اپنی بیش بہا کتابوں، نادر مخطوطات کے لیے شہرت رکھتا تھا۔ ایک جمعرات کی شام بڑی جماعت کے ایک ساتھی محمد حامد کے ساتھ اس لائبریری کا رخ کیا۔ عقل حیران تھی کہ خدایا ! یہ میں کس جہاں میں آ گیا۔ کہ یہاں قدم قدم پہ علم و ادب کے موتی بکھرے پڑے تھے۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ! بھلا میرے لیے اچھی کتابوں سے بہتر کیا چیز ہو سکتی تھی! میں نے کتب خانۂ آصفیہ کو لازم پکڑ لیا۔ خوب کتابیں پڑھیں، ناول پڑھے، افسانوی مجموعے، سیرت پر کتابیں، شاعری کے مجموعے، تاریخی کتابیں دل لگا کر مزا لے لے کر پڑھیں۔ میرا معمول تھا کہ جمعہ کے دن صبح سات بجے غسل سے فارغ ہو جاتا، پھر سیدھے کتب خانۂ آصفیہ چلا جاتا، بس کے ذریعہ جانے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگ جاتا، ٹھیک آٹھ بجے میں لائبریری میں داخل ہو چکا ہوتا، اپنی پسند کی کتاب لی اور لگے مطالعہ کرنے ! اس کے بعد ہوش اس وقت آتا جب جمعہ کی اذان ہوتی، جمعہ کی نماز کے لیے جانے کو جی نہ چاہتا، مگر زبردستی کر کے قریبی مسجد ’’مسجدِ چمن‘‘ میں جمعہ پڑھنے چلا جاتا، نماز کے بعد واپس آ کر اپنے پسندیدہ شغل مطالعے میں غرق ہو جاتا، غالباً شام پانچ بجے یہاں سے واپس ہوتا، میں نے اپنے دوست کے نام سے لائبریری کا ممبر کارڈ بھی بنا رکھا تھا، جس کے توسط سے ایک آدھ کتاب کبھی کبھی مدرسے لے آتا۔ ایک آدھ دن میں وہ کتاب ختم ہو جاتی۔
آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ کسی بڑی جماعت کے طالب علم کے شوق ہیں، نہیں ! بالکل نہیں !یہ ضرب یضرب، نصر ینصر کی گردان کرنے والے جماعت اول کے طالب علم کے شوق ہیں، غالباً اسی سال بیت بازی کا مقابلہ منعقد ہوا، جس میں ایک پوائنٹ سے ہماری ٹیم ہار گئی، جماعت سوم میں پھر بیت بازی کا مقابلہ ہوا، مجھے ایک ٹیم کا لیڈر مقرر کیا گیا، پچھلی ہار مجھے نہیں بھولی تھی، میں نے جم کر تیاری کی، اپنے ساتھیوں کو بھی خوب تیار کیا، حتیٰ کہ مقابلے کا دن آ گیا، الحمد للہ میں نے مخالف ٹیم کو شکست فاش دے دی، بیت بازی کے اس مقابلے میں ہماری ٹیم کو فاتح شمار کیا گیا، اچھے انعامات سے نوازا گیا، جو کتابیں مجھے اس وقت انعام میں دی گئیں تھیں وہ آج بھی میرے پاس محفوظ ہیں۔
اس دوران مجھے جامعہ دارالسلام جانے کا اتفاق ہوا، (جہاں میرے دوست کے۔ خالد سیف اللہ عمری کرنولی پڑھ رہے تھے ) میں نے جب جامعہ کا ماحول دیکھا، وہاں کی عمارتیں دیکھیں تو بے اختیار میرا دل مچلنے لگا کہ اگر پڑھنا ہے تو اسی مدرسے میں پڑھنا ہے ورنہ نہیں ، سالانہ امتحانات ختم ہوئے، میں نے اپنے والد صاحب کے ہمراہ جامعہ کا رخ کیا۔ جامعہ سے اگرچہ کہ نا منظوری آئی تھی مگر ہم مایوس نہیں ہوئے۔ بالآخر بڑی مشکلوں سے جماعت چہارم میں میرا داخلہ ہو گیا۔ وہاں کی لائبریری پہلی فرصت میں دیکھ ڈالی، کتابوں کا انبار دیکھ کر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، جماعت چہارم سے میرے مطالعے کا جو سفر شروع ہوا وہ آٹھویں جماعت پہ ختم ہوا۔
کتاب ہی کے حوالے سے ادباء شعراء سے رابطہ رہنے لگا، مختلف اخبارات ورسائل میں میرے تبصرے !تعارفی مضامین شائع ہونے لگے۔ اس کے بعد مجھ پر لکھنے کا جنون سا طاری ہو گیا۔ میں مسلسل لکھتا رہا، شائع ہوتا، ادباء شعراء اپنی کتابیں تبصرے !مضمون کی فرمائش کے ساتھ بھیجنے لگے، اس طرح شعراء و ادباء سے میرے رابطے استوار ہوئے۔
ادبی دنیا میں میرا داخلہ ہوا، کچھ نظمیں پرواز ادب میں شائع ہوئیں، راشٹریہ سہارا میں افسانے شائع ہوئے۔ مگر صحیح بات یہ ہے کہ میں تنقید کا آدمی ہوں، مجھے تنقید لکھنا سب سے اچھا لگتا ہے، فاروقی کا مداح ہوں، ان کی تنقیدی تحریر جہاں ملتی ہے سرمۂ نگاہ بنا لیتا ہوں۔ تنقید کی بات نکل ہی گئی ہے یہ بات بتاتا چلوں کہ پاکستان کے ایک بزرگ مزاح نگار انوار احمد علوی کی کتاب ۱۹۹۹ء میں ’’جملہ حقوق غیر محفوظ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی تھی، جس پر میں نے کچھ سخن گسترانہ قسم کا تبصرہ لکھ بھیجا، جو سفیر اردو لندن میں شائع ہوا، ان بزرگ نے اس کا بالکل برا نہیں مانا بلکہ اپنی اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں اسے شائع کر کے معتبر کر دیا۔
کتاب کے بارے میں ہر شخص کی کوئی نہ کوئی رائے ہوتی ہے۔ اچھی یا بری، میری کتاب کے بارے میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کیجیے گا، میں اس پتے پر آپ کا منتظر رہوں گا۔
دعاگو
ظہیر دانشؔ عمری
25-08-09
No comments:
Post a Comment