Friday, March 22, 2013

ہندی زبان کا مسئلہ


ہندی زبان کا مسئلہ 
سوال (۱):از۔ محمد احمد ۔ نارتھ ارکاٹ ۔
ہندی ظاہر ہے اہلِ کفرو شرک کی زبان ہے۔ لیکن اب سرکاری زبان ہے ۔ کیا اس کو سیکھنے اور استعمال کرنے میں کوئی شرعی قباحت ہے ؟ یا اسے جائز سمجھنا چاہئے ؟ سوال اس لئے پیدا ہوا کہ حدیث تشبہ کا اطلاق تو غیر مسلمین کی زبان سیکھنے پر نہیں ہوتا؟
الجواب:۔
زبان کوئی بھی ہو، مجرد اس کا سیکھنا اورجائز ضرورتوں میں استعمال کرنا نہ عقلاً کوئی قباحت رکھتا ہے نہ ازروئیدین و شریعت اس میں کوئی حرج ہے ۔ عقلاً تو یوں کہ زبان بجائے خود مقصود نہیں ، بلکہ مقصود خیالات کی ترجمانی ہے ۔ انسانوں کا ایک دوسرے سے تبادلہ خیال ممکن نہیں ، اگر لفظ و سوت کا استعمال نہ کیا جائے لہذا اصل اہمیت خیالات و افکارکو ہے نہ کہ زباونعت کوافضلیت ہر آئینہ زبانِ عربی ہی کو حاصل ہے کیوں کہ اسی میں قرآن نازل ہوا اور اسی میں افضل البشر سید الابرابرصلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا ذخیرہ ہے ، باقی تمام زبانیں مفضول ہیں ۔ مگر اباحت میں برابر ہیں ۔جیسے اردو ویسے ہندی اور انگریزی اور فرانسسی وغیرہ ۔
اور نقلاً یوں کہ خود حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت زیدبن ثابتؓ کو یہود کی زبان سیکھنے کا امر فرمایاتھا ۔ مشہور حنفی عالم ملا علی قاری مقات شرح مشکوٰہ میں وضاحت فرماتے ہیں :۔
لایعر فی الشرع،تحریم علم اللغۃ،من اللغات سر یانیۃ،کانت او عبرنیہ،ہندیۃکانت ،اوترکیہ فارسیہ، کانت اوغیرھا
(شریعت میں کسی بھی زبان کے سیکھنے کی حرمت نہیں جانی گئی چاہے وہ سریانی ہو یاعبرانی ۔ ہندی ہو یا ترکی فارسی ہو یا اور کوئی زبان۔)
حدیث تشبہ کا معاملہ تو اس کا زبان سیکھنے سے کوئی تعلق نہیں۔
تشبہّ بالکفار تو یہ ہے کہ ہم کافروں جیسا رہن سہن اختیار کریں اور اس طور طریق یا وضع یا شغل و عمل کو پسند کریں جو کفار و مشرکین ہی کے ساتھ خاص ہے ۔مثلاً قشقہ لگانا ۔زنار پہننا وغیرہ۔

No comments:

Post a Comment