Showing posts with label بچوں کی بہترین کہانیاں. Show all posts
Showing posts with label بچوں کی بہترین کہانیاں. Show all posts

Wednesday, March 27, 2013

جرأت مند شہزادہ



جرأت مند شہزادہ
ایس۔ایم۔ظفر
چاروں شہزادوں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ دیا تھا۔ شہنشاہ پریشان تھا کہ کس شہزادے کو اپنا ولیعہد مقرر کرے اس نے ایک دن اپنے سبھی درباریوں کو طلب کیا اور ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا۔ شہنشاہ خود اپنے بڑے بیٹے کو چاہتا تھا لیکن اس کی خواہش یہ بھی تھی کہ تمام درباری اتفاق رائے سے ولیعہد کا انتخاب کریں۔ درباریوں کو بھی یہ بات معلوم تھی مگر وہ اپنے منھ سے کسی ایک شہزادے کا نام لیکر باقی شہزادوں کی مخالفت مول لینا نہیں چاہتے تھے۔ بہت سوچ کر قاضی نے جو سب سے سمجھدار انسان تھا اور اکثر ایسے مشکل فیصلوں سے دوچار ہوتا رہتا تھا شہنشاہ سے پوچھاکہ وہ خود کس شہزادے سے زیادہ محبت کرتا ہے؟ اب پھر کہانی بادشاہ کے پالے میں آگئی۔ بادشاہ بھی سمجھدار انسان تھا۔ اس نے سوچ کر فیصلہ کیا کہ دربار ہال خالی کیا جائے اور چاروں شہزادوں کو طلب کیاجائے اور ان سے کہا جائے کہ وہ خالی دربار ہال میں جو نشست بھی اپنے لئے پسند کریں اس پر بیٹھ جائیں۔ اور ہم سب باہر سے یہ دیکھیں گے کہ کون شہزادہ کس نشست پر بیٹھنے کی ہمت کرپاتا ہے اس سے شہزادوں کی ذہانت کا صحیح اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔درباریوں کو یہ تجویز پسند آئی۔ تمام شہزادوں کو طلب کیا گیا اور ان سے یہی کہا گیا۔ پہلے تو شہزادے بغیر شہنشاہ کی عدم موجودگی میں دربار میں جانے سے کچھ پریشان ہوئے لیکن جب شہنشاہ نے اصرار کیا تو شہزادے دربار ہال میں داخل ہوگئے۔ دربار ہال میں داخل ہونے سے قبل ایک شہزادے سوال کیا’’بابا حضور جب ہم کسی نشست پر بیٹھ جائینگے تو جب اس نشست پر بیٹھنے والا شخص جب دربار میں آئیگا تو کیا ہم کو اٹھادیا جائیگا۔‘‘
’’ہرگز نہیں۔‘‘شہنشاہ نے جواب دیا۔
شہزادوں نے دربار میں داخل ہونے کے بعد تمام نشستوں پر ایک نظر ڈالی۔ ابھی شہزادے نشستوں کو دیکھ ہی رہے تھے کہ بڑا شہزادہ آگے بڑھ کر وزیر اعظم کی نشست پر بیٹھ گیا۔ دوسرے شہزادے نے سپہ سالاراعظم کی نشست پر قبضہ کرلیا۔ اب بھی دو شہزادے باقی تھے اور اعلیٰ عہدیداران کی نشستوں میں سے صرف ایک نشست قاضی کی بچی ہوئی تھی۔ یہی وہ تین نشستیں تھیں جن پر بیٹھنے والے اپنے معاملات میں صرف شہنشاہ ہی کو جوابدہ تھے۔ ایک شہزادے نے بڑھ کر قاضی کی نشست حاصل کرلی۔ اب اعلیٰ عہدیداران کی سب نشستیں بھر چکی تھی اور ایک شہزادہ باقی تھا۔ یہ وہ شہزادہ تھا جس نے دربار میں داخل ہونے سے قبل شہنشاہ سے سوال کیا تھا۔
شہزادہ آہستہ آہستہ انتہائی پروقار انداز میں قدم اٹھائے ہوئے آگے بڑھا اور پھر چشم زدن میں شہنشاہ کے تخت پر جلوہ افروز ہوگیا۔ باقی شہزادے نے اس حرکت پر ناراضگی کا اظہار کیا اور بدتمیزی سے تعبیر کیا۔
اس شہزادے نے کہا تم سب عہدیداران کی نشستوں پر بیٹھے میں نے تو کسی پر اعتراض نہیں کیا۔
لیکن ہم نے بابا حضور کے تخت پر بیٹھنے کی جرأت تو نہیں کی۔ بڑے شہزادے نے غضبناک نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
شہزادے نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: ’’اس میں ناراضگی کی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ نے ٹھیک ہی فرمایا کہ آپ میں بابا حضور کے تخت پر بیٹھنے کی جرأت نہیں ہے اور نا ہی آپ یہ جرأت کرسکتے ہیں۔
اسی وقت شہنشاہ اپنے تمام درباریوں کے ساتھ دربار ہال میں داخل ہوا۔ اس کی پہلی نظر اپنے تخت پر ہی گئی جس پر ایک شہزادہ جلوہ افروز تھا شہنشاہ نے اپنے درباریوں سے پوچھا: ’’شہزادوں کی نشستیں دیکھ لیں آپ حضرات نے؟‘‘ ’’جی ہاں! عالی جاہ‘‘
اس کے بعد کسی اور سے کچھ کہے بغیر شہنشاہ نے دربار برخواست کردیا۔
یہ شہنشاہ شاہجہاں اور شہزادہ اورنگ زیب تھا۔

اسلام پسندادیب



اسلام پسندادیب
محمد رفیع الدین مجاہدؔ 
میں اسلام پسند ادیب ہوں ۔لکھتا ہوں، خوب لکھتا ہوں اور خوب چھپتا بھی ہوں۔بچّے جن میں اسکول کے طلبہ ہوتے ہیں اور کالج کے طلبہ بھی میرے پاس آتے رہتے ہیں۔ کبھی تقریر لکھوا کر لے جاتے ہیں تو کبھی مضمون کے لئے بے حد اصرار کرتے ہیں۔ وہ اس وقت آتے جس وقت ان کی اسکول یا کالج میں کوئی فنکشن یا پھر سیرت النبیؐ پر جلسہ ہوتا ہے۔ دوتین ردز قبل آتے ہیں مگر جلد سے جلد کوئی تقریر یا مضمون لکھ کردینے کی فرمائش کرتے ہیں۔ صبح آئیں گے تو کہیں گے ’’بس شام تک لکھ کر دیجئے۔ بڑا احسان ہوگا۔‘‘معمول کے مطابق میں غصّہ ہوجاتا ہوں۔
تمہیں اب ہوش آرہا ہے؟ ایک ہفتہ قبل آنا چاہیے تھا! وقت پر سب گڑبڑہوجاتی ہے۔ اتنی جلدی میں تمہیں کچھ لکھ کر جو معیاری بھی ہو اور تمہیں انعام و اعزاز کا حق دار بھی بنادے،کیسے اور کیوں کر لکھ کردے سکتا ہوں؟ میرا دماغ کوئی کمپیوٹر تو ہے نہیں اور نہ ہی میری انگلیاں ٹائپ رائٹر کی طرح کام کرتی ہیں!‘‘لیکن وہ بھی معمول کے مطابق ممنانے لگتے ہیں اور پھر میری تعریفیں شروع کر دیتے ہیں۔’’آپ تو یوں ہیں۔۔۔تیوں ہیں۔۔۔فلاں ہیں۔ اور آپ ۔۔۔’’بس۔۔۔!‘‘میں انہیں ڈانٹ دیتا ہوں۔ ’’فضول تعریفیں نہ کرو۔ میں لکھ دوں گا۔وہ خوش ہوجاتے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح میں اپنی شرط رکھتا ہوں کہ تقریر یامضمون میں تمہیں جو کچھ لکھ کردوں گا اس کی فوٹو کاپی مجھے فوراً لاکردینی ہوگی۔ وہ اس لئے کہ جب کبھی اس تقریر یا مضمون کی مجھے ضرورت محسوس ہوتو دوبارہ الفاظ یاد کرنے نہ پڑیں۔ آخر ایک مرتبہ کا لکھا لکھنے والا بھلا کب تک یادرکھے گا؟ اس کا دماغ کمپیوٹرنہیں کہ جب چاہا اور جو چاہا فوراً اگلوالیا۔ نقل کی ضرورت دو طرح سے پڑسکتی ہے۔ ایک اگر مہینے یاسال بھر کے بعد اس تقریر کو کسی اور نے مانگا تو فوراً اسے دے سکوں ۔ دوسرے اسے کسی اخبار یارسالہ میں بہ غرض اشاعت بھیج سکوں۔ کیوں کہ مضمون نویسی کے مقابلے میں یا تقریری مقابلے میں بھلے ہی میرے لکھے کو فرسٹ پرائز مل جائے۔ مگر چوں کہ میں ادیب ہوں اس لئے جب تک میرا لکھا چھپ نہیں جاتا، مجھے سچی خوشی نصیب نہیں ہوتی۔ اسے میری مجبوری کہہ لیجئے یا مجھ جیسے تمام ادیبوں کی۔
میں مانگنے والے کے معیار کوملحوظ رکھتے ہوئے تقریر یا مضمون کا معیار مقرر کرتا ہوں اور صرف انہی کو دیتا ہوں جو باصلاحیت ہوں اور کچھ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ ورنہ جنہیں یاد ہی نہ ہواور جو یاد کرکے بھی حرکات وسکنات کا مظاہرہ نہ کرسکیں اور نہایت بونے ثابت ہوں۔ اُنہیں میں ٹال دیتا ہوں۔ ایسی بات نہیں کہ میرا لکھا فرسٹ، سیکنڈ، تھرڈ یا امتیازی انعام حاصل نہیں کرتا ہے بلکہ زیادہ تر فرسٹ پرائز ہی حاصل کرتا ہے میرا لکھا ہوا ضائع نہیں جاتا، خدا کا شکر ہے۔ میں آٹھویں تا دسویں اور گیارہویں تا سینئر کالج کے بچوں اور لڑکوں کو ہی اکثر تقریر یا مضمون لکھ کردیتاہوں۔ پرائمری کے بچوں کو بالکل نہیں دیتا کہ پھر انہیں کون یاد کرائے گا؟ پانچویں تا ساتویں کلاس کے بچوں کو کبھی کبھار ہی کچھ لکھ کردیتا ہوں۔ مختصراً یہ کہ جو میری فصیح وبلیغ اردو اور معیاری زبان وبیان کو سمجھنے اور سمجھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں اُنہی کو میں کچھ لکھ کر دیتا ہوں اور اُن سے کچھ لیتا ہوں۔ اصل کاپی کی ایک نقل کاپی!
مجھے یاد آتا ہے کہ دسویں کے ایک لڑکے کو میں نے تقریر لکھ کردی تھی۔ اس نے پوری کوچنگ کلاسیز کے مقابلے میں فرسٹ پرائز حاصل کیاتھا۔ وہی تقریر دوسرے سال ایک لڑکی کو دی تو اس نے کمال کردیا۔ شہری سطح پر فرسٹ پرائز حاصل کیا۔ اسی طرح بہت سارے مواقع آتے رہتے ہیں۔
چند روز قبل ہی کی تو بات ہے۔ میرا بھانجا، جو نویں کلاس میں پڑھتا ہے بھاگا بھاگا میرے پاس آیااور مجھے شیلڈ، سرٹیفکٹ اور دوسری انعامی چیزیں دکھانے لگا۔ وہ بہت خوش تھا۔ اسے پہلا انعام ملاتھا۔ شہری سطح پر سیرت النبیؐ پر جلسہ ہوا تھا اور سبھی کے دو دو بچے اس میں شریک ہوئے تھے۔اسی جلسہ میں دسویں اور بارہویں میں میرٹ اور فرسٹ آنے والے طلبہ کا اعزاز بھی کیا گیا تھا۔ اچھاخاصا بڑا جلسہ ہوا تھا۔ میرے بھانجے کو وہ تقریر میں نے ہی لکھ کردی تھی اور حرکات وسکنات کے ساتھاسے تھوڑا بہت تیار بھی کیا تھا کہ یہ گھر کا بچّہ تھا اور پھر گویا میری ناک کا بھی سوال تھا۔ اس کی تقریر کا عنوان تھا اسلامی دہشت گردی کا پروپگینڈہ اور حضرت محمدؐ کی دعوت۔
جلسہ کی نوعیت منتظمین نے مجھے پہلے ہی بتا دی تھی۔ صدارت شہر کے مفتی کررہے تھے۔ اور مہمانانِ خصوصی کی شکل میں شہر کے مشہور ومعروف ہندی اخبار کے مقامی ایڈیٹر تھے۔ لہٰذامیں نے اس تقریر کو سادہ وسلیس زبان میں منتقل کردیا تھا اور جابہ جا ہندی زبان کا بھی استعمال کیا تھا۔ مفتی صاحب مہاپور اور ایڈیٹر صاحب نے اپنی اپنی تقاریر میں اس تقریر کا خصوصی نوٹس لیا تھا اور حالاتِ حاضرہ پر اس تقریر کی افادیت کو اجاگر کیا تھا۔ حیرت اس وقت ہوئی جب دوسرے دن کے اسی ہندی اخبار میں میری لکھی تقریر کی بنیاد پر خبر شائع ہوئی تھی۔ جب کہ چند نکات پر اعتراض کے تحت مختصراً بحث بھی کی گئی تھی۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مجھے خوش ہونا چاہیے جب کہ میں تو متفکر ہونے لگا ہوں۔ اس لئے کہ میری شناخت ایک اسلام پسند ادیب کی حیثیت سے ہے میری تحریروں کی اشاعت ان پر ملنے والے اعزازات اور میری تحریر کردہ نگارشات پر طلبہ کو ملنے والے اعزازات میرے اندر خود ستائی اور خود نمائی کا جذبہ پیدا کررہے ہیں۔ میرے اندر احساس برتری پنپ رہا ہے۔ میرے لکھئے ہوئے کو بے شک انعامات واعزازت مل رہے ہیں مگر روزِ محشر مجھے اس پر انعام نہ مل سکا تو اگر مجھ سے پوچھا گیاکہ نبیؐ کی سیرت پر تو خوب لکھتا تھا اور اس پر انعامات بھی ملتے تھے۔ لیکن عمل کتنا کرتا تھا؟ تو میں کیا جواب دوں گا؟ اگر مجھ سے پوچھا گیا کہ:
ان تحریروں کا مقصد کیا تھا۔ نام نمود، شہرت اور عزت کا حصول یا اللہ کے بندوں کی اصلاح، دعوت وتبلیغ، دوسروں کی مدد؟ تو میں کیا جواب دوں گا؟ میں اسی لئے متفکر ہوں اور بہت دیر سے سوچ رہا ہوں۔

احسان کے ہاتھوں


احسان کے ہاتھوں
سعید ریاض
شارق کئی دن سے بہت پریشان تھا۔ اس کی ذراسی غلطی نے اُسے اس طرح الجھادیا تھا کہ وہ جتنا سوچتا ڈور اتنی ہی الجھتی جارہی تھی۔۔۔وہ کیا کرے؟ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ گزرے وقت کا ایک ایک لمحہ اس کے احساس کو زخمی کررہا تھا۔ اُسے یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی اس سے کہہ رہا ہو شارق جذبات اور اُجلت میں کئے گئے فیصلے کبھی کبھی کربناک ہوجاتے ہیں کاش! تم اپنے دوست انور کا مشورہ مان لیتے۔ تم نے اس کی صحیح بات ٹھکرادی اور پھر غلط ہاتھوں میں پھنس گئے۔ اس بات پر شارق کو یاد آیا کہ ایک بار اس کے ابو نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہاتھا۔۔۔
’’شارق بیٹا بُرے لوگوں کا ساتھ بھی بُرا ہوتا ہے ہمیشہ اچھے لڑکوں کے ساتھ رہا کرو۔ اس لئے کبھی کبھی بُرے لڑکوں کی صحبت میں رہنے سے نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔‘‘
آج اسے اپنے ابو کی بات کی سچائی بھی معلوم ہوگئی تھی۔ شارق نے جذبات اور جلد بازی میں کالج کے ایک بدمعاش لڑکے جاوید سے ایک معاملے میں مدد لی تھی اور یہی شارق کی غلطی تھی۔اس لئے کہ اب جاوید اپنی ذرا سی مددکی بھر پور قیمت وصول کررہا تھا۔
شارق مقامی انٹر کالج میں دسویں کلاس کا طالب علم تھا۔ کالج میں اس کے کئی دوست تھے مگر انور اور صادق اس کے جگری دوست تھے۔صادق ایک غریب لڑکا تھا۔بہت ذہین اسے اپنی پڑھائی جارہی رکھنے کے لئے کبھی کبھی بہت پریشانی اٹھانی پڑتی تھی۔ وہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے چھوٹے بچوں کی ٹیوشن کرکے اپنا خرچ چلاتا تھاکچھ اس کے ابو کرتے تھے وہ مزدور تھے۔ انہیں کبھی کبھی کئی کئی دن مزدوری سے محروم رہنا پڑتا تھا۔ شارق رحم دل لڑکا تھا دوسروں کی مدد کرنا اس کی عادت تھی۔ ایک دن وہ کالج آیا تو اس نے اپنے دوست صادق کو کچھ پریشان دیکھا۔ تو اس نے صادق سے پوچھا۔
’’کیا بات ہے صادق! آج بہت پریشان نظر آرہا ہو؟‘‘
’’کچھ نہیں!‘‘ صادق اتنا کہہ کر خاموش ہوگیا تھا مگر شارق نے محسوس کیا کہ صادق کی آنکھوں میں آنسوآگئے تھے یہ دیکھ کر شارق کو اور دکھ ہوا اس نے پھر اس سے کہا۔
’’صادق تم میرے دوست ہو، دوستوں سے دکھ چھپائے نہیں جاتے۔ مجھے بتاؤ کیا بات ہے۔ میں جس قابل ہوں تمہاری مدد کروں گا۔‘‘
’’شارق بات یہ ہے کہ ۔۔۔صادق اس سے آگے کچھ نہ کہہ سکا اور خاموش ہوگیا۔ اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ وہ کچھ کہنا چاہتا چھا مگر نہ جانے کیا بات تھی کہ دل کی بات زبان پر نہیں آرہی تھی۔ اس پر شارق نے اس سے کہا۔
’’دیکھو دوست!اگر ایک دوست پریشانی میں اپنے دوست کا ساتھ نہ دے تو وہ دوستی بیکار ہے۔ تم بے جھجک کہو۔‘‘شارق کی اس بات پر اس نے بڑی مایوس نظروں سے اس کی جانب دیکھا اور بولا۔
’’شارق!مجھے اس وقت کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔‘‘
’’کتنے پیسوں کی؟‘‘ شارق نے پوچھا۔
’’صرف سوروپیہ کی۔‘‘ تو اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے اللہ مددگار ہے۔ شارق نے صادق کو تسلی دیتے ہوئے کہا ۔’’شام کو تمہیں مل جائیں گے۔‘‘
’’تمہارا بہت بہت شکریہ ! شارق تمہارے پیسے ایک ہفتہ میں لوٹا دوں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے صادق ۔ پیسے وقت پر ہی لوٹانے کی کوشش کرنا چونکہ میں یہ پیسے تمہیں کسی سے لے کردوں گا۔‘‘
اس بات کو ایک ماہ گزرگیا ۔ مگر صادق پیسے نہیں لوٹاسکا۔ وہ اپنی کوئی نہ کوئی مجبوری ظاہر کرتا رہا اور حقیقت بھی یہی تھی کہ صادق نے جس بھروسہ پر قرض لیا تھا وہاں سے پیسے ملنے میں دیر ہوگئی تھی۔ اس کے ابو جہاں کام کررہے تھے وہاں سے بھی مزدوری نہیں ملی تھی۔ مگر شارق کو اب شک ہونے لگا تھا کہ شاید صادق پیسے دینا نہیں چاہتا۔ وہ ٹال رہا ہے۔ اسی بات کو سوچ کر وہ پریشان تھا۔
ایک دن شارق بہت صبح اسکول پہنچ گیا تھا تاکہ وہ صادق سے پیسوں کی بات کرلے۔ آج وہ کچھ پریشان ساتھا۔ وہ کلاس کے باہر کھڑا کچھ سوچ رہاتھا کہ ۔۔۔ ایک ساتھی طاہر آگیااور اس نے شارق سے کہا ’’آج تم کالج بہت پہلے آگئے ۔ کیا بات ہے؟‘‘اس پر شارق نے اسے ساری بات بتائی اور بولا۔۔۔
’’اگر اب صادق نے پیسے نہیں دیئے تو میں جاوید سے کیا کہوں گا‘‘ یہ سن کر طاہر نے ایک دم کہا ’’شارق ایسی غلطی مت کرنا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘شارق نے اچانک سوال کیا۔
’’شارق ! طارق نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ تم جانتے ہو جاوید اچھا لڑکا نہیں وہ آوارہ مزاج لڑکا ہے۔ تمہارے پیسے تو مل جائیں گے مگر غریب صادق کو پریشانی اُٹھانی پڑے گی اور تم بھی پریشان ہوجاؤگے۔ ذرا سوچو!اگر جاوید نے تم سے ایک معمولی سے احسان کی قیمت مانگی تو کیا ہوگا؟‘‘
مگر شارق نے طاہر کی بات پر توجہ نہیں دی۔ تھوڑی دیر بعد ۔ جاوید آگیا تو شارق نے جاوید کے سامنے اپنی بات رکھی۔اس پر جاوید نے کہا’’کل تمہارے پیسے مل جائیں گے۔‘‘
اور پھر دوسرے دن صادق نے شارق کی رقم لوٹادی مگر اس کے بعد کئی دن تک کالج نہیں آیا ۔ اور آیا بھی تو چہرہ کچھ اداس ، مرجھایا ہواتھا۔وہ خاموش آیا اور سیٹ پر بیٹھ گیا۔ وہ کئی دن تک ایسے ہی اداس رہا۔ اس سے شارق کو بھی کچھ احساس ہوا۔ اس نے کئی بار سوچا صادق اس کا دوست ہے۔ اس کا فرض ہے کہ اپنے دوست کی پریشانی پر اس سے معلوم تو کرے۔ مگر وہ ہمت نہ کرسکا۔
وقت گزرتا رہا مگر شارق کے دل میں ایک خلش ہوگئی تھی اس لئے کہ صادق نہ صرف کلاس میں خاموش رہنے لگا تھا بلکہ اس نے شارق سے ملنا جلنا ہی کم کردیا تھا۔صادق کے ساتھ ہی طاہر بھی اس سے کھچا کھچا رہنے لگاتھا۔ اب اسے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اس کی ذرا سی غلطی اور جلد بازی نے اُسے دواچھے دوستوں سے محروم کردیا تھا۔ دوسری جانب جاوید کی مدد اس کے لئے ایک عذاب بن چکی تھی۔ کیونکہ جاوید قرض کے نام پر شارق سے کئی بارپیسے لے چکا تھا۔
اس دن شارق پھر پریشان تھا۔ اس لئے کہ جاوید نے آج پھر اس سے کچھ پیسوں کا مطالبہ کیاتھا۔ شارق سوچ رہاتھا کہ جاوید نے اسے صادق سے اس کے سوروپیہ دلائے تھے۔وہ اس احسان کے بدلے میں اس سے ڈیڑھ سو(۱۵۰) روپے قرض کے بہانے لے چکا ہے۔ وہ قرض جس کی وصولیابی ممکن ہی نہیں تھی۔ اب وہ اسے اور پیسے کہاں سے دے۔ وہ تو اپنی جیب خرچ کے بجائے ساری پونجی تو جاوید کو دے چکا ہے۔شارق ایک انجانے خوف سے کانپ رہا تھا۔ اس لئے کہ جاوید نے دھمکی دی تھی کہ اگر تم نے پیسے نہیں دیئے تو اچھا نہیں ہوگا۔ میں نے تمہاری ڈوبی ہوئی رقم دلائی تھی۔
شارق کے کانوں میں جاوید کے الفاظ گردش کررہے تھے۔ میں نے تمہاری ڈوبی ہوئی رقم واپس دلائی تھی۔ مگر اسے یوں لگ رہاتھا اس کی ڈوبی ہوئی رقم تو مل گئی مگر وہ خود ایسے پانی میں ڈوب گیا تھا جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ ہی نظر نہیں آرہا تھا۔ اس کے دوست طاہر کے الفاظ اس کانوں میں باز گشت کررہے تھے۔’’بُرے لوگوں کی مدد سے فائدہ نہیں بڑا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔‘‘ شارق کی آنکھوں میں آنسوں آگئے تھے۔ اس کی نظروں میں غریب صادق کا معصوم چہرہ گھوم رہا تھا۔ اداس پریشان۔ بے ساختہ اس کی منھ نکل گیا۔ اللہ تو مجھے معاف کردے۔‘‘ندامت کے آنسو اس کے گالوں سے پھل کر دامن میں جذب ہورہے تھے۔

مے آئی گوٹو (May I Go to)


مے آئی گوٹو (May I Go to) 
پرویز اشرفی
اسکول میں آج اس کا پہلا دن تھا۔ پرنسپل نے پہلے ہی گھنٹہ میں نویں درجہ میں پڑھانے کا حکم دیا۔ جیسے ہی درجہ میں اُس نے قدم رکھا پورے کلاس نے خاموشی کی چادر اوڑھ لی۔پیچھے بیٹھے ہوئے چند شرارتی طلباء اپنے نئے اُستاد کو دیکھ کر کھسر پھسر کرنے لگے۔ اکثر نئے اُستادیا طلباء جب کسی اسکول میں پہلی بار جاتے ہیں تو اس قسم کے ماحول سے سابقہ پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ تھا۔ بچوں کی خاموشی اور اُن کے تجسس کو دیکھتے ہوئے اپناتعارف کرایا۔’’میرا نام سرفراز حسین ہے اور میں آپ لوگوں کو تاریخ پڑھاؤں گا۔‘‘ اس مختصر تعارف کے بعد سرفراز نے بلیک بورڈ کارُخ کیا اور مضمون کا عنوان لکھنے لگا۔
بچو! آج میں آپ کو دوسری جنگ عظیم کے بارے میں پڑھاؤں گا۔ اس کے اسباب اور نتائج پر بھی روشنی ڈالوں گا۔ لیکن اس سے پہلے میرا آپ سے ایک سوال ہے
’’سائنس اور تاریخ میں کون زیادہ اہم ہے؟ درجہ پر سکوت طاری تھا۔ سبھی بچے غور کرنے لگے۔ ایک بچے نے ہاتھ اُٹھایا۔ سرفراز صاحب نے سب سے پہلے اُس کا نام پوچھا۔
ؔ ؔ ’’میرا نام محسن ہے۔‘‘
’’بہت خوب! ماشاء اللہ بڑا پیارا نام ہے۔اچھا بیٹے بتاؤ کون اہم ہے؟‘‘
’’سائنس‘‘ بڑے اعتماد سے اُس نے جواب دیا۔
اسی طرح باری باری کئی لڑکوں سے سوال پوچھا سبھی نے تاریخ کو بورنگ، روکھا اور بے کار مضمون قرار دیا جس کی کوئی اہمیت نہیں لیکن سائنس کی اہمیت پر سب کا اتفاق تھا ۔ ایک طالب علم نے ہمت کرکے سرفراز سے ہی سوال کردیا۔
’’سر!آپ کا نظریہ کیا ہے؟‘‘
’’ہاں!تم نے بہت اچھا سوال کیا۔ میرے نزدیک ایک علم کا دوسرے علم سے ٹکراؤ نہیں ہوتا مگرہر ایک علم کی اپنی افادیت ہوتی ہے سبھی علوم کے ایک دوسرے سے رشتے ہوتے ہیں۔ ان میں تاریخ سب پر فوقیت رکھتا ہے۔‘‘
’’وہ کیسے۔۔۔سر؟‘‘ کئی بچوں نے جاننا چاہا۔
’’سرفراز نے سمجھاتے ہوئے کہا’’جتنے بھی علوم ہیں سب کی اپنی ذاتی اہمیت ہے۔ وہ صرف اپنے ہی بارے میں بتاتے ہیں۔ سائنس ہو یا جغرافیہ، علم کیمیاہویا علم طبیعات، ریاضی ہو یا جیومیٹری لیکن تاریخ ایسا مضمون ہے جو تمام علوم کے ذخیرہ کو محفوظ رکھتا ہے۔ اگر تاریخ نہ ہوتا تو ان تمام علوم وفنون کو کون جانتا۔ سرآئزک نیوٹن، البرٹ آئسٹائن، جیمس واٹ، تھامس الوایڈیسن، الیگزنڈر فلیمنگ،لوئس پاسچر، جابربن حیان،ابن الہیشم، بوعلی سینا، عمرخیام، الرازی، یوری گاگارین، نیل آرم اسٹرانگ، مائکل کولن، ایلون ایلڈرین جیسے سائنسدانوں کو کون جانتا، کون جانتا کہ چاند کی دھرتی پر قدم رکھنے والا پہلا آدمی نیل آرمسڑانگ ہے۔دنیا کہ دوسرا آدمی وہ ہے جس نے چاند کی سر زمین پر قدم رکھا جسے ایلون ایلڈرن کہتے ہیں اور مائیکل کولن وہ خلاباز ہے جو چاند کے مدار میں چکر کاٹتا رہا لیکن چاند پر اترانہیں۔ یہ تاریخ ہی ہے جس نے ہمیں بتایا ہے۔ ان تمام معلومات کو سجا کر اپنے سنہرے اوراق میں تاریخ نے ہی محفوظ رکھا ہے۔اس لئے تاریخ ایک اہم مضمون ہے۔ ہاں!ایک بات اور تم لوگوں نے تو ضرور سنا ہوگا کہ ۱۹۴۵ ؁ء ۶؍اگست کو جاپان کے شہر ہیرو شیماپر پہلا ایٹم بم امریکہ نے گرایا تھا۔ کیا تم میں کوئی بتائے گاکہ اس ایٹم بم کا نام کیاتھا؟‘‘ سبھی بچے میں سر ہلارہے تھے۔وہ پھر گویا ہوئے۔’’تو سنو زمین کے اُس دشمن کانام تھا لٹل بوائے۔’’(Littlee boy) اب سمجھ میں آیا کہ تاریخ کیوں ضروری ہے؟بچوں نے ایک آواز میں جواب دیا یس سر۔ سرفراز اب دوسری جنگ عظیم کی تمہید بتارہے تھے کہ کلاس کے سکوت کو توڑتی ہوئی ایک آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔May I go to drik water sir?(کیا میں پانی پینے جاسکتا ہوں جناب) سرفراز نے تختہ سیاہ کی جانب سے رخ ہٹایا درجہ کے درمیانی حصہ میں ایک چدہ پندرہ سال کی عمر کا طالب علم ملتجی آنکھوں س اُس کی طرف دیکھ رہاتھا۔ چہرے کے تاثرات بتارہے تھے کہ وہ کچھ ڑرا سہما سا ہے۔ سرفراز نے اُسے غور سے دیکھا اور پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔ وہ دھیمے قدموں سے چل کر طالب علم کے نزدیک پہنچایکایک اُسے محسوس ہوا کہ وہ آئینہ جنکے ٹکڑوں نے اس کے جسم کو لہو لہان کردیا تھا ان کی کرچیاں یکجا ہو کر پھر سے آئینہ میں تبدیل ہوگئیں اور وہ اس میں صاف صاف اپنے ماضی کے گزرے دنوں کو دیکھ رہاتھا۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد تلاش روزگار کی جد وجہد مقصد بن گئی ۔ مختلف مقابلہ جاتی امتحانات دیئے اور کامیابی بھی ملی لیکن قسمت دغا دے گئی یا شاید اللہ کی مرضی نہ تھی۔ اُدھر سماج کے لوگ والدین سے مختلف سوالات کرکے اُنہیں پریشان کررہے تھے۔ بیٹے کو نوکری ملی یا کب تک جاب مل جائے گا۔ اب سرفراز کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔ میرا بیٹا ماشاء اللہ اچھا کمارہا ہے‘‘وغیرہ وغیرہ ۔ دن بھر نوکری کی تلاش کے بعد گھر میں داخل ہوتا تو والدین بھی محلّہ والوں کی کہی باتوں کو اس کے سامنے دہراتے۔ ایسی باتیں اُسے ذہنی پریشانی میں مبتلا کردیتیں۔ لوگوں کے طعن اور بے روزگاری نے اُسے متزلزل کردیا۔ ایک دن اس نے اپنے والد سے جھلاتے ہوئے کہا’’ابو میں کیا کروں۔ اتنی کوشش کے باوجود نوکری نہیں مل رہی تو آپ ہی میرے لئے کچھ کریں۔‘‘ نتیجے میں ابو نے ایک شراب کی دکان میں سیلز مین کی حیثیت سے مقرر کردیا۔ حالانکہ یہ کام اُسے قطعی پسند نہ تھا لیکن معاشرے کے نام نہاد عقلمند لوگوں کے بہکاوے میں ابو نے یہ فیصلہ کرلیا۔ مگر وہ جگہ سرفراز کو راس نہیں آئی۔ ایک بار یوں ہوا کہ بارش میں شراب کے شوقین لوگوں کے لئے بھنے ہوئے مرغ اور آملیٹ کی دوپلیٹیں اپنے دونوں ہاتھ میں ہوٹل سے لاکر اُن کے ٹیبل پر پیش کرنا پڑیں۔ مالک کا حکم تو اس نے مان لیا لیکن وہ یہ سوچ کر رونے لگا کہ ’’کیا زندگی کے بیس قیمتی سال حصول علم میں اسی دن کے لئے صرف کئے تھے کہ شرابیوں کے آگے انڈے، مرغ اور شراب کی بوتلیں پیش کروں لعنت ہے میری زندگی پر اس نے والدین سے معذرت چاہ لی۔’’ابو مجھے زہر دے کر ماردیں لیکن اللہ کے واسطے مجھ سے یہ کام نہ ہوگا۔ جو لوگ یہ مشورہ آپ کو دیتے ہیں انہیں ہی مبارک ۔ مجھے اللہ کی ذات پر بھروسہ ہے وہ ضرور کوئی بہتر انتظام کرے گا۔ کچھ ہی دنوں کی کوشش کے بعد سرفراز کو ایک دوا کے ڈسٹریبوٹر کے یہاں ملازمت مل گئی۔ مالک نے اُسے کام کے بارے میں سمجھادیا ۔ یہاں آکر اسے زندگی کا ایک اور تجربہ ہوا کہ ہر ایک آدمی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ہی کسی کی ہمدردی کرتا ہے۔دوا کے اس ڈسٹری بیوٹر نے ویسے تو صرف ٹیبل ورک کرنے کی بات کہی تھی لیکن دن گزرنے کے ساتھ دوکان میں جھاڑو لگانا۔ گھر کی سبزی لانا اس کے بچوں کو اسکول پہنچانا اور واپس لانا۔ دوا کے خریدار آئیں تو ان کے لئے چائے پان پیش کرنا بھی کام میں شمار ہوگیا۔ مجبوری انسان سے سب کچھ کراتی ہے اللہ کی رضا سمجھ کر وہ یہ سب کام کرنے لگا۔ وہ بھول گیا کہ کبھی اس نے انگلش میں ایم۔اے کیاتھااور ایم۔بی۔اے کا کورس پاس کیا تھا۔ وہ توحقیقت کی دنیا میں جی رہا تھا اور حقیقت یہ تھی کہ وہ ایک معمولی نوکر تھا جس کی فرمانبرداری کے عوض ہر ماہ اسکے ہاتھ پر پانچ سو روپئے رکھ دئے جاتے اور وہ اسے اپنا مقدرسمجھ کر خدا کا شکر ادا کرتا۔ دوپہر کے دوگھنٹے کے وقفے میں وہ مطالعہ کرتا تھا تاکہ ملازمت کے مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری کرسکے۔ وقت گزرتا رہا۔ اور تین سال کی مدت گزرگئی۔ اسی درمیان لوک سیوا آیوگ میں ہائی اسکول میں اساتذہ کی تقرری کے لئے امتحانات ہوچکے تھے۔ سرفراز نے بھی امتحان دیا اور واپس آکر اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ ایمانداری اور وقت کی پابندی کے باعث سرفراز کا مالک اُسے بہت پسند کرتا تھا اور اکثر باہر کے کام سے جاتے وقت دوکان کی ذمہ داری اس پر سونپ جاتا۔ اس بار بھی وہ بزنس کے سلسلے میں ایک ہفتہ کے لئے باہر جارہا تھا۔ اس نے سرفراز کو تمام باتیں سمجھادیں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ میرا ایک بھتیجاروی اپنے گھر سے چھٹیوں میں آیا ہوا ہے میری غیر موجودگی میں وہ بھی آفس میں رہے گا ذرا تم اس پر دھیان دینا۔
گرمی اپنے پورے شباب پر تھی۔گرم ہوائیں سائیں سائیں کررہی تھیں۔ سرفراز نے دوپہر وقفہ کے وقت گھر جانے کا ارداہ کیا۔ اس کی مصروفیت کو دیکھتے ہوئے مالک کے بھتیجے روی نے روکھے انداز میں سوال کیا’’کیا بات ہے سرفراز کہیں جانا ہے؟‘‘
ہاں! دوپہر کا وقفہ ہوگیاہے لنچ کے لئے گھر جارہا ہوں۔‘‘سرفراز نے جواب دیا۔
’’تم کہیں نہیں جارہے ہو۔ ابھی بہت کام ہے۔ ایسا کرو جتنے آرڈردوائیں کے آئے ہیں وہ ساری دوائیں نکال کر پیک کردو۔‘‘ روی نے متکبر انداز میں کہا۔
’’لیکن۔۔۔ویکن میں کچھ نہیں جانتا۔ تمہیںیہ سب کام ابھی کرنا ہے اور آج گھر جانے کا ارداہ ترک کردو۔ ایک کم عمر لڑکے کا یہ انداز گفتگو۔۔۔سرفراز حیرت زدہ تھا۔ بہر حال اس نے گھر جانے کا اردہ ترک کردیا۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اتنی مشکل سے جو ملازمت ملی ہے وہ ہاتھ سے جاتی رہے اور معاشرے کے لوگوں کو طعن وتشنیع کرنے کا موقع ملے اور لوگ اُسے ایک بیکار اور ناکارہ انسان تصور کریں۔ اس نے روی کی بات مان لینے میں ہی عافیت سمجھی۔
’’ٹھیک ہے میں نہیں جارہا لایئے آرڈر دیجئے میں دوائیاں نکالتا ہوں۔‘‘
سرفرازنے دوائیاں نکال کر سب کی پیکنگ کردی۔ بجلی بھی صبح سے گل تھی وہ پسینے سے بھیک گیاتھا۔ ابھی وہ بیٹھا ہی تھا کہ روی نے ریوالونگ چیئر پر جنبش کرتے ہوئے آواز دی۔
سرفراز۔۔۔!’’آیا روی بابو۔‘‘جب وہ نزدیک پانی لینے کے لئے مڑا۔ گرمی بہت تھی۔ بجلی بھی نہیں تھی لہذا اس نے جھجھرسے پانی لے کر گلاس روی کو پیش کردیا۔ روی نے جیسے ہی پانی کا گھونٹ حلق میں اُتاراتلماکر رہ گیا۔اس نے غضبناک نظروں سے سرفراز کو دیکھا۔Stupid man تم سے فریز سے پانی لانے میں ہاتھ ٹوٹ رہا تھا۔ وہ جھلاتے ہوئے چیخا۔’’روی بابو یہ تو جھجھر کا پانی ہے۔ بجلی گل ہے اس لئے فریز بند ہے۔‘‘سرفراز نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’دیکھو سرفراز میں چاچا نہیں ہوں، روی ہوں۔ تم ہمارے نوکر ہو اور نوکر کی طرح رہو۔‘‘ کہتے ہوئے گلاس میں بچا جوٹھا پانی سرفراز کے منھ پر پھینک دیا جس سے ا س کا چہرہ اور سامنے کے کپڑے گیلے ہوگئے۔ سرفرازنے خاموشی سے نظریں جھکالیں پانی سے بھیگے چہرے کو اپنی آستین سے خشک کیا اور دل ہی دل میں اللہ کو یاد کرتا رہا کہاں ہے تو ، دیکھ تیری دی ہوئی دولت پر یہ کم عمر لڑکا کس قدر نازاں ہے کہ انسانی مرتبہ کا بھی لحاظ نہیں تجھے کیسے پکاروں، تیرا ہی وعدہ ہے کہ تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے‘‘ کیا میں تیرے اس انعام کا حقدار نہیں۔ زبان بند تھی مگر دل رورہا تھا۔
******
سرفراز کے ابو بہت خوش تھے۔ اُن کے بیٹے کی تقرری ایک ہائی اسکول میں ہوگئی تھی محنت اور صبر کا پھل اللہ نے سرفراز کو عطا کردیا تھا۔وہ اب جانے کی تیاری کررہا تھا۔ اس نے اپنے مالک کو بھی یہ خبر سنائی ۔ مالک نے اپنی خوشی کا اظہار کیا ساتھ یہ بھی دریافت کیا کہ اس کی غیر موجودگی میں کوئی دقت تو پیش نہیں آئی۔ ایک لمحے کے لئے سرفراز کے سامنے وہ تمام مناظر گھوم گئے لیکن وہ خاموش رہا اور رخصت لے کر گھر لوٹ آیا۔ والد نے پٹنہ جانے والی بس پر سوار کراتے ہوئے ہدایت کردی کہ اسکول جوائن کرنے کے بعد فوراً اطلاع کردینا۔May I go to drik water sir (کیا میں پانی پینے کے لئے جاسکتا ہوں جناب) دوبارہ اس آواز نے اسے ماضی سے حال میں لاکھڑا کیا۔ یہ آواز جانی پہچانی تھی۔ سرفراز نے نزدیک جاکر اس سے پوچھا تم روی ہونا۔۔۔؟روی کی نگاہیں خوف وشرمندگی سے جھک گئیں اور درجہ میں دوسری باوقار آواز گونجی۔yes,you can go (ہاں ہاں تم پانی پینے جاسکتے ہو)روی بھاری قدموں سے درجہ کے باہر جارہا تھا۔ سرفراز کی آنکھیں آسمان پر اُٹھی ہوئی تھیںآنکھوں میں شکر کا سیلاب امنڈرہا تھا۔ اور ہونٹ لرزرہے تھے بیشک تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے تو جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔‘‘
گھنٹے کی آواز نے احساس کرایا کہ تاریخ کا گھنٹہ مکمل ہوچکا ۔سرفراز تیز تیز قدموں سے باہر نکل نکل گیا۔

رام راج کو روک لو (بچوں کی کہانی)


رام راج کو روک لو
تسکین زیدی
آج وہ اداس اور بے چین بیٹھا ہوا اسکول کی ایک ایک کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے یہ منظر اب کچھ لمحوں میں اس سے روپوش ہوجائے گا۔ اس جدائی کے احساس نے اس کے دل کا سکون منتشر کردیا تھا۔
وہ تب چونکا جب آفس کے پردیپ بابو نے اسے پکار کرکہا’’کہاں کھوئے ہوئے ہو رام راج دادا؟وقت ہوگیا ہے گھنٹی بجاؤ ورنہ پرنسپل صاحب ناراض ہوں گے۔‘‘
وہ بوجھل قدموں سے اٹھا سے اور گھنٹی بجانے لگا۔
’’ٹن۔۔۔ٹن۔۔۔ٹن۔۔۔‘‘گھنٹی بج اٹھی۔ لڑکے ایک کلاس سے دوسرے کلاس میں آنے جانے لگے اور وہ آپس میں باتیں کرنے لگے۔ گفتگو کا موضوع یہی گھنٹی کی آواز تھی۔
’’آج یہ گھنٹی کی آواز کو کیا ہوگیا، عجیب سی گھٹی گھٹی سی آواز ہے جیسے کسی نے کریاردکراسے بجایا ہو۔ کیا رام راج نے سوتے سے اٹھ کر گھنٹی بجائی ہے؟‘‘
وہ یہ سر گوشی سن کر چونک پڑا۔پھر بڑبڑانے لگا۔
’’ٹھیک کہو ہو بچو!‘‘اب تو میں بہت تھک گیا ہوں۔ بوڑھاہوگیا ہوں۔۔۔اس اسکول میں میرا آج آخری دن ہے کل میں کہاں ہوں گا اوریہ کہاں ؟ تم لوگ بھی مجھ سے دور ہوجاؤ گے۔ اس احساس نے میرے ہاتھوں کی مانوجان ہی نکل لی ہے۔ کانپتے ہاتھوں سے جب گھنٹی بجائی جائے گی تو یوں یہی مدھم سی آواز نکلے گی۔‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ پھر اپنی جگہ آکر بیٹھ گیا اور خیالوں میں کھو گیا۔ اس کے تیس برس اس اسکول میں گزرے ہیں اور آج اس سے جدا ہوتے ایسا لگ رہا ہے کہ اب اس سے اس کا کوئی رشتہ ہی نہیں رہ گہا ہو۔ اب تو باقی زندگی گاؤں کے چھپرے گھرے کچے بوسیدہ مکان میں گزرے گی۔ پنشن ضرور ملے گی مگر اتنی کم ہوگی کہ دونوں وقت کا کھانا بھی مشکل سے بن پائے گا اور پنشن ملنے میں بھی سال بھر لگ جائے گا۔ فنڈ تو لڑکی کی شادی میں ہی ختم ہوچکا ہے باقی بیوی کی بیماری کھا گئی ۔ کاش کہ اس وقت کا کوئی لڑکا ہوتا تو اس کا سہارا بنتا۔۔۔گاؤں کا ماحول بھی کافی بدل چکا ہے اب وہاں وہ پہلا ساپیار کہاں رہ گیا ہے۔ گاؤں کا آدمی بھی بہت چالاک ہوگیا ہے ہر وقت اپنا الّو سیدھا کرنے میں لگا رہتا ہے۔ وہاں اس ماحول میں وہ کیسے باقی زندگی بتاسکے گا؟ یہاں تو دن بھر بچوں کے درمیان ایسا مصروف رہتا ہے کہ اپنا بھی ہوش نہیں رہتا۔
رام راج کو پرنسپل سے لے کر ٹیچرس اور طلباء سبھی دل سے چاہتے تھے ویسے اس اسکول میں اس طرح کے پانچ چھ چپراسی اور بھی تھے مگر اس کا برتاؤ نرم تھا کہ سب اسی کو ہر کا کے لئے پکارتے تھے اور وہ بھی کسی کو کسی کام کے لئے منع نہیں کرتا تھا۔ اس لئے سب اسی کا خیال رکھتے تھے۔ اب تو پرنسپل بھی اس کے کام سے متاثر ہوکر اس کو ’’رام راج دادا‘‘کہنے لگے تھے۔ اب اس سے کوئی چھوٹا کام نہیں لیتے تھے۔ وہ بھی ہر وقت اسکول کی بھلائی کا خیال رکھتا تھا اور کب آرام کرتا تھا۔ اسکول گیٹ کی نگرانی، آفس کا سامان کی دیکھ بھال۔۔۔ایک آدمی میں فرائض کی ادئیگی کا اتنا احساس کم ہی دیکھایا سنا گیا ہے۔
اسکول میں ہی گیٹ کے پاس ایک چھوٹی سی کوٹھری تھی جس میں تھک کر وہ لیٹ جاتا تھا۔ کھانا وہ خود ہی اپنے ہاتھوں سے پکاتا تھا۔۔۔معمولی کپڑا پہنتا۔ دھوتی اور بنیان میں ہی اس نے اپنی ساری زندگی بتادی۔۔۔کبھی کسی نے اسے پیروں میں چپلیں یا جوتا پہنتے نہیں دیکھا تھا۔
ٍ وہ بڑا ایماندار تھا۔ کبھی کسی کی کوئی چیز بھولے سے رہ جاتی تو او اسے اٹھا کر رکھ دیتا تھا یا آفس میں جمع کردیتا تھا۔ پھر اس کی یہ کوشش بھی رہتی تھی کہ جس کی چیز ہے اس تک جلد سے جلد پہنچ جائے۔
ایک بار کلاس میں کسی لڑکے کا پرس رہ گیا۔ وہ کسی مالدار گھرانے کا تھااس میں ڈھائی سوروپے تھے۔ رام راج جب شام کو کمرہ بند کرنے آیا تو اسے میز پر یہ بٹوا پڑا ہو ملا ۔ اس نے اسے اٹھا کر اپنے پاس رکھ لیا اور دوسرے دن اس لڑکے کو ڈھونڈکر دے دیا۔ اس نے خوشی ہو کراسے دس روپے کا نوٹ انعام میں دینا چاہا تو وہ ناراض ہوکر بولا۔۔۔ ’’جاؤ بچہ ! خوش رہو۔ تم میرے بچے ہو کوئی اپنے نچوں سے بھی بخشیش لیتا ہے۔‘‘
ایک لڑکی کا سونے کا کان کا بالا بھی گرگیا تھا اسے بھی اس نے سنبھال کر رکھا تھا۔ دوسرے دن جب اس کے ڈیڈی اسے پہنچانے آئے اور انہوں نے بالے کے بارے میں اس سے پوچھا تو رام راج نے آفس سے لاکر اسے دے دیا۔ لڑکی کے باپ بھی کچھ انعام دینا چاہتے تھے۔ ان سے اس نے بڑی عاجزی سے کہا:’’انعام کیسا صاحب ! یہ تو میرا فرض تھا۔‘‘
’’حضور ! میں تو آپ کا نوکر ہوں۔‘‘ وہ آہستہ سے بولا۔ اس کی آواز رندھی ہوئی تھی۔ پرنسپل نے اس کے گلے میں پھولوں کاہار ڈال دیا۔
رام راج نے حیرت سے چاروں طرف دیکھا پتہ نہیں کیوں کانپ رہاتھا۔ اس قدر منزلت کے لئے وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آنسواس کی پلکوں پرٹھہرے ہوئے تھے اور دل نہ جانے کیوں زور زور سے دھڑک رہاتھا۔
’’دادا رام راج! تم تو اس سے بھی زیادہ عزت کے مستحق ہو۔ اسکول کے لئے تمہاری خدمات کیا یہ اسکول ٹیچرس اور طلبہ آسانی سے بھلا سیکں گے؟ کبھی نہیں۔۔۔ہمیں تم پر ناز ہے۔ہمارے بچوں کو تمہاری مثالی زندگی سے سبق لینا چاہیے۔‘‘ پرنسپل صاحب بولتے بولتے رکے اور پھر انہوں نے طالب علموں سے مخاطب ہوکر کہا’’آج جو یہ ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے ہیں تو ہم کیوں ان کی عزت کررہے ہیں؟ یہ عزت ان کی نہیں اس کے کام کی ہے، ان کی ایمانداری ، محنت اور لگن کی ہے۔‘‘ پھر اسے مخاطب کرتے ہوئے بولے۔
’’لو یہ ہماری جانب سے چھوٹا سا تحفہ قبول کرو۔‘‘ ایک شال او ر ہاتھ کی گھڑی انہوں نے اسے پہنادی۔ اس کے بعد ٹیچرس کی طرف سے ایک دھوتی کرتہ اور پانچ سو روپے کا چیک پیش کیا گیا۔ پھر لڑکوں کی باری آئی۔
ایک لڑکے نے سب کی طرف سے کچھ کپڑے اور پانچ سو ایک روپے لفافے میں رکھ کر اسے پیش کئے۔
رام راج کو اتنے تحفے اورنقد ملا کہ وہ ریٹائر ہونے کے بعد کئی مہینے تک آرام سے کھا پی سکتا تھا۔
اب وہ حیرت بھری نظروں سے ان تحفوں کو دیکھ رہاتھا۔ اس سے جب سب نے دولفظ بولنے کے لئے کہا تو اس کی زبان گنگ ہوگئی۔ ہمت کر کے اس نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ جوڑے اور کہا۔
’’ان تحفوں کے لئے آپ سب کا شکریہ ۔۔۔مجھے یہ سب کچھ نہیں چاہیے۔ مجھے میرا اسکول چاہیے۔ مجھے یہ بچے چاہئیں۔ اس لئے کہ میرا پریم میری چاہ ان ہی سے ہے۔ آپ یہ نہیں دے سکتے تو۔۔۔‘‘ رام راج کی آواز بھر آگئی لیکن وہ رویا نہیں، بس ایک دم اسٹیج سے اترا اور تیز تیز قدموں سے ہال سے نکل گیا۔