Wednesday, March 27, 2013

جرأت مند شہزادہ



جرأت مند شہزادہ
ایس۔ایم۔ظفر
چاروں شہزادوں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ دیا تھا۔ شہنشاہ پریشان تھا کہ کس شہزادے کو اپنا ولیعہد مقرر کرے اس نے ایک دن اپنے سبھی درباریوں کو طلب کیا اور ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا۔ شہنشاہ خود اپنے بڑے بیٹے کو چاہتا تھا لیکن اس کی خواہش یہ بھی تھی کہ تمام درباری اتفاق رائے سے ولیعہد کا انتخاب کریں۔ درباریوں کو بھی یہ بات معلوم تھی مگر وہ اپنے منھ سے کسی ایک شہزادے کا نام لیکر باقی شہزادوں کی مخالفت مول لینا نہیں چاہتے تھے۔ بہت سوچ کر قاضی نے جو سب سے سمجھدار انسان تھا اور اکثر ایسے مشکل فیصلوں سے دوچار ہوتا رہتا تھا شہنشاہ سے پوچھاکہ وہ خود کس شہزادے سے زیادہ محبت کرتا ہے؟ اب پھر کہانی بادشاہ کے پالے میں آگئی۔ بادشاہ بھی سمجھدار انسان تھا۔ اس نے سوچ کر فیصلہ کیا کہ دربار ہال خالی کیا جائے اور چاروں شہزادوں کو طلب کیاجائے اور ان سے کہا جائے کہ وہ خالی دربار ہال میں جو نشست بھی اپنے لئے پسند کریں اس پر بیٹھ جائیں۔ اور ہم سب باہر سے یہ دیکھیں گے کہ کون شہزادہ کس نشست پر بیٹھنے کی ہمت کرپاتا ہے اس سے شہزادوں کی ذہانت کا صحیح اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔درباریوں کو یہ تجویز پسند آئی۔ تمام شہزادوں کو طلب کیا گیا اور ان سے یہی کہا گیا۔ پہلے تو شہزادے بغیر شہنشاہ کی عدم موجودگی میں دربار میں جانے سے کچھ پریشان ہوئے لیکن جب شہنشاہ نے اصرار کیا تو شہزادے دربار ہال میں داخل ہوگئے۔ دربار ہال میں داخل ہونے سے قبل ایک شہزادے سوال کیا’’بابا حضور جب ہم کسی نشست پر بیٹھ جائینگے تو جب اس نشست پر بیٹھنے والا شخص جب دربار میں آئیگا تو کیا ہم کو اٹھادیا جائیگا۔‘‘
’’ہرگز نہیں۔‘‘شہنشاہ نے جواب دیا۔
شہزادوں نے دربار میں داخل ہونے کے بعد تمام نشستوں پر ایک نظر ڈالی۔ ابھی شہزادے نشستوں کو دیکھ ہی رہے تھے کہ بڑا شہزادہ آگے بڑھ کر وزیر اعظم کی نشست پر بیٹھ گیا۔ دوسرے شہزادے نے سپہ سالاراعظم کی نشست پر قبضہ کرلیا۔ اب بھی دو شہزادے باقی تھے اور اعلیٰ عہدیداران کی نشستوں میں سے صرف ایک نشست قاضی کی بچی ہوئی تھی۔ یہی وہ تین نشستیں تھیں جن پر بیٹھنے والے اپنے معاملات میں صرف شہنشاہ ہی کو جوابدہ تھے۔ ایک شہزادے نے بڑھ کر قاضی کی نشست حاصل کرلی۔ اب اعلیٰ عہدیداران کی سب نشستیں بھر چکی تھی اور ایک شہزادہ باقی تھا۔ یہ وہ شہزادہ تھا جس نے دربار میں داخل ہونے سے قبل شہنشاہ سے سوال کیا تھا۔
شہزادہ آہستہ آہستہ انتہائی پروقار انداز میں قدم اٹھائے ہوئے آگے بڑھا اور پھر چشم زدن میں شہنشاہ کے تخت پر جلوہ افروز ہوگیا۔ باقی شہزادے نے اس حرکت پر ناراضگی کا اظہار کیا اور بدتمیزی سے تعبیر کیا۔
اس شہزادے نے کہا تم سب عہدیداران کی نشستوں پر بیٹھے میں نے تو کسی پر اعتراض نہیں کیا۔
لیکن ہم نے بابا حضور کے تخت پر بیٹھنے کی جرأت تو نہیں کی۔ بڑے شہزادے نے غضبناک نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
شہزادے نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: ’’اس میں ناراضگی کی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ نے ٹھیک ہی فرمایا کہ آپ میں بابا حضور کے تخت پر بیٹھنے کی جرأت نہیں ہے اور نا ہی آپ یہ جرأت کرسکتے ہیں۔
اسی وقت شہنشاہ اپنے تمام درباریوں کے ساتھ دربار ہال میں داخل ہوا۔ اس کی پہلی نظر اپنے تخت پر ہی گئی جس پر ایک شہزادہ جلوہ افروز تھا شہنشاہ نے اپنے درباریوں سے پوچھا: ’’شہزادوں کی نشستیں دیکھ لیں آپ حضرات نے؟‘‘ ’’جی ہاں! عالی جاہ‘‘
اس کے بعد کسی اور سے کچھ کہے بغیر شہنشاہ نے دربار برخواست کردیا۔
یہ شہنشاہ شاہجہاں اور شہزادہ اورنگ زیب تھا۔

No comments:

Post a Comment